اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

30 اپریل 2024

11:39:39 AM
1455233

طوفان الاقصی؛

صہیونی ریاست کی ابلاغیاتی تصویر مقبوضہ فلسطین کے حقائق سے متصادم ہے / طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل ختم ہو چکا ہے۔ میجر جنرل غلام علی رشید

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے مرکزی خاتم الانبیاء(ص) ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر نے کہا کہ صہیونی ریاست کی ابلاغیاتی تصویر مقبوضہ فلسطین میں اس ریاست کے حقیقی تصویر سے متصادم ہے۔ صہیونی ریاست کی حالت ابتر ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ کے مطابق، حماس کے صرف 1100 مجاہدین پر مشتمل گوریلا یونٹ نے سات اکتوبر 2023ع‍ کو آٹھ گھنٹوں تک جاری رہنی والی کاروائی "طوفان الاقصیٰ" کے دوران اس جھوٹی تصویر کو عملی طور پر جھٹلا دیا۔ غزہ کے عوام نے دیکھا تو اپنے مجاہدین کی مدد کے لئے لپکے اور ہر شخص نے 3 یا چار صہیونیوں کو قیدی بناکر اپنے گھروں میں منتقل کیا۔ اور آج السنوار اور الضیف جیسے داخلی کمانڈر کہتے ہیں کہ "ہمیں فرصت دو تو انہیں جمع کریں گے اور ان کی گنتی کرکے بتائیں گے کہ کتنے صہیونی ہمارے پاس قید ہیں"۔  

حتیٰ کہ مجاہدین کو بھی اسرائیل کی شکست کی وسعت کا یقین نہیں آ رہا تھا وجہ یہ تھی کہ صہیونی فوجی اپنی چھاؤنیوں اور ٹینکوں میں سو رہے تھے اور رات کی شراب نوشیوں کی وجہ سے نشے میں دھت تھے۔

عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی کے دورہ ایران سے قبل، امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے ان سے کہا تھا کہ، "طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد اسرائیلی فوج مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو چکی تھی، اور ختم ہو چکی تھی ہم گئے اور ان سے کہا کہ کوئی بات نہیں، اور انہیں دوبارہ کھڑا کر دیا ورنہ اب تک مکمل طور پر ختم ہوچکی ہوتی"۔ 

اس وقت ان کے کمانڈروں کو لاحق تشویش یہ ہے کہ اگر پھر بھی حملہ ہؤا اور اس بار حماس کی ایک تہائی نفری (10 ہزار افراد)، حزب اللہ کی ایک تہائی نفری (10 ہزار افراد) اور مغربی کنارے کے مجاہد نوجوانوں کی ایک تہائی نفری (2000 افراد) میدان میں آئیں اور اچانک حملہ کریں، تو یقینی طور پر "ختم" ہو جائیں گے۔

جون 2023ع‍ میں سپاہ پاسداران اور فوج کے کمانڈروں کا اجلاس مرکزی خاتم الانبیاء(ص) ہیڈکوارٹرز میں منعقد ہؤا۔ میں نے سپاہ پاسداران کے انٹیلی جنس سربراہ سے کہا: صدام کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ میں بیت المقدس آپریشن 6000 کلومیٹر کے علاقے میں انجام کو پہنچا اب آپ اسے مقبوضہ فلسطین کے نقشے سے قیاس کریں، اور نتیجہ یہ ہؤا کہ جنوبی لبنان سے اسدود تک، غاصب صہیونی ریاست کی آبادیاتی اور اقتصادی حدود، کا طول کلومیٹر ہے جبکہ بقیہ علاقہ غزہ کی پٹی اور صحراؤں پر مشتمل ہے۔

خاتم الانبیاء(ص) ہیڈکوارٹرز میں ہمارا یہ حساب و کتاب ہماری افواج کے کمانڈر میجر جنرل موسوی کی اس بات میں جلوہ گر ہوئی کہ "اگر افواج اور سپاہ پاسداران مل کر بیت المقدس آپریشن اور فتح المبین آپریشن جتنی کاروائی کریں اور اس کاروائی میں اتنی ہی نفری شرکت کرے، تو اسرائیل مٹ جائے گا"۔

اب اس صورت حال میں اسرائیل آکر ایران کے اندر ہمارے ایٹمی سائنسدان کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے یا گیس پائپ لائن میں دھماکہ کرتا ہے لیکن مغرب کی ابلاغیاتی سلطنت اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد امریکی مرکزی کمان (uscentcom) نے تل ابیب میں کمانڈ پوسٹ قائم کر لی اور اس وقت امریکی، برطانوی اور فرانیسی فوجی اسرائیلی فوجیوں کے دوش بدوش لڑ رہے ہیں۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) فرماتے ہیں کہ اگر وہ وار کریں تو ہم 10 گنا بڑا جواب دیں گے، لیکن پھر عملی طور پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ایسا کیوں ہے؟ تو عرض یہ ہے کہ رہبر معظم کا مطلب فوجی اور میزائل حملہ ہے نہ یہ جزوی سی کاروائیاں جو وہ اپنے گماشتوں کے ذریعے سے کرواتے ہیں، اور جب انہیں پکڑتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے انقلاب دشمن اور علیٰحدگی پسند عناصر ہوتے ہیں جنہوں نے دو سال قبل اصفہان میں فوجی تنصیبات پر حملے کے لئے صہیونیوں کی خدمت کی تھی اور علیٰحدگی پسند عبداللہ مہتدی نے اپنی کالعدم دہشت گرد جماعت "کوملہ" کے 40 گماشتے ان کی تحویل میں دیئے تھے جنہیں ایران میں داخل ہوتے ہی ـ کوئی کاروائی کرنے سے پہلے ـ ہماری انٹیلی جنس کی وزارت کے کارکنوں نے گرفتار کر لیا تھا۔

ایک بار شہید الحاج قاسم سلیمانی نے کہا: دنیا میں ہر ریاست کی ایک فوج ہوتی ہے اور صرف اسرائیل ہے جہاں ایک فوج کے پاس ایک ریاست ہے؛ یہ لوگ 102 ممالک سے اکٹھے ہوکر آئے ہیں، جو 15 بولیاں بولتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی ربط اور پیوستگی نہیں ہے ان کی کوئی واحد ثقافتی شناخت نہیں ہے اور یہ واحد ریاست ہے جہاں ایک ریاست کے لئے ضروری تین عناصر "آبادی - علاقہ - اقتدارِ اعلٰی" موجود نہیں ہیں۔

شہید الحاج قاسم سلیمانی ہر سال دو مرتبہ خاتم الانبیاء(ص) ہیڈکوارٹرز میں حاضر ہو جاتے تھے، اور خطے کے حالات پر روشنی ڈالتے تھے، لیکن کبھی بھی یہ نہیں کہتے تھے کہ "میں نے یہ کام کیا یا وہ کام کیا"، آخری بار و شہادت سے چار مہینے قبل کمانڈروں کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

اس اجلاس کے دوران انھوں نے مجھ سے پوچھا: آٹھ سالہ جنگ کے دوران بصرہ کے سامنے بنی ہوئی خندق کا رقبہ کتنا تھا؟ میں نے کہا: وہ خندق 35 کلومیٹر طویل اور ایک کلومیٹر عریض تھی۔ شہید سلیمانی نے کہا: یہ خندق ہمیشہ ہمارے راستے میں رکاٹ تھی لیکن ثاراللہ-41 ڈویژن نے اس خندق کو پار کیا اور صدام کی فوج کو 10 دن تک مفلوج کرکے رکھا۔

انھوں نے مزید کہا: میں نے آپ کی مدد سے ان برسوں میں مغربی ایران سے 1000 کلومیٹر کی حفاظتی خندق کھود لی ہے۔ میں نے کہا: جس کی لمبائی ترکیہ سے عدن تک 2000 کلومیٹر ہے، اور انھوں نے کہا: میں نے ایک خندق کھودی ہے ایرانی شہر قصر شیرین سے بحیرہ روم تک  اور اس میں چھ عوامی - اعتقادی افواج کو تعینات کر لیا چنانچہ جو بھی ملک ایران کے خلاف اتحاد بنا کر حملہ کرنا چاہے، تو اس کو پہلے اس خندق سے گذرنا پڑے گا اور چھ عوامی ـ اعتقادی فوجوں سے لڑنا پڑے گا، اور یہ کسی بھی دشمن کے لئے ممکن نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110