اہل بیت(ع) نیوز
ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اس اہلکار نے نام بتانے کی شرط پر ذرائع مڈل ایسٹ نیوز
کو بتایا:
امریکہ، سعودیہ اور صہیونی ریاست اور "فلسطین!" (یعنی [مبینہ] خودمختار فلسطینی اتھارٹی) کے درمیان سفارتی-سیکورٹی سمجھوتہ حتمی مرحلے کے قریب پہنچ گیا اور امریکی انتظامیہ نے اس سلسلے میں "سعودی ولی عہد" کے ساتھ اتفاق کر لیا ہے۔
اس معاہدے کے تین اہم نکات ہیں:
پہلا سعودیہ اور امریکہ کے درمیان سمجھوتہ؛ سمجھوتے میں، اس ابہام کو دور کیا گیا کہ امریکہ کسی بھی حملے کی صورت میں سعودی عرب کے دفاع میں کیا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے برعکس، یعنی سعودی عرب امریکہ کے مفادات پر حملے کی صورت میں کیا کرتا ہے۔
دوسرا نکتہ جدیدترین امریکی ہتھیاروں تک سعودی عرب کی رسائی آسان بنانے پر سمجھوتہ ہے۔
تیسرا نکتہ سعودیہ کو غیر فوجی جوہری پروگرام کی فراہمی ہے جو کڑی نگرانی سے مشروط ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت سعودی عرب اپنی ایٹمی تنصیبات کے لئے یورینیم کے اپنے ذخائر کو بروئے کار لا سکے گا۔
سعودی عرب اپنی سرزمین میں چین کی سرمایہ کاری نیز چین کے ساتھ فوجی تعلقات کو محدود کرنے کا پابند ہوگا اور اپنے دفاعی نظآمات کی ترقی دینے کے لئے مکمل طور پر امریکی ہتھیار استعمال کرے گا۔ امریکہ نے یہ عہد کرکے امریکہ کے ہتھیار بنانے والے اداروں کو بہت سارے فوائد پہنچائے گا اور دو ملکوں کی فوجوں کو دوطرفہ تعاون کا امکان فراہم کرے گا۔
سعودی عرب کی کوشش ہے کہ اپنی سستی توانائی اور اپنی وسیع و عریض سرزمین کو مدنظر رکھ کر انفارمیشن پروسیسنگ کے بڑے امریکی مراکز کو ـ جو اس کو مصنوعی ذہانت کے فروغ کے لئے درکار ہیں ـ اپنی سرزمین میں قائم کر دے، کیونکہ امریکہ میں اس طرح کے مقامات اور ان کو ایندھن فراہم کرنے کے لئے بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
سعودی عرب اس طرح کے سمجھوتوں کے عوض فلسطینی بچوں اور خواتین کی قاتل صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا؛ بشرطیکہ بنیامین نیتن یاہو عہد کرے کہ دو ریاستی حل کے لئے فلسطین کی خودمختار اتھارٹی کے ساتھ تعاون کرے گا!!
سنہ 1990ع کے عشرے میں اوسلو معاہدے میں بھی دو ریاستی حل پر زور دیا گیا تھا اور اس معاہدے پر صہیونی ریاست نے دستخط بھی کئے تھے لیکن صہیونیوں کی کسی حکومت نے بھی اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے کو ضروری نہیں سمجھا ہے اور نیتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کا پابند نہیں ہے اور وہ فلسطین کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ چنانچہ اب بھی اگر سعودی عرب صہیونی ریاست کو تسلیم کرے اور نیتن یاہو دو ریاستی حل کی پابندی کا عہد کرے تو وہ کبھی بھی اس عہد پر عمل نہیں کرے گا اور پھر مغربی اور مشرقی مبصرین نے بارہا کہا ہے کہ مجوزہ دو ریاستی حل، قابل عمل نہیں ہے بلکہ صہیونی حکمرانوں کے ہاتھ میں، فریب کا اوزار ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کو نیتن یاہو کی طرف سے دو ریاستی حل کے منصوبے پر عملدرآمد سے مشروط نہیں کیا ہے بلکہ اسے ایک بدعہد جعلی ریاست کے عہد سے مشروط کیا ہے جو کسی صورت میں بھی معقول نہیں ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ دو ریاستی حل کے لئے نیتن یاہو کو جس خودمختار اتھارٹی کے ساتھ تعاون کے لئے کہا گیا ہے وہ درحقیقت ایک اسرائیلی ادارہ ہے جو در حقیقت دو ریاستی حل کی تمہید کے طور پر قائم کیا گیا تھا لیکن وہ کبھی بھی ایک آلہ کار کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
بہرحال طے یہ پایا ہے کہ امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک اور یمن کے امور میں امریکی صدر کا خصوصی ایلچی ٹم لنڈرکنگ جلد ہی سعودی عرب کا دورہ کریں گے۔ اور معلوم نہیں ہے کہ عالم اسلام کے ان نازک حالات میں مزید کیا خبریں سننے کو ملیں گی! البتہ کہا گیا ہے کہ مذکورہ امریکی حکام کے دورہ ریاض کا مقصد "سعودی ریاست - اور یہودی ریاست" کے درمیان تعلقات معمول پر لانا ہے۔
نکتہ:
یقینا اس دور میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو چکا ہے، حق اور باطل کے محاذ بالکل آشکار ہیں، کسی کے پاس بھی حیل و حجت کا کوئی امکان نہیں رہا ہے، عقل و شرع کا حکم ہے کہ وہابیت اور سعودیت کے لئے جان کی بازی لگانے والے اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل و ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110