اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

19 جولائی 2024

1:02:28 AM
1472936

"أفَاطِمُ لَوْ خِلْتِ الحُسَيْنَ مُجَدَّلاً *** وَقَدْ مَاتَ عَطْشَاناً بِشَطِّ فُرَاتٍ *** إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فاطِمُ عِنْدَهُ *** وَأَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَناتِ؛ اے فاطمہؑ! اگر آپ حسینؑ کو کربلا کی خاک پر پڑا تصور کریں جو فرات کے کنارے تشنہ لب دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، تو اپنے چہرے پر لطمہ رسید کریں گی اور پانی کی نہر اپنے چہرے پر جاری کریں گی"

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کی سیاسی جدوجہد پر رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے بیان کردہ 10 نکات اقتباس:


رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے ایک مرتبہ روز عاشورا کے موقع پر واقعۂ عاشورا کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا:

آج یوم عاشورا ہے، کربلا کی پرشکوہ واقعے کو زیادہ سے زیادہ یاد رکھنا چاہئے؛ اور  زیادہ تر اس واقعے کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، اور چونکہ یہ بہت ہی زیادہ انسانی واقعہ ہے اسی لئے اس کے لئے زیادہ سے زیادہ رونا چاہئے؛ جو بھی "انسان" ہے وہ اس یاد پر روتا ہے۔ کیونکہ یہ یاد درحقیقت انسانیت کی تکریم و تعظیم ہے؛ یہ یاد فضیلت کی یاد ہے؛ اور جو بھی فضیلتوں کو زیادہ چاہتا ہے اس عظیم تاریخی واقعے سے زیادہ متاثر ہوتا ہے؛ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اتنا گریہ و بکاء کریں کہ بے ہوش ہوجائیں لیکن یہ نہ سمجھیں کہ ہم کس لئے رو رہے ہیں! نہیں، اس قسم کے رونے کی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ایسا گریہ ہونا چاہئے کہ توجہ کے ساتھ ہے، ایسا گریہ کہ واقعے کی صحیح فہم و ادراک کے ساتھ ہمراہ ہو؛ ایسا گریہ جو "فقہ حقیقت" [1] کے ساتھ ہو؛ ایسا ہی گریہ ہے جو انسانیت کا نشان ہے اور فضیلت کا نشان ہے؛ اور گریہ و بکاء وہ عامل تھا جس سے ہمارے ائمہ (علیہم السلام) کے زمانے میں اسلام اور حقیقت کے حق میں، فائدہ لیا جاتا تھا۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ اس موضوع میں ـ اس زمانے میں ـ تحریف ہوئی ہے ـ  تشیّع میں گریہ و بکاء ـ یعنی واقعۂ کربلا کے لئے گریہ کرنے ـ کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ تحریک آمیز ہے، اٹھانے والا اور برانگیختہ کرنے کا ذریعہ ہے، حقائق کو نمایاں کرنے والا ہے، جذبات کو رقیق و و لطیف کر دیتا ہے؛ المختصر یہ ایک انقلابی انسان کو زیادہ حساس بنا دیتا ہے۔ اب زیادہ کھانا کھانے کے بعد انجانے میں آنسو بہائے، اس لئے کہ اس کے دل کی گرہیں کھل جائیں، یہ آنسو اصولا امام حسین (علیہ السلام) کے لئے ہے نہیں ہے؛ بروقت ادا نہ ہونے والے قرض کے لئے، گھر کے ادا نہ ہونے والے کرائے کی خاطر، بھوک کی وجہ سے ہے، گریہ، ان پر بحث نہیں کرتے۔ ہم اہل معرفت کے گریہ و بکاء کی بات کر رہا ہوں، میں خود بھی اس بکاء کا حامی ہوں۔ خدا رحمت کرے ان گریہ کرنے والوں پر جو اہل معرفت ہیں۔

دِعبِل خُزاعی شعراء میں سے ایک ہے۔ دِعبِل امام رضا (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے، جبکہ امامؑ ابھی مدینہ میں تشریف فرما ہیں، اور عباسی پالیسیوں نے ابھی تک آپؑ کو خراسان جانے پر مجبور نہیں کیا ہے، جو ایک الگ باب ہے۔ دعبل ایک بڑے شاعر اور مبلّغ ہیں، امام ہشتم (علیہ السلام) کے ہاں محبوب اور اپنے زمانے میں تشیع کے ستونوں میں شمار ہوتے ہیں۔

امامؑ نے فرمایا: "اے دعبل! کیا کوئی کلام نہیں تمہارے پاس، کہ پڑھ لو ہمارے لئے؟"۔ [ہمارے ائمہؑ خود شعر شناس ہیں۔ جب کُمیت [بن زید الاسدی الکوفی] امام معصومؑ کے سامنے اپنے اشعار پڑھ لیئے تو امامؑ نے ان کے اشعار کی تصحیح فرمائی یہاں تک کہ اس عظیم شاعر کو کہنا پڑا "أنت يا سيّدي أشعر مِني" [2] [یعنی] آپ مجھ سے زیادہ شاعر ہیں، مجھ سے زیادہ شعر شناس ہیں۔ اور پھر یہ مسئلہ ابتدائی طور پر ان سے تعلق رکھتا ہے، ان کی فکر سے، ان کی راہ سے اور ان کے قافلے اور کاروان سے۔ لہٰذا امام رضا (علیہ السلام) پوچھتے ہیں، کہ اے دعبل! کوئی کچھ اشعار ہیں، تمہارے پاس کہ پڑھ لو اور ہم سنیں اور محظوظ ہوجائیں؟ دعبل نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے رسول اللہؐ کے فرزند! میرے پاس ایک کچھ کلام ہے، اجازت دیجئے تو پڑھ لوں!

امامؑ نے فرمایا: پڑھ لو۔

دعبل نے پڑھنا شروع کیا، اپنے اس مفصل اور مشہور قصیدے کو۔ قصیدہ اس انداز سے شروع ہوتا ہے:

أَفاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا *** وَقَدْ ماتَ عَطْشاناً بِشَطِّ فُراتِ [3]

اس شعر کا تعلق واقعۂ کربلا اور عاشورا سے ہے، اور اس قصیدے میں خطاب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے ہے۔ شاعر سیدہ سے بات کر رہے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹی [امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کی زوجہ مکرمہ اور حسنین کریمین (علیہما السلام) کی والدہ ماجدہ] سے مخاطب ہیں؛ کیوں؟

عامل طور پر جب اس قضیے کی تشریح کی جاتی ہے، اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہ و آلہ) حسین (علیہ السلام) کی ماں ہیں، اور ماں وہ پہلی شخصیت ہے جو اپنے بیٹے پر روتی ہے اور اپنے فرزند کے لئے دل جلاتی اور اس پر تس کھاتی ہے؛ یہ ہے کہ اس شعر کا خطاب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بات یہ نہیں ہے، یہاں مسئلہ دل سوزی کرنے اور رونے کا نہیں ہے، یہاں مسئلہ؛ میں سمجھتا ہوں کہ بات کچھ اور ہے۔

کیا ایسا نہیں ہے کہ دعبل خزاعی شیعہ انقلابیوں میں شمار ہوتے ہیں اور امام ہشتم (علیہ السلام) اس انقلاب کے رہبر و راہنما ہیں؟ کیا یہ شعر اور شاعری شیعہ تاریخ کے عظیم ترین انقلاب  ـ یعنی حسین بن علی (علیہما السلام) ـ کی یاددہانی کرانے کے لئے نہیں جو شیعہ تحریک اور ایک عظیم واقعے کے رہبر و امام ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہے؟ تو اگر یہ درست ہے، تو ایک انقلابی دوسرے انقلابی کا مرثیہ کہہ رہا ہے اور جذبات کو ابھارنا چاہتا ہے؛ چنانچہ اس قصیدے کا خطاب حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) سے ہونا چاہئے؛ کیونکہ شیعہ انقلاب کا آغاز حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) سے ہؤا ہے۔ سب سے پہلی انقلابی شیعہ شخصیت سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (صلوات اللہ و سلام اللہ علیہما) ہیں؛ اور اس کے بارے میں، میں چند روز قبل بات کر چکا ہوں؛ چنانچہ [دعبل] سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے مخاطب ہوکر عرض کرتے ہیں: "أَفاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا" یعنی اے فاطمہ زہراؑ! اے دختر پیغمبرؐ! کیا آپ تصور کر سکتی تھیں کہ آپ کا بیٹا لباس کے بغیر، کربلا کی شدید گرمی میں اس صحرا کی مٹی پر گریں گے؟ کیا ایسا تصور تک کر سکتی تھیں آپ اے سیدہ زہراءؑ! جس وقت آپ نے اپنے مشن کا آغاز کیا، جس وقت آپ نے ان عظیم مصائب کو دیکھا، کیا آپ ایسا تصور کر سکتی تھیں؟ "وَقَدْ ماتَ عَطْشاناً بِشَطِّ فُراتِ" کیا آپ تصور کر سکتی تھیں کہ کہ لوگ آپ کے فرزند حسینؑ کو پیاس کی حالت میں فرات کے پانیوں کے کنارے شہید کریں گے؟ اور آپؑ کے جسم بے جان کو گرم مٹی پر پھینک دیں گے؟ کیا آپ ایسا تصور کر سکتی ہیں اے فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)!

أفَاطِمُ قُومِي يَا بْنَةَ الخَيْرِ وَانْدُبِي ***  نُجُومَ سَمَاوَاتٍ بِأَرْضِ فَلَاةِ

اے فاطمہ، اے خیر [الخلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی) کی بیٹی، اٹھیئے اور آنسو بہایئے، آسمان کے ستارے صحرا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ آسمان کے ستارے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے فرزند ہیں، فاطمہؑ کے چھوٹے بچے ہیں۔ دعبل کس مقام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ کونسے جان گداز واقعے کو بیان کر رہے ہیں؟ عاشورا کے دن، غروب آفتاب کے قریب، جب حقیقت کے ترکش کا آخری تیر، ـ یعنی امام حسین (علیہ السلام) خود، میدان میں پہنچ کر ـ دشمن کے قلب پر اترتا ہے، اور خاک و خون میں تڑپا ہے، اچانک تمام سیدانیاں سمجھ لیتی ہیں کہ امام حسینؑ شہید ہو چکے ہیں؛ سیدانیاں جو کوئی چارہ کار تلاش کر رہی ہیں، مگر [یزیدی] دشمن فوج کے جلاد ابا عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے خیموں کی طرف آتے ہیں، اور حسینؑ کی بیٹیاں صحرا میں بکھر جاتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

[1]۔ حقیقت کے بارے میں صحیح سمجھ بوجھ اور ادراک

[2]۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب (علیہم السلام)، ج4، ص224۔

[3]۔ "أفَاطِمُ لَوْ خِلْتِ الحُسَيْنَ مُجَدَّلاً *** وَقَدْ مَاتَ عَطْشَاناً بِشَطِّ فُرَاتٍ *** إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فاطِمُ عِنْدَهُ *** وَأَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَناتِ؛ اے فاطمہؑ! اگر آپ حسینؑ کو کربلا کی خاک پر پڑا تصور کریں جو فرات کے کنارے تشنہ لب دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، تو اپنے چہرے پر لطمہ رسید کریں گی اور پانی کی نہر اپنے چہرے پر جاری کریں گی"۔ (الإربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمہ، ج3، ص112-117؛ علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، ج45، ص257)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110