اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
منگل

5 مارچ 2024

10:09:41 PM
1442513

طالوت اور جالوت کی کہانی سے کچھ اسباق

طالوت اور جالوت کا قصہ ایک قرآنی قصہ ہے جو قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی آیت 246 سے آیت 251 میں بیان ہؤا ہے۔

 اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، طالوت اور جالوت کے قصے سے کئی اہم اسباق حاصل کئے جا سکتے ہیں جن میں سے بعض کچھ یوں ہیں:

پہلا سبق:

مدنیت (شہریت) اور انسانی تمدن و تہذیب انسانی زندگی کی خصوصیات میں سے ای ہے۔ شہریت کا لازمہ ـ جو کہ انسانوں کے مادی، روحانی اور اخلاقی نشو و نما کا سبب ہے ـ ایک مرکوز طاقت اور مرکوز انتظام (Centralized power & centralized management) ہے۔ بنی اسرائیل نے اس ضرورت کو محسوس کر لیا تھا چنانچہ اپنے پیغمبر کے پاس گئے اور کہا: ہمارے لئے ایک سپہ سالار متعین کیجئے، وہی جس کی بات حرفِ آخر ہو، اور وہی حکم دے اور ہم عمل کریں۔

چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اصولی طور پر مرکوز طاقت اور مرکوز انتظام کی ضرورت ایسی حقیقت ہے جو عقل سے بھی ثابت ہے اور انسانی کے تاریخی تجربے سے بھی ثابت ہے۔

دوسرا سبق: 

تمام ادیان و مذاہب کی تاریخ اور تعلیمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دن بھی ایسا نہیں آیا جب تمام انسان صالح اور عادل ہوں اور اپنے حصے اور حق پر راضی و خوشنود ہوں۔ چنانچہ انسانوں کے درمیان ایسے انسانوں کا ایک گروہ ہونا چاہئے جو انتظامی صلاحیت اور مادی طاقت کے مالک ہوں اور ظلم و جبر کا مقابلہ کریں۔ محض نصیحت ہی مسائل کے حل کا سبب نہیں بنتی چنانچہ ایک دفاعی قوت کو ہونا چاہئے جو ظالموں کا راستہ روک لے۔ یہ مسئلہ دو طریقوں سے فراہم کیا جاتا ہے، تکوینی حکمت (خدا کی تخلیقی حکمت) اور تشریعی حکمت (یعنی قانون سازی کی حکمت، جو انسان کے سپرد کی گئی ہے)۔

تیسرا سبق:

بنی اسرائیل کی غالب اکثریت ابتداء سے آج تک حسیت پر یقین رکھنے والے اور آرام طلب لوگ رہے ہیں۔ ان کی آرزو ہے کہ کم از کم مشقت اٹھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں۔ ان کے ہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ان کی کمائی صحیح روشوں سے آتی ہے یا غلط روشوں سے، منصفانہ طریقوں سے یا غیر منصفانہ طریقوں سے۔ ان کی تاریخ اس مسئلے کو ثابت کرتی ہے۔ آج بھی پوری دنیا میں زیادہ تر جنگوں اور برائیوں میں یہی لوگ ملوث ہیں۔ وہ آبادی کے لحاظ سے بہت قلیل ہیں مگر اس کے باوجود تمام ممالک کی دولت اور سرمایوں کو ہتھیانا اور غصب کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو برتر قوم سمجھتے ہیں اور کوئی خرچ برداشت کئے بغیر تمام انسانوں کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف پیسے کی ازلی ابدی محبت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ وہ طاقت، شرافت، عقل و فکر کو صرف دولت کمانے کا وسیلہ سمجھتے ہیں، اور ان کے ہاں مال و دولت برتری اور فضیلت کا ذریعہ ہے [ان کی یہ مذموم صفت بدقسمتی سے مسلمانوں کے بیچ بھی موجود ہے]، وہ اپنے اس اوصاف کے اثبات کے لئے دلائل بھی لاتے ہيں؛ کہتے ہیں: کسی مقام و منصب تک پہنچا چاہو تو تمہیں مال و دولت کی ضرورت ہے؛ انتخابات میں کامیابی کے لئے بھی پیسہ خرچ کرنا چاہئے؛ تو انسان کو ہر چند سال بعد ایک بار اندر اور باہر سے دولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے دن ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس فکر کے ہیرو یہودی ہیں اور اس فکر کے فلسفے کو اپنی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں دوسروں تک بھی منتقل کرتے ہیں۔

چوتھا سبق:

اگر کچھ لوگ مسائل اور مشکلات میں صبر و استقامت سے کام لینا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ انہوں نے استقامت، ثابت قدمی اور مسائل سے نمٹنے کی مشق کر رکھی ہو کیونکہ لاڈلے پن سے جنگ میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ آرامی طلبی کے ذریعے آزادی اور سیادت و آقائی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

یہ تھے چار مختصر اسباق، جو ہم طالوت اور جالوت کے قصے سے لے سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110