اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

7 مارچ 2024

10:21:28 PM
1442918

مجلس خبرگان کے اراکین کی رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات؛

اسلامی جمہوریہ نے دنیا کو دو محاذوں میں تقسیم کر دیا: لبرل جمہوریت اور اسلامی جمہوریہ / امریکہ اور مغربی ممالک فلسطینیوں پر مظالم میں صہیونیوں کی مدد کر رہے ہیں ۔۔ امام خامنہ ای

مجلس خبرگان کے اراکین نے آج رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ) سے ملاقات کی۔ اور رہبر انقلاب نے خطاب کرتے ہوئے کامیاب انتخابات کے انعقاد پر تہنیت پیش کی اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ کی ولادت سے دنیا کو دو محاذوں میں تقسیم کیا: لبرل جمہوریہ کا محاذ اور اسلامی جمہوریہ کا محاذ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب نے مجلس خبرگان کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات کے دوران خطاب کرتے ہوئے عالمی استکباری محاذ کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت کی منطق اور دینی، عقلی اور انسانی دلائل پر روشنی ڈالتے ہوئے مجلس خبرگان کو اہم ہدایات دیں اور فرمایا: نئی پارلیمان کی تشکیل ایک خوشگوار، امید آفریں اور قابل قدر واقعہ ہے؛ اور منتخب نمائندوں کو اس کی قدردانی کرنا چاہئے۔

امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ) نے اس موقع پر فرمایا: مورخہ 11 فروری 2024ع‍ کو اسلامی انقلاب کی پینتالیسویں سالگرہ کی عظیم عوامی ریلیوں اور یکم مارچ کے کامیاب پارلیمانی انتخابات سے ـ گذشتہ برسوں سے بہتر انداز میں ـ دینی جمہوریت کا اظہار ہؤا۔

آپ نے جابر طاقتوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ کے قیام سے قبل دنیا کا واحد محاذ مغربی لبرل جمہوریہ سے وابستہ جمہوریتوں پر مشتمل تھا لیکن اسلامی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایک نیا محاذ ابھرا جو اسلامی جمہوریت پر مشتمل ہے، اور یہ ایک طبیعی امر تھا کہ یہ نیا محاذ مغربی جمہوری محاذ کے مقابلے میں قرار پایا۔

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (ادام اللہ ظلہ العالی) نے اپنے تفصیلی خطاب میں، فرمایا:

ایران میں اسلامی جمہوریت کے معرض وجود میں آنے سے مغربی جمہوریت کا محاذ خطرے میں پڑ گیا اور مغربی محاذ نے اسلامی نظام کے محاذ کے خلاف اپنی مخالفتوں کا آغاز کیا ہے۔ ان کی طرف سے خطرے کے احساس اور مخالفت و معارضت کا سبب یہ ہے کہ جبر و استکبار، اقوام عالم کے حقوق کی پامالی، جنگیں مسلط کرنا، طاقت کے حصول کے لئے لامحدود خونریزی مغربی جمہوریت کی ذات میں جڑی رکھتی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے انیسویں صدی عیسوی ـ یعنی جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے سلسلے میں ان کے نعروں اور دعوؤں کے عروج کے زمانے ـ میں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کو اپنی نوآبادیات بنا دیا۔

اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریت کے محاذ کا رویہ اس قسم کے مظالم اور تجاوزات کا مقابلہ کرنے پر استوار ہے، اس لئے کہ اس کی نوعیت اسلامی ہے۔ اور یہ جو سوال اٹھایا جاتا ہے کہ "اسلامی جمہوریہ کا استکباری محاذ سے مقابلہ کرنے کا سبب کیا ہے؟" تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا ممالک، حکومتوں اور اقوام سے بلا وجہ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا جھگڑا ظلم اور جارحیت سے ہے اور یہ وہی چیز ہے جو مغربی جمہوریت کے محاذ کی ذات میں موجود ہے۔

 میری بات کا حاصل یہ ہے کہ اولا اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ ظلم، استکبار اور جارحیت اور تجاوز سے ہے، ہم سے یہ سوال نہ پوچھا جائے کہ ہم فلان ملک کے خلاف کیوں ہیں، ہمارا حکومتوں، ممالک و اقوام سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے، ہم ظلم و استکبار اور جارحیت و تجاوز کے خلاف ہیں۔

ہم ان واقعات کے خلاف ہیں جنہیں آپ آج غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک قوم، ایک سرزمین کی مالک قوم، اپنی سرزمین میں اس ظلم عظیم سے دوچار ہو رہی ہے؛ ان کی خواتین، بچوں، گھر والوں، ان کے گھروں، بنیادی ڈھانچوں، ان کے سرمایوں کو پوری بے رحمی اور سنگ دلی سے تباہ کیا جا رہا ہے، اور کچھ ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں، وہ نہ صرف مخالفت نہیں کرتے، ممانعت نہیں کرتے، بلکہ دشمن کی مدد بھی کرتے ہیں، امریکہ، برطانیہ، اور یورپی ممالک مدد کر رہے ہیں۔

ہماری بات یہ ہے؛ ہم اس کے خلاف ہیں۔ جو چیز اسلامی جمہوریہ کو مخالف محاذ کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے یہ تصورات اور مفاہیم ہیں۔ عقل بھی، عرف بھی، ہر شریعت اور ہر دین بھی، انسانی ضمیر بھی، ان چیزوں کی مذمت کرتے ہیں، ہم ان کے خلاف ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کا جھگڑا ان چیزوں سے ہے۔ ورنہ تو قرآن کریم حتی کفار کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

"لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ؛ تمہیں اللہ ان لوگوں سے نہیں روکتا ـ جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا ـ کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو"۔ (ممتحنہ- 8) اگر ایسا کوئی کافر ہے جو لین دین کے اسلامی قواعد کے مطابق عمل کرتا ہے، اس کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔

مسلمانوں نے جب شام سمیت بعض علاقوں کو فتح کیا جن کا تعلق روم سے تھا، وہاں موجود یہودیوں نے مسلمانوں کا استقبال کیا اور کہا کہ "تم نے ہمیں نجات دلائی"۔ یہودی اس وقت سلطنت روم کے تحت دباؤ میں تھے، بولے: "تم مسلمانوں کے عدل و انصاف نے ہمیں نجات دلائی"۔ مسلمان اس انداز سے عمل کرتے تھے، کافروں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرتے تھے۔ اصل مسئلہ ظلم و تجاوز اور جارحیت و استعمار ہے۔

چنانچہ جن جمہوریاؤں نے جمہوریت، انسانی حقوق اور لبرلزم کی آڑ میں چھپے ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا جھگڑا ان کے باطن کی وجہ سے ہے۔ یہ پہلا نتیجہ تھا جو ہم اس کلام سے اخذ کرتے ہیں۔

دوسرا نتیجہ جو ہم اخذ کرتے ہیں یہ ہے کہ ہمیں استکبار کے خلاف جدوجہد کا پرچم ہمیشہ بلند رکھنا پڑے گا۔ خیال رہے کہ کسی دور میں استکبار کے خلاف جدوجہد کا پرچم اسلامی جمہوریہ کے ہاتھ سے نہیں چھِننا چاہئے، ہمیں پیشرو اور پیش قدم رہنا چاہئے، اور ہمیں اس پرچم کو ہر روز زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر بلند کرنا چاہئے۔

تیسرا اور آخری نتیجہ یہ کہ ہم اپنی نئی نسلوں کے لئے واضح کرنا پڑے گا، ہمارے نوجوان جان لیں، اگلی نسلوں کے نوجوانوں کو جاننا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ کا راستہ کیا ہے، یہ مزاحمت و استقامت کیا ہے۔ البتہ ہم ان چار عشروں سے خطے اور دنیا میں کامیاب رہے ہیں اور ہم کامیابی سے اسلامی جمہوریہ کا یہ چہرہ دنیا والوں کو دکھا سکے ہیں۔ یہ پہلی بات۔

جہاں تک مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) کا تعلق ہے تو اس کی ذمہ داری قیادت کا تعین اور قائد کی صلاحیت کا تحفظ اور اس کی نگرانی ہے جو بڑے کاموں میں سے ہے۔ مجلس خبرگان کو تقرریوں اور انتخابوں میں اسلامی جمہوریہ کے ثابت اصولوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے۔

پارلیمان کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں کہ ہر پارلیمان جو آتی ہے اپنے ساتھ نئی امیدیں لاتی ہے، نئے آفاق تلاش کر سکتی ہے۔ نئے اراکین پارلیمان میں داخل ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ساتھ سابقہ ادوار کے تجربہ کار اراکین بھی ہیں، یہ اچھا امتزاج ہے، جس میں نئے تخلیقی کام بھی ہیں اور پرانا تجربہ بھی ہے۔ سابقہ کامیاب تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور تخلیقی کام بھی کرتے ہیں اور یہ ایک قابل قدر سرمایہ ہے۔

ہر نئی پارلیمان ایک قابل قدر اور کارآمد سرمایہ ہے جس کی قدردانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک نیا خون جو ملک کی سیاسی اور سماجی رگوں میں جاری ہوتا ہے اور ان شاء اللہ اس کے اچھے اثرات ہیں۔ یہ ایک خوشگوار واقعہ ہے، لیکن اس خوشگوار واقعے کے تلخ بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کی مٹھاس کو تلخی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اختلاف انگیز باتیں پارلیمان کی شیرینی کو تلخ کر دیتی ہیں، اختلافات اور تنازعات دشمن کو خوش کرتے ہیں، اور پارلیمان کی افادیت کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ خیال رکھنا چاہئے۔

ہماری جمہوریت اسلامی جمہوریت ہے یہ "اسلامی" کا عنوان بہت اہم ہے جو سیاسی حدود میں بھی کارگر ہے یہ اسلامی ہونا اور اسلامی جمہوریہ ہونا، اور پھر ہم نے اس کو ایک سیاسی نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ پارلیمان کے امور میں بہت اہم ہے لیکن صرف یہی نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ کے حکام کو شرع کا تابع ہونا چاہئے، حرام و حلال کا خیال رکھنا چاہئے، جھوٹ اور غیب و تہمت سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے ذاتی اور انفرادی کاموں میں بھی تقوی سے کام لینا چاہئے اور محرّمات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سماجی اور سیاسی میدان میں بھی یہی کچھ کرنا چاہئے، محرمات سے اجتناب کرنا چاہئے؛ ہمیں ان امور کو سرفہرست رکھنا چاہئے۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لَو لَا التُّقىٰ لَکُنتُ اَدهَى العَرَب؛ اگر پرہیزگاری کا لحاظ نہ رکھنا پڑتا تو میں عرب کا زیرک ترین اور عیارترین شخص ہوتا۔ (الکافی، ج8، ص24۔) تقوی اور پرہیزگاری انسان کے بہت سے امور میں رکاوٹ ہے۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے مکتوبات اور احکام میں، جو آپ نے ـ نہج البلاغہ میں ـ اپنے کارگزاروں اور والیوں کے لئے بھجوائے ہیں، ان میں سے بہت سوں میں، سب سے پہلے لکھتے ہیں: "کتابی الی فلان (میرا خط فلان شخص کے لئے)،  أَمُرُهُ بِتَقْوَى اللَّهِ فِي سَرَائِرِ أَمْرِهِ وَخَفِيَّاتِ عَمَلِهِ، (کہ جس کو میں حکم دیتا ہو تقوائے الہی کا، اس کے امور کے اسرار میں اور اس کے عمل کی خفیہ جہتوں میں [نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 26)؛ یعنی سب سے پہلی ہدایت تقوی اور پرہیزگاری کے بارے میں ہے۔ مالک اشتر کے نام مشہور و معروف مکتوب میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) لکھتے ہیں: "أَمَرَهُ بِتَقْوَى اللَّهِ وَإِيْثَارِ طَاعَتِهِ؛ [بندہ خدا علی بن ابی طالب مالک اشتر کو] حکم دیتا ہے کہ اللہ کا خوف کرتا رہے اور طاعت و بندگی کو اپنے دوسرے امور پر مقدم رکھے"۔(نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 53] یعنی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اس طرح تاکید کرتے ہیں، یا اپنے کارگزاروں کو لکھتے ہیں: "اِنطَلِق‌ عَلى تَقوَى اللَه؛ (اس خدا کے خوف کے ساتھ آگے بڑھو جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ [مکتوب نمبر 25])

با ترس از خدايى كه يكتاست و همتايى ندارد حركت كن۔ یہ سب تقوائے الہی اور اللہ سے خوف کی سفارشیں ہیں۔ چنانچہ سیاسی امور، سیاسی تعاملات اور تقابلات، سیاسی دھڑا بندیوں ـ جو فطرتی طور پر سلائق اور روشوں کے اختلاف کی بنا پر معرض وجود میں آتی ہیں، اور ان میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ـ تقوی کو ملحوظ رکھنا چاہئے؛ انسان کو سنجیدگی سے شرعی محرّمات سے اجتناب کی رعایت کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو تو ان شاء اللہ کاموں کے نتائج توقع کے مطابق ہونگے، اور خدائے متعال بھی ان میں برکت دے گا۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ، خدائے متعال کہنے والے کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے، سننے والوں کو توفیق دے کہ یہ باتیں ان کے دلوں پر اثر کر دے، اور ہم شرعی فریضے کے مطابق، اپنے کاموں کو انجام اور فرائض کو نبھا دیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110