اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

5 مارچ 2024

9:51:57 PM
1442511

دعا کی روش اور اہمیت / طالوت اور جالوت کا قرآنی قصہ

طالوت جالوت کے خلاف جنگ کے لئے جا رہے تو ان کا لشکر ـ قرآنی گواہی کے مطابق ـ بہت کم تھا۔ قرآنی آیات کے مطابق، طالوت کے ساتھیوں کے حوصلے بھی چنداں بلند نہیں تھے۔ گویا کوفہ کی داستان پہلی داستان نہیں ہے۔ طالوت کے قصے میں بھی گویا یہی داستان پیش آئی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

بنی اسرائیل اپنے پیغمبر (علیہ السلام) کے پاس گئے اور کہا: آپ کسی کو بھیج دیں کہ ہم مل کر جالوت کا تختہ الٹ سکيں۔۔ ثابت قدمی کا فقدان بجائے خود ایک خوفناک مرض ہے ۔۔ بنی اسرائیل کو شک نہیں تھا کہ وہ پیغمبرؑ برحق ہے چنانچہ ان کے پاس گئے۔۔ پیغمبرؑ نے ایک شخص کا حوالہ دیا، مگر وہ حیلے بہانے لانے لگے اور کہنے لگے: یہ تو صرف ایک نوجوان ہے! یہ تو امیر طبقے کا فرد نہیں ہے! اس کا باپ بھی تو آل فلاں میں سے نہیں ہے!

بہرحال روانہ ہو گئے۔ حضرت طالوت (علیہ السلام) دیکھنا چاہتے تھے کہ یہ کس سطح کے لوگ ہیں۔ پانی کی نہر سامنے آئی تو فرمایا: اس پانی میں سے چلو بھر پانے سے زیادہ مت پینا۔

عجیب آیت ہے: "إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّی"

اللہ تم لوگوں کی آزمائش کرنے والا ہے ایک نہر کے ساتھ توجو اس میں سے پانی پی لے گا وہ مجھ سے کچھ واسطہ نہیں رکھتا ہے"۔ (1)

"إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ؛ مگروہ جو بس چلو میں پانی لے لے"۔ یعنی ضرورت کی حد تک۔ یعنی صرف اتنا چکھ لو کہ مر نہ جاؤ پیاس سے؛ لیکن ہؤا کیا:

"فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ؛ تو سب نے اس سے، پانی پی لیا سوا ان میں سے تھوڑے سے لو گو ں کے"۔

تو یہ تھا بنی اسرائیل کا لشکر، کتنا اطاعت گزار اور کتنا آمادہ اور تیار! یہ وہ لوگ تھے جو رضاکارانہ طور پر آئے تھے، خود ہی لڑنے کی خواہش کی تھی اور اپنے لئے ایک امیر کی تعیناتی کی درخواست کی تھی؛ بنی اسرائیل کے رضاکاروں کا حال یہ تھا۔۔۔ طالوتؑ نے کہہ دیا کہ اللہ تمہیں آزما رہا ہے تو جو پانی پی لے وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھا، مگر سب نے پی لیا سوا تھوڑے سے لوگوں کے۔۔ وہ جو پانی پی گئے وہ تو چلے گئے، اور جنہوں نے پانی نہیں پیا اور ایمان لا کر ساتھ رہے ان کا حال بھی دیکھئے:

"فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ؛ تو اب جب وہ اور ان کے ساتھ کے ایمان لا نے والے (!) وہاں سے آ گے بڑھے تو وہ [پانی سے سیراب ہونے والے] لوگ کہنے لگے ہم میں آ ج جالوت اور اس کی افواج کا مقابلہ کرنے کی طاقت [و ہمت] نہیں ہے"۔ جنہوں نے پانی نہیں پیا اور ایمان لائے ان کا حال یہ ہے کہ نہر سے گذرنے کے ساتھ ہی حوصلے ہار بیٹھے۔ کہنے لگے کہ دشمن بہت بڑا ہے اور ہم میں ان سے لڑنے کا حوصلہ نہيں ہے۔ خداوند متعال ہمارے شہداء کو غریق رحمت فرمائے۔ انسان جب ان آیات کی تلاوت کرتا ہے اور پھر حالیہ صدی کو دیکھتا ہے، جوانوں کے کچھ گروہ فروری کی سخت سردی میں دریائے اروند میں کود پڑے یا وہ جو کمانڈروں سے گڑگڑا کر کہتے تھے کہ "آپ کو اللہ کی قسم ہو، ہمیں باز نہ رکھئے گا"، حجت آج کے مسلمانوں پر تمام ہو چکی ہے، ڈر اور خوف اور دشمن کی بڑائی جتانا اب ممکن نہیں رہا ہے، آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

جنہوں نے پانی نہیں پایا کہنے لگے: "لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ" ہم ان پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ دشمن بڑا ہے، اس کے پاس اسلحہ ہے۔۔ آپ قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کریں، جہاں بھی جنگ کا مسئلہ ہے وہاں فتح کی اہمیت دوسرے درجے کی ہے، اصل اہمیت ربوبیت کا مسئلہ ہے، ایمان اور توحید کا مسئلہ ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جنگوں کا بغور مطالعہ کیجئے، یہ جنگی دفاعی بھی ہیں، ابتدائی بھی ہیں لیکن اصل مقصد ربوبیت کا مسئلہ ہے! پورا مسئلہ یہی ہے! ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ استکباری طاقتوں کے غلبے کو تسلیم کرتے ہیں، اور یہ کہ ہم اللہ کی عظمت اور ربوبیت پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر رکھتے ہیں تو ہمارا ایمان کھوکھلا سا ہی ہے۔

کہتے ہیں: "لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ؛ ہم میں آ ج جالوت اور اس کی افواج کا مقابلہ کرنے کی طاقت [و ہمت] نہیں ہے"۔

اب معدودے چند افراد رہ گئے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے:

"وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ؛ اور جب جالوت اور اس کی افواج کے سامنے باہر نکلے"، اور دشمن کے سامنے پہنچے تو یہ چند افراد جو اچھے تھے کہنے لگے:

"قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا؛ بولے: پروردگار ! ہم پر صبر کی طاقت انڈیل دے"۔ یعنی ہمیں صبر اور ثابت قدمی عطا فرما "وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا؛ اور ہمارے قدموں کو جما دے"۔

وہ یہ دعا کرنے لگے "رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا"، اس لئے کہ ان کے قدم لڑکھڑا نہ جائیں۔۔۔ ابھی اس وقت اگر ہم یہاں بیٹھے ہوں اور اچانک گولوں اور بموں کی صدائیں سنائی دیں تو معلوم ہوگا کہ "ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا" کا کیا مطلب ہے۔ ثابت قدمی کے لئے دعا کی ضرورت ہے، اللہ کی درگاہ میں گڑگڑانے کی ضرورت ہے، فریاد اور استغاثہ کرنے کی ضرورت ہے، یہ سب معرکے کے آغاز سے پہلے کے مراحل ہیں، جنگ چھڑ جائے تو آپ کے پاس یہ سب کرنے کا موقع نہیں ہوگا، انسان کو پہلے ہی ان تربیتی مراحل سے کی تکمیل کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ان تربیتی مراحل میں سے ایک دعا ہے جو بہت اہم ہے، دعا یعنی حضرت حق تعالیٰ سے ارتباط۔

۔۔۔۔۔۔۔

1۔ "فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ؛ اب جوطا لوت افواج کو لے کرروانہ ہوئے توکہاکہ اللہ تم لوگوں کی آزمائش کرنے والا ہے ایک نہر کے ساتھ توجو اس میں سے پانی پی لے گاوہ مجھ سے کچھ واسطہ نہیں رکھتا ہوگااور جواسے چکھے گا بھی نہیں وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہو گا مگروہ جو بس چلو میں پانی لے لے تو سب نے اس سے، پانی پی لیا سوا ان میں سے تھوڑے سے لو گو ں کے۔ اب جب وہ اور ان کے ساتھ کے ایمان لا نے والے وہاں سے آ گے بڑھے تو وہ لوگ کہنے لگے ہم میںآ ج جا لوت اوراس کی افواج کے مقابلہ کی طا قت نہیں ہے۔ ان لوگوں نے جنہیں پورا پورا خیال تھا کہ وہ خدا کو منہ دکھائیں گے، کہا کہ کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آ جا تی ہیں، اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے"۔ (سورہ بقرہ، آیت 249)

2۔ "وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ؛ اور جب جالوت اور اس کی افواج کے سامنے باہر نکلے توکہا پروردگار ! ہم پر صبر کی طاقت انڈیل دے اور ہمارے قدموں کو جما دے اور کافرجماعت کے مقا بلہ میں ہماری مدد فرما"۔  (سورہ، آیت 250)

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110