اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

13 مارچ 2024

2:24:54 AM
1444059

طوفان الاقصی؛

بھارت غاصب اسرائیلی ریاست کا حامی کیوں؟

فلسطین کے حوالے سے بھارتی پالیسیاں ہمیشہ متضاد رہی ہیں۔ ماضی میں بھارت فلسطینیوں کا حامی تھا جو قبضے کی وجہ سے مصائب جھیل رہے ہیں لیکن آج وہ رازداری کے بغیر، صہیونی غاصبوں کا حامی ہے اور یہ حمایت صرف سیاسی اور معاشی نہیں بلکہ وہ صہیونیوں کی فوجی امداد بھی کر رہا ہے۔ یہ سب کیوں ہؤا، کیسے ہؤ؟ / ہندو طبیعیاتی مذہب کے پیرو ہیں لیکن مسلم دشمنی کی بنیاد پر فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ فلسطین میں مسلمانوں کے بھائی بہنیں اور بچوں کو کا قتل عام ہو رہا ہے لیکن امت کو گویا مٹنے کا انتظار ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

الجزیرہ کے مطابق، بھارت نے 1947ع‍ میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا تھا اور پہلا غیر عرب ملک تھا جس نے 1974ع‍ میں تنظیم آزادی فلسطین (PLO) کو فلسطینی عوام کے واحد قانونی نمائندے اور ترجمان کے طور پر تسلیم کیا۔ نیز بھارت ان پہلے ممالک میں شامل ہے جس نے سنہ 1988ع‍ میں فلسطینی حکومت کو تسلیم کیا، اور اس کے باوجود کہ بھارت نے سنہ 1950ع‍ میں صہیونی ریاست کو تسلیم کیا تھا لیکن اس نے 1992ع‍ تک اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہيں کئے تھے۔

لیکن اس کے باوجود، سات اکتوبر 2023ع‍ کو فلسطینی مقاومت نے غاصب ریاست کے خلاف طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے کاروائی کی تو بھارت نے فوری طور پر اور وسیع پیمانے پر صہیونی غاصبوں کی سیاسی حمایت کا آغاز کیا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے راہنما کے طور پر طوفان الاقصیٰ کی مذمت کی اور بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے یہی موقف اختیار کیا اور دعویٰ کیا کہ "مصر انتہاپسندی سے نہیں نمٹے گا تو اس کا انجام بھی یہی ہو سکتا ہے"۔

بھارت نے غاصب ریاست کی غیر مشروط حمایت جاری رکھتے ہوئے 27 اکتوبر کو اقوام متحدہ میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد کو مثبت ووٹ دینے سے بھی اجتناب کیا۔

ڈپلومیٹ نامی ویب گاہ نے فاش کیا کہ بھارت کی طرف سے غاصب ریاست کے اس حمایتی موقف نے قوم پرست اور انتہاپسند ہندوؤں کے موقف پر بھی اثر ڈالا اور انہوں نے سوشل میڈیا کی ویب گاہوں میں غزہ سے متعلق گمراہ کن معلومات فراہم کرنا شروع کیا اور یہ معلومات ان کے اس اسلام دشمن بیانیے کی ترویج کے طور پر شائع کی گئیں جن کا مقصد بھارت کی عظیم مسلم اقلیت کو نشانہ بنا رہا ہے۔

بھارتی حکام نے مختلف علاقوں میں غاصب ریاست کی حمایت میں مظاہروں کی بھی اجازت دی اور فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں کو کچل دیا۔

ادھر جنگ اور بدامنی کے باوجود تل ابیب جانے والے بھارتی مزدوروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مزدوروں کا اعلانیہ مقصد غاصب ریاست کے تعمیراتی کاموں میں شرکت کرنا ہے، حالانکہ ہزاروں ایشیائی مزدوروں نے مقبوضہ فلسطین کو ترک کر دیا ہے، ہزاروں صہیونی ریزرو فوجیوں کو عسکری فرائض انجام دینے کے لئے بلایا گیا ہے اور ایک لاکھ 30 ہزار فلسطینی مزدوروں کا لائسنس منسوخ کیا گیا ہے۔

لکھنو انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ راج کمار یادیو کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کے بھرتی کے مراکز اس وقت کم از کم 10000 تعمیراتی مزدوروں کو بھرتی کر رہے ہیں جن کی تنخواہ ایک لاکھ چالیس ہزار روپے (تقریبا 1600 امریکی ڈالر) ہوگی اور اس پروگرام کو بھارتی حکام کی حمایت حاصل ہے۔

صہیونی اخبار ہاآرتص نے بھی چند دن قبل ایک طویل مطالعے کے ضمن میں لکھا کہ نریندر مودی ـ نیتن یاہو کے باہمی اتحاد کے سائے میں، کروڑوں بھارتی تل ابیب کا ورکنگ ویزا حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن بھارتیوں کا آنا ان ہزاروں فلسطینی مزدوروں کی معیشت کے لئے نقصان دہ تھا جنہیں یہودی سرکار نے برخاست کر دیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، 24 سال سے 46 سال تک کے سینکڑوں بھارتی مزدور شدید سردی کے باوجود،  اس امید کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہیں کہ انہیں تل ابیب میں کام کا موقع ملے گا۔

تل ابیب میں بھارتی ناظم الامور کے بقول، اہم نکتہ یہ ہے کہ صہیونی ماہرین بھارت میں مزدوروں سے لئے جانے والے امتحانات کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور وہ خود ہی اپنے منظور نظر افراد کا انتخاب کرتے ہیں۔

غاصب یہودی ریاست کی وزیر نقل و حمل مری ریگیو (Miri Regev) نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کرنے کے بعد اپنے X پیج پر لکھا: تل ابیب فلسطینی مزدورں پر انحصار کم کرنے کا خواہاں ہے۔

اس سے ایک ماہ قبل، نیتن یاہو نے اپنے بھارتی ہم منصب کو 2023 کے سمجھوتے پر عمل درآمد کرنے کی ترغیب دلائی جس کے تحت تعمیراتی اور نرسنگ کے شعبے کے لئے 40 ہزار بھارتی مزدوروں کو تل ابیب جانے کی سہولت دینا قرار پایا تھا۔

دسمبر 2023ع‍ میں ریاست ہریانہ اور ریاست اتر پردیش میں اعلان ہؤا کہ 10000 مزدور تل ابیب میں کام کے لئے بھرتی کئے جا رہے ہیں اور اس اعلان کو ایک مہم کی صورت میں وسیع پیمانے پر سوشل میڈیا میں نشر کیا گیا اور بہت سوں نے اس دوران بھارت کی اس کی حلیف صہیونی ریاست کو مدد بہم پہنچانے کے بارے میں اظہار خیال کیا۔

لیکن اس مہم میں دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ اس میں کہا گیا تھا کہ بھارتی مسلمان اپنے آپ کو زحمت میں نہ ڈالیں، جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کو مزدوروں کی اس بھرتی سے الگ رکھا گیا تھا۔

اسی حوالے سے صہیونی ریاست کے اقتصادی اخبار "گلوبز" نے لکھا کہ ایک ہزار بھارتی مزدوروں کا پہلا گروہ تل ابیب پہنچا ہے اور یہ 65 ہزار بھارتی مزدوروں کی بھرتی کے منصوبے کی پہلی لہر ہے۔

غزہ پر مسلط کردہ صہیونی جنگ جاری رہنے کے باوجود ہزاروں بھارتیوں کا مقبوضہ فلسطین میں داخلے کے پیش نظر، لاس اینجلس ـ کیلی فورنیا کی یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر "خالد ابوالفضل" نے الزام لگایا کہ ہندوؤں کی ایک اچھی خاصی تعداد صہیونی فوج میں شامل ہو کر غزہ کے نہتے عوام پر ظلم و جبر میں شریک ہوئی ہے۔

ابوالفضل کا کہنا تھا کہ ہندو فوجی غزہ میں صہیونیوں فوجیوں کے جنگی جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ اور قوم پرست ہندو فلسطینیوں کے خلاف جاری صہیونی جرائم کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔

بھارتی اخبار ملی گزٹ کے مدیر اعلیٰ ظفر اسلام خان نے بھارتی ذرائع میں شائع ہونے والی رپورٹوں کی روشنی میں کہا ہے کہ کم از کم 215 بھارتی فوجی غاصب ریاست کی فوج میں فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

ظفر اسلام خان کا کہنا تھا کہ تل ابیب کی طرف سے شائع ہونے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی سپاہی، بھارت کے شمال مشرقی علاقوں سے آئے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ یہودی ہیں اور کا تعلق بنی میناشے (Bnei Menashe) قبیلے سے ہے، اور یہ قبیلہ ختم ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے ہزاروں افراد نے یہودیت اختیار کرکے حالیہ برسوں میں مقبوضہ فلسطین، نقل مکانی کی ہے۔

ظفر اسلام خان البتہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تل ابیب، صہیونی فوج میں بھارتیوں کے کردار کے بارے میں مبالغہ آمیزی سے کام لے رہا ہے اور وہ یہ جتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ دنیا اس جنگ میں اسرائیل کے ساتھ ہے!

انھوں نے کہا ہے کہ بہت سے ہندوؤں نے تل ابیب جاکر حماس کے خلاف لڑنے کی خواہش ظاہر کی ہے، اور دوسری طرف سے سوشل میڈیا میں بھی ہندو، غاصب ریاست کی وسیع پیمانے پر حمایت کر رہے ہیں۔

بھارتی اخبارات نے بھی تل ابیب کے دوش بدوش لڑنے کی ہندؤوں کی خواہش کے بارے میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ جو لوگ بھارت سے تل ابیب گئے ہیں، وہ صرف مسلح افراد اور حماس کے خلاف لڑنے کے خواہشمند ہی نہیں ہے بلکہ وہ "دہشت گردوں" کے خلاف جنگ کے لئے گئے ہیں؟!

بنی میناشے (Bnei Menashe) کے ہائربورڈ کے چیئرمین لالام ہانگ شنگ (Lalam Hangshin) نے کہا: ہم ریاست مانی پور کے فسادات میں ایک بہت چھوٹی اور حیرت زدہ اقلیت ہیں اور تل ابیب کی طرف نقل مکانی ہماری واحد امید ہے۔

بنی میناشے قبیلے کے افراد کی کل آبادی 10 ہزار 500 ہے، وہ خود کو 'میناشے" قبیلے کے باقیات سمجھتے ہیں جو ان 10 قبیلوں میں سے ایک ہے اور جنہیں ـ بنی میناشے کے افراد کے بقول ـ 2700 سال قبل آشوری حکمرانوں نے فلسطین سے نکال باہر کیا تھا!

ہانگ شنگ کا کہنا ہے کہ بنی میناشے کے تقریبا 200 افراد صہیونی ریاست کی فوج میں فعال کردار ادا کرہے ہیں، اور حماس کے حملے کے بعد اس قبیلے کے 200 ریزرو فوجیوں کو بھی جنگ کے لئے بلایا گیا ہے۔

عبرانی اخبار یروشلم پوسٹ نے بھی کہا ہے کہ یہ ہندو افراد یا تو براہ راست جنگ میں شامل ہوئے ہیں یا پھر ریزرو فوجیوں کے طور پر بلائے گئے ہیں اور ان کے علاوہ کچھ لوگ رضا کار ہیں!

اس رپورٹ کے مطابق، بھارت سے آئے ہوئے جدید الورود افراد میں سے 75 افراد طوفان الاقصیٰ کے بعد فوجی خدمت کے لئے صہیونی فوج میں شامل ہوئے اور 140 افراد وہ ہیں جو نوآباد یہودی قصبوں سے جنگ کے لئے بلائے گئے ہیں۔

فلسطین کے سلسلے میں بھارتی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کے اسباب کے ادراک کے لئے دو قسم کی نگاہیں پائی جاتی ہيں:

ہندو قوم پرستی میں اضافہ

سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی (Uppsala university) اپسالا یونیورسٹی میں امن اور جنگ کے مطالعات ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین اشوک سوین (Ashok Swain) کہتے ہیں: "ہندو قوم پرستی نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کے بعد سے، مسلسل پھیل رہی ہے، جبکہ ہندوستانیوں کی اکثریتی آبادی فلسطینیوں کی حریت پسندانہ جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔۔۔ بھارتی ذرائع ابلاغ بہت حد تک ہندو قوم پرست کے زیر اثر ہیں اور اسی بنا پر فلسطین کے خلاف دشمنی پر مبنی موقف اختیار کئے ہوئے ہیں"۔

اسلام دشمنی

اشوک سوین کا کہنا ہے کہ "جب تک کہ غزہ میں جنگ جاری رہے گی، بھارتی ذرائع حماس کی مذمت پر مبنی موقف جاری رکھیں گے۔ حالانکہ یہی موقف بھارت کے اندر اسلامو فوبیا کو ہوا دینے کے لئے بھی ایک فرصت سمجھا جاتا ہے"۔

اشوک سوین کا کہنا ہے کہ "صہیونیت اور ہندو فرقے کے درمیان مشترکہ رشتے پائے جاتے ہیں۔ ان دونوں نظریات کے مشترکہ اہداف و مقاصد ہیں جن میں توسیع پسندی اور دوسروں کو منظر عام سے ہٹانے کی پالیسی بھی شامل ہے۔

صہیونیت بھی اور ہندو فرقہ بھی، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت اور مقبوضہ فلسطین در حقیقت "دو ہندو اور یہودی" تہذیبیں تھیں، لیکن اجنبیوں ـ خاص طور پر مسلمانوں ـ نے انہیں آلودہ کیا اور حال حاضر میں ہندو بھی اور یہودی بھی اپنی حکومت کی سابقہ شان و شوکت پلٹانے کے لئے کوشاں ہیں!"۔

اس حوالے سے ، فرانسیسی اخبار لی مونڈے (Le Monde) نے رپورٹ دی ہے کہ بعض ہندو انتہاپسند صہیونیوں کے دوش بدوش اسلحہ لے کر لڑنے کے لئے اپنا عزم ظاہر کر چکے ہیں اور اسی بنا پر ہی دھلی میں صہیونی سفیر ناؤر گیلون (Naor Gilon) [جس پر سفارت آداب کی خلاف ورزیوں کی شکایات بھی ہیں] نے انتہائی فخریہ انداز سے کہا ہے کہ "میں ہندو رضاکاروں کی ایک بڑی فوج اسرائیل کے دفاع کے لئے تشکیل دے سکتا ہوں"۔

چنانچہ مذہب، قومیت، مبینہ تاریخی واقعات اور مشترکہ دشمن، (یعنی اسلام) نیز اقتصاد اور عوام فریبی وہ اسباب و عوامل ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان کا رخ فلسطین سے ہٹ کر فلسطین پر قبضہ کرنے والوں کی طرف ہو گیا ہے، جبکہ یہی ہندوستان طویل عرصے تک مسئلہ فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ ہندو طبیعیاتی مذہب کے پیرو ہونے کے باوجود، مسلم دشمنی کی بنیاد پر صہیونیوں کی فوج میں شامل ہو کر فلسطینیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ فلسطین میں مسلمانوں کے بھائی بہنیں اور بچوں کو کا قتل عام ہو رہا ہے لیکن امت کو گویا مٹنے کا انتظآر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110