اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

9 اپریل 2024

5:54:17 PM
1450285

رمضان المبارک کے 31 دروس؛

ماہ مبارک رمضان کا تیسواں روزہ، تیسواں درس: ولایت پذیری

ارشاد ربانی ہے: "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ؛ بےشک تمہارا سرپرست اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ خیرات دیتے ہیں جبکہ رکوع میں کی حالت میں ہیں"۔

تیسواں درس

ولایت پذیری

ولایت پذیری کی ضرورت

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ؛ (1)

اے ایمان لانے والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں فرماں روائی کے حق دار ہیں"۔

آیت ولایت

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا:

"إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ؛ (2)

بےشک تمہارا سرپرست اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ خیرات دیتے ہیں جبکہ رکوع میں کی حالت میں ہیں"۔

آیت ولایت کی شان نزول

1۔ علی نیک کردار لوگوں کے قائد

مروی ہے کہ ایک دن عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) مسجد الحرام میں زمزم کے کنارے لوگوں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی احادیث نقل کررہے تھے، کہ اچانک ایک شخص - جس کے سر پر عمامہ تھا اور چہرے کو چھپائے ہوئے تھا - قریب آیا اور جب بھی ابن عباس حدیث نقل کرتے، وہ بھی "قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ)" کہہ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے حدیث نقل کرنے لگا۔

ابن عباس نے اس شخص کو قسم دلا کر کہا کہ وہ اپنا تعارف کرائے؛ چنانچہ اس نے چہرے سے نقاب ہٹایا اور کہا: اے لوگو! جو بھی مجھے نہیں پہچانتا، میں ابوذر غفاری ہوں اور میں نے اپنے ان کانوں سے سنا، اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں؛ اور ان دونوں آنکھوں سے دیکھا، اور اگر جھوٹ بولتا ہوں تو میری آنکھیں اندھی ہوں، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"عَلِيُّ قَائِدِ الْبَرَرَةِ وَ قَاتَلَ الْكَفَرَةُ مَنْصُورٍ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولُ مَنْ خَذَلَهُ؛ 

علی (علیہ السلام) نیکوکار اور نیک کردار لوگوں کے قائد و رہبر، اور کفار کے ہلاک کرنے والے ہیں، نصرت ہوگی اس کی جس نے ان کی نصرت کی اور تنہا رہے گا وہ جس نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا"۔

ابو ذر (رضي اللہ عنہ) نے مزید کہا: ایک روز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ نماز ظہر پڑھ رہا تھا، ایک سائل مسجد میں داخل ہؤا اور لوگوں سے مدد مانگی لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی، اس شخص نے اپنے آسمان کی طرف اٹھا لئے اور گڑگڑا کر کہا:

"اللَّهُمَّ اشْهَدْ إِنِّي سَأَلْتُ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ فَلَمْ يُعْطِنِي أَحَدٌ شَيْئاً؛ 

اے میرے معبود! تو گواہی دے، کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی مسجد میں سوال کیا لیکن کسی نے مجھ کچھ نہیں دیا"۔

اسی اثناء میں علی (علیہ السلام)، جو رکوع کی حالت میں تھے، نے اپنے دائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی (چھنگلی) سے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جس میں آپ نے انگشتری پہنی ہوئی تھی؛ سائل قریب آیا اور انگوٹھی آپ کی انگلی سے اتار دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: اے میرے معبود! میرے بھائی موسیٰ (علیہ السلام) نے تجھ سے التجا کی:

"قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي * وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي * وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي * يَفْقَهُوا قَوْلِي * وَاجْعَل لِّي وَزِيراً مِّنْ أَهْلِي * هَارُونَ أَخِي * اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي * وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي؛ (3)

کہا: پروردگارا! میرے سینے کو کشادہ کر دے اور میرے لئے میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ وہ لوگ میری بات سمجھ لیں اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے قرار دے [یعنی] میرے بھائی ہارون کو [تو] اس کے ذریعے میری پشت کو مضبوط [اور میری پشت پناہی] کردے اور انہیں میرے کام میں شریک کر دے"۔

تو اے میرے معبود! میں محمد، تیرا برگزیدہ پیغمبر ہوں، میرا سینہ کشادہ کردے، کاموں کے میرے لئے آسان کردے، اور میرے کنبے سے علی کو میرا وزیر قرار دے کہ ان کے ذریعے سے میری پشت مضبوط اور محکم ہوجائے"۔

ابوذر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دعا ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی، کہ جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اورعرض کیا:

"يَا مُحَمَّدُ اقْرَأْ، فَقَالَ: وَ مَا أَقْرَأُ؟ قَالَ: اقْرَأْ: "إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ؛ (4)

اے محمد! پڑھ لیجئے، تو عرض کیا: کیا پڑھوں، عرض کیا پڑھ لیجئے: "بلاشبہ تمہارا حاکم و سر پرست اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ خیرات دیتے ہیں اس حالت میں کہ وہ [نماز کے] رکوع میں ہیں"۔

2۔ ولی اور مولا کے معنی دوست؟!

کچھ لوگ قرآن کے ظواہر کو حجت سمجھتے ہیں؛ مثال کے طور پر وہ "الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى؛ (5) کے معنی میں کہتے ہیں: "جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے"۔ (6) یا "أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ" (7) کے ترجمے میں لکھتے ہیں: "کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا" (8) یعنی ظواہر قرآن کی رعایت کے بہانے تجسیم تک کا ارتکاب کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق تأویل قرآن جائز نہیں ہے لیکن کے باوجود، آیتِ ولایت سمیت اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کی عصمت اور ولایت امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہونے والی آیات میں "تأویل" کرتے ہیں۔ مثال کے طول پر آیت ولایت میں لفظ "ولی" سے "دوست" مراد لیتے ہیں، جو عقلی اور نقلی لحاظ سے ناقابل قبول ہے؛ اور اس سلسلے دستیاب کتب اور مقالات میں تشریحات اور وضاحتیں موجود ہیں۔ حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر غدید خم کے مقام پر تین دن تک ہزاروں مسلمانوں کو شدید گرمی میں ٹہرانا اور پھر یہ اعلان کرنا کہ "جس کا میں دوست ہوں اس کے علی بھی دوست ہیں"، عقل کے خلاف اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر بلا جواز الزام، اور معاذ اللہ عصمتِ عالمِ امکان پر کم فہمی کا الزام اور توہین رسالت ہے۔ چنانچہ اس حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا دین اور عقل کا تقاضا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیر المؤمنین کی ولایت و وصایت کا اعلان کیا ہے۔

3۔ روایتِ ولایت کے راوی معتبر

حدیث ولایت کو ابو ذر، ابن عباس، عمار یاسر، جابر بن عبد اللہ انصاری، انس بن مالک، بلال حبشی (رضی اللہ عنہم) سمیت 10 راویوں نے نقل کیا ہے اور شیعہ اور سنی کے ہاں یہ شان نزول مُتَّفَقٌ علیہ ہے۔ (9)

4۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا اعلان غدیر سے پہلے

عمار یاسر (سلام اللہ علیہ) کہتے ہیں: انگوٹھی کے واقعے کے بعد آیت ولایت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آیت کریمہ ہمیں پڑھ کر سنائی اور فرمایا:

"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؛ (10)

جس کا میں سرپرست ہوں، تو علی بھی اس کے سرپرست ہیں، اے خدا! تو دوست رکھ اسے جو علی کو دوست رکھے، اور دشمن رکھ اسے جو علی کی دشمنی کرے"۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے غدیر خم میں اعلان ولایت کے وقت آیت ولایت (11) کی تلاوت فرمائی، (12) اور امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے بھی اپنی حقانیت کے اثبات کے لئے بارہا اس آیت کا حوالہ دیا۔ (13) ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) اس آیت کے نزول، نیز غدیر خم کے عینی شاہداور آیت ولایت کی شان نزول کے راوی ہیں۔ (14)

5۔ رکوع کی حالت میں صدقہ دینے والے / ولایت کا اعلان اور سلسلۂ امامت

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے خدائے بزرگ و برتر کے قول (بلاشبہ تمہارا حاکم و سر پرست اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے...) کے بارے میں فرمایا:

"«انما» یعنی خدا تم پر تم سے زیادہ اختیار رکھتا ہے اور تم سے زیادہ حقدار ہے تمہارے کاموں اور تمہاری جان اور تمہارے مال پر زیادہ اختیار رکھتا ہے، اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان لائے ہیں یعنی علی اور اولاد علی (علیہم السلام) ... جو کہ امام ہیں روز قیامت تک؛ اور پھر خدائے بزرگ و برتر نے توصیف کی ان کی اور فرمایا "جو نماز ادا کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ و خیرات دیتے ہیں"؛ امیر المؤمنین (علیہ السلام) نماز ظہر پڑھ رہے تھے، دو رکعت نماز پڑھ چکے تھے اور رکوع کی حالت میں تھے ... جبکہ قیمتی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کی قیمت 1000 دینار تھی، اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے بطور تحفہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں بھجوائی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ کو اوڑھائی تھی - کہ اسی وقت ایک سائل آیا اور کہا: سلام ہو آپ پر اے ولی خدا! جو مؤمنین پر ان سے زیادہ مقدم اور ان پر زیادہ اختیار رکھتے ہیں! اس فقیر کو صدقہ عطا فرمایئے، امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے وہ چادر اس شخص کے لئے پھینک دی اور ہاتھ سے اشارہ کرکے فرمایا: کہ اسے اٹھا لے۔ تو خدائے بزرگ و برتر نے اس آیت کو آپ کی شان میں نازل فرمایا؛ اور آپ کی اولاد کے صدقے کو آپ کی ولایت و امامت کی تصدیق سے متصل کر دیا؛ چنانچہ آپ کی اولاد میں سے جو بھی رتبۂ امامت تک پہنچے گا، وہ بھی اسی صفت کا حامل ہوگا جس کے حامل امیر المؤمنین (علیہ السلام) ہیں، یعنی وہ بھی رکوع کی حالت میں صدقہ دیتے ہیں اور جس سائل نے امیر المؤمنین (علیہ السلام) سے مدد مانگی تھی، وہ اللہ کے فرشتوں میں سے تھا اور جو آپ کی اولاد میں سے آنے والے ائمہ سے سوال کریں گے وہ بھی ملائکہ میں سے ہونگے"۔ (15)

6۔ "اوالو الامر" کا صحیح تعارف

علی بن ابراہیم اپنے والد سے، وہ ابن ابی عمیر سے، وہ عمر بن اُذَینَہ سے، وہ زرارہ اور فضیل بن یسار اور بکیر بن اعین اور محمد بن مسلم اور برید بن معاویہ اور ابوجارود سے، اور وہ سب امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

 "خدائے بزرگ و برتر نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم دیا اور آیت "بلاشبہ تمہارا حاکم و سر پرست اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ خیرات دیتے ہیں اس حالت میں کہ وہ [نماز کے] رکوع میں ہیں" (16) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر نازل فرمایا اور "اولوا الامر" (فرماں روائی کے حق داروں) کی ولایت کو واجب کردیا۔ لیکن "لوگ نہیں سمجھے کہ ولایت کیا ہے؟" اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حکم دیا کہ لوگوں کے لئے "ولایت" کی تفسیر و تشریح کریں؛ جیسا کہ آنحضرت نے ان کے لئے نماز، زکوٰۃ، روزے اور حج کی تفسیر فرمائی تھی؛ تو جب اللہ کی طرف سے [ولایت علویہ کے اعلان کا] یہ حکم آیا تو آپ فکرمند ہو گئے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ دین سے پلٹ کر آپ کو جھٹلا نہ دیں؛ چنانچہ آپ کا سینہ تنگ ہوگیا، اور اللہ سے رجوع کیا تو اللہ عزّ و جلّ نے وحی بھیج دی اور فرمایا:

"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ؛ (17)

"اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے [گویا] اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا"؛

اور آنحضرت نے اللہ (تعالٰی ذِکْرُہُ) کے حکم کا اعلان فرمایا؛ اور غدیر خم کے دن امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی ولایت کو قائم کردیا؛ اور پھر نماز با جماعت کی ندا دلوائی؛ اور لوگوں کو حکم دیا کہ "ہر شاہد [اور حاضر] یہ پیغام بھی غائب کو بھی پہنچا دے۔

عمر بن اُذَینَہ کہتے ہیں کہ ابو جارود کے سوا باقی تمام مذکورہ راویوں نے روایت کی ہے کہ: "اور امام محمد باقر (علیہ السلا) نے فرمایا:

"وَكَانَتِ الْفَرِيضَةُ تَنْزِلُ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ الْأُخْرَى وَكَانَتِ الْوَلَايَةُ آخِرَ الْفَرَائِضِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي؛ (18)

[ابتدائے بعثت سے] اللہ کے فرائض اور واجبات یکے بعد دیگرے نازل ہوتے رہے اور "امر ولایت سب سے آخری فریضہ تھا" جس کے بارے میں خدائے بزرگ و برتر نے اس آیت کریمہ کو اتارا جس میں خدائے متعال نے ارشاد فرمایا: "آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی"۔

قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عَلَيهِ السَّلَامُ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا أُنْزِلُ عَلَيْكُمْ بَعْدَ هَذِهِ فَرِيضَةً قَدْ أَكْمَلْتُ لَكُمُ الْفَرَائِضَ؛ (19)

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: اللہ عزّ و جلّ ارشاد فرماتا ہے: اس کے بعد میں تم پر کوئی فریضہ نہيں اتاروں گا، فرائض و واحبات کو میں نے تمہارے لئے مکمل کرلیا"۔

7. گواہ بارہ ہزار، مگر حق نہ لیا جاسکا!

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَقَدْ حَضَرَ الْغَدِيرَ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ رَجُلٍ يَشْهَدُونَ لَعَلَيِّ بْنِ أَبِي طالبٍ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) فَمَا قَدَرَ عَلَى أَخْذِ حَقِّهِ وَإِنَّ أَحَدَكُمْ يَكُونُ لَهُ اَلْمَالُ وَلَهُ شَاهِدَانِ فَيَأْخُذُ حَقَّهُ؛ (20)

یقیناً غدیر میں حاضر بارہ ہزار افراد وہ تھے جو علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے اعلان ولایت کی گواہی کے لئے تیار تھے مگر آپ اپنا حق [غاصبوں] سے نہیں لے سکے، حالانکہ اگر کسی کے پاس تم میں سے کسی کا کوئی مال ہو اور اس کے پاس دو گواہ بھی ہوں تو وہ اپنا حق [بآسانی] حاصل کر لیتا ہے"۔

8۔ ولایت اہل بیت (علیہم السلام)

سلیم بن قیس ہلالی کہتے ہیں:

"میں نے امیر المؤمنین (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا، جبکہ ایک مرد آپ کے پاس حاضر ہؤا جس نے کہا:

کم از کم چیز، جس کے بدولت انسان مؤمنین میں شمار ہوتا ہے، کیا ہے؟ اور کم از کم چیز، جس کی وجہ سے انسان کافر بن جاتا ہے، کیا ہے؟ اور کم از کم چیز جس کی وجہ سے انسان گمراہ ہوجاتا ہے، کیا ہے؟ امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: اب جبکہ تم نے پوچھا تو غور سے سنو اور سمجھو:

۔ کم از کم چیز جس کی وجہ سے انسان مؤمن بن جاتا ہے، یہ ہے کہ اللہ خود ہی اس کی اپنی معرفت (پہچان) کرائے، تو وہ بندہ اللہ کی فرمانبرداری کا اقرار کرے، اور پھر خدا اس کو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی پہچان کرا دے اور وہ نبی کی اطاعت کا بھی اقرار کرے؛ نیز پھر اس کو امام اور زمین پر اپنی حجت اور اپنے بندوں پر متعین اپنے شاہد کی معرفت کرا دے، اور وہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا بھی اقرار کرے۔ (21)

(سليم کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: یا امیر المؤمنین! اگر وہ شخص آپ کے ان ارشادات کے سوا کچھ بھی نہ جانتا ہو [پھر]؟

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: تو وہ صرف اس صورت میں [مؤمن ہوگا] کہ اس کو خدا، پیغمبر اور امام جو بھی حکم دیں، وہ عمل کرے اور جس چیز سے روک دیں، اس سے باز رہے۔  

فرمایا: اور کم از کم چیز جس کی وجہ سے انسان کافر ہو جاتا ہے یہ ہے کہ، وہ دعویٰ کرے کہ جس چیز سے اللہ نے اسے منع کیا ہے، اس پر عمل کرنے کا حکم خدا نے دیا ہے، (یعنی دین میں بدعت گذاری کرے)، اور اسے اپنے بطور مذہب و روش اختیار کرے اور اسی پر قائم رہے، اور دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کے حکم پر اسی کی عبادت اور بندگی کر رہا ہے؛ حالانکہ بلا شبہ وہ شیطان کی بندگی کررہا ہے۔

اور کم از کم چیز، جس کے واسطے سے انسان گمراہ ہوجاتا ہے یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی حجتوں اور بندوں کے اوپر اس کے شاہدوں کو نہ پہچانے (وہ حُجَج اور شاہدین) جن کی اطاعت کا حکم اسے خدائے بزرگ و برتر نے دیا ہے، اور اس کی ولایت کو واجب کیا ہے۔  

(سلیم کہتے ہیں:) میں نے عرض کیا: یا امیر المؤمنین! ان (اللہ کی حجتوں اور بندوں پر اس کے شاہدوں) کی توصیف فرمائیں۔ تو امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدائے عزّ و جلّ اپنا اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا قرین (اور ہمدم) قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ؛ (22)

اے ایمان لانے والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں فرماں روائی کے حق دار ہیں"۔

میں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین! خدا مجھے آپ پر قربان فرمائے، میرے لئے واضح تر کیجئے۔

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے وصال کے دن اپنے خطبے کے ضمن میں فرمایا:

"إِنِّى قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِى مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِى أَهْلَ بَيْتِى فَإِنَّ اللَّطِيفَ الْخَبِيرَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ كَهَاتَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ مُسَبِّحَتَيْهِ وَلَا أَقُولُ كَهَاتَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ الْمُسَبِّحَةِ وَالْوُسْطَى فَتَسْبِقَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى فَتَمَسَّكُوا بِهِمَا لَا تَزِلُّوا وَلَا تَضِلُّوا وَلَا تَقَدَّمُوهُمْ فَتَضِلُّوا؛ (23)

یقیناً، میں دو چیزیں تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں، تم ہرگز گمراہی سے دوچار نہ ہو، جب تک کہ تم ان دو کا دامن تھامے رہوگے؛ [اور وہ دو گراں قدر چیزیں] کتاب خدا اور میری عترت (میرا خاندان) ہیں۔ کیونکہ خدائے لطیف و آگاہ نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ یہ دو ہرگز ہرگز جدا نہ ہونگے جب تک کہ حوض کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں، اور (ان کا باہم ہونا) ان دو انگلیوں کی طرح ہے (جو برابر ہیں) اور شہادت والی دو انگلیوں کو ملا لیا، اور میں یہ نہیں کہتا کہ ان دو انگلیوں کی طرح ہیں کہ ان میں ایک دوسری پر سبقت لے - اور شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی کو ساتھ ملایا - چنانچہ تم ان دونوں کی پیروی کرو تا کہ پھسلو نہیں، اور گمراہ نہ ہو، اور ان سے آگے نہ بڑھو، کہ اس صورت میں [بھی] گمراہ ہوجاؤگے"۔

9۔ اسلام کی اساس

امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصَّوْمِ وَالْحَجِّ وَالْوَلَايَةِ وَلَمْ يُنَادَ بِشَيْءٍ كَمَا نُودِيَ بِالْوَلَايَةِ؛ (24)

اسلام کی اساس پانچ ستونوں پر استوار کی گئی ہے: نماز، زکوٰۃ، روزے، حج پر اور ولایت پر؛ اور کسی چیز کے لئے اس قدر نہیں پکارا گیا جتنا کہ [روز میثاق یا روز غدیر] ولایت کے لئے پکارا گیا"۔

10۔ امام کی بعض خصوصیات / ولایت دینی واجبات کی نگہبان

 امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"اللہ کے فرائض - جنہیں اس نے اپنے بندوں پر واجب کیا ہے - کی حدود، پانچ بڑے فرائض ہیں: نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ؛ اور "ولایت" جو اول الذکر چار فرائض کی محافظ اور تمام فرائض اور سنتوں اور دین اور شرائع کے تمام امور کا لازمہ ہے۔

اور اس امام کی ولایت کی حدود - جس کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب ہے - یہ ہیں کہ بندہ جان لے کہ وہ ہر قسم کی خطا اور لغزش اور تمام کبائر اور صغائر سے محفوظ اور معصوم ہے، کبھی لغزش پھسلن سے دوچار نہیں ہوتا، خطا کا ارتکاب نہیں کرتا، کسی ناسازگار اور ناپسندیدہ کام میں مصروف نہیں ہوتا جو دین کی تباہی کا سبب بنے اور نہ ہی کھیل کود میں مصروف ہوتا ہے۔

اور یہ کہ وہ لوگوں کے درمیان واجبات اور مستحبات کا سب سے بڑا عالم و صاحب فکر و دانش ہے؛ اور دنیا والوں سے بےنیاز ہے لیکن لوگ اس کے محتاج ہیں؛ اور انسانوں میں سے سے زیادہ دلیر اور شجاع ہے۔ اور امام کی عصمت کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر معصوم نہ ہو محفوظ نہیں ہوگا اس سے کہ کچھ ایسے کاموں میں ملوث ہوجائے اور ایسے اعمال انجام دے جو لوگ انجام دیتے ہیں، اور شہوتوں سے مغلوب ہوکر حرام کا ارتکاب کرے۔ اور اگر ایسا ہؤا تو ایسے کسی شخص کا ہونا ضروری ہوگا جو اللہ کی حدود کو اس کے اوپر نافذ کرے؛ جبکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ جو شخص لوگوں کا امام و پیشوا ہے اور اللہ کے احکام کو لوگوں تک پہنچاتا ہے، وہ خود گنہگار ہو...

اور یہ کہ اسے سب سے زیادہ شجاع اور دلیر ہونا چاہئے، اس لئے ہے کہ امام مسلمانوں کا عسکری اور معاشرتی مرکز (یا مرکزِ اعصاب) ہے اور جنگی محاذ میں لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور اگر وہ تمام لوگوں سے زیادہ شجاع اور دلیر نہ ہو، تو کوئی اطمینان نہیں ہے کہ وہ میدان جنگ چھوڑ کر فرار ہو جائے اور مسلمانوں کو ہلاکت اور تباہی میں ڈال دے اور خدا کے غضب کا مستحق ٹہرے، جیسا کہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا: 

"وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاء بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ؛ (25)

اور جو [جنگ میں] دشمن سے پیٹھ پھیرائے گا؛ - بجز تدبیر جنگ کے لئے کسی سمت بنتے ہوئے یا [اپنی فوج کے] کسی گروہ کی طرف پناہ لیتے ہوئے - تو وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گا"۔ (26)

11۔ ولایت فقیہ

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ كَانَ مِنْكُمْ قَدْ رَوَى حَدِيثَنَا وَنَظَرَ فِي حَلَالِنَا وَحَرَامِنَا وَعَرَفَ أَحْكَامَنَا فَليَرضُوْا بِهِ حَكَماً فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذا حَكَمَ بِحُكمِنا فَلَم يُقبَل مِنهَ، فَإنّما استُخِفّ بِحُكمِ اللهِ، وَعَلَينا رُدَّ، وَالرَّادُّ عَلَينا الرَّادُّ عَلَى اللهَ، وَهُوَ عَلى حَدِّ الشِّركِ بِاللهِ؛ (27)

تم میں سے وہ فرد جو ہماری حدیثیں بیان کرتا ہے اور ہمارے حلال و حرام میں صاحب رائے ہے اور ہمارے احکام سے آگاہ ہے، تو عوام کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کے حکم یا فیصلے پر راضی و خوشنود ہونا چاہئے، پس میں نے اس کو تمہارے اوپر حاکم قرار دیا ہے۔ تو جب وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے / حکم دے اور اس کا حکم قبول نہ کیا جائے تو اللہ کے حکم کو نطر انداز کیا گیا ہے اور ہمیں رد کیا گیا ہے اور جس نے ہمیں رد کیا اس نے خدا کو رد کیا اور جو اس کو رد کرے وہ شرک باللہ کی حد پر ہے"۔

ولایت پذیری اور مولا کی اطاعت کے ثمرات

1۔ بہترین انعام کا استحقاق

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَنا عَلَی النَّاسِ حَقُّ الطَّاعَةِ وَالْوِلايَةِ وَلَهُمْ مِنَ اللهِ سُبْحانَهُ حُسْنُ الْجَزاءِ؛ (28)

ہمارے لئے لوگوں پر اطاعت اور ولایت کا حق قرار دیا گیا ہے اور ان کے لئے [اس کے عوض] اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جانب سے بہترین جزاء و پاداش ہے"۔ 

2۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی قربت

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"أوْلَی النَّاسِ بِنا مَنْ وَالاَنَا؛ (29)

ہمارے نزدیک سب سے قریبی اور برتر شخص وہ ہے جو ہماری ولایت کو قبول کرے [ہماری امامت کو قبول کرے اور ہم سے محبت رکھے]"۔

3۔ تمام نیکیوں اور بھلائیوں سے یکجا بہرہ وری

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِ بِمَعْرِفَةِ أَهْلِ بَيْتِي وَوَلَايَتِهِمْ فَقَدْ جَمَعَ اللَّهُ لَهُ الْخَيْرُ كُلَّهُ؛ (30)

جس شخص پر، اللہ نے میرے خاندان کی معرفت اور ولایت کی نعمت عطا کرکے، احسان کیا تو یقیناً اس نے اس کے تمام تر نیکیوں [اور بھلائیوں] کو یکجا کرکے عطا کیا ہے"۔ 

4۔ نجات اور کامیابی

الف: سبقت لینا:

  امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنِ اتَّبَعَ أَمَرَنَا سَبَقَ؛ (31)

جس نے ہماری پیروی کی، وہ آگے بڑھا"۔

ب: ولایت کی کشتی سے تَخَلُّف میں ہلاکت:

  امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:  

"مَنْ رَكِبَ غَيْرَ سَفِينَتِنَا غَرِقَ؛ (32)

جو ہماری کشتی کے سوا کسی اور کشتی پر سوار ہؤا، ڈوب گیا"۔

ج: ولایت سے تَمَسُّک نجات کا ضامن

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ تَمَسَّكَ بِنَا لَحِقَ وَمَنْ سَلَكَ غَيْرَ طَرِيقِنَا غَرِقَ؛ (33]

جس نے ہماری پیروی کی وہ اپنے مقصد کو پہنچا اور جو ہمارے راستے کے بغیر کسی راستے پر گامزن ہؤا، ڈوب گیا"۔

*****

تیسواں چراغ

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"الثَّنَاءُ بِأَكْثَرَ مِنَ الِاسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ وَالتَّقْصِيرُ عَنِ الِاسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ؛ (34)

[کسی کی] استحقاق سے زیادہ تعریف و تمجید چاپلوسی ہے اور استحقاق کے مطابق تعریف و تمجید سے کوتاہی کرنا، عجز اور بے بسی ہے"۔ 

*****

ماہ مبارک رمضان کے تیسویں روز کی دعا

بسم الله الرحمن الرحیم

"اللّٰهُمَّ اجْعَلْ صِيامِى فِيهِ بِالشُّكْرِ وَالْقَبُولِ عَلَىٰ مَا تَرْضاهُ وَيَرْضاهُ الرَّسُولُ، مُحْكَمَةً فُرُوعُهُ بِالْأُصُولِ، بِحَقِّ سَيِّدِنا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِينَ، وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِينَ؛

اے اللہ، اس دن میرے روزے کو ـ تیرے اور تیرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رضا اور پسندیدگی کی رو سے، ـ قدردانی اور قبولیت کا درجہ عطا فرما، جبکہ اس کی شاخیں اس کے اصولوں پر استوار ہوں، ہمارے سید و سرور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آپ کے پاک خاندان کے صدقے، اور تمام تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہیں، جو جہانوں کا پروردگار ہے"۔

*******

****

**

*

1۔ سورہ نساء، آیت 59۔

2۔ سورہ مائدہ، آیت 55۔

3۔ سورہ طہ، آیات 25 تا 32۔

4۔ احمد بن محمد ثَعلَبی نیشابوری، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن (تفسیر الثعلبی)، ج4، ص80-81؛ علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان (ط بیروت 1997ء)، ج6، ص21؛ مكارم شيرازى، تفسیر نمونہ، ج4، ص419 تا 421؛ السيد هاشم البحراني، غايۃ المرام وحجۃ الخصام، ج2، ص6۔

5۔ سورہ طٰہٰ، آیت 5۔

6۔ محمد جونا گڑھی کا ترجمۂ قرآن۔

7۔ سورہ انشراح (یا سورہ الم نشرح) آیت 1۔

8۔ محمد جونا گڑھی کا ترجمۂ قرآن۔

9۔ علامہ عبدالحسین امینی، الغدير، ج2، ص52؛ شہید القاضی سید نور اللہ حسینی مرعشی شوشتری، حقاق الحق وازهاق الباطل، ج2، ص400؛ المتقی الہندی، كنز العمّال، ج6، ص391۔

10۔ محمد بن مسعود بن عياش العياشي السلمي السمرقندي، تفسير العیاشی، ج1، ص327؛ علامہ سید محمد حسین طباطبائی، تفسير الميزان، ج6، صفحہ 5 اور بعد کے صفحات۔

11۔ سورہ مائدہ، آیت 55۔

12۔ محسن فیض الكاشانی، محمد بن شاه مرتضی، تفسير الصافي، (الاصفی فی تفسیر القرآن)

13۔ علامہ سید محمد حسین طباطبائی، تفسير الميزان، ذیل الآیہ۔

14۔ امین الاسلام الفضل بن الحسن الطبرسی، تفسير مجمع البيان؛ احمد بن محمد ثَعلَبی نیشابوری، الکشف والبیان عن تفسیر القرآن (تفسیر الثعلبی) و دیگر شیعہ اور سنی تفاسیر۔

15۔ علامہ کلینی، الکافی، ج1، ص288-289۔

16۔ سورہ مائدہ، آیت 55۔

17۔ سورہ مائدہ، آیت 67۔

18۔ سورہ مائدہ، آیت 3۔

19۔ علامہ کلینی، الکافی، ج1، ص289۔

20۔ محمد بن مسعود بن عياش السلمي السمرقندي، تفسیر العیاشی، ج1، ص329؛ الشيخ عبد على بن جمعه العروسى الحويزى، تفسير نورالثقلين، ج1، ص648۔

21۔ دعائے عصرِ غیبت: "اللّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْكَ وَلَمْ أَعْرِفْ رَسُولَكَ، اللّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ، اللّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي۔۔۔ اے معبود! مجھ کو اپنی ذات کی معرفت کرا کیونکہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے رسول کو نہ پہچان سکوں گا؛ اے معبود مجھے اپنے رسول کی معرفت کرا کیونکہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی تو میں تیری حجت کو نہ پہچان پاؤں گا؛ اے معبود: مجھے اپنی حجت کی معرفت کرا کیونکہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہ کرائی تو میں اپنے دین سے بھٹک جاؤں گا۔۔۔ (سید ابن طاؤس، جمال الاسبوع (ط ایران 1371ھ ش)، ص315۔)

22۔ سورہ نساء، آیت 59۔

23۔ علامہ کلینی، الکافی، ج2، ص414-415؛ سلیمان القندوزی الحنفی، ینابیع المودّة، ص117۔

24۔ علامہ کلینی، الکافی، ج2، ص21۔

25۔ سورہ انفال، آیت 16۔

26۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج65، ص388 تا 391۔

27۔ علامہ کلینی، الکافی، ج1، ص67؛ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج18، ص98۔

28۔ تميمى آمدى، غرر الحکم، ج5، ص129.

29۔ تميمى آمدى، غرر الحکم، ج2، ص483۔

30۔ شیخ صدوق، الامالی، ص561۔

31۔ تمیمی آمدی، تصنیف غررالحکم، ص116۔

32۔ وہی ماخذ۔

33۔ شیخ صدوق، الخصال، ص627۔

34۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 347۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110