اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ رای الیوم نے اپنے آج (6اکتوبر2004ع)
کے شمارے میں قاہرہ یونیورسٹی کے استاد، پروفیسر مصطفیٰ النشار کا مضمون
بعنوان "اے عربو! اٹھو یا پھر مرو"، شائع کیا ہے جس میں انہیں نے کہا
ہے:
عربوں کی ذلت کا حال یہ ہے کہ ان کے وجود کے مکمل زوال کا خطرہ پیدا
ہو گیا ہے۔ اے عربو تمہاری عربی غیرت و وقار کہاں ہے کہ اپنی معمول کی زندگی کے
پیچھے پڑے ہوئے ہو، حالانکہ تمہارے بھائیوں کو فلسطین اور لبنان ميں شب و روز قتل
کیا جا رہا ہے، اور تم کوئی رد عمل دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے ہو!!
مغربی یونیورسٹیوں کے 'مغربی طلبہ' فلسطینی قوم اور اس کے بچوں اور
خواتین کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اور ان کے قتل عام کی مذمت کر رہے ہیں، ہم
دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے نوجوان، ہمارے بڑے بوڑھے، شیوخ اور حکام لہو و لعب اور
دنیاوی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور عرب دنیا میں صرف ای نمائشی سی حرکت بھی نظر
نہیں آ رہی ہے، کہ یہ لوگ آکر باقی ماندہ عربی غیرت کو نجات دلائیں!
کیا تم اس دن کے منتظر ہو کہ اسرائیل عالم عرب کو نگل لے؟ وہ اپنی
سلامتی کے تحفظ کے بہانے، جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے کے بعد پورے لبنان پر اور پھر عراق
اور یمن پر اور آخرکار پورے عالم عرب پر قبضہ کرنے کا خواہاں ہے۔ کیا عرب حکام عربوں
کے خون کی پیاسی صہیونی ریاست کے عزائم سے بے خبر ہیں؟ ہم عرب لیگ پر سالانہ
کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں، اس وقت کہاں ہے؟ کیا عربی رد عمل کا وقت نہیں آیا؟ عرب
ممالک کا 13 نکاتی مشترکہ دفاعی سمجھوتہ کہاں ہے جس میں ایک عرب ملک پر حملہ پورے
عرب ممالک پر حملے کے مترادف قرار دیا گیا ہے؟ کیا فلسطین، لبنان اور یمن عرب ممالک
نہیں ہیں؟
ہم کمزور ان پسماندہ ممالک کے طور پر اسرائیل کے دھوکے میں آتے ہيں اور
صہیونی اور مغربی میڈیا لائن کی پیروی کرتے ہیں، جو لبنان اور فلسطین پر حملوں کو
اپنا دفاع قرار دیتی ہے کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ایک بہانہ ہے جو خطے میں ایک
"نئی حقیقت" معرض وجود میں لانے کے لئے ہے؟ یہ پہلا دھوکہ نہییں ہے اور
آخری بھی نہیں ہے۔ اسرائیل مناسب موقع کی تلاش میں ہے تاکہ عرب کے بیمارجسم کو چیر
پھاڑ دے اور اپنے بڑے منصوبے یعنی نیل سے فرات تک "گریٹر اسرائیل" پر
عملدرآمد کرے۔
غاصب صہیونی دشمن اسلام اور عرب کا پہلے نمبر کا دشمن ہے وہ مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنا
چاہتا ہے تاکہ اس نئے مشرق وسطیٰ میں آقا اور
سرور بنے! اگر اسرائیل عرب سربراہی کانفرنس بلانا چاہئے تو کیا عرب اس میں شرکت کے
لئے نہیں جائیں گے؟! کیا وہ غرا کر غاصبوں سے چلا کر کہيں گے کہ وہ نازی اور
اپارتھائیڈ جنگ کو فورا بندے کریں اور لبنان اور فلسطین کو اپنے حال پر چھوڑیں اور
کم از کم 1967 کی سرحدوں کے اندرو محدود ہو جائیں؟
کیا عربوں میں سکت اور غیرب ہے کہ اگر صہیونیوں نے ان کا مطالبہ نہ
مانا تو علاقے میں ایک ہمہ جہت جنگ کا آغاز کریں اور اور عربی مفادات اور عربوں کے
وقار اور عظمت کا دفاع کریں؟
اے عربو! اٹھو یا پھر مر جاؤں، کیونکہ تمہارے لئے کوئی تیسرا راستہ
نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110