اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

26 فروری 2024

10:18:27 PM
1440628

امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) تشریف کیوں نہیں لاتے؟ (1)

دنیا امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کو خیرمقدم کہنے کے لئے تیار نہیں ہے، دنیا معنویات اور الٰہی اقدار سے جدا ہوچکی ہے، دنیا والے گناہوں اور فساد و برائی کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور دنیا بھر میں حکومت عدل کے قیام کے لئے ضروری انسانی قوت گویا موجود نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے تمام واقعات کے لئے بعض تمہیدات و مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور حضرت حجت (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کا ظہور بھی ایسا ہی ہے جس کے لئے ماحول کو تیار ہونا چاہئے، صاحبان ایمان میں سے ایک بڑی جماعت کو امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی نصرت اور مدد اور ان کی راہ میں جانبازی کے لئے تیار ہونا چاہئے تا کہ امامؑ کا نجات بخش انقلاب ممکن ہوسکے۔ بے شک جب ماحول تیار ہوگا تو امامؑ تشریف لائیں گے۔ تاہم موجودہ زمانے میں رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں جن کی بنا پر امامؑ ظہور نہیں فرما رہے ہیں۔

سب سے اہم رکاوٹیں کچھ یوں ہیں:

دنیا امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کو خیرمقدم کہنے کے لئے تیار نہیں ہے، دنیا معنویات اور الٰہی اقدار سے جدا ہوچکی ہے، دنیا والے گناہوں اور فساد و برائی کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور دنیا بھر میں حکومت عدل کے قیام کے لئے ضروری انسانی قوت گویا موجود نہیں ہے۔

بہرحال کہا جاسکتا ہے کہ امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے عدم ظہور کا اہم ترین سبب یہ ہے کہ اس ظہور کے لئے مناسب ماحول اور مساعد حالات فراہم نہیں ہوئے ہیں۔ چنانچہ ظہور کو قریب تر کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی کی خاطر کوشش کرنے کی ضرورت ہے، معاشروں کی اصلاح کی ضرورت ہے؛ امام مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی راہ میں جانبازی کے لئے محبان رسولؐ و آل رسولؐ میں سے افرادی قوت کی تعلیم و تربیت کرنے کی ضرورت ہے؛ اور دوسری طرف سے پروردگار عالمین کے سامنے نیازمندی کا ہاتھ پھیلا کر گڑگڑانا چاہئے کہ اللہ کی مشیت متقاضی ہو اور ظہور پر نور کی ازلی و ابدی آرزو بر آئے:

حديث:

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

 "أَفضَلُ أَعمَالِ اُمّتِي إِنتِظَارُ الفَرَجِ مِنَ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ؛

میری امت کا بہترین عمل درگاہ خدائے عزّ و جَلَّ سے "فَرَج" (وسعت و فراخی) کا انتظار کرنا [اور توقع رکھنا]، ہے"۔ (1)

سوال: امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) ظہور کیوں نہیں کرتے؟

امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے پروگرام اور انبیاء و اور دوسرے ائمہ کے پروگرام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کا پروگرام دنیا بھر میں صرف اور صرف انتظامی، تعمیلی اور تنفیذی ہے۔ یہاں قانون سازی (تشریع = Legislation) نہیں ہوتی بلکہ آدم (علیہ السلام) سے خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ) تک، اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے سے امام حسن عسکری (علیہ السلام) تک ہونے والی قانون سازیوں کے نتیجے میں آنے والے قوانین کو نافذ کرنا ہے۔

امام زمانہ (علیہ السلام) کی غیبت (غائب ہونا) خدائے متعال کے سربستہ رازوں میں سے ایک ہے اور بہت ممکن ہے کہ ہم اس کی گہرائیوں تک نہ پہچ سکیں، اور بعض روایات میں ہے کہ غیبت کا راز، ظہور کے بعد، کھل جائے گا۔ (2)

آیت اللہ العظمی جعفر سبحانی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ظہور میں تاخیر کے راز کو عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں بیان کیا۔

سوال: امام زمانہ ظہور کیوں نہیں کرتے؟

جواب: امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے پروگرام اور انبیاء و اور دوسرے ائمہ کے پروگرام میں بنیادی فرق ہے اور وہ کہ امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کا پروگرام دنیا بھر میں صرف اور صرف انتظآمی، تعمیلی اور تنفیذی ہے۔ یعنی یہ کہ امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کو خدا کی طرف سے مشن سونپ دیا گیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے تمام اصولوں کو دنیا میں نافذ کریں اور عدل و انصاف اور حق و حقیقت کے اصولوں کو انسانی معاشروں میں فروغ دیں۔

ظاہر ہے کہ اس طرح کے ایک عالمی انقلابی پروگرام کے نفاذ کے لئے - جس کے ذریعے سے پوری دنیا میں عدل و انصاف اور حق و حقیقت کو فروغ ملے گا - کچھ شرائط اور تمہیدات کی ضرورت ہوگی اور ان تمہیدات کی فراہمی پورے انسانی اجتماع کے ارتقاء اور کمال کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان تمہیدات میں سے بعض کچھ یوں ہیں:

1۔ روحانی، نفسیاتی اور ذہنی تیاری

سب سے پہلے دنیا کے لوگوں کو ان اصولوں کے نفاذ کا پیاسا اور ان کے لئے تیار اور آمادہ ہونا چاہئے اور جب تک کہ "طلب" نہیں ہوگی "رسد" بھی نہیں ہوگی اور ہر قسم کا مادی اور معنوی و روحانی پروگرام بھی غیر مؤثر ہوگا۔ طلب اور رسد (Supply and Demand) کا قاعدہ صرف معاشی اور تجارتی شعبوں میں ہی رائج نہیں ہے بلکہ ایسا ہی قاعدہ معنوی پروگراموں، اخلاقی اصولوں اور سیاسی و انقلابی مکاتب میں بھی رائج ہے اور جب تک دلوں کی گہرائیوں میں - اس طرح کے امور کے لئے - طلب اور درخواست نہ ہو، انہیں اگر پیش بھی کیا جائے تو کام آگے نہيں بڑھ سکے گا۔ (3)

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

"جس دن قائم آل محمد (صلی اللہ علیہم اجمعین) قیام کریں گے، خداوند اپنا ہاتھ بندوں کے سر پر رکھتا ہے، اور عقلوں کو مجتمع کرتا ہے اور ان کے شعور اور سمجھ بوجھ کو حد کمال پر پہنچا دیتا ہے"۔ (4)

البتہ وقت گذرنے، مادی قوانین کی شکست، عالمی سطح پر بند گلیوں اور تعطل کا سامنا کرنے اور بنی نوع انسان کا [مسلسل] جنگ کے دہانے پر رہنے کی وجہ سے دنیا کے لوگ تنگ آگئے ہیں اور جتنی اس صورت حال میں شدت آئے گی، انسان اس حقیقت سے اتنے ہی واقف ہوجائیں گے کہ مادی اصول و قوانین اور نام نہاد بین الاقوامی ادارے انسانی حیات کے مسائل کے حل اور دنیا میں عدل و انصاف کے قیام سے عاجز ہیں؛ اور انسانوں کی ناامیدی اور یہی تھکاوٹ اور اکتاہٹ انہیں ایک عالمی انقلاب کی قبولیت کے لئے مہیا اور آمادہ کرے گی اور ہم جانتے ہیں کہ اس مسئلے کے لئے وقت کی ضرورت ہے، غزہ کا مسئلہ بہت بڑا قدم ہے، تاکہ زندگی کے تلخ تجربات سے ثابت و آشکار ہو جائے کہ دنیا کے تمام نظامات اور تمام انسانی تنظیمیں اور ادارے عدل و انصاف کے قیام، حق کو حق کہنے اور مستحق کو حق فراہم کرنے، امن و سلامتی اور اطمینان و سکون برقرار کرنے سے عاجز و بے بس ہیں۔ چنانچہ مایوسی اور ناامیدی کی وجہ سے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کے دلوں میں اس الٰہی مثالی عالمی نظام کی طلب اور یہ التجا و التماس معرض وجود میں آئے اور ماحول ایک الٰہی اور آسمانی ہستی کی امامت میں ایک عالمی انقلاب کے لئے فراہم ہوجائے۔ (5)

2۔ انسانی علوم اور تہذیبوں کا ارتقاء / کمال تک نشوونما

دوسری طرف سے عدل و انصاف پر مبنی عالمی حکومت کے قیام کے لئے، طبعی اور تجرباتی سائنس اور سماجی و انسانی علوم و فنون اور ثقافتوں و تہذیبوں کی بے پناہ ترقی کی اشد ضرورت ہے اور ان ارتقائی مراحل کو بھی فکری اور ذہنی کمال اور وقت کی ضرورت ہے۔

عالمی حکومت کا قیام - جس کے سائے میں پوری دنیا میں عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی ہوگی اور پوری دنیا کے انسان اسلام کے انفرادی اور اجتماعی فوائد سے لطف اندوز ہونگے - انسانی حیات کے تمام شعبوں میں ایک نہایت ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت کے معرض وجود میں آنے کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ اور اس کے لئے بھی وقت کی ضرورت ہے۔

3۔ ذرائع ابلاغ عامہ کا ارتقاء

اس طرح کی عالمی حکومت کے لئے کامل و مکمل ذرائع ابلاغ عامہ (Mass Media) کی ضرورت ہے، جن کے ذریعے وہ انسانی قوانین و ضوابط، اور اصولوں کو مختصر عرصے میں، مختلف طریقوں سے، دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچا سکے؛ اس قسم کے ارتقائی عمل کے لئے انسانی صنعتوں کے ارتقاء ـ اور پھر بھی "وقت" ـ کی ضرورت ہے۔

4۔ افرادی قوت کی تربیت

مذکورہ بالا حقائق کے ساتھ ساتھ، اس قسم کے عالمی انقلاب کی برپائی اور عالمی حکومت کی تشکیل کے لئے ایک فعال، سرگرم، با ایمان، با حوصلہ، باہمت اور تعمیری افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ یہ افرادی قوت - درحقیقت - عالمی فوج بنائے گی؛ اس طرح کی فوج کی تشکیل اور اس قسم کے پاک باز، ایماندار، امانت دار، جفاکش اور قربانی کے لئے تیار افراد کی تربیت، - جو اپنے اعلیٰ مقصد کے حصول کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں - کے لئے بھی طویل محنت کی ضرورت ہے۔

آزمائشوں میں اسلام کی منطق کیا ہے؟

ہم روایات و احادیث میں پڑھتے ہیں کہ امام زمانہ عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کی طویل غیبت کا ایک فلسفہ لوگوں کی آزمائش ہے؛ تو یہ فلسفہ شاید اس نکتے کے تناظر میں بیان ہؤا ہے کہ اسلامی منطق میں امتحان اور آزمائش سے معمول کے امتحانات اور خفیہ اشیاء کا انکشاف مراد نہیں ہے بلکہ اس سے پاک حوصلوں اور ہمتوں کی پرورش اور افراد کو زیادہ سے زیادہ مہارت، آزمودہ کاری، کاردانی، لیاقت و استعداد اور علم و دانش سے لیس کرنا مقصود ہے۔ (6)

اس چار جہتوں (7) کے مجموعے تیاری کے لئے اچھی خاصی، طویل المدت محنت اور ہمہ جہتی ارتقائی سفر کی ضرورت ہے اور وہ یوں کہ دنیا مختلف جہتوں میں آگے بڑھے، اور حق و عدل پر مبنی عالمی حکومت کے قیام کے لئے لوگوں میں روحانی، نفسیاتی اور فکری آمادگی معرض وجود میں آئے؛ تب ہی یہ پروگرام خاص وسائل و امکانات کے ساتھ، عالمی سطح پر، حضرت مہدی (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے ہاتھوں نافذ ہوگا اور یہ ہے طویل غیبت امام زمانہ (عَجَّلَ اللّه تَعَالَىٰ فَرَجَہُ الشّريف) کے فلسفے کا ایک گوشہ۔

----------------------------------

مآخذ و حوالہ جات:

1۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج52، ص122.

2۔ شیخ صدوق، کمال الدین، ج2، ص482۔

3۔ ائمہ (علیہم السلام) کو اپنے زمانوں میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا تھا لیکن آج کے زمانے کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کی سمجھ بوجھ ہم جتنی نہیں تھی، یہ سوال الگ ہے کہ پھر ہم یعنی اس زمانے کے سمجھ بوجھ رکھنے والے اور ادراک کی چوٹیوں کو سرکرنے والے انسان ظہور کے تقاضوں پر پورا کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟!

4۔ علامہ کلینی، الکافی، ج1، ص25، کتاب العقل، ح21۔

5۔ اسلامی احادیث میں امام زمانہ (علیہ السلام) کے ظہور اور انقلاب کی ایک متفقہ اور واضح و روشن نشانی یہ ہے کہ پورا عالمی انسانی معاشرہ ظلم و جبر، جارحیت اور ناانصافی کا شکار ہوجائے گا اور مایوسی اور اداسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا پورے انسانی معاشرے پر چھا جائے گا اور ظلم و جارحیت کا بوجھ اس قدر بڑھ جائے گا کہ بنی نوع انسان ایک الٰہی ہستی کے طاقتور اور مضبوط ہاتھوں سے بپا شدہ عظیم، عمیق، بنیادی اور مستحکم انقلاب کی قبولیت کے لئے آمادہ ہو چکا ہوگا۔

6۔ انبیاء اور اولیاء (علیہم السلام) کو خدا کی طرف سے درپیش امتحانات اور آزمائشیں بھی اسی مقصد کے لئے ہیں۔ اگر خداوند متعال نے حضرت ابراہیم خلیل الرحمٰن (علیہ السلام) کو نہایت دشوار فرائض سے آزمایا تو اس کا مقصد یہی تھا۔ خدائے متعال کا ارشاد گرامی ہے: "وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ۔۔۔؛ (سورہ بقرہ، 124) اور آیت کے متن سے واضح ہے کہ اس آزمائش کا مقصد یہی تھا کہ ایک عظیم الٰہی شخصیت یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مختلف قسم کے واقعات و حادثات کی بھٹی میں پختہ ہوجائیں اور ان کی استقامت و شجاعت کو جلا ملے اور فولاد کی طرح مضبوط ہوجائیں۔

7۔ ان چار جہتوں کے مجموعے کو ذیل کے چار امور میں سمیٹا جاسکتا ہے:

1۔ روحانی ارتقاء،

2۔ تہذیبی و ثقافتی ارتقاء،

3۔ ذرائع ابلاغ عامہ کا ارتقاء اور

4۔ ایک پاک باز اور جان فشاں معاشروں میں سے ایک عالمی انقلابی فوج کی تیاری۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ و ترتیب: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110