اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

21 فروری 2024

9:46:55 PM
1439558

آج غزہ میں پوری شرافت پوری شرارت کے مد مقابل ہے / اگر مسلم ممالک قرآن پر عمل کرتے صہیونی ریاست غزہ کے عوام کا قتل عام نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ صدر رئیسی

صدر اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا: آج تمام شرارتوں اور شر انگیزیوں کا محور امریہ ہے۔ غزہ میں پوری شرافت پوری شرارت کے مد مقابل کھڑی ہے، جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو بالکل ترک کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فلسطین پر اس قدر ظلم ہو رہا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صدر اسلامی جمہوریہ ایران آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے چالیسویں عالمی قرآنی مقابلوں کی اختتامی تقریب کے موقع پر بین الاقوامی قراء اور حفاظ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن کریم تمام انسانوں کی ہدایت کی کتاب ہے، گوکہ بعض انسان ہدایت پذیر نہیں ہیں، قرآن میں سمجھ بوجھ، تلاوت اور قرآن کے ساتھ اُنسیت اور واقفیت کو فروغ دینا چاہئے، آج قرآن کریم کے تمام حافظوں، قاریوں اور قرآن کے ساتھ واقفیت رکھنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ دینی تعلیمات کو فروغ دیں، رائے عامہ کو روشن اور منور کریں اور قرآنی آیات کی روشنی میں معاشروں کو آگاہ کریں۔

انھوں نے کہا:

انسان، معاشرے اور تہذیب کی تعمیر قرآن کریم کی بعض خصوصیات ہیں اور اگر قرآن کے نام پر ایک تہذیب و تمدن کو دنیا میں قائم کیا جائے تو پوری انسانیت کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج ہماری کھوئی ہوئی چیز قرآن اور اس کی آیات کریمہ، وحی، اور قرآن کے اصل مفسرین اور مبلغین یعنی رسول اکرم اور اہل بیت عصمت و طہارت (صلوات اللہ علیہم اجمعین) سے واقفیت اور روشناسی ہے؛ اور قرآن کے میدان میں تمام فعال اور سرگرم افراد کو چاہئے کہ قرآن کی ترویج کے لئے سائبر اسپیس اور سماجی رابطے کی ویب گاہوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔

آج انسانی معاشرے قرآن کی نورانیت کے محتاج ہیں؛ یہ کہ کچھ لوگ آیات قرآنی کو سنتے ہیں اور قرآن سے پیشگی آشنائی کے بغیر اس پر ایمان لاتے ہیں، اس کا مفہوم یہ ہے کہ آیات قرآنی انسان کی فطرت اور ضمیر سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور یہ آیات انسانوں کے اندر اعلیٰ رجحانات پیدا کرتی ہیں۔

انھوں نے کہا:

اسلامی امت کی تشکیل کے لئے چار عناصر کی ضرورت ہوتی ہے: مشن کا جاری رہنا، زمان و مکان کے تقاضوں سے مطابقت، مقصدیت اور امام و پیشوا۔ اور قرآن کریم امت کا محور ہے۔ دنیا میں ناانصافی، ظلم و امتیازی رویوں کے خلاف جدوجہد بھی اسی قرآن کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر آج اسلامی ممالک قرآنی ہدایت کے مطابق عمل کرتے تو کیا صہیونی ریاست اس انداز سے غزہ کے بہادر اور ثابت قدم مگر مظلوم عوام کا قتل عام کرنے کی جرات کر سکتی تھی؟ کیا امریکہ جرات کر سکتا تھا کہ اس جرائم پیشہ غاصب ریاست کے خلاف، غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے لئے آنے والی کئی قراردادوں کو ویٹو کر سکتا تھا؟  

آج غزہ میں پوری شرافت پوری شرارت [اور پوری خیر پورے شر] کے خلاف میدان میں آکھڑی ہوئی ہے؛ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسانیت پر ظلم ہو رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو ترک کر دیا گیا ہے اور اس کا واحد علاج قرآن کی طرف پلٹنے میں مضمر ہے؛ امت اسلامیہ کی تشکیل قرآن کریم، اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کی تشکیل کا دارومدار قرآن مجید کی آیات اور ہدایات پر عمل کرنے پر ہے۔  

بلا شبہ تمام بلاؤں، آزمائشوں اور مصائب و مسائل میں قرآن ہی انسان کا ملجأ و مأویٰ ہے اور اس عالم میں حیرت زدہ، پریشان حال اور مایوس انسان قرآن کی روشنی میں ہدایت پاتے ہیں، حیرت سے چھٹکارا پاتے ہیں اور ان کے دلوں امید کی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ یہ نورانی محفل جو دنیا بھر کے قراء اور حفاظ سے تشکیل پائی ہے، قرآن کی محوریت اور مرکزیت پر اتحاد، ہمراہی اور ہم فکری کی نوید دے دے رہی ہے؛ اور یہ محفل امید، امت واحدہ کی تشکیل نیز ظلم و ستم اور ناانصافی کے خلاف مقاومت [مزاحمت] اور استقامت کی نقیب ہو سکتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کو ہمیشہ اس قسم کے مقابلوں کے انعقاد کی توفیق ملتی رہی ہے، اور ہم نے اس دفعہ کے مقابلوں میں جس اتحاد، یکجہتی اور ہم فکری کا مشاہدہ کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج اپنے آپ کو قرآن کریم کے گہوارے اور امت اسلامی کے اتحاد و یکجہتی کے علمبردار کے طور پر متعارف کرا سکتا ہے۔ 

ہم دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو اتحاد، یکجہتی، باہمی تعاون اور تعامل کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ قرآن کریم تمام مسلمانوں اور تمام مذاہب و اقوام اور لسانی اور نسلی گرہوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا محور بن سکتا ہے۔

صدر اسلامی جمہوری ایران نے کہا:

ہم قرآن کریم کے سہارے ید واحدہ ہو سکتے ہیں، امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) اور رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) ہمیشہ بیان میں بھی اور عمل میں بھی قرآن کریم کے ساتھ انس و واقفیت پیدا کرنے کی ترغیب دلاتے رہے ہیں اور انہوں نے ہم پر تاکید کی ہے کہ کسی بھی صورت میں قرآن کریم کی فہم و ترویج کی راہ میں رک نہ جائیں۔

قرآن کی فہم و تفہیم اور ترویج ایک نشوونما اور ارتقاء و کمال کی طرف دائمی ترغیب کا سبب بن سکتی ہے؛ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنی ہدایت اور اپنے مسائل کا حل قرآن میں ہی تلاش کرنا چاہؤے اور اسی آسمانی کتاب کی تعلیمات کی روشنی میں دنیاوی اور اخروی فلاح و سعادت پانے کے لئے کوشاں رہیں۔

صدر سید ابراہیم رئیسی نے بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کے اس دور کے تمام منتخب قراء اور حفاظ کو ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے کہا:

اگر چہ ان مقابلوں میں بعض افراد نے بہتر پوزیشنیں حاصل کی ہیں لیکن جو بھی قرآن سے انسیت اور واقفیت رکھت ہے، اور قرآنی محافل میں حاضر ہوتا رہت ہے اور اپنے قلب و دل اور اپنی روح کو قرآن کا گھر بنا دے وہ فاتح و کامیاب ہے؛ یہ مقابلے ان مقابلوں میں شامل ہیں جن میں کوئی بھی ہارنے والا نہیں ہے اور شرکت کرنے والے سب فاتح و کامیاب ہیں اور سب اللہ کی درگاہ میں اجر پانے والے ہیں۔

صدر رئیسی نے اس تقریب میں قرائت اور حفظ کے مقابلوں میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے مردوں، خواتین، نیز طلباء اور طالبات کو شیلڈ دی اور ان کی کارکردگی کو سراہا۔  

منعقدہ اس تقریب میں صدر رئیسی نے ان مقابلوں کے فاتحین کو اعزازات سے نوازا؛ اس تقریب میں 6خواتین اور 9مردوں سمیت 15جیتنے والوں کو تحقیق، تلاوت اور حفظ قرآن کے شعبوں میں  مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔

مذکورہ مقابلوں کے ابتدائی مرحلے میں 80 ممالک کے 150 افراد دے حفظ، مطالعہ و تحقیق اور ترتیل کے شعبوں میں حصہ لیا؛ اور ان مقابلوں میں پہلی بار خواتین کے ترتیل کو شامل کیا گیا اور آخری مرحلے میں 33 ممالک کے 52 افراد نے حفظ، تحقیق اور ترتیل کے شعبوں میں حصہ لیا۔

۔۔۔۔۔۔

110