اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، القاعدہ نے تحریر الشام اور افغان طالبان نے
"اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف اعلان جہاد" کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہودیوں
کو "اسلامی علاقوں" سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن داعش نے
مثبت رد عمل نہیں دکھایا۔ کیونکہ وہ "فلسطین کاز کو اپنے ایجنڈے کا حصہ نہیں
سمجھتی"، اور حماس کو "قوم پرستانہ نظریات اور ایران کے ساتھ دوستانہ
تعلقات" کی رو سے مورد تنقید ٹہرایا ہے۔
داعش [شاید] اس وجہ سے بھی حماس کی کاروائی کے خلاف ہیں کہ فلسطین میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے اور "قوم پرست نیز اسلام پسند فلسطینی گروپ" فلسطین میں ان کی موجودگی کے خلاف ہیں۔
داعش نے اپنے پہلے رد عمل کے عنوان سے 12 اکتوبر 2023ع کو مجلہ البناء کے اداریے میں "مصیبت میں الجھے ہوئے مسلمانوں کی حمایت" پر زور دیا اور 19 اکتوبر کو "مرتد عرب حکومتوں" کے خلاف جنگ کو اپنی ترجیح قرار دیا جو "اسرائیل کے لئے قلعے اور حصار کا کردار ادا کرتی ہیں"۔
تاہم داعش نے جہاد کا کوئی حکم جاری نہیں کیا یہاں تک کہ 4 جنوری سنہ 2024ع کو داعش نے "اسرائیل کے خلاف بلکہ نہیں" بلکہ "فوجی اور غیر فوجی عیسائیوں اور یہودیوں نیز مرتد مسلمانوں" پر کڑی تنقید کی؛ داعش کا یہ موقف کرمان میں شہید جنرل سلیمانی کی برسی کے شرکاء پر داعش خراسان کے دہشت گردانہ حملوں کی صورت میں نمایاں ہؤا جس میں 90 افراد شہید ہو گئے۔
داعش نے اپنے بیان میں غزہ پر اسرائیل کی شدیدترین بمباریوں [اور ایران کی فلسطینی سنیوں کی حمایت] کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ "ایران مقاومت کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے اسی بنا پر وہ "سنی اسلام" کا اہم ترین دشمن ہے!"۔
دسمبر 2023ع کے آخری ہفتے میں داعش کی خراسان شاخ کی ایک آٹھ رکنی ٹیم کو کولون کیتھیڈرل اور سینٹ اسٹیفن کیتھیڈرل پر بم حملے کی کوشش کے الزام میں، ویانا میں گرفتار کیا گیا۔
25 دسمبر 2023ع کو کرغزستان کے شہر جلال آباد پولیس نے داعش خراسان کے دو نوعمر ارکان کو گرفتار کیا جو اس شہر کے مرکزی اسکوائر اور ایک گرجاگھر میں دھماکوں کا منصوبہ بنانے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ 29 دسمبر کو داعش خراسان کے 32 اراکین کو ترکیہ میں گرفتار کر لیا جن پر استنبول کے کیتھولک گرجا گھر اور دو یہودی کنیسوں میں بم رکھنے کا الزام تھا؛ بعدازاں 28 جنوری کو داعش خراسان نے استنبول میں ایک گرجا گھر پر کامیاب حملہ کیا جس میں ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی ہؤا۔
داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ اس تکفیری دہشت گرد ٹولے کے رویوں اور اس کی کاروائیوں کی روش میں کسی تبدیلی کا باعث نہیں ہوئی ہے؛ اور اب جبکہ شیعہ اور سنی غزہ کی جنگ میں صہیونی دشمن کے خلاف اقدامات پر متفق القول ہیں، داعش پھر بھی شیعہ مخالف اور تکفیری رویوں پر بضد ہے؛ اور اس کا تصور یہ ہے کہ غزہ کی جنگ سے پیدا ہونے والے ماحول میں وہ اپنی کاروائیوں کی حدود کو پھیلا سکتی ہے، گوکہ انہیں اس سلسلے میں اہل سنت کے جہادی گروپوں میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔
مذکورہ رپورٹ میں البتہ ارادی طور پر، اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا گیا ہے کہ امریکہ اور صہیونی ریاست کی پروردہ داعش، صہیونی جارحوں کے خلاف کوئی کاروائی کیونکر کر سکتی ہے اور مقاومت کی حمایت کیونکر کر سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ۔۔۔۔۔۔۔
110