اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
اتوار

3 مارچ 2024

2:19:04 PM
1441874

جنگ بندی کے لئے حماس کی شرائط؛

مذاکرات میں لچک دکھانے کے لئے تیار ہیں تاہم لڑائی جاری رکھنے کے لئے تیار ہیں۔۔۔ اسماعیل ہنیہ

صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر جھوٹ بولنے اور مذاکرات میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ حماس نے جنگ بندی کے مذاکرات میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے، حالات کو جانتے ہوئے نیز مزاحمتی گروپوں کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے، مذاکرات کے لیے اپنی شرائط طے کی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمت کی تیاری پر زور دیا اور جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے فلسطینی گروہوں کی شرائط کی وضاحت کی۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہا: ’’یہ تحریک اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں لچک دکھائے گی، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے بھی تیار ہے۔‘‘ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے مزید کہا ہے کہ صہیونی ریاست کے سب سے بھیانک جرائم میں قتل، لوگوں کو بے گھر کرنا، تشدد، بھوک اور نسل کشی شامل ہیں۔

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے کہا ہے کہ صہیونی دشمن کئی مہینوں سے غزہ کے میدان جنگ میں بہادر فلسطینیوں کے مقابلے میں بے بس نظر آرہا ہے اور اس نے صرف خواتین اور بچوں کا قتل عام کیا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے واضح کیا کہ دشمن یہ سوچتا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کے محاصرے اور آباد کاروں کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت دیکر طوفان الاقصیٰ کے اثرات کو زائل کر دے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ غزہ میں جدوجہد کے میدانی حالات پر غور کرتے ہوئے، اسماعیل ہنیہ نے ایک ہی وقت میں دو حقیقت پسندانہ نظریات کو پیش کیا ہے۔ پہلی بات فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی صہیونی ریاست کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور اس کے بارے میں آگاہی ہے، جو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد بخوبی آشکار ہوئی ہے۔

دوسری نظر فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی برتری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ برتری صہیونی قیدیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے، جو جنگ بندی کے مذاکرات کے انعقاد کی صورت میں ٹرمپ کے کارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں طوفان الاقصیٰ کارروائی کے بعد فلسطینی مزاحمتی گروہوں سے نمٹنے میں صہیونی فوج کی ناکامی کے انکشاف کے بعد صہیونی ریاست کی کابینہ میں داخلی کشیدگی عروج پر ہے۔ صہیونی ریاست اس ناکامی اور مقبوضہ علاقوں میں عدم اطمینان کی صورتحال پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ مختلف حیلے بہانوں سے سیاسی اور معاشی بحرانوں کا جواز پیش کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں صہیونی ریاست کے رہنماوں کو صہیونی فوجی قیدیوں کے اہل خانہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی وجہ سے اس حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور انتہاء پسند صہیونیوں کے درمیان شدید کشیدگی اور اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر جھوٹ بولنے اور مذاکرات میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ حماس نے جنگ بندی کے مذاکرات میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے، حالات کو جانتے ہوئے نیز مزاحمتی گروپوں کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے، مذاکرات کے لیے اپنی شرائط طے کی ہیں۔ حماس کے لیے بنیادی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ غزہ سے صہیونی فوج کا غیر مشروط، مکمل انخلاء، خواتین اور بچوں سمیت بے دفاع فلسطینی شہریوں پر حملوں کی بندش ہو۔حماس کے عہدے داروں نے خطے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کرنے کے لئے دوسرے سیاسی گروپوں کے ساتھ ساتھ مختلف فلسطینی جنگجوؤں کے ساتھ انٹرا گروپ مشاورت شروع کر دی ہے اور بظاہر بنیادی مسائل پر اہم معاہدے طے بھی پا چکے ہیں۔

فلسطینی گروپوں کے اندرونی اتحاد کے ساتھ ساتھ سیاسی مشاورت کا مزید سلسلہ بھی جاری ہے۔ خطے میں ہونے والی پیش رفت میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ جنگ بندی نیز، اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء اور محاصرہ اٹھانے کی ضمانت کے بغیر صہیونی فوجی قیدیوں کو حوالے نہیں کریں گے۔ بار بار وعدوں کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ صہیونی ریاست کا وطیرہ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں صہیونی ریاست کے یہ اقدامات ان کی پالیسیوں کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروہ صہیونی غاصبوں کے اس تاریخی رویئے سے پوری طرح آگاہ ہیں اور وہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے جنگ بندی کے مذاکرات میں داخل ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

110