اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
منگل

19 مارچ 2024

8:18:01 PM
1445607

طوفان الاقصی؛

تباہی جو بنیامین نیتن یاہو اسرائیل پر لایا! / غزہ کی ویرانی اور 30 ہزار فلسطینیوں کا قتل عام یہودیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے; تھامس فریڈمین

مشہور امریکی تجزیہ کار اور مصنف تھامس فریڈمین (Thomas Friedman) نے نیتن یاہو کے اقدامات پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا: اسرائیل کو اپنے مختلف النوع دشمنوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، نیتن یاہو جو آفت اسرائیل پر لایا کوئی دشمن نہیں لایا؛ یہ تھامس فریڈمین کے ایک کالم سے ماخوذ الفاظ کا آزاد ترجمہ ہے۔

مشہور امریکی تجزیہ کار اور مصنف تھامس فریڈمین (Thomas Friedman) نے نیتن یاہو کے اقدامات پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا: اسرائیل کو اپنے مختلف النوع دشمنوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل کو آج دنیا کے ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت ہے لیکن جو روش غزہ اور مغربی کنارے کی جنگ کے انتظام و انصرام کے سلسلے میں نیتن یاہو اور اس کے انتہاپسند اتحاد نے اپنائی ہے، ممالک کی حمایت حاصل نہیں کی جا سکی۔

فریڈمین نے لکھا: اسرائیل آج اندرونی انتشار کا شکار ہو گیا ہے اور دنیا کے ہر گوشے میں یہودیوں کو درپیش بدامنی میں اضافہ ہؤا ہے، اور مجھے تشویش ہے کہ یہ صورت حال بدتر ہو جائے گی۔

فریڈمین کے مطابق، یہ درست ہے کہ سات اکتوبر 2023ع‍ (طوفان الاقصی کے دوران) ایک ہی دن میں 1200 اسرائیلی مارے گئے اور سینکڑوں کو قید کیا گیا اور اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق تھا لیکن اسی اثناء میں کوئی بھی عقلمند انسان غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو حماس کے خاتمے کی کوشش قرار نہیں دے سکتا؛ جس کے نتیجے میں اب تک غزہ میں 30 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا گیا اور مقتولین میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں، اور جو زندہ بچے ہیں وہ بھی یتیم ہو چکے ہیں۔ غزہ کا بہت بڑا حصہ موت، ویرانی، تباہ کاری، قحط اور بھوک کی سرزمین بن چکا ہے اور یہ صورت حال یہودیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔

اسرائیل کو عنقریب عالمی سطح پر وسیع یلغار کا سامنا ہوگا؛ نیتن یاہو نے اپنی فوج غزہ کی پٹی میں بھیجا حالانکہ اس کے پاس، حماس کے خاتمے کے بعد، غزہ پر تسلط جمانے کے لئے کوئی مربوط منصوبہ نہیں تھا۔

ایک مسئلہ اس وقت اسرائیل کو درپیش ہر جو اس ریاست کے لئے اس غزہ سے زیادہ خطرناک ہے جس پر بدستور حماس کا کنٹرول ہے۔ اور یہ وہ غزہ ہے جس کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ وہ غزہ ہے کہ [مغربی] دنیا کو توقع ہے کہ اسرائیل اس میں نظم و ضبط قائم کرے لیکن اسرائیل ایسا کرنے سے عاجز ہے اور اس کا انتظام سنبھالنے کے لئے تیار بھی نہیں ہے، اور یہ وہ مسئلہ ہے جو اس خطے میں وسیع اور دیرپا انسانی بحران کا سبب بنے گا۔

اسرائیل غزہ پر حماس کا کنٹرول توڑنے کے درپے ہیں، لیکن غزہ کے شہری انتظام کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور اسی اثناء میں وہ مغربی کنارے میں موجود فلسطینی اتھارٹی کو بھی اس کام کے لئے بروئے کار لانے کے لئے تیار نہیں ہے، جس کے ہزاروں کارکن غزہ میں موجود ہیں۔

شاید نیتن یاہو کی کابینہ سوچ رہی ہے کہ حماس کے بعد کے مرحلے میں غزہ کا انتظام فلسطینی قبائل کے سربراہوں کے حوالے کرے لیکن میرا خیال ہے کہ روش بھی ناکام ہوگی کیونکہ سنہ 1980ع‍ کی دہائی میں مغربی کنارے میں اس روش کو لاگو کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام رہی۔

تھامس فریڈمین نے اپنے اندیشوں کے ضمن میں فرض کر لیا ہے کہ “اسرائیل حماس کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگا اور اس کے بعد کے مراحل کے لئے اس کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے”، لیکن غزہ کی جنگ کے حقائق فریڈمین جیسوں کی آرزوؤں سے مختلف ہیں اور جیسا کہ فریڈمین خود کہتے ہیں کہ "غزہ پر حماس کا کنٹرول ہے"،

اور نیتن یاہو شاید ان حقائق سے کسی حد تک واقف ہے اور شاید وہ اسی وجہ سے فریڈمین اور ان جیسے دوسرے امریکیوں کی آرزوؤں کے مطابق عمل کرنے سے اجتناب کر رہا ہے۔ لیکن فریڈ مین کے اندیشوں کے مجموعے سے ایک حقیقت بالکل عیاں ہے کہ “نیتن یاہو اور بحیثیت مجموعی غاصب صہیونی ریاست کو ناقابل حل بحرانوں کا سامنا ہے اور جنگ کے خاتمے کا اگلا دن نت نئے بحرانوں کے آغاز کا دن ہوگا۔ جیسا کہ فریڈمین نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ طوفان الاقصی کے نتائج بدستور باقی ہیں اور غاصب ریاست کی شکست کا حساب و کتاب تب ہی شروع ہوگا جب یہ جنگ ختم ہوگی۔ چنانچہ جنگ کا خاتمہ یقینا صہیونیوں کو درپیش مسائل اور بحرانوں کے خاتمے کے ہم معنی نہیں ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔

ترجمہ و تکمیل: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔