اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

8 اپریل 2024

5:06:24 PM
1450022

رمضان المبارک کے 31 دروس؛

ماہ مبارک رمضان کا انتیسواں روزہ، انتیسواں درس: تہمت

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا: "جو کسی کا پیٹھ پیچھے [برائی سے] تذکرہ کرے ایسی چیز کے واسطے سے جو اس میں ہے اور ان چیزوں میں سے ہے جسے لوگ بھی جانتے ہیں، تو اس نے غیبت نہیں کی ہے، اور اگر کسی نے اس کا پیٹھ پیچھے تذکرہ کیا ایسی چیز کے واسطے سے جو اس میں ہے، مگر لوگ اسے نہیں جانتے، تو اس نے غیبت کی ہے۔ اور اگر کسی نے کسی کا تذکرہ کیا ایسی چیز کے واسطے سے جو اس میں نہیں ہے، تو اس نے بہتان لگایا ہے اور تہمت لگا‏ئی ہے"۔

انتیسواں درس

تہمت

تہمت آیات و روایات کے آئینے میں

1۔ تہمت کیا ہے؟

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ ذَكَرَ رَجُلاً مِنْ خَلْفِهِ بِمَا هُوَ فِيهِ مِمَّا عَرَفَهُ اَلنَّاسُ لَمْ يَغْتَبْهُ وَمَنْ ذَكَرَهُ مِنْ خَلْفِهِ بِمَا هُوَ فِيهِ مِمَّا لاَ يَعْرِفُهُ اَلنَّاسُ اِغْتَابَهُ وَمَنْ ذَكَرَهُ بِمَا لَيْسَ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَهُ؛ (1)

جو کسی کا پیٹھ پیچھے [برائی سے] تذکرہ کرے ایسی چیز کے واسطے سے جو اس میں ہے اور ان چیزوں میں سے ہے جسے لوگ بھی جانتے ہیں، تو اس نے غیبت نہیں کی ہے، اور اگر کسی نے اس کا پیٹھ پیچھے تذکرہ کیا ایسی چیز کے واسطے سے جو اس میں ہے، مگر لوگ اسے نہیں جانتے، تو اس نے غیبت کی ہے۔ اور اگر کسی نے کسی کا تذکرہ کیا ایسی چیز کے واسطے سے جو اس میں نہیں ہے، تو اس نے بہتان لگایا ہے اور تہمت لگا‏ئی ہے"۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"الْغِيبَةُ أنْ تَقُولَ فِي أخِيكَ مَا هُوَ فِيهِ مِمَّا قَدْ سَتَرَهُ اللّهُ عَلَيهِ فَأَمَّا إِذَا قُلتَ مَا لَيسَ فِيهِ فَذَلِكَ قَولُ اللهِ " فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً؛ (2) - (3)

غیبت وہ ہے کہ اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہہ دو جو اس میں پائی جاتی ہے لیکن خدا نے اس کو چھپائے رکھا ہے [اور تم کھول رہے ہو]، لیکن اگر اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہہ دو جو اس میں نہیں ہے، تو یہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ: یقیناً اس نے ایک بڑے بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر لیا ہے"۔

2۔ بےگناہ پر بہتان، کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا:

"وَمَن يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْماً ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً؛ (4)

اور جو غلطی یا خطا کرے اور پھر اسے کسی بےگناہ کے سر منڈھ دے، یقیناً اس نے ایک بڑے بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر لیا [ہے]"۔ 

3۔ تہمت سب سے نازیبا عمل

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"لَا قُحَّةَ كَالبُهْتِ؛ (5)

کوئی بھی بےشرمی۔ بہتان لگانے کی طرح، نہیں ہے"۔

4۔ بہتان آسمان اور پہاڑوں سے زیادہ بھاری

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"اَلْبُهْتانُ عَلَى الْبَرِيءِ أَعْظَمُ مِنَ السُّمَاءِ؛ (6)

بےقصور شخص پر تہمت [کی برائی] آسمان سے عظیم تر ہے"۔

نیز امام صادق (ع) ایک حکیم کے حوالے سے فرماتے ہیں:

"اَلْبُهْتانُ عَلَى الْبَرِيءِ أَثقَلُ مِنْ جِبال راسِيَاتٍ؛ (7)

بے قصور پر بہتان [کا گناہ] اونچے پہاڑوں سے زیادہ بھاری ہے"۔

5۔ تہمت ایمان کو پگھلا دیتی ہے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا اتَّهَمَ الْمُؤْمِنُ أخاهُ إِنْماثَ الإیمَانُ مِنْ قَلْبِهِ كَمَا یَنْماثُ الْمِلْحُ فِي المَاءِ؛ (8)

ہرگاہ ایک مؤمن اپنے بھائی پر تہمت لگائے، ایمان اس کے دل سے اس طرح پگھل جاتا ہے جس طرح کہ پانی میں نمک"۔ 

6۔ بہتان اور آگ ٹیلا

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ بَهَتَ مُؤْمِناً أَوْ مُؤْمِنَةً أَوْ قَالَ فِيهِ مَا لَيْسَ فِيهِ أَقَامَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى تَلٍّ مِنْ نَارٍ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَهُ فِيهِ؛ (9)

جو کسی صاحب ایمان مرد یا عورت پر تہمت لگائے، یا اس کے بارے میں کچھ کہے جو اس میں نہیں ہے، اللہ اس کو روز قیامت، اس وقت تک، آگ کے ٹیلے پر کھڑا کردیتا ہے جب تک کہ وہ اس شخص کے بارے میں قول [تہمت] کی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوتا"۔

7۔ تہمت و بہتان کا ازالہ نہیں ہوتا

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"خَمْسٌ لَيْسَ لَهُنَّ كَفَّارَةٌ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ سُبْحَانَهُ وَقَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ أَوْ بَهْتُ مُؤْمِنٍ أَوِ الْفِرَارُ يَوْمَ الزَّحْفِ أَوْ يَمِينٌ صَابِرَةٌ يُقْتَطَعُ بِهَا مَالٌ بِغَيْرِ حَقٍّ؛ (10)

پانچ گناہ ایسے ہیں جن کا کوئی کفارہ نہیں ہے: خدا کے ساتھ شریک قرار دینا، کسی کا ناحق قتل، مؤمن پر بہتان لگانا، جہاد سے فرار جھوٹی قسم جس کے ذریعے دوسروں کا مال ناحق چھینا جاتا ہے"۔

8۔ بہتان کھلا ہؤا گناہ اور آزار و اذیت

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا:

"وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً؛ (11)

اور وہ جو مؤمن مردوں اور مؤمنہ عورتوں کو، کسی جرم کے بغیر، اذیت دیتے ہیں تو یقیناً انھوں نے بڑے بہتان اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر لیا ہے"۔

9۔ کسی پر لگی تہمت پر لوگوں کی ذمہ داری

خدائے متعال ام المؤمنین ماریہ قبطیہ پر بعض صحابیوں کی بہتان تراشی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

"وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ * يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَداً إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ؛ (12)

اور [اے صحابۂ رسول!] تم نے [افترا بازوں سے] ایسی بات سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ جائز نہیں ہے کہ ہم ایسی بات منہ سے نکالیں؟ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا؛ اگر تم سچے مؤمن ہو!"۔

10۔ بہتان کے ذریعے حق مہر واپس لینا ممنوع

خدائے متعال نے ارشاد فرمایا:

"وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْئاً أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَاناً وَإِثْماً مُّبِيناً؛ (13)

اور اگر ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ اختیار کرنا چاہو اور ان میں سے ایک کو بہت سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس مت لینا، کیا تم بہتان اور کھلے گناہ کے ساتھ اسے لینا چاہوگے؟

تہمت کے دنیاوی عواقب / تمہت سے بچاؤ کی ضرورت

الف۔ باہمی حرمتوں کا خاتمہ

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إِذَا اتَّهَمَ الْمُؤْمِنُ أخاهُ فِی دِینِهِ فَلا حُرْمَةَ بَینَهُما؛ (14)

جب ایک مؤمن اپنے دینی بھائی پر تہمت لگاتا ہے تو ان کی باہمی حرمت ختم ہوجاتی ہے (اور ان کے درمیان پردہ دری ہوجاتی ہے)"۔

ب۔ اہل تہمت کا ہم نشین تہمت کا زیادہ مستحق

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"أوْلَی النَّاسِ بِالتُّهْمَةِ مَنْ جالَسَ أَهْلَ التُّهْمَةِ؛ (15)

تہمت کا نشانہ بننے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جو تہمت والوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک رکھتا ہے"۔

ج۔ تہمت لگانے والا غیر محفوظ

امام زین العابدین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ رَمَى النَّاسَ بِمَا فِيهِمْ، رَمَوْهُ بِمَا لَيْسَ فِيهِ؛ (16)

جو شخص لوگوں کے بارے میں وہ بات کہے گا جو ان میں ہے، لوگ اس کے بارے میں وہ کچھ کہیں گے جو اس میں نہیں ہے"۔

د۔ تہمت کے مقامات سے پرہیز

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إيّاكَ وَمَواطِنَ التُّهْمَةِ وَالْمَجْلِسَ الْمَظْنُونَ بِهِ السُّوءُ؛ (17)

تم پر لازم ہے کہ ایسے مقامات سے دوری کرو جہاں [اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے] تہمت لگ سکتی ہے؛ اور ایسی مجالس سے بھی جن پر معاشرہ بدگمان ہے"۔

ہ۔ تہمت کے مقامات پر جانا تمہارا اپنا قصور

امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ وَضَعَ نَفْسَهُ مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِهِ الظَّنَّ؛ (18)

جو اپنے آپ کو تمہت کے مقام پر قرار دیتا ہے، وہ اپنے سوا کسی پر بھی ملامت نہ کرے"۔

نیز امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَنْ دَخَلَ مَوْضِعاً مِنْ مَوَاضِعِ التُّهَمَةِ فَاتُّهِمَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ؛ (19)

اگر کوئی شخص الزام لگانے کی جگہ پر داخل ہوتا ہے اور اس پر الزام لگایا جاتا ہے تو اسے صرف اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا"۔

*****

انتیسواں چراغ

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"مَاءُ وَجْهِكَ جَامِدٌ يُقْطِرُهُ السُّؤَالُ فَانْظُرْ عِنْدَ مَنْ تُقْطِرُهُ؛ (20)

تمہاری آبرو جمی ہوئی برف کی مانند ہے، اور سوال کرنا [مانگنا] اسے قطرہ قطرہ پگھلا دیتا ہے؛ تو دیکھ لو کہ جاکر اپنی آبرو کے قطرے کس کے پاس جا کر گرا دیتے ہو"۔

*****

ماہ مبارک رمضان کے انتیسویں روز کی دعا

بسم الله الرحمن الرحیم

"اللّٰهُمَّ غَشِّنِى فِيهِ بِالرَّحْمَةِ، وَارْزُقْنِى فِيهِ التَّوْفِيقَ وَالْعِصْمَةَ، وَطَهِّرْ قَلْبِى مِنْ غَياهِبِ التُّهَمَةِ، يَا رَحِيماً بِعِبادِهِ الْمُؤْمِنِينَ؛

اے معبود! مجھے اس مہینے میں مجھے اپنی رحمت کی چادر اوڑھا دے، اور مجھے توفیق اور حفاظت نفس عطا کر، اور میرے قلب کو تہمت کی ظلمتوں سے پاک کر دے، اے وہ جو بہت مہربان ہے اپنے بندوں پر"۔

*****

1۔ علامہ کلینی، الکافی، ج2، ص358۔

2۔ سورہ نساء، آیت 112۔

3۔ علامہ کلینی، وہی ماخذ۔

4۔ سورہ نساء، آیت 112۔

5۔ غررالحکم، ج1، (ترجمه فارسی)، ص172، ح1044۔

6۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج75، ص31۔

7۔ شیخ صدوق، الامالى، ص317۔

8۔ علامہ کلینی، الکافی، ج2، ص361۔

9۔ شیخ صدوق، عيون أخبار الرضا، ص37؛ علامہ مہدی نراقی، جامع السعادات، ج2، ص243۔

10۔ محمد بن حسین شریف الرضی، المَجازات النبویہ، ص365۔

11۔ سورہ احزاب، آیت 58۔

12۔ سورہ نور، آیات 16-17۔

13۔ سوره نساء، آیت 20.

14۔ علامہ کلینی، الکافی، ج2، ص361۔

15۔ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4، ص395۔

16۔ حسن بن محمد دیلمی، اعلام الدین، ص292۔

17۔ شیخ طوسی، الأمالي، ص7؛ بحار الانوار، ج75، ص90۔

18۔ نہج البلاغہ، حکمت 159۔

19۔ شیخ صدوق، الامالی، ص587؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج72، ص91۔

20۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر 346۔

۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔

110