جب اسماعیل
(علیہ السلام) عمر کے لحاظ سے ادھیڑ عمر کے مرحلے میں پہنچے خداوند متعال نے
ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ایک بار پھر شام سے مکہ عزیمت کریں اور اسماعیل
(علیہ السلام) کی مدد سے کعبہ کی تعمیر نو کا اہتمام کریں۔
ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا! کعبہ کس مقام پر بناؤں؟
فرمایا: جس مقام پر تم سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) نے ایک قبہ بنا رکھا تھا۔
اس کے بعد جبرائیل (علیہ السلام) نے بیت اللہ کا مقام ابراہیم (علیہ السلام) کو دکھایا اور اس کی حدود اور رقبے کا تعین کیا اور اس کے ستونوں کو جنت سے منتقل کیا نیز ایک پتھر جو برف سے زیادہ سفید تھا جسے خداوند متعال نے جنت سے نازل کیا تھا؛ لیکن جب کعبہ کی دیوار پر نصب کیا گیا تو کفار اور مشرکین کے چھونے کی وجہ سے سیاہ پڑ گیا اور حجر الاسود کے نام سے مشہور ہؤا۔
بہرحال حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کوہ ذی طویٰ سے پتھر لاتے رہے اور ابراہیم (علیہ السلام) انہیں ایک دوسرے پر رکھتے رہے اور خانہ خدا کی دیواریں بنتی رہیں؛ جب دیوار کی اونچائی 9 ذراع تک پہنچی تو انھوں نے بہشتی پتھر اس پر نصب کردیا۔ انھوں نے کعبہ کے لئے مشرق اور مغرب کی سمت دو دروازے قرار دیئے۔
جب ان دو بزرگواروں نے کعبہ کی تعمیر کا کام مکمل کیا تو اس کی زیارت کی۔ جبرائیل امین (علیہ السلام) یوم الترویہ (اٹھ ذوالحجہ) کو نازل ہوئے اور ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا:
"'يَا إِبْرَاهِيمُ قُمْ فَارْتَوِ مِنَ اَلْمَاءِ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِمِنًى وَعَرَفَاتٍ مَاءٌ'، فَسُمِّيَتِ اَلتَّرْوِيَةَ لِذَلِكَ، ثُمَّ أَخْرَجَهُ إِلَى مِنًى فَبَاتَ بِهَا فَفَعَلَ بِهِ مَا فَعَلَ بِآدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ؛
'اے ابراہیم اٹھو اور اپنے لئے پانی فراہم کرو کیونکہ منیٰ اور عرفات میں پانی نہیں ہے'، اور اسی وجہ سے اٹھ ذوالحجہ کو "یو الترویہ" کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد جبرائیل ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو منیٰ اور عرفات کی طرف لے گئے اور انہیں اعمال حج انہیں سکھا دیئے جس طرح کہ انھوں نے یہ اعمال قبل ازاں حضرت آدم (علیہ السلام) کو سکھا دیئے تھے"۔ (1)
خدائے متعال نے قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ میں اس واقعے کو مختلف زاويوں سے بیان فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت 125 تا 132 کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
125۔ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ؛
اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ہم نے خانہ (کعبہ) کو مرجع خلائق اور مقام امن قرار دیا اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو مصلیٰ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل پریہ ذمے داری عائد کی کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
126۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ؛
اور (وہ وقت یاد رکھو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے رب! اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائیں انہیں ثمرات میں سے رزق عنایت فرما، ارشاد ہوا : جو کفر اختیار کریں گے انہیں بھی کچھ دن(دنیا کی) لذتوں سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دوں گا، پھر انہیں عذاب جہنم کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔
127۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ؛
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم و اسماعیل اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے،(دعا کر رہے تھے کہ) اے ہمارے رب! ہم سے (یہ عمل) قبول فرما،یقیناً تو خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔
128۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ؛
اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنا اور ہماری ذریت سے اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کر اور ہمیں ہماری عبادت کی حقیقت سے آگاہ فرما اور ہماری توبہ قبول فرما، یقیناً تو بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔
129۔ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ؛
اے ہمارے رب!ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں (ہر قسم کے رذائل سے) پاک کر دے، بے شک تو بڑا غالب آنے والا، حکیم ہے۔
130۔ وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلاَّ مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ؛
اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا، ابراہیم کو تو ہم نے دنیا میں برگزیدہ بنایا اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا۔
131۔ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ؛
(ابراہیم کا یہ حال بھی قابل ذکر ہے کہ) جب ان کے رب نے ان سے کہا: (اپنے آپ کو اللہ کے ) حوالے کر دو، وہ بولے : میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے حوالے کر دیا۔
132۔ وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ؛
اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسی ملت پر چلنے کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنی اولاد کو یہی وصیت کی) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے، لہٰذا تم تا دم مرگ مسلم ہی رہو۔
جیسا کہ آپ نے دیکھا: ان آیات میں ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کے ہاتھوں کعبہ کی تعمیر اور خداوند متعال کی بارگاہ سے ابراہیم (علیہ السلام) کی التجائیں بیان فرمائی گئیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ مجمع البيان۔ فضل بن حسن طبرسي، ج 2-1، ص39؛ بحارالانوارعلامه مجلسي، ج 21، ص 99۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110