اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

9 مارچ 2024

10:47:10 AM
1443134

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا طرز زندگی۔ تہران میں "لاہور سے لاہوت" سیمینار کے موقع پر فرزند شہید کا انٹرویو + ویڈیو

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی انتیسویں برسی کے موقع پر، ان کی یاد میں، تیسری سالانہ یادگاری تقریب "لاہور سے لاہوت تک" تہران میں منعقد ہوئی جس میں ایران اور پاکستان کی تعلیمی و ثقافتی شخصیات اور طلباء نے شرکت کی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی انتیسویں برسی کے موقع پر "لاہور سے لاہوت تک" کی تیسری یادگاری تقریب روز جمعہ آٹھ مارچ [2024ع‍] کو، تہران میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شہید کے فرزند نے اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کو انٹرویو دیا جس کی ویڈیو اور متن درج ذیل ہے:

بسم رب الشہداء و الصالحین

اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے کہ بحیثیت فرزند شہید، کہ یہ تیسرا جلسہ ہے "از لاہور تا لاہوت" جو یہاں پر بہترین انداز میں، شہید ڈاکٹر کی شخصیت کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لئے منعقد کیا گیا ہے، اور اس میں حاضر ہو گیا ہوں۔ اور میں اس چینل کے توسط سے دوستوں تک یہ پیغام منتقل کرنا چاہتا ہوں کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے کس انداز سے اہل بیت(ع) سے عشق اپنایا اور پیغام کربلا کو منتقل کیا۔ درحقیقت اس کو سمجھنے کا لازمہ یہ ہے کہ ہمیں پتہ چلے کہ شہید نے اپنی زندگی کے حصوں کو کس طرح سے گذارا۔

اگر ہم شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی کو دیکھیں، تو ہر انسان کی زندگی میں تین حصے ہوتے ہیں: بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ شہید اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ انھوں نے اپنے بچپن کے ایام نجف اشرف میں گذارے، اپنے والد بزرگوار کے ساتھ۔ وہ کیا فضا تھی جس سے انھوں نے علم و معرفت کی بصیرت حاصل کی؛ اور آج جب مجھ جیسا ایک طالب علم اپنے بابا کی زندگی کو پڑھتا ہے، تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ درحقیقت انھوں نے کربلا کو فقط رسم کی حد تک جوائن نہیں کیا تھا۔ انھوں نے عملی طور پر امام حسین (علیہ السلام) کی صدا پر لبیک کہا تھا۔ وہ لبیک انھوں نے کیسا کہا تھا کہ درحقیقت، اگر ہم تاریخ میں اپنے ائمہ کی زندگی کو پڑھتے ہیں، اور بالخصوص اگر آپ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی کتاب "ڈھائی سو سالہ انسان" کو پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو ائمہ (علیہم السلام) کی زندگی ہے اس کے ہم ایک سیرت کے عنوان سے پڑھ سکتے ہیں؛ کہ [تمام ائمہ(ع)] ایک ہی انسان ہیں جس نے مختلف مراحل طے کئے ہیں۔

اس میں اگر میں اپنے والد صاحب کی زندگی کو پڑھتا ہوں اور نتیجہ گیری کرتا ہوں تو وہ یہ ہے کہ میرے بابا امام سجاد (علیہ السلام) کے ایک ادنیٰ سے شاگرد اور اس مکتب کے ایک فداکار تھے

ان کے ایک ایسے چاہنے والے تھے، کہ اگر ہم امام سجاد (علیہ السلام) کی زندگی کو ہم روز کربلا (عاشورا) کے بعد، دیکھیں، تو ظاہرا امام کے اختیار میں چیزیں نہیں تھیں اور ظاہرا ان کے پاس کوئی بھی پلیٹ فارم نہیں تھا، لیکن امام نے کیا کام کیا؟ امام نے افراد کی کیڈر سازی کی۔ اس امام کے زندگی نامے کو اگر ہم اٹھا کر دیکھیں تو ہمارے سامنے، تاریخی ذکر، جو ملتا ہے، بیمار کربلا کے طور پر ملتا ہے لیکن، اگر ہم دیکھیں اس شہید نے بھی اپنی زندگی میں اس امام کی سیرت کو لیا اور درحقیقت کیڈر سازی پہ کام کیا۔ جس پر خود رہبر معظم نے بھی تاکید کی ہے؛ اور انقلاب اسلامی کے اوائل میں بھی کیڈر سازی پر کام ہؤا ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو اس شہید نے کیڈر سازی پہ کام کیا۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ آج شہید کی شہادت کے بعد، جس کی انتیسویں برسی ہے، انتیس سال بیت گئے ہیں، لیکن آج بھی یک نسل جب پروان چڑھتی ہے تو اگر ہم پاکستان کے بارے میں، جو کہ نمائندہ ولی فقیہ آقائے ابوالفضل بہاء الدینی صاحب کا کلام دیکھیں جنہوں نے یہ کہا تھا کہ "میں نے پاکستان میں کسی ایسے فرد کو نہیں دیکھا کہ وہ انقلابی ہو، جذبۂ حریت رکھتا ہو، انقلاب کو سمجھتا ہو، حسینیت کو سمجھتا ہو، اور اس کا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اس شہید سے رابطہ نہ ہو"۔

درحقیقت شہید کا یہ طریقۂ کار تھا، کہ انھوں نے کیڈر سازی کی تھی اور پرسن ٹو پرسن کام کیا تھا۔ اور آج سب سے زیادہ اشد ضرورت اسی کردار کی ہے، کہ ہم جائیں اپنے بچوں کو، اور جوانوں کو جن پر ہم کام کرنا چاہتے ہیں، ان کو ان شہداء کی زندگیوں سے روشناس کرائیں۔

میں نے آج اپنی تقریر میں عرض کیا تھا: شہید کو 43 سال کی زندگی ملی ہے، اس میں سے 25 سال کا سن تو ایجوکیشنل لائف میں گذرتا ہے، اس کے بعد کا جو سیگمنٹ (segment) ہے، تو اس ٹائم کے اندر، اگر انہیں موقع ملا مبارزے میں حاضر ہونے کا تو اس میں بھی حاضر ہوئے، لیکن جب واپس گئے ہیں تو اپنے آپ کو ناامید نہیں کیا، اپنی نگاہ کو جہانی رکھا۔ جیسا کہ امام راحل(رح) نے کہا تھا: "ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے سیدالشہداء(ع) سے ہے"۔ یعنی جو کچھ بھی اس انقلاب نے حاصل کیا ہے عزاداری سیدالشہداء(ع) کی وجہ سے کیا ہے۔ اور اسی بنا پر ڈاکٹر صاحب، میرے والد محترم، ہمیشہ کہا کرتے تھے، کہ یہ جو عزاداری سیدالشہداء(ع) ہے، اگر ہم اس پر عملی طور پر کام کریں ان ایام میں، اور اگر عام مسلمانوں اور عام شیعوں کو امام حسین (علیہ السلام) کا تعارف کروائیں، اور امام سجاد (علیہ السلام) کی سیرت پر چلتے ہوئے اگر ہم کیڈر سازی کریں مثلا، ایک جوانوں کا کام ہوگا، ایک بچوں کا کام ہوگا، اور جو اسکول سسٹم پر انھوں نے اس وقت کام کیا تھا، جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ہم آج انٹرنیشنلی کام کرنے والی بہت سے این جی اوز کو دیکھیں کہ جو پاکستان میں تشیع کے افکار پر کام کر رہی ہیں، جس میں ہم آئی ایم آئی کی مثال دیں گے، یا خود شہید کے نام پر بنی ہوئی این جی او "ماوا" (محمد علی ویلفیئر ایسوسی ایشن) کو لیں گے تو آپ کو اس میں واضح طور پر نظر آئے گا کہ ان میں کام کرنے والے افراد وہی ہونگے، کہ جو شہید نے اس وقت کیڈرسازی کی تھی، اور آج وہ عالمی سطح پر اسلام کے لئے خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اور یقینا شہید کی روح فقط اس وقت ہم سے خوشنود ہوگی کہ جب ہم اس دور حاضر میں، اپنے وقت کے رہبر کے ساتھ [امام] سید علی خامنہ ای کے ساتھ، تجدید عہد کریں گے اور خدا کرے کہ شہید بھی ہم سے یہی چاہتے ہوں۔ اور اس دعا کے ساتھ کہ خداوند متعال ہمارے وقت کے امام کے ظہور میں تعجیل فرمائے، اور یہ لوگ تو لشکر امام زمانہ(عج) میں شامل ہوچکے ہیں ہم بھی اس لشکر میں شامل ہوجائیں۔ 

والسلام علیکم و رحمت اللہ