21 اکتوبر 2024 - 22:05
شہید حسن نصر اللہ کی شہادت اور طوفان الاقصیٰ کی سالگرہ؛ مفتی گلزار احمد نعیمی کا خطاب

ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مشہور عالم دین مفتی گلزار احمد نعیمی نے کہا: ہم اگر اپنے امت اور اتحاد امت کے تصور نظر دوڑائیں، تو ہمیں شرمندگی کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ پورا عالم اسلام غزہ کے مظلوموں کی شہادتوں پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے؛ اور خصوصا مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک، جن کے بھائیوں کا خون ہو رہا ہے اور جن کے عزیزوں کا خون ہو رہا ہے/ جب اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں کو intercept کرنے والا جب ایک مسلم ملک ہو، عرب ملک ہو تو یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |

پاکستان کے مشہور عالم دین مفتی گلزار احمد نعیمی کے خطاب کا متن درج ذیل ہے:

السلام علیکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمیں

والصلوۃ و السلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین

و علی آلہ و صحبہ اجمعین

اما بعد

سب سے پہلے تو میں اس ویبینار کا اور اس آنلائن کانفرنس کے منعقد کرنے پر اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور سید حسن نصر اللہ اور آپ کے شہید رفقاء ، آپ کو بطور خاص اور پورے عالم اسلام کو بالعموم ہدیۂ تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالی سید حسن نصر اللہ (رحمہ اللہ) اور آپ کے دیگر رفقاء کو جنت الفردوس میں اعلی درجات اور اعلی مقام عطا فرمائے۔

جب ہم سید حسن نصر اللہ اور طوفان الاقصیٰ کی بات کرتے ہیں، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ غزہ کے مجاہدین ہوں، لبنان کے مجاہدین ہوں، یا پھر یمن کے انصار اللہ کے مجاہدین ہوں، یہ سب کے سب راہ عشق کے مسافر ہیں، وہ اللہ کی وحدانیت کے عاشق ہیں، اللہ کی ذات کے عاشق ہیں، اللہ سبحانہ و تعالی کے پیارے رسول(ص) کے عاشق ہیں؛ آپ کے اہل بیت(ع) کے عاشق ہیں، اور مقتدر اور جلیل القدر صحابۂ کرام کے پیروکار ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں میدان جہاد میں گذاری ہیں، اور ہمیشہ باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ چند سو تھے، چاہے وہ چند ہزار تھے۔ عشق کے راستے کے مسافر شہید سید حسن نصر اللہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے، اپنی عزت و شرف، جو اللہ کے پاس ان کو حاصل تھا، وہ انھوں نے حاصل کیا۔ اور ہمیں سبق دے گئے کہ اس عشق کے راستے پر جو چلے گا، وہ دنیا میں بھی باعزت زندگی گذارے گا، اور ان کی آخرت بھی ہی باعزت اور نہایت ہی باشرف ہوگی۔

ہم دیکھتے ہيں کہ سید حسن نصراللہ کے جو بیانات تھے اور جو آپ کے نعرے تھے، اور اس طرح آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ذات کے حوالے سے وہ اپنے جلسوں میں عشق کا اظہار کیا کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ Deserve کرتے تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالی انہیں شہادت کے بلند و بالا مقام فائز فرما دے۔

تو یقینا شہادت کا ایک بڑا مقام ہے، اور اہل غزہ میں بھی جو لوگ شہادتیں پیش کر رہے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ بہت ہی اعلی و افضل مقام پر کھڑے ہیں، آج ایک سال ہو گیا ہے طوفان الاقصیٰ کو، لیکن یہ مقاومت اور یہ شہادت کے جذبے اور یہ خدا و رسول(ص) کی ملاقات کا شوق، ماند نہیں پڑا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے، کہ ہر روز شہادتیں ہو رہی ہیں۔ اب جنوبی لبنان میں بھی شہادتیں ہو رہی ہیں؛ لیکن کسی ایک مجاہد نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہم مستقبل میں مقاومت اور شہادت کے اس راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

پوری دنیا میں آپ دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام میں ان لوگوں کی شہادت کی وجہ سے ایک شوق شہادت قائم ہو رہا ہے اور روز بروز یہ محبت اور یہ عشق اللہ کی ذات کے ساتھ بڑھ رہا ہے اس میں کمی نہیں آئی۔ 40 ہزار، 45 ہزار کے قریب غزہ میں اور لبنان میں شہادتیں پیش کر چکے ہیں، اور مزید شہادت کے لئے تیار ہیں؛ اور لوگ پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔

لیکن اس میں ہمارا امت کا جو concept ہے، اتحاد امت کا جو concept  ہے، اس پر اگر ہم نظر دوڑائیں، تو ہمیں شرمندگی کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ پورا عالم اسلام غزہ کے مظلوموں کی شہادتوں پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے؛ اور خصوصا مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک، جن کے بھائیوں کا خون ہو رہا ہے اور جن کے عزیزوں کا خون ہو رہا ہے، [اور وہ خاموش تماشائی ہیں]۔ برصغیر اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کا جوتعلق ہے وہ محض اسلام کا تعلق ہے جو بہت مضبوط تعلق ہے، اس کی اہمیت بہت ہے گوکہ ہمارا تعلق رشتہ داری کا تعلق نہیں ہے لیکن یہ بات مسلمہ ہے کہ جب عرب کی بات کی جاتی ہے تو فلسطینی عرب ہیں، جب اہل سنت کی بات کی جاتی ہے تو فلسطینی سب کے سب اہل سنت ہیں، تو اہل سنت کا یوں تماشائی بن کر، ان مظلوم شہادتوں پر بالکل چپ سادھ لینا، بہت ہی قابل مذمت ہے۔ بلکہ یہ اگر [صرف] خاموشی ہوتی تو شاید کسی شکل میں اس کو قابل قبول سمجھ لیتے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ عرب ممالک جنہیں مقاومت کا ساتھ دینا چاہئے تھا، مجاہدین کا ساتھ دینا چاہئے تھا، اہل فلسطین کا ساتھ دینا چاہئے تھا، وہ بجائے اس کے کہ ان کا ساتھ دیتے، وہ ہمیں عملی طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اسرائیل کو ہمت بندھا رہے ہیں، کہ جب اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں کو intercept کرنے والا جب ایک مسلم ملک ہو، عرب ملک ہو تو یہ کتنے افسوس کی بات ہے، اس کا مطلب یہ ہؤا کہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، عرب ممالک جو ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم شہادتیں دیتے رہیں۔ وہ ان کو اپنے اوپر بڑا بوجھ سمجھ رہے ہیں، لیکن ان کو اس حقیقت کا پتہ نہیں ہے کہ آج اگر فلسطین کے اور غزہ کے مسلمان شہید ہو رہے ہیں، آج اگر لبنان کے مظلوم مسلمان شہید ہو رہے ہیں، تو خدا نخواستہ اگر اسرائیل کو یہاں پر فتح حاصل ہوتی ہے تو عرب ممالک کو سوچنا چاہئے کہ فلسطین سے آگے پھر ان کی باری آئے گی۔ جو گریٹر اسرائیل کے جو خواب وہ دیکھ رہا ہے، تو اگر فلسطینی مزاحمت اور resistance کمزور ہو جاتی ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ عرب ممالک ـ جو اسرآئیل کے ساتھ کھڑے ہیں، جو امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں، جو مغربی ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی ـ باری بہت جلد آجائے گی۔ آج فلسطین کے مظلوم مسلمان، آج غزہ کے مظلوم مسلمان، آج جنوبی لبنان کے مظلوم مسلمان کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ وہ پورے عالم اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ عربوں کے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں اور آج بھی اگر ہمارے اسلامی ممالک نے یہ بات نہ سوچی تو ـ خاکم بدہن ـ پھر یہ مسئلہ بغداد تک جائے گا، یہ مسئلہ ریاض تک جائے گا، یہ مسئلہ پھر اردن کے عمان (Amman) تک جائے گا؛ پھر کوئی اسے روکنے والا نہیں ہوگا؛ ظلم کی داستان بڑھتی چلی جائے گی۔

آج ہمارے ہاں اس امر کی نہایت شدید ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد اور اتفاق اپنائے، جب تک یہ اتحاد اور اتفاق نہیں ہوگا، اور جب تک ہم ایک دوسرے کے مسائل کو اپنے مسائل تسلیم نہیں کریں گے، ایک دوسرے کے اوپر ظلم کو اپنے اوپر ظلم تصور نہیں کریں گے، تو یقینا یہ وقت آئے گا کہ جس طرح کہ آج ان مظلوموں پر ظلم ہو رہا ہے کل تم پر ظلم ہوگا اور تمہیں بھی کوئی بچانے نہیں آئے گا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اتحاد کی جو رسی ہے اس کو جب ہم مضبوطی سے تھام لیں گے، تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ غزہ کے مظلوموں کی دستگیری بھی ہوگی، اور لبنان کے مظلوموں کی دستگیری ہوگی اور امت بھی اتحاد و اتفاق کے ذریعے سے محفوظ ہو جائے گی۔

اگر لبنان کی آپ تاریخ دیکھ لیں، تو آپ کو واضح نظر آئے گا، 2000 سے 2006 تک، پھر آج تک، کہ اگر اسرائیل لبنان میں penetrate نہیں کر رہا ہے، تو وہاں اہل سنت اور اہل تشیّع نہایت اتحاد کے ساتھ ایک دوسرے کے ممد و معاون ثابت ہو رہے ہیں بلکہ لبنان کے کرسچینز اور مسلمان اتحاد و اتفاق کے ساتھ ایک دوسرے کو backup کر رہے ہیں۔ تو آج اسرائیل جو لبنان میں penetrate نہیں کر سکا ہے اور اس کی پیدل فوج اپنے مقاصد میں کامیاب نہيں ہو سکی ہے، تو یہ اتحاد و اتفاق کی برکتیں ہیں۔ اور اگر وہاں پر اتفاق و اتحاد نہ ہوتا، تو آج لبنان کو بہت مشکلات کا سامنا کرتا، بیروت مشکلات میں ہوتا اور لبنان مشکلات میں ہوتا۔

ہمیں سوچنا چاہئے، بحیثیت امت سوچنا چاہئے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل ظلم و ستم کر رہا ہے، دنیا جانتی ہے کہ فلسطینی مظلوم ہیں، امریکہ اور مغربی ممالک دو ٹوک الفاظ میں اسرائیل کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں، اسرائیل کی مدد کے لئے کھڑے ہیں، ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا، ہم مظلوموں کی حمایت کرتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں، ہمیں خوف محسوس نہیں ہونا چاہئے؛ ہمیں تو اپنے رب سے ڈرنا چاہئے۔ ہمارے لئے تو اللہ سبحانہ و تعالی ایک ایسی طاقت ہے جس کے سامنے امریکہ کیا حیثیت رکھتا ہے، مغربی طاقتیں کیا حیثیت رکھتی ہیں اللہ سبحانہ و تعالی کے سامنے؟ جب اللہ نے فرما دیا اور یہ بہت ڈھارس بندھانے والی آیہ مبارکہ نازل فرمائی کہ "إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ؛ اگر تم اللہ سبحانہ و تعالی کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا" اور پھر کوئی تم پر غالب نہیں آئے گا؛ جب اللہ سبحانہ و تعالی نے فرما دیا ہے کہ جب تم اللہ کے دین کی مدد کروگے، اس کی مخلوق کی مدد کروگے، تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا اور تمہیں کوئی شکست نہیں دے سکے گا۔ اللہ نے جب انسانوں کی، مسلمانوں کی، مدد کی ہے تو انہیں کوئی بھی شکست فاش نہیں دے سکا ہے۔

ہم نے اللہ کی ذات کو چھوڑ دیا ہے، اور جو عشق تھا اللہ کی ذات کے ساتھ وہ ہمیں آج امت مسلمہ میں نظر نہیں آتا۔ ورنہ اگر امریکہ مدد کر سکتا ہے، مدد دے سکتا ہے تو مسلمان امت اپنے بھائیوں کی مدد کیوں نہیں کرسکتی۔

میں آپ کے اس چینل کی وساطت سے، میں آپ تمام عالم اسلام کے راہنماؤں سے، عوام الناس سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ مزاحمت اور resistance جتنی مضبوط ہوگی، اتنا ہی امت مسلمہ مسائل سے نکلے گی اگر یہ resistance کمزور ہوتی چلی گئی، تو پھر دنیا ہمیں نہیں بچا سکے گی، کوئی بچانے والا ہمیں نہيں بچا سکے گا۔

اگر ہم اللہ سبحانہ و تعالی کے بندے ہیں تو اس کے سامنے ہمیں جھکنا چاہئے اور کسی غیر کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے۔ آج ہم پاکستان میں مزاحمت اور مقاومت کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم appreciate کرتے ہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کو، مقاومت کے کردار کو زندہ رکھنے پر، اور اسرائیل کے اوپر دلیرانہ حملے پر ہم مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں، اور ہدیۂ تہنیت بھی پیش کرتے ہیں، کہ ایران اس طرح ڈٹ کے کھڑا ہے۔ وہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مثال ہے اور وہ باعزت ہے پوری دنیا کی اقوام میں وہ باعزت ہے کہ وہ غیرت کے ساتھ کھڑا ہے۔ جو قومیں غیرت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، وہ زندہ بھی رہتی ہیں، وہ غالب بھی رہتی ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں مقاومت کو زندہ رکھنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان مجاہدین کو اجر عطا فرمائے، جو میدان کارزار میں بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں اور ان شہداء کے درجات بلند فرمائے جو اس راستے کے مسافر ہوئے۔

و ما علینا الا البلاغ المبین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

یہ بھی دیکھئے:

ویبینار، نصر اللہ کا مشن-2؛

- شہید حسن نصر اللہ کی شہادت اور طوفان الاقصیٰ کی سالگرہ؛ رکن گلگت بلتستان اسمبلی کاظم میثم کا خطاب

https://ur.abna24.com/story/1496934