اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ے پاکستان کے مشہور عالم دین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین سید احمد اقبال رضوی نے ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین
و صلی اللہ علی محمد و آلہ
الطیبین الطاہرین المعصومین
اماا بعد فقد قال الحکیم فی
قرآنہ الکریم
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ
أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ
سلام علیکم و رحمت اللہ و
برکاتہ
جناب قبلہ گلزار نعیمی صاحب کی گفتگو کے بعد گنجائش نہیں بچتی کہ
گفتگو کی جائے۔ کاظم بھائی نے بہت اچھی گفتگو کی، لیکن امر ہے تو میں اپنے جذبات
کا اظہار کروں گا۔
ناظران عزیز! سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ جو طوفان الاقصی ایک سال
پہلے سات اکتوبر 2023ع کو ایک بابرکت جہادی کاروائی اور انتہائی سادگی کے ساتھ
انجام پائی لیکن اس کے اثرات ایک انقلاب کے طور پر دنیا میں سامنے آئے۔ ایک سال میں
ایک ایسا انقلاب آیا ہے کہ دنیا پلٹ گئی ہے۔ دنیا کے افکار پلٹ چکے ہیں، دنیا کے views پلٹ چکے ہیں؛ عالم غرب دوسرے انداز سے سوچنے
لگا، عالم اسلام دوسرے انداز سے سوچنے لگا اور وہ اسرائیل جو دنیا کا ایسا ملک [ریاست]
سمجھا جاتا تھا، کہ جسے کوئی شکست نہیں دے سکتا اور اس کے ناپاک اور ناجائز وجود کو
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تسلیم کرنے کی آخری کوشش ہو رہی تھی اس وقت یہ طوفان الاقصی کی
کاروائی انتہائی بابرکت ثابت ہوئی۔ یہ انتہائی اہم کاروائی تھی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ سات اکتوبر کے واقعے کے بعد اور کاروائی کے بعد ان
کے جو معادلات تھے، تمام ان کے جو حساب اور کتاب تھے، وہ سب الٹ کر رکھ دیئے۔
کبھی اسرائیل ایک ایسا ملک [ریاست] تصور کیا جاتا تھا عالم غرب کی
نگاہ میں، حو legitimate تھا اور ہمارے اسلامی
ممالک بھی اسے کافی حد تک legitimate
تسلیم کر چکے تھے، قانونی تسلیم کر چکے تھے۔ قہرا یا رضایتا (جبری طور پر یا اپنی
مرضی سے) یا مفاد کے تحت، ہر لحاظ سے، اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے؛ اور آخری جو
مرحلہ تھا وہ تھا سعودی عرب کی طرف سے اسے تسلیم کرنے کا۔ یہ بالکل وہ وقت تھا کہ
ـ اگر آپ کو یاد ہو تو ـ یہ بات کی جا رہی تھی کہ آج یا کل میں سعودی عرب تسلیم کر
لے گا اور اس کے فورا بعد پاکستان جو ایک ایٹمی ملک ہے اور 23 کروڑ آبادی پر مشتمل
ملک ہے، اتنا بڑا ملک فوری طور پر تسلیم کرلے گا؛ یا یہ بات بھی ہو رہی تھی کہ پہلے [اسرائیل کو]
پاکستان سے تسلیم کروایا جائے گا اور اس کے بعد پھر سعودی عرب تسلیم کرے گا۔
بہر حال یہ domino
کی طرح ایک بڑے مسلم ملک سعودی عرب، ـ جہاں پہ کعبہ موجود ہے جہاں پہ مدینہ موجود
ہے، ـ نے اگر اسے تسلیم کر لیا ہوتا، تو اس کے بعد پاکستان کا نمبر حتمی تھا اور
ہمارے حکمران بھی ـ افسوس کے ساتھ ـ ہمیشہ سے غلامی کرتے چلے آئے ہیں یورپ کی، امریکہ
کی، برطانیہ کی اور یا پھر عرب حکمرانوں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی چارہ
نہیں ہے۔ تو اگر یہ domino
شروع ہو جاتا، تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسرائیل محفوظ ہو جاتا اور ہمیشہ ہمیشہ کے
لئے قضیۂ فلسطین کو لپیٹ دیا جاتا۔ لہٰذا وہ 75 سالہ جو تحریک تھی، 75 سالہ جو
زحمتیں تھیں، قربانیاں تھیں، وہ سب کے سب ختم ہوجاتیں۔ لہٰذا سات اکتوبر کی یہ جو
کاروائی تھی، حماس نے جسے انجام دیا، جہاد اسلامی نے جسے انجام دیا، مجاہدین اسلام
نے جسے انجام دیا، میں سمجھتا ہوں یہ انتہائی الہامی، بابرکت اور انتہائی strategic تھی، جس کے بعد پوری جنگ
کے تمام معادلات بدل گئے، politically
بھی اگر ہم دیکھیں تو معادلات بدل گئے، الٹ گئے۔
لہٰذا وہی یورپ جو اسرائیل کو ایک legitimate
ریاست کے طور پر دیکھنے لگا تھا، اور وہ بات establish ہوچکی تھی، اس سات
اکتوبر کی کاروائی کے بعد، اور جو مظالم جو اس کے بعد اسرائیل نے ڈھائے ہیں، مظلوم
فلسطینیوں عورتوں اور بچوں کے اوپر، آپ دیکھیں گذشتہ ایک سال کے اندر، مغربی ممالک
کے عام افراد کا view بالکل change ہو گیا۔ حتیٰ مغربی ممالک کی جو حکومتیں ہیں
وہ بھی مجبور ہو گئی ہیں، بعض دفعہ اسرائیل کی مذمت کرنے پر، اسرائیل کو روکنے کے
لئے انہوں نے مختلف statements
دیئے ہیں، فلسطینیوں کے حق میں statements
دیئے ہیں۔ اور وہ جو سعودی عرب، جو اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتا تھا اور اس
کے بعد اس domino کو شروع ہونا تھا۔ لیکن آپ
دیکھیں کہ وہ فوری طور پر رک گیا، ایک سال delay ہؤا۔ ابھی بھی ایسا نہیں ہے کہ یہ سازش ختم
ہو گئی ہے۔ ابھی بھی ان کی planning
میں سب سے پہلی چیز یہی ہے کہ اسرائیل کی تمام تر بربریت کے باوجود، مسلم ممالک میں
سب سے پہلے سعودی عرب اسے تسلیم کرے گا اور اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
بہرحال اس وقت سعودی عرب کی اپنی مجبوریاں آگئیں، عوام کا پریشر ہے، عرب عوام کا
پریشر ہے، پوری دنیا کا پریشر ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح سے
تمام حدوحد کو cross کر چکا ہے، ظلم و وحشت کی
تمام حدود سے گذر چکا ہے۔ اور ہم دیکھ رہے کہ اس وقت 50000 سے زیادہ مظلوم فلسطینی
مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بچے اور عام انسان، نہتے انسان قتل ہو چکے ہیں۔ ہزاروں
افراد ملبے کے ڈھیر کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ کتنے بچے معذور ہو چکے ہیں، کتنے بچے
اپنے ہاتھ دے چکے ہیں، اپنے پاؤں دے چکے ہیں، کتنے بچے اپنی آنکھیں دے چکے ہیں،
اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنا ظلم ہو رہا ہے۔
بہرحال ساتھ اکتوبر کی کاروائی، اس لحاظ سے کہ فلسطینیوں نے بہت بڑی
قربانی دی ہے۔ اور فلسطینیوں نے، عزیز ساتھیو ایک مثال قائم کی ہے، واقعا صدر
اسلام کی ایک مثال قائم کی ہے۔ فلسطینی ایک ایسی امت بن کے سامنے آئے ہیں، جو خدا
پر توکل کرنے والے ہیں، جو قرآن پر ایمان رکھنے والے ہیں، جو اسلام سے متمسک ہیں
جو رسول اللہ(ص) سے عشق کرنے والے ہیں، جو اپنی سرزمین کی خاطر، اپنے دین کی خاطر،
قرآن کی خاطر، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خاطر اور توحید کی خاطر، اپنا
سب کچھ قربان کرنے کے باوجود بھی لبوں پر شکایت نہیں لے کر آتے۔ انہوں نے حماس کی
مخالفت نہیں کی انہوں نے مجاہدین کی مخالفت نہیں کی؛ بلکہ انہوں نے ہر طرح سے جہادی
گروپس کو سپورٹ کیا ہے، اور گلہ نہیں کیا، شکوہ نہیں کیا، ہر چیز قربان کرنے کے
باوجود۔ اس [قوم] نے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ وہاں کا بچہ بھی سینہ تھان کے کھڑا
ہؤا ہے۔
ایک بیٹی بھی ہماری، 5 سال کی بھی ہے، تین سال کی بھی ہے، تو وہ بھی
اپنی مظلومیت کے ساتھ، اپنے اس زخمی بدن کے ساتھ، زخمی روح کے ساتھ، زخمی دل کے
ساتھ، سینہ سپر ہے اسرائیل کے مقابلے میں۔ وہ جھکے نہیں ہیں، وہ بیٹی جھکی نہیں،
وہ بیٹا جھکا نہیں، وہ ماں جھکی نہیں، جس کے سارے بچے شہید ہوگئے، جس کا پورا
گھرانہ شہید ہو گیا۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک مثال قائم ہوئی جس کی وجہ سے ان کی مظلومیت
کو اللہ نے پوری دنیا میں آشکار کر دیا اور دنیا کے سوچنے کا انداز بدل گیا۔ ایک
سال پہلے دنیا حماس کے بارے میں کیا سوچتی تھی، حزب اللہ کے بارے میں کیا سوچتی تھی،
یہ [دنیا کی نگاہ میں] دہشت گرد تنظیمیں تھیں جیسے انہیں یورپ نے بنا کر پیش کیا
تھا اور اسرائیل کی صہیونی میڈیا نے انہیں بنا کر پیش کیا تھا حماس کو، جہاد اسلامی
کو، انصار اللہ کو؛ اب آپ دیکھیں کہ پوری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ بھائی یہ تو ایسی
تنظیمیں ہیں، ایسے گروپس ہیں جو اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں، یہ مظلوم لوگ ہیں،
یہ لوگ حق رکھتے ہیں کہ اپنی سرزمین کا دفاع کریں، اپنے گھروں کا دفاع کریں۔ آج
پوری دنیا حتیٰ لبرل یہ بات کہہ رہے ہیں، حتیٰ وہ لوگ کہ جن کا نہ دین سے کوئی
تعلق ہے، نہ خدا سے کوئی تعلق ہے، نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے، آج پوری دنیا پکار
پکار کر کہہ رہی ہے کہ یہ جہادی تنظیمیں اپنی زمین کا دفاع کرنے کا حق رکھتی ہیں،
اور اسرائیل کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ فلسطین پر اپنے قبضے کو جاری رکھے اور فلسطین
کے اوپر اپنی ناجائز ریاست کو قائم کرے۔
عزیز ساتھیو! یہ سات اکتوبر کے حوالے سے ایک نکتہ تھا اور دوسرا میں یہ
عرض کروں گا: میرا سلام ہو سید حسن نصراللہ پر، میرا سلام ہو اس عظیم شہید پر، کہ
جس نے 32 سال، نہیں 32 سال نہیں، بلکہ اپنی زندگی کے 50 سال کم از کم، اس شخص نے
جہاد کے اندر اپنی زندگی کو صرف کیا۔ اور مسلسل مبارزہ کرتے رہے، مسلسل اسرائیل کے
مقابلے میں کھڑے رہے، مسلسل ظلم کے مقابلے میں کھڑے رہے، مسلسل فلسطینیوں کی حمایت
کرتے رہے، مسلسل آزادی قدس کے لئے جدوجہد کرتے رہے، مسلسل حق کے پرچم کو بلند کئے
رکھا۔ اور یہ وہ شیر ہے علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا حسین بن علی (علیہ السلام) کا سچا
پیروکار ہے کہ جس کی وجہ سے آج مقاومت اتنی مضبوط ہو گئی ہے، اتنی مضبوط ہو گئی ہے
کہ ہم دیکھ رہے ہیں، کہ ٹھیک ہے کہ سید حسن نصر اللہ شہید ہو گئے، ان کی بہت اہم
اہم قیادتیں شہید ہو گئیں، اوپر کے Layer
کو انہوں نے اڑانے کی کوشش کی؛ لیکن الحمد للہ یہ اتنی مضبوط
جماعت ہے، اتنی طاقتور جماعت ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ اتنا بڑا جھٹکا لگنے کے
باوجود، اتنے بڑے صدمے کے باوجود، اتنے بڑے غم کے باوجود، جس کی وجہ سے دنیا
عزادار ہے حزب اللہ خود بھی عزادار ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں، کہ دوسرے دن سے حزب
اللہ جس طرح کھڑی ہو گئی ہے اسرائیل کے مقابلے میں، اسرائیل جنوبی لبنان میں بری (زمینی)
طور پر داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے، invasion
کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ابھی تک حزب اللہ کی مقاومت کے نتیجے
میں ایک انچ بھی اسرائیل الحمد للہ لبنان میں داخل نہیں ہو سکا؛ بلکہ معاملہ یہ ہو
گیا کہ پہلے تو شمالی فلسطین میں لاکھوں صہیونی ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے، اور نیتن
یاہو نے کہا تھا کہ ہم بہت جلد بھاگنے والے یہودی آبادکاروں کو شمالی فلسطین میں
دوبارہ لوٹائیں گے؛ لیکن معاملہ برعکس ہو گیا۔ نہ صرف یہ شمالی فلسطین میں کریات
شمونہ کے جو لاکھوں لوگ ہیں، جنہوں نے نقل مکانک کی ہے، وہ لوگ پناہ گزین ہیں، وہ
لوگ چھوڑ چھوڑ کے بھاگ چکے ہیں علاقے کو، بلکہ حیفا کے لوگ اس وقت ہجرت پر مجبور
ہو گئے ہیں۔ حزب اللہ نے حیفا کے اوپر حملے کئے اور حیفا ان کا اتنا important شہر ہے وہاں ان کا infrastructure اتنا important ہے اور ان کے جو سارے مراکز ہیں، وہاں پر جب
حملے شروع ہوئے ہیں، تو وہاں سے لوگوں نے نقلی مکانی شروع کر دی ہے۔ میں سمجھتا
ہوں کہ اسرائیل پر بہت بڑا حملہ ہے، اسرائیل کے اوپر بہت strategic حملہ ہے۔ اور حزب اللہ
مسلسل حملے کر رہی ہے، آپ دیکھیں کل کے دن حزب اللہ نے اسرائیل کے اوپر 32 حملے
کئے ہیں؛ 32 حملے، اور کل جو ایک بہت بڑے فوجی مرکز کے اوپر انہوں نے حملہ کیا ہے
اور بہت ساری رپورٹیں آ رہی ہیں کہ بڑے بڑے افسران اس حملے میں الحمد للہ مارے گئے
ہیں۔ تو یہ بہت بڑا حملہ ہے۔ بیلسٹک میزائلوں سے ان کے اوپر حملے ہو رہے ہیں۔
تو یہ ساری چیزں بتاتی ہیں کہ سید حسن نصر اللہ چلے گئے ہیں، لیکن وہ
ایک ایسا نظام چھوڑ کر گئے ہیں، ایسی جیل (نسل) تیار کرکے چلے گئے ہیں، نسل تیار
کرکے چلے گئے ہیں، کہ ان شاء اللہ ان مقاومت کا پرچم جھکنے والا نہیں ہے، حزب اللہ
ختم ہونے والی نہیں ہے، حزب اللہ ایک تنظیم کا نام نہیں ہے، حزب اللہ ایک ideology کا نام ہے، حزب اللہ ایک سیاسی جماعت نہیں
ہے، حزب اللہ کوئی فلاحی جماعت نہیں ہے، حزب اللہ ایک ideology کا نام ہے۔ ایسی حزب اللہی تنظمیں جنہیں
قرآن نے کہا ـ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ـ حزب اللہ ہی غالب آنے
والی ہے۔ حزب اللہ ہے جو اسرائیل کے مد مقابل کھڑی بھی ہے اور ان شاء اللہ، اللہ
سبحانہ و تعالیٰ سید کے خون کے بدولت اسے مزید استقامت نصیب فرمائے گا۔
ایک اور چیز اور ایک نکتہ سید کے حوالے سے؛ سید کی جو ideology ہے، رہبر نے کہا ہے کہ وہ ایک مکتب ہیں؛ جیسے
قاسم سلیمانی شہید کو انھوں نے کہا کہ وہ ایک مکتب ہیں، اسی طرح سید حسن نصر اللہ
کے بارے میں رہبر نے کہا کہ وہ ایک مکتب ہیں۔ وہ ایک فکر ہیں وہ ایک ideology ہیں۔ واقعا سید حسن نصر اللہ سے ہم بہت کچھ
سیکھ سکتے ہیں، مستضعف انسانوں کو، محروم انسانوں کو، مسلمانوں کو، شیعیان حید
کرار (علیہ السلام) کو، تمام مسالک کو، تمام آزادی خواہ انسانوں کو سید حسن نصر
اللہ سے بہت کچھ سکھنے کی ضرورت ہے۔
سید حسن نصراللہ کی 32 سالہ قیادت میں اور اس سے پہلے جو ان کی
جدوجہد رہی، ان کی biography
آپ پڑھیں، کہ کس طرح سے انھوں نے مبارزہ کیا ہے، کس طرح انھوں نے مجاہدت کی ہے
اسرائیل کے مقابلے میں، ظلم کے مقابلے میں اور سید حسن نصر اللہ ایک ایسی شخصیت کے
طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں کہ جو شیعہ سنی سے بالاتر ہیں، جو تمام مسالک سے
بالاتر ہیں، حتیٰ ادیان سے بالاتر ہیں۔ یعنی یہاں پہ عیسائیت اور یہودیت اور زرتشتیت
اور مختلف جو مسالک اور ادیان ہیں، سنی اور شیعہ، اس سے بالاتر ہوکر ایک ایسی شخصیت
کے طور پر سامنے آئے ہیں کہ جو تمام محرومین کے لئے، تمام آزادی خواہ لوگوں کے
لئے، ـ جو لوگ imperialism کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں،
جو استکبار عالمی سے تنگ آ چکے ہیں، جو لوگ دنیا کے خونخواروں سے تنگ آ چکے ہیں،
جو صہیونزم سے تنگ آچکے ہیں، صہیونیوں کے مظالم کا جن کو سامنا ہے اور ان کے مقابلے
میں کھڑا ہونا چاہتے ہیں ـ سید ان سب کے لئے ایک مکتب ہیں، ایک مدرسہ ہیں، ایک فکر
ہیں، ایک ideology ہیں، ایک راہ و روش ہیں
ایک strategical شخصیت ہیں، کہ جن سے ہم
بہت کچھ سیکھ سیکھتے ہیں۔
لہٰذا رہبر کا یہ فرمان اس لحاظ سے بڑا important ہے، میں اپنے تمام ساتھیوں سے کہتا ہوں،
اپنے آپ سے بھی کہتا ہوں کہ ہمیں سید کی history
کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ الحمد للہ دو تین کتابیں اس سلسلے میں موجود ہیں، ہمیں وہ
پڑھنی چاہئیں، خود لبنان کی history
کو پڑھنا چاہئے، اور بہت کچھ ہمیں وہاں سے سیکھنے کے لئے میسر آئے گا۔
ایک نکتہ جو میں آخر میں بیان کرنا چاہتا ہوں، زیادہ آپ کو زحمت نہیں
دیتا، باتیں تو بہت ہیں جو کرنے کی ہیں، میں ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں؛ سید کا
جو ایک اہم ترین نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ غیبتِ کبریٰ میں امام زمانہ (علیہ السلام) کی
غیبت میں، زمین کے اوپر امام زمانہ (علیہ السلام) کی طرف سے اگر کوئی حجت ہے وہ ولی
فقیہ زمان آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ہیں، کہ جن کی پیروی ایسی کی جانی
چاہئے جیسے امام زمانہ (علیہ السلام) کی پیروی ہے۔ بلکہ یوں کہوں [بہتر ہوگا] کہ
ان کی پیروی امام زمانہ (علیہ السلام) کی پیروی ہے۔
آپ دیکھیں سید حسن نصراللہ کو 32 سال میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں،
حتیٰ کہ جب رہبر رہبریت کے منصب پر فائز نہیں تھے، امام خمینی (رضوان اللہ علیہ)
رہبر تھے، ولی فقیہ تھے، اور رہبر اس وقت صدر تھے president تھے، یا اس سے پہلا کا دور تھا، تو جو حزب
اللہ کی فائل تھی اور حزب اللہ کی جو مسئولیت تھی وہ رہبر کے پاس تھی۔ تو رہبر نے
حزب اللہ کو طفولت سے اور بچپن سے جوان کیا اور جوان سے اسے mature کیا۔ خود رہبر کے ہاتھوں سے پرورش پانے والے
سید حسن نصر اللہ بھی ہیں اور حزب اللہ بھی ہے۔ اس لحاظ سے رہبر کا پورا إشراف ہے اس تنظیم کے اوپر، ایک ایک چیز
ان کے سامنے ہے، اور خود سید حسن کا جو تعلق تھا رہبر سے وہ بھی بڑا عاشقانہ رابطہ
تھا، سب جانتے ہیں اس بات کو؛ اور سید نے ایک بڑا خوبصورت جملہ کہا تھا اگر آپ
لوگوں کو یاد ہو۔ پیروی کے حوالے سے بات کررہا ہوں میں، [آپ سے خواہ] آپ پاکستانی
ہوں یا جہاں جہاں بھی اردو سننے والے لوگ ہیں وہ اس بات کو سنیں گے: سید نے ایک
بہت بڑا درس ہم سب کو دیا ہے۔ سید نے فرمایا تھا کہ "دیکھو اگر ہم تل ابیب کو
فتح کرنے کے ایک قدم کے فاصلے پر بھی ہوں، اور پیچھے سے رہبر کا حکم آجائے، ـ فتح یقینی
ہو اور رہبر کا پیچھے سے حکم آجائے ـ کہ سید اپنی فوجوں کو واپس بلا دو تو ہم ایک
لمحے کے لئے بھی متردد نہیں ہونگے، تردید نہیں کریں گے، شک کا شکار نہیں ہونگے،
بلکہ ہم اپنی فوجوں کو واپس بلا لیں گے؛ کیونکہ کامیابی صرف یہ نہیں ہے کہ تل ابیب
کو فتح کیا جائے بلکہ کامیابی اس میں ہے کہ امام زمانہ (علیہ الصلوٰۃ و السلام) کا
نائب جو کہہ رہا ہے اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر وہ ہمیں کہتا ہے کہ آگے بڑھو تو آگے
بڑھیں گے وہ کہتا ہے کہ پیچھے ہٹو تو ہم پیچھے ہٹیں گے"۔
سید کا ایک جملہ اور بھی تھا، اگر آپ لوگوں کو یاد ہو کلپس کے اندر بھی موجود ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ ولی فقیہ جب امر کرے گا کوئی حکم کرے گا تو ہم اس پر عمل کریں گے۔ تو ظاہر ہے کہ جب وہ امر کرے گا تو واجب ہے کہ جب ہمیں پتہ چلا کہ رہبر نے حکم کیا ہے تو ہم عمل کریں گے، اگر انھوں نے کسی چیز سے نہی کی ہے کہ اس کام کو انجام نہ دو تو ہم انجام نہیں دیں گے۔
حزب اللہ
اور سید حسن نصر اللہ کی اور ہماری سب ہی کی ایک commitment ہے اپنی رہبریت سے، ولی فقیہ زمان سے، نائب امام زمانہ (علیہ الصلٰواۃ و السلام) سے، وہ کیا
ہے وہ commitment یہ
ہے کہ ہم رہبر کی ideology کو
سمجھتے ہیں، رہبر کے مزاج کے سمجھتے ہیں، رہبر کی شخصیت کو سمجھتے ہیں، رہبر کے مجموعۂ
فکری کو سمجھتے ہیں، رہبر کے منظومۂ فکری کو سمجھتے ہیں؛ لہٰذا اگر رہبر کسی چیز کا
حکم نہیں بھی دیتے، لیکن ان کے منظومۂ فکری سے، ان کے مزاج کے مطابق اگر کوئی چیز
ہے تو ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بات ان کے
مزاج کے مطابق ہے، اور ہمیں گمان ہوتا ہے کہ رہبر یہ چیز چاہتے ہیں یا یہ چیز نہیں
چآہتے تو ہم رہبر کے امر نہ کرنے کے باوجود بھی اس پر عمل کرتے ہیں [اور ان کے نہی نہ کرنے کے باوجود بھی ان کے ہاں کے ناپسند عمل کو سرانجام نہيں دیتے]. غالبا انھوں نے
آیت اللہ مصباح یزدی کے ساتھ ملاقات میں یہ جملہ کہا تھا تو آیت اللہ مصباح یزدی
نے یہ جملہ کہا کہ واقعا یہی ولایت کی حقیقی معنی میں پیروی ہے جو آپ [سید حسن نصر
اللہ] کر رہے ہیں اور حزب اللہ والے کر رہے ہیں۔
لہٰذا میں ایک ادنیٰ کارکن کے طور پر اپنے آپ سے کہتا ہوں اور تمام
برادران کو کہتا ہوں کہ ہم سب کے لئے لازمی ہے کہ سید کے مکتب کی پیروی کریں جو در
اصل خدا کا حکم ہے، اسلام کا حکم ہے کہ ولی فقیہ کی ایسے ہی پیروی کرنی چاہئے جیسے
کہ سید حسن نصراللہ نے کی۔ آج اللہ تعالیٰ نے انہیں جو عزت عطا فرمائی ہے اور جو
کامیابی عطا فرمائی ہے، یہ سب ولایت فقیہ کی پیروی کی وجہ سے ہے۔
اور آج اتنی بڑی قربانی جو سید نے دی ہے ولایت کے امر کے اوپر اور قضیۂ
فلسطین کے لئے، تو یہ ہم سب کے لئے باعث افتخار ہے۔
سید کی قربانی فلسطین کے لئے تھی، فلسطینیوں کے لئے تھی، وہاں کی
ماؤں، بچوں، بہنوں اور بیٹیوں کی مدد کے لئے تھی۔ آج لبنان کے اوپر حملہ نہ ہوتا،
اگر سید فلسطین کی حمایت نہ کرتے، فلسطین کی حمایت میں اسرائیل کے اوپر حملہ نہ
کرتے، لیکن سید کی commitment
تھی کہ میں نے فلسطینیوں کو نہیں چھوڑنا، اپنی ماؤں بہنوں کو نہيں چھوڑنا، اور یہ
سب ولایت کا حکم تھا، ولی فقیہ کا حکم تھا۔ اور یہ سب نظام ولایت فقیہ کی برکات ہیں
اور اسے کہتے ہیں عملی اتحاد، یعنی زبانی کلامی نہیں، فقط زبانی جمع خرچ سے کام لینا
نہیں، بلکہ اتحاد کی راہ میں ـ یعنی ہمارے مسلمان فلسطینیوں کی مدد کے لئے، ایک شیعہ
بھائی میدان میں آیا ہے، ایک شیعہ عالم دین میدان میں آیا ہے اور اس طرح سے میدان
میں آیا ہے کہ اس نے اپنی جان قربان کر دی، اس مدد کی خاطر، اس اتحاد کی خاطر، اس
محبت و الفت کے اظہار کی خاطر، میں سمجھتا ہوں یہ ہم سب کے لئے بہت بڑا ideal ہے، اسوہ ہے، نمونہ ہے اور یہ ایک مکتب نصر
اللہ ہے کہ جس کی ہم سب کو پیروی کرنی چاہئے۔
بہت شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔
110