اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

بقیع (جنۃ البقیع / بقیع الغَرقَد)، مدینہ کا سب سے پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے؛ چار ائمۂ معصومین (علیہم السلام) سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور صحابہ اور تابعین میں سے کئی اکابرین اسلام اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایام حیات میں بقیع بہت چھوٹا تھا بعد میں بنو امیہ نے اس کو وسعت دی۔ مہاجرین میں سے سب سے پہلے صحابی، جو اس قبرستان میں مدفون ہوئے عثمان بن مظعون تھے اور کہا جاتا ہے کہ آخری صحابی جو مدینہ میں وفات پا کر بقیع میں دفن ہوئے سہل بن بن سعد ساعدی تھے۔ ائمہ معصومین (علیہم السلام) اور بعض دوسرے اکابرین کی قبروں پر گنبد و بارگاہ کا انتظام تھا جن کو (پہلی بار تیرہویں صدی ہجری 1220ہجری اور دوسری بار) چودہویں صدی ہجری میں وہابیوں نے منہدم کیا جس پر ایران اور ہندوستان سمیت مختلف ممالک کے شیعہ اور سنی علماء اور عوام نے شدید رد عمل ظاہر کیا۔

بقیع کے معنی

لفظ بقیع کا اطلاق زمین کے ایک ایسے ٹکڑے پر ہوتا تھا جس میں "غرقد" نامی کانٹے دار پودے اگے ہوئے تھے؛ چنانچہ اس زمین کو "بقیع الغرقد" بھی کہا جاتا تھا۔ بعد میں کانٹے دار پودوں کو اکھاڑا گیا اور وہاں وفات پانے والے مسلمانوں کو دفنایا جانے لگا۔

اسی قسم کے کئی دیگر بقیع بھی مدینہ میں موجود تھے لیکن جو بقیع قبرستان میں بدل گیا وہ شہر کے انتہائی جنوب مشرق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حرم شریف کے قریب واقع تھا۔ شہر کا ایک دروازہ ـ یعنی باب البقیع ـ قبرستان کی طرف کھلتا تھا۔ [1]

بقیع کی توسیع

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایام حیات میں بقیع بہت چھوٹا تھا جس کے گرد ایک حصار تھا اور عثمان بن عفان اور حلیمۂ سعدیہ کی قبریں حصار سے باہر تھیں۔ عثمان بن عفان کی قبر ابتداء میں "حشّ کوکب" میں واقع تھی اور بعد میں بنو امیہ نے اس کو قبرستان میں شامل کیا۔ نیز وہ لوگ جو مدینہ پر یزید کے تسلط اور قبضے کے وقت واقعۂ حرّہ میں اموی لشکر کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

جنت البقیع کی موجودہ حدود

حالیہ برسوں میں شہر میں توسیعی منصوبوں کی وجہ سے بقیع مدینہ کے مرکز میں قرار پایا ہے اور مسجد النبی کو توسیع دی گئی ہے اور مسجد اور قبرستان کے درمیان ایک سڑک حائل ہے۔

بقیع میں پہلے مدفون ہونے والے مہاجر

مہاجرین میں سے پہلے صحابی جو بقیع میں مدفون ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے گرانقدر صحابی عثمان بن مظعون تھے جو سنہ 2 ہجری میں وفات پاگئے، لیکن ابن عبدالبر [2] کے مطابق مہاجرین اور انصار کے درمیان بقیع کے پہلے مدفون فرد کے سلسلے اختلاف ہے۔ انصار کا کہنا ہے کہ بقیع میں سب سے پہلے بیعت عقبۂ اولیٰ میں شرکت کرنے والے انصاری سعد بن زرارہ سپرد خاک ہوئے ہیں جو سنہ 2 ہجری میں جنگ بدر سے پہلے دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ گوکہ اس میں کوئی نزاع نہ ہونا چاہئے کہ بقیع میں سب پہلے مدفون ہونے والے مہاجر عثمان بن مظعون اور سب سے پہلے انصاری سعد بن زرارہ تھے۔

خلیفہ سوئم عثمان بن عفان کے قتل کے بعد جب اُنہیں بقیع میں دفن نہ ہونے دیا گیا تو اُنہیں بقیع سے باہر مشرقی حصے میں حش کوکب میں دفن کردیا گیا اور جب معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں مروان بن حَکَم مدینہ کا والی بنا تو اُس نے حش کوکب اور بقیع کی درمیانی دیوار کو ہٹا کر اُن کی قبر کو اِسی قبرستان میں شامل کر دیا اور پتھر کا وہ ٹکڑا ـ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے ہاتھوں سے عثما ن بن مظعون کی قبر پر رکھا تھا، اُٹھا کر عثمان بن عفان کی قبر پر رکھتے ہوئے کہا:

"وَاللهِ لَايَكُونُ عَلَىٰ قَبْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ حَجَرٌ يُعْرَفُ بِهِ؛

خد اکی قسم! عثمان بن مظعون کی قبر پر کوئی پتھر نہ رہے گا جس سے ان کی شناخت کی جاسکے"۔ [3]

بقیع میں مدفون آخری صحابی

کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے آخری صحابی، جو مدینہ میں وفات پاکر بقیع میں دفن ہوئے، سہل بن سعد ساعدی (متوفٰی 91 ہجری)  تھے۔

بقیع کا تعلق کسی خاص جماعت سے نہیں تھا بلکہ مدینہ کے تمام قبائل نے اسی قبرستان کا ایک حصہ اپنے لئے متعین کیا تھا، جس طرح کہ بعد کے سالوں میں ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی قبور کے ارد گرد کا علاقہ  شیعیان اہل بیت(علیہم السلام) کے لئے مختص تھا اور باقی حصے دوسرے اسلامی مذاہب کے لئے تھے۔

 بقیع، ائمۂ شیعہ کا مدفن

ائمۂ شیعہ (علیہم السلام) میں سے چار امام ـ امام حسن مجتبیٰ، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) اسی قبرستان میں مدفون ہیں اور احتمال دیا جاتا ہے کہ شاید سیدہ فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں گوکہ سیدہ(س) کی قبر شریف کا اصل مقام نامعلوم ہے؛ جو ابد تک امت مسلمہ کے لئے ایک خاص پیغام کا حاملہ مسئلہ ہے اور یہ سوال ہمیشہ کے لئے باقی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی واحد بیٹی، یا واحد معصوم بیٹی کی قبر نامعلوم کیا ہے؟ عصر رسالت کے بعد ایسا کیا ہؤا کہ سیدہ کی قبر نظروں سے اوجھل ہے؟

قبرستان کے اصل علاقے میں ـ جہاں بزرگ صحابیوں اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی قبریں واقع ہیں، وہاں اموات کو دفن نہیں کیا جاتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹیاں، آنحضرت کے شیرخوار ابراہیم، آپ کی زوجات یا امہات المؤمنین اور آپ کے تمام پسماندگان ـ سوائے امام حسین علیہ السلام کے ـ یہیں مدفون ہیں۔ مسعودی امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی شہادت کی مناسبت سے لکھتے ہیں: میں نے کہ انھوں نے سنگ مرمر کا ایک تختہ دیکھا ہے جس پر سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اور چار ائمہ (علیہم السلام|ائمۂ) کے نام درج تھے۔ [4]

بقیع میں مدفون صحابہ و تابعین

بقیع میں مدفون بعض مشہور صحابی اور تابعین کے نام:

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے بھائی عقیل بن ابی طالب، خلیفۂ سوئم عثمان بن عفان، مالکیہ کے امام مالک بن اَنَس، اور ان کے استاد نافع مولٰی بن عمر، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چچا عباس بن عبدالمطلب وغیرہ۔ بقیع میں دفن ہونا، رفتہ رفتہ اہل بیت (علیہم السلام) اور مقدسین کا مدفن ہونے کی وجہ سے، تقدس اختیار کرگیا۔ اِس کے علاوہ یہاں مقداد بن اسود، مالک بن حارث، خزیمہ ذو الشہادتین، زید بن حارثہ، جابر بن عبداللہ انصاری، حسّان بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ، عبد اللہ بن مسعود اور معاذ بن جبل سمیت کئی جلیل القدر صحابی بھی یہیں مدفون ہیں۔ [5]  اُمّہات المومنین میں زینب بنت خزیمہ، ریحانہ بنت زبیر، ماریہ قبطیہ، زینب بنت جحش، اُم ّ حبیبہ بنت ابی سفیان، سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس اور عائشہ بنت ابی بکر؛ امیرالمؤمنین(ع) کی زوجہ فاطمہ ام البنین بنت حِزام، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پھوپھیاں صفیہ بنت عبدالمطلب اور عاتکہ بنت عبدالمطلب، سیدہ زینب بنت امیرالمؤمنین (سلام اللہ علیہا) کے شریک حیات عبداللہ بن جعفر، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے فرزند محمد بن حنفیہ، شیخ القراء السبعہ نافع مولىٰ عبد اللہ بن عمر، وغیرہ کی قبریں بھی بقیع میں واقع ہیں۔ [6] اسمعیل بن جعفر الصادق(ع) بھی بقیع میں مدفون ہیں۔ [7]

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی حیات مبارکہ کے آخری دنوں میں ایک روز بقیع تشریف فرما ہوئے اور وہاں کے مدفونین کے لئے استغفار کیا۔ [8] آپ(ص) کا یہ اقدام خدا کے حکم پر تھا اور بقیع کی طرف مسلمانوں کے رجحان کا ایک سبب شاید یہی اقدام نبوی(ص) تھا۔

بقیع میں گنبد و بارگاہ کی تعمیر

بزرگوں کی قبروں پر گنبد و بارگاہ کی تعمیر کی گئی جیسے امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) اور عباس بن عبدالمطلب کا مقبرہ، [جو] ابن جبیر کے مطابق بہت بلند تھا۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ [9] نے آٹھویں صدی ہجری کے وسط میں جو کچھ دیکھا وہ یوں تھا:

مالک بن انس کی قبر پر چھوٹا سا گنبد تھا؛ ابراہیم بن محمد(ص) پر سفید رنگ کا گنبد تھا؛ ازواج نبی(ص اور امام حسن (علیہ السلام) اور عباس بن عبدالمطلب کے مقبروں پر اونچا اور نہایت مستحکم گنبد تعمیر ہؤا تھا، خلیفۂ ثالث کی قبر پھر اونچا گنبد تھا اور ان کے قریب ہی فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کی قبر پر بھی گنبد تھا۔ صفَدی نے بھی اشارہ کیا ہے کہ چار ائمہ (علیہم السلام) شیعہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبروں پر گنبد تعمیر کیا گیا تھا۔ [10]

خاندان قاجار کے شہزادے فرہاد میرزا نے سنہ 1914ع‍ میں اور محمد حسین خان فراہانی نے 1924ع‍ میں بقیع میں اپنے مشاہدات یوں بیان کرتے ہیں:

ایک بقعہ چار ائمہ (علیہم السلام) اور عباس بن عبدالمطلب کی قبروں موجود تھا اور ریشمی کپڑے کی چادر، جس پر سونے اور چاندی کی زرتاروں سے برجستہ پھولوں کے نقش بنے ہوئے تھے، سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے منسوب قبر پر چڑھی ہوئی تھی۔ یہ چادر عثمان بادشاہ سلطان احمد عثمانی نے سنہ 1131ھ میں بطور ہدیہ بھجوائی تھی۔ ایک بقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیٹیوں کی قبروں پر بنا ہؤا تھا، ایک بقعہ ازواج رسول(ص) کی قبروں پر اور کئی دوسرے بقعے۔ [11]

تاہم مغربی مستشرق جان لوئیس برکھاٹ [12] جنہوں نے وہابیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد حجاز کا سفر کیا ہے، بقیع کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

"بقیع مشرقی دنیا کے حقیر ترین قبرستان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یہ قبرستان احد میں مقبرہ حمزہ بن عبدالمطلب (علیہ السلام) یا قبا کے مقام پر اسلام کی پہلی مسجد ـ المعروف بہ مسجد قبا ـ کی طرح مقدس ہے اور ان مقامات مقدسہ میں شمار ہوتا ہے جن کی زیارت کو حجاج اپنے عبادی اعمال میں شمار کرتے ہیں"۔ [13]  

بقیع میں گنبدوں کا انہدام  

وہ گنبد اور عمارتیں جنہیں وہابیوں کی پلی لہر نے سنہ 1221 ہجری میں مسمار کیا تھا، ان کی تعمیر نو سلطان عبدالحمید دوئم کے حکم پر انجام پائی، لیکن سنہ 1344 میں بقیع کو مدینہ کے حکمران امیر محمد نے اپنے باپ عبدالعزیز آل سعود کے حکم پر دو بار مسمار کیا۔

اس اقدام سے قبل اور دنیا کے مسلمانوں ـ بالخصوص  اہل تشیّع ـ کے احتجاج سے بچنے کے لئے آل سعود کے قاضی القضات عبداللہ بن سلیمان بن بلیہد خود مدینہ پہنچا اور باضابطہ سرکاری خطوط و مراسلات کے ذریعے مدینہ کے علماء سے قبور کے اوپر عمارتیں بنانے کے بارے میں ان کی رائے پوچھی اور مؤرخین کے مطابق انہیں ڈرایا دھمکایا جس کے نتیجے میں انھوں نے رائے دی کہ قبور پر عمارت تعمیر کرنا شرعا حرام ہے نیز ان سے پوچھے گئے سوال میں [مغالطہ کرکے] لکھا گیا تھا کہ "بقیع کی زمین وقف شدہ ہے اور یہاں بنا ہوا قبرستان عمومی قبرستان ہے جہاں عام مسلمانوں کو دفن کیا جاتا ہے؛ تو کیا ایسے قبرستان میں قبروں پر عمارت بنائی جاسکتی ہے؟

اس فتوے کے آنے پر وہابیوں نے تمام عمارتوں، گنبدوں اور بارگاہوں کو مسمار کیا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور ہر سال مختلف ممالک میں "یوم انہدام جنۃ البقیع" کے موقع پر جلسے اور جلوس ہوتے ہیں اور مسمار شدہ مقابر کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ گوکہ آج تو وہابی دوسرے ممالک میں انبیاء اور اولیاء اور بزرگان دین کی قبریں منہدم کرنے میں مصروف ہیں! اور یہودیت سے متعلق مقامات کی حفاظت کر رہے ہیں۔

انہدام بقیع پر مسلمانوں کا رد عمل

علامہ سید محسن امین العاملی لکھتے ہیں:

"بقیع کے انہدام کے حوالے سے سعودی بادشاہ کے اقدام نے ایران کے علماء اور حکمرانوں کو تشویش میں مبتلا کیا اور ایران سے ایک سرکاری وفد حجاز روانہ ہوا اور وفد کے اراکین نے انجام شدہ اقدامات کی مفصل رپورٹ تیار کی۔ نیز ہندوستان میں شدید بےچینی پھیل گئی اور ایک وفد وہاں سے مکہ چلا گیا اور اس سعودی اقدام پر شدید احتجاج کیا۔ اس کے باوجود سعودی بادشاہ ان کے اعتراضات و احتجاجات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا۔ [14]  

بقیع انہدام کے بعد

ہمارے زمانے میں بھی بقیع کے مقابر پر گنبد و بارگاہ موجود نہیں ہے۔ قبروں پر پتھر نصب کئے گئے ہیں جن پر نہ کوئی مکتوب ہے اور نہ ہی کوئی کتبہ۔ مسٹر روٹر جنہوں نے 1926 میں ہی وہابیوں کے غلبے اور بقیع کی مسماری کے بعد حجاز کا سفر کیا اور بقیع کو قریب سے دیکھا۔ وہ مدینہ کو زلزلہ زدہ شہر سے تشبیہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں:

"ہر جگہ مٹی، پتھروں، اینٹوں، لکڑیوں، اور تختوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مدینہ زلزلہ زدہ شہر سے شباہت رکھتا ہے جہاں عمارتیں زمین بوس ہیں، مٹی، لکڑیوں اور اینٹوں اور دیگر عمارتی اشیاء کا ملبہ دکھائی دے رہا ہے"۔ [15]

سنہ 1954 عیسوی کو دینی مراجع اور علماء کے دباؤ اور سیاسی اقدامات کے نتیجے میں سعودی بادشاہ سعود بن عبدالعزیز نے بقیع میں سیمنٹ کے راستے بنائے تاکہ زائرین کو آنے جانے میں دشواری نہ ہو۔ فیصل بن عبدالعزیز کے زمانے میں ایک بڑا دروازہ تیار کیا گیا اور کئی سال بعد مغربی جانب ایک سائبان بنایا گیا۔

وہابی عقائد کے رد میں مؤلَفَہ کتب

مندرجہ بالا اقدامات کے علاوہ علمائے اسلام نے تخریب اور انہدام بقیع کے بارے میں وہابی آراء کی تردید میں کتب لکھی ہیں اور بعض دیگر نے اصولی طور پر وہابی عقائد کو علمی انداز سے رد کیا ہے جبکہ وہابی سرگرمیاں جاری رہنے کی بنا پر کتب و مقالات آج بھی لکھے جارہے ہیں؛ ان حوالوں سے لکھی جانے والی بعض کتب نمونے کے طور پر متعارف کرائی جاتی ہیں:

* کشف الارتیاب، بقلم سیدمحسن امین العاملی

* دعوی الہدیٰ الی الدرع فی الافعال والتقویٰ، بقلم محمد جواد بلاغی

* معجم ما الفّہ علماء الإسلام رداً علی الوہابیۃ [16]

*آیین وہابیت، بقلم آیت اللہ جعفر سبحانی

* برگی از جنایات وہابیہا (وہابیوں کے جرائم کا ایک ورق)، بقلم مرتضیٰ رضوی

* وہابیان بقلم علی اصغر فقیہی

* وہابیت ایدہ استعمار (وہابیت، استعماری تصور) بقلم مسٹر ہمفر ترجمہ: علم الہدی

* آیا این است اسلام واقعی، (کیا حقیقی اسلام یہی ہو)، بقلم ابوالفضل حسینی

* فتنہ وہابیت، بقلم زینی دحلان ترجمہ: ہمتی

* ناسیونالیسم و اسلام، (قوم پرستی اور اسلام)، بقلم زینی دحلان ترجمہ: ہمتی

* نقدی بر اندیشہ وہابیان، (وہابی فکر کا تنقیدی جائزہ)، بقلم موسوی قزوینی ترجمہ: طارمی

* تحلیلی نو بر عقاید وہابیان، (وہابیوں کے عقائد پر نیا تجزیہ)، بقلم حسن ابراہیمی

* فرقہ وہابی و پاسخ بہ شبہات، (وہابی فرقہ اور شبہات کا جواب) آنہا بقلم قزوینی ترجمہ: دوانی

* نقد و تحلیلی پیرامون وہابیگری، (وہابیت پر ایک تنقید اور تجزیہ)، بقلم ہمایون ہمتی

* اشتباہ بزرگ وہابیہا، (وہابیوں کی بڑی خطا)،  بقلم عیسی اہری

* مجلۂ بقیع

* پیشینہ سیاسی فکری وہابیت، (وہابی فکر کا سیاسی اور فکری پس منظر)، محمد ابراہیم انصاری لاری

* تاریخ مکہ، بقلم محمد ہادی امینی ترجمہ:  محسن آخوندی آخوندی

* ترجمہ کشف الارتیاب، ج4. بقلم علامہ سید محسن امین ترجمہ: علی اکبر فائزی پور تہرانی

* توسل یا استمداد از ارواح مقدسہ۔ (ارواح مقدسہ سے توسل کرنا اور مدد مانگنا)، بقلم آیت اللہ جعفر سبحانی

* سخنی چند با موحدین، (موحدین سے چند باتیں)، مصطفی نورانی

وہابیت کی تردید کے سلسلے میں اردو میں بھی بڑی تعداد میں کتب لکھی گئی ہیں اور بعض عربی کتب کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ نیز رجوع کریں:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ

*ابن بطوطہ ، سفرنامة ابن بطوطہ، ترجمة محمدعلی موحد، تہران، 1361ھ ش۔

*ابن جبیر، رحلة ابن جبیر ، چاپ دخویہ، لیدن، 1907، ص195 کے بعد۔

*ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ط علی محمد بجاوی ، بیروت 1412/1992.

*ابن نجار، اخبار مدینة الرسول، مکہ، 1366ھ /1947ع‍، ص127ـ130.

*محسن امین ، کشف الارتیاب، تہران، 1347ھ

* عبدالقدّوس انصاری، آثارالمدینة المنوّرة، دمشق 1353ھ / 1934ع‍۔

*محمدلبیب بتنونی، الرحلة الحجازیة ، قاہرہ 1329ھ، ص256ـ257.

*علی بن ابراہیم حلبی، السّیرة الحلبیة، بیروت، بی‌تا.

*علی بن عبداللہ سمہودی، وفاءالوفا ، قاہرہ، 1326ھ / 1908ع‍، ص78ـ104۔

*خلیل بن ایبک صفدی، کتاب الوافی بالوفیات، Wiesbaden، 1381ھ ش / 1408ھ ق/ 1962ع‍ ـ 1988ع‍

*احمدبن عبدالحمید عباسی، عمدة الاخبار فی مدینۃ المختار، دمشق 1371ھ / 1951ع‍، ص93ـ102.

*عبدالحق بن سیف الدین عبدالحق دہلوی، جذب القلوب الی دیارالمحبوب، کانپور 1311ھ / 1893ع‍، ص149ـ173.

*یوسف عبدالرزاق، معالم دارالہجرة ، قاہرہ، بی‌تا، ص297ـ299۔

*محمدحسین بن مہدی فراہانی، سفرنامة میرزامحمدحسین حسینی فراہانی، چاپ مسعود گلزاری، تہران 1362 ش۔

*فرہاد میرزا قاجار، سفرنامة فرہاد میرزا معتمدالدولہ، چاپ اسماعیل نواب صفا، تہران 1366ھ ش۔

*ابوبکربن حسین مراغی، تحقیق النصرة، مدینہ 1374ھ / 1955ع‍، ص123ـ129 و الفہرست۔

*علی بن حسین مسعودی، مروج الذّہب و معادن الجوہر ، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، قاہرہ 1384ـ 1385ھ /  1964ـ1965ع‍۔

*محمدبن احمد مطری، التعریف بمااَنَسَتِ الحُجرة من معالم دارالہجرة، دمشق 1372ھ / 1952ع‍، ص36ـ40۔

*عبدالسلام ندوی، تاریخ الحرمین الشریفین (بہ زبان اردو)، پندی بہاءالدین 1342ھ / 1932ع‍، ص209، 218۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

انگریزی مآخذ

.R. F. Burton,Burckhardt, Travels in Arabia, London 1829.

.LeonePilgrimage to el-Medinah and Meccah, London 1855.

.Caetani, Annali dell Islam, Milano 1905-1926.

.A. J. Wensinck, Mohammedcities of Arabia , New York 1928.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110


[1]۔ نقشۂ مدینہ، "سالنامۂ اسلام" ج2، ص173 میں شائع کیا ہے۔

[2]۔ ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج1، ص81۔

[3]۔ ابن اثير، علی بن أبی الکرم، أُسُد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ، ج3، ص387؛ ابن زبالہ، تاریخ المدینہ، بحوالۂ السمہودی، علی بن احمد، وفاء الوفاء، ج3، ص914۔994۔

[4]۔ المسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج 3، ص297۔

[5]۔ حاکم نیسابوری، مستدرک علی الصحیحین، ج2،ص318؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، ج3، ص295۔

[6]۔ یوسف الہاجری، البقیع، ص37؛ ابراہیم رفعت پاشا، مرآۃ الحرمین، ص327؛ رسول جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص99؛ سید احمد آل یاسین، تاریخ المعالم المدنیۃ المنوّرۃ، ص245؛ شمس الدین الذہبی، محمد بن أحمد، طبقات القراء، ج2، ص330؛ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علي، تہذیب التہذیب، ج10، ص407۔

[7]۔ العاملی، سید محسن امین، کشف الارتیاب فی أتباعِ محمد بن عبدالوہاب، ص55۔

[8]۔ حلبی ،سیره حلبی، ج 3، ص343.

[9]۔ سفرنامۃ ابن بطوطہ، ج1، ص128۔

[10]۔ الصفدی، صلاح الدين خليل بن ایبک، الوافی بالوفیات، ج4، ص103، ج11، ص127۔۔

[11]۔ سفرنامۂ فرہاد میرزا معتمد الدولہ، ص170ـ173، 190؛ سفرنامۂ میرزا محمد حسین حسینی فراہانی، ص228ـ 234۔

[12]۔ جان لوئیس برکھارٹ (Johann Ludwig (also known as John Lewis, Jean Louis) Burckhardt)، ولادت 24 نومبر 1784، وفات 15 اکتوبر 1817عیسوی، نے عرب کا مشہور سفر نامہ، سفر نامہ حجاز لکھا۔

[13]۔ برکھارٹ، (فارسی ترجمہ) سفرنامہ حجاز ص222 تا 226۔

[14]۔ العاملی، کشف الارتیاب،ص 60۔

[15]۔ جعفر الخلیلی، موسوعة العتبات المقدسۃ، ج3، ص329۔

[16]۔ مجلۂ تراثنا ، سال چہارم ، شوال 1409ھ، ص17۔