16 مئی 2024 - 14:23
امام رضا علیہ السلام اور خلافت امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ثبوت

امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "اگر انفسنا سے مراد عام مسلمان مرد ہوتے اور علی (علیہ السلام) مراد نہ ہوتے تو پھر آیت میں "ابنائنا" (ہمارے بیٹے)، ذکر کرنا ضروری نہ ہوتا"۔

حسن خراز سے روایات ہے: میں نے امام رضا (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا:

موسی بن المتوکل حسن بن علی الخزاز سے روایت کرتے ہیں:

"سَمِعْتُ اَلرِّضَا عليه السلام يَقُولُ: إِنَّ مِمَّنْ يَتَّخِذُ مَوَدَّتَنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ لَمَنْ هُوَ أَشَدُّ لَعْنَةً عَلَى شِيعَتِنَا مِنَ اَلدَّجَّالِ؛ فَقُلْتُ لَهُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ بِمَا ذَا؟ قَالَ بِمُوَالاَةِ أَعْدَائِنَا وَمُعَادَاةِ أَوْلِيَائِنَا إِنَّهُ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ، اِخْتَلَطَ اَلْحَقُّ بِالْبَاطِلِ وَاِشْتَبَهَ اَلْأَمْرُ فَلَمْ يُعْرَفْ مُؤْمِنٌ مِنْ مُنَافِقٍ؛

میں نے امام رضا (علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہماری محبت و دوستی کا دعویٰ کرنے والوں میں سے بعض لوگوں کا ضرر ہمارے شیعوں کے لئے دجال کے نقصانات سے بھی بڑھ کر ہے۔

میں نے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)! اس بات کا سبب کیا ہے؟

فرمایا: کیونکہ وہ ہمارے دشمنوں کے دوست ہیں اور ہمارے دوستوں کے دشمن ہیں اور جب ایسا ہوجاتا ہے تو حق و باطل خلط ملط ہوجاتا ہے اور امر مشتبہ ہوجاتا ہے اور مؤمن کو منافق سے تمیز دینا دشوار ہوجاتی ہے"۔ (1)

وضاحت: جب شیعہ کہلانے والا شخص اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں کا دوست بھی ہو اور ان کے دوستوں کا دشمن بھی ہو اس کی وجہ سے فتنہ پیدا ہوتا ہے اور فتنے کی تعریف یہ ہے کہ اس کے دوران حق اور باطل میں تمیز کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کے لئے ناممکن ہوجاتی ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مامون نے حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے پوچھا: آپ اپنے جد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خلافت کے لئے کیا دلیل پیش کرسکتے ہیں؟

امام (علیہ السلام) نے فرمایا: سورہ مباہلہ میں لفظ "انفسنا میرے جد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خلافت کی دلیل ہے۔

مامون نے کہا: آپ کی دلیل درست ہوتی بشرطیکہ آیت میں "نسائنا" کا ذکر نہ ہوتا!۔

امام (علیہ السلام) نے فرمایا: آپ کا اعتراض بھی صحیح ہوتا بشرطیکہ آیت میں "ابنائنا" کا ذکر نہ ہوتا۔

اور مامون خاموش ہوگیا۔

اس سوال اور جواب میں خاص قسم کی ظرافت اور باریکی ملحوظ رکھی گئی ہے۔

حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ آیت شریفہ "فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ"، (2) میں لفظ نسائنا سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خلافت ثابت کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ انفسنا سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) مراد ہیں اور ان کے سوا کوئی مقصود نہیں ہوسکتا۔

کیونکہ جب امیرالمؤمنین (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جان ہیں تو ان سے زیادہ اہلیت اور ترجیح و تقدم کسی اور کو حاصل ہو ہی نہیں سکتی اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) خلافت کے حقیقی حقدار ہيں اور دوسروں سے ان کا قیاس کرنا بھی ممکن نہيں ہے۔

تشریح:

امام نے فرمایا کہ انفسنا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خلافت برحق کی دلیل ہے کیونکہ انفسنا سے مراد علی (علیہ السلام) کے سوا کوئی بھی اور نہیں ہے۔

مامون نے کہا ہے کہ یہ بات صرف اس وقت صحیح ہوسکتی کہ آیت میں "نسائنا" (ہماری خواتین) کا ذکر نہ ہوتا یعنی یہ کہ انفسنا سے مراد علی (علیہ السلام) نہیں بلکہ عام مسلمان مرد ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت میں "نسائنا" کا لفظ آیا ہے جس سے مراد مسلمان خواتین ہیں!۔ یعنی ہمارے مرد اور ہماری خواتین۔۔۔

اور امام رضا (علیہ السلام) نے اس اعتراض کا جواب یوں دیا ہے کہ اگر انفسنا سے مراد عام مسلمان مرد ہوتے اور علی (علیہ السلام) مراد نہ ہوتے تو پھر آیت میں "ابنائنا" (ہمارے بیٹے)، ذکر کرنا ضروری نہ ہوتا کیونکہ ابنائنا خود بخود انفسنا میں شامل ہوتے اور ابنائنا انفسنا میں شامل ہوتا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انفسنا سے مراد ایک خاص مرد ہے اور وہ خاص مرد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے مبارک وجود کے سوا کوئی بھی نہيں ہے۔

اور پھر مامون کی طرف سے نسائنا سے استناد بھی درست نہیں ہے کیونکہ نسائنا سے مراد تمام مسلم خواتین نہیں ہیں بلکہ صرف حضرت سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) مراد ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب نساء کے مقابلے میں ابناء کا لفظ آئے تو نسائنا سے مراد خواتین نہيں بلکہ لڑکیاں ہونگی جیسا کہ ارشاد ربانی  "يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ؛ فرعون اور اس کے پجاری تمہارے لڑکوں کو ذبح کراتے ہیں اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے ہیں"۔ (3)

مامون کے شبہہ آمیز اعتراض کا ایک جواب یہ ہے کہ اگر انفسنا سے مراد امت کے تمام مرد ہوتے اور ان مردوں کی جانب سے ایک مرد کا مباہلے میں شریک ہونا کافی تھا تو پھر علی (علیہ السلام) کی شرکت کی ضرورت کیوں پڑی اور پھر آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہوتے ہوئے انفسنا اور ابنائنا کی کیا ضرورت تھی جبکہ آنحضرت خود بھی یہ فریضہ سرانجام دے سکتے تھے اور امت کے مردوں کی نمائندگی کرسکتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

1. اب جو شخص اس بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، اس کے بعد کہ یہ علمی دلائل آپ کے پاس آگئے تو کہہ دیجئے کہ آؤ! ہم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو۔ پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر"۔ سورہ آل عمران آیت 61۔

2۔ شیخ صدوق، صفات الشیعہ، ص8۔

3۔ سورہ بقرہ، آیت 49۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماخذ: القطره: ج1، مناقب امام رضا علیه السلام؛ بحار الانوار: ج36، ص171، ح160۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110