اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ
ابنا ـ کے مطابق، جعلی ریاست کے ایک اخبار یروشلم پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس
کا عنوان ہے: "ایران کی طرف سے نفسیاتی ٹارچر ایک تزویراتی فتح ہے"۔
اخبار نے لکھا ہے: ایران نے ابھی تک ایک گولی بھی نہیں چلائی لیکن اس نے اسرائیل کو لٹکا کر رکھا ہؤا ہے اور اس حکمت عملی نے اسرائیل کو بڑا دھچکا لگایا ہے۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں شہید اسماعیل ہنیہ پر صہیونی دہشت گردانہ حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: اس حوالے سے یہ ایک پریشان کن سوال ہمارے سامنے ہے اور وہ کہ "کیا اسرائیل اس اقدام سے اپنا معینہ ہدف حاصل کر سکا ہے؟، کیا ان کا قتل اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ اس کے بدلے اسرائیل کو موجودہ نازک صورت حال سے دوچار ہونا پڑے؟ آج اسرائیل فکرمندی کے ساتھ ایران اور حزب اللہ کی انتقامی کاروائی کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس انتقام کا بھاری سایہ اسرائیلیوں کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔
مذکورہ اخبار ایرانی انتقام کے سائے میں صہیونی ریاست کی معاشی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: تقریبا تمام اندرونی اور بیرونی پروازیں نامعلوم عرصے تک منسوخ ہو گئی ہیں۔ معاشی حالات، جو جنگ غزہ کی وجہ سے بھاری نقصان سے دوچار ہے، ایک بڑی جنگ چھڑنے کی صورت میں بہت بدتر ہو جائے گی۔ وزارت خزانہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ بڑی جنگ چھڑنے کی صورت میں بنیادی ڈھانچے، تجارت، برآمدات، درآمدات، روزگار کے مواقع اور دوسرے اقتصادی شعبوں کو اتنا بھاری نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کی اسرائیل کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
یروشلم پوسٹ نے ان دنوں کی اسرائیلی باشندوں کی زندگی کے بارے میں لکھا ہے: ایران نے حتیٰ ایک گولی چلائے بغیر بھی اسرائیل کو سنجیدہ نقصانات پہنچائے ہیں اور بھاری دھچکا لگایا ہے۔ کئی ملین اسرائیلیوں کو شدید اضطراب اور پریشانی کی کیفیت میں جینا پڑ رہا ہے۔ وہ اس خوفناک اور بے رحم سوال کے چکر میں پھنس گئے ہیں کہ "کیا ایران مارے گا یا نہیں مارے گا؟" اور اس سوال نے عجیب قسم کے تناؤ کی کیفیت پیدا کی ہے۔ ایران اور حزب اللہ نے صرف ایک دھمکی سے اسرائیل کو ریڈ الرٹ دینے پر مجبور کیا ہے، امریکیوں کو فوجی نفری اور جہاز اور طیارے منتقل کرنے پر مجبور کیا ہے اور بین الاقوامی آمد و رفت کو تعطل سے دوچار کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد اسرائیلی حکومت جہاں بھی حملہ کرنا چاہے، اسے ایران کے ممکنہ حملے کو پیش نظر رکھنا پڑے گا۔ یہ مسلسل جنگی صورت حال اسرائیل کے دشمنوں کو یہ امکان فراہم کرتی ہے کہ وہ جیسا چاہیں اسرائیل کے ساتھ کھیل لیں! وہ صرف ایک دھمکی سے اسرائیل کے روزمرہ نظامات کو خلل سے دوچار کر سکتے ہیں اور مفلوج کر سکتے ہیں۔ یہ حقیقت، اسرائیل کی زد پذیری، ضرب پذیری اور کمزوری کا خطرناک ترین ثبوت ہے۔
یروشلم پوسٹ نے موساد کی کارکردگی کے بارے میں کہا: موساد ایران کی سیکورٹی تنصیبات کو جزوی نقصان تو پہنچا سکتا ہے لیکن اس طرح کے قاتلانہ حملوں سے اسرائیل پر کس قدر طویل المدت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ کیا اسماعیل ہنیہ کا قتل ان حالات میں اسرائیل کے لئے ضروری تھا؟
ادھر اسرائیل کے ریڈیو چینل کے ڈائریکٹر نے مقبوضہ فلسطینی اراضی کی عمومی صورت حال کے بارے میں کہا ہے: یہاں ایک ریاست کو ایران کے انتقامی حملے کا انتظار ہے اور یہاں کے باشندوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا، چنانچہ سب کو ایک عظیم نفسیاتی تناؤ کا سامنا ہے۔ حزب اللہ نے اس ہفتے اپنی گولہ باری کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ جن جن مقامات پر عوام کی بھیڑ رہتی تھی وہ اس وقت خالی ہو چکے ہیں۔ لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ یہ صورت حال اقتصادی حوالے سے ہمارے لئے بھاری پڑ رہی ہے اور یہ وہی چیز ہے جو ایرانی چاہتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ، یحییٰ السنوار اور ایران نے ہمیں بازیچہ بنا رکھا ہے، اور ہم بدستور ان کی کاروائیوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین میں بی بی سی فارسی کے اینکر کسریٰ ناجی کا کہنا تھا: عوام (غاصب یہودی) فکرمند ہیں، حکومت بھی فکرمند ہے۔ میں اس وقت تل ابیب میں ہوں، یہاں کی سڑکیں خالی ہو چکی ہیں اور مزید خالی ہو رہی ہیں۔ سال کے ان دنوں میں عیاش لوگ ساحل سمندر پر عیاش لوگ لڑھکتے نظر آتے تھے، لیکن ان دنوں یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ لوگ اندھیرا چھا جانے سے پہلے ہی گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ مجھے ایک عورت نے بتایا کہ اسے ایران کے ممکنہ حملے کے خوف سے رات دو بجے تک نیند نہیں آئی ہے۔ چنانچہ ہمیں بس انتظار کی گھڑیوں سے گذرنا پڑ رہا ہے۔ دو ہی دن پہلے حزب اللہ کے ڈرون طیارے اسرائیلی دفاعی ڈھال کو پیچھے چھوڑ کر اپنے نشانوں تک پہنچے اور اسرائیل انہیں مار گرانے میں ناکام رہا اور معلوم ہؤا کہ اسرائیل زد پذیر ہے۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان فاصلہ کم ہے اور یہ ڈرون طیارے چند ہی منٹوں میں اسرائیل کے اندر تک داخل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ غزہ کی جنگ 10 مہینوں سے جاری ہے اور اسرائیل اس جنگ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ جہاں بھی حماس کے جنگجو دکھائی دیتے ہیں اسرائیل اپنے خیال میں ان کا صفایا کر دیتا ہے لیکن چند ہی روز بعد، حماس والے ان مقامات پر دوبارہ آتے ہیں۔ اسرائیل ان دس مہینوں میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکا ہے۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق، غاصب صہیونی ایران کے انتقامی حملے کے خوف کے بموجب دکانوں اور سوپر اسٹوروں کو لوٹ لیتے ہیں اور پھر پناہ گاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110