اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

6 فروری 2024

11:33:21 PM
1435855

تین فوجیوں کی ہلاکت پر 20 لاکھ عراقیوں کے قاتل امریکیوں کی عراقیوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں

امریکیوں نے جرات کرکے تین اپنے تین ہلاک شدگان کے بدلے میں عراق پے حملے کی جرات کی ہے جبکہ امریکہ نے براہ راست حملوں اور وحشیانہ بمباریوں کے ذریعے، افراغ شدہ یورینیم ((Depleted uranium پر مشتمل گولہ بارود، العامریہ پناہگاہ پر بہیمانہ بمباری اور 10 سال تک بھوک و افلاس مسلط کرکے بیس لاکھ سے زیادہ عراقیوں کا قتل عام کیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، لندن سے اپڈیٹ ہونے والے رای الیوم نامی الیکٹرانک اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے لکھا:

عراق اور شام پر امریکی حملے تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں کئے گئے؛ یہ امریکی فوجی امریکہ کی صہیونی ریاست کی کھلم کھلا حمایت کے جواب میں مقاومتی کاروائی میں ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ بخوبی جانتا ہے کہ عزالدین القسام بریگیڈز نے سات اکتوبر 2023ع‍ کو طوفان الاقصی آپریشن کرکے اسرائیلی ریاست کے مستقبل کو انتہائی خطرناک انداز سے خطرے میں ڈال دیا ہےچنانچہ وہ سفارتی چینلوں سے اس ریاست کے بچاؤں کی ترکیبیں آزما رہا ہے تاکہ یہ ریاست ختم نہ ہونے پائے۔

البتہ دوسری طرف سے تل ابیب پر مسلط غاصب حکمرانوں کا جبر و غرور انہيں اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرنے دے رہا ہے اور اب جبکہ امریکہ اور برطانیہ غزہ پر ان کی کاروائیوں کو لاحاصل سمجھ کر انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں، تو انہوں نے اپنے ان آقاؤں کے خلاف زبان ملامت کھول دی ہے۔ امریکیوں نے حال ہی میں "صرف کاغذی فلسطینی ریاست" کے قیام پر زور دینا شروع کیا تو صہیونی خوفزدہ ہو گئے کہ کہیں امریکہ اپنا موقف ہی نہ بدل دیں۔

ہمارے مدعا کا ثبوت کنیسٹ (یعنی صہیونی پارلیمان) کے رکن اور اندرونی سلامتی کمیٹی کے سربراہ زویکا فوگیل (Zvika Fogel) کا یہ کہنا ہے کہ "ہم برطانیہ کے زیر سرپرستی ریاست نہیں ہیں، اور امریکی پرچم کا 51واں ستارہ بھی نہیں ہیں۔ ہم وہ "اسرائیل" ہیں جو یہودیوں کو دیا گیا ہے۔ جو کچھ امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہتے ہیں یہ درحقیقت ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے"۔

کیمرون گویا اسرائیلیوں کے ممنوعہ علاقے اور ریڈ زون میں داخل ہو گئے ہیں۔ صہیونی اور دوسرے، کیمرون کے موقف کو سمجھتے ہیں لیکن یہ کہ [نام نہاد] برطانیہ عظمی کا وزیر کہہ رہا ہے درحقیقت اعصابی رگ پر انگلی رکھنے اور ایک ایسے حقیقت کریدنے کے متراف ہے جس کا اعتراف صہیونیوں کے لئے خوشایند نہیں ہے، اور وہ یہ ہے کہ "القسام بریگیڈز نے جنگوں کی تاریخ میں پہلی بار فتح حاصل کی ہے اور صہیونی ریاست کی شان و شوکت خاک میں مل چکی ہے اور سیکورٹی کے لحاظ سے وہ اب ایک محفوظ ریاست نہیں رہی ہے اور یہ ریاست مزید نوآباد بستیوں کے یہودی مکینوں کو تحفظ دینے کے قابل نہیں رہی ہے۔

کنیسٹ کی اندرونی سلامتی کمیٹی کا سربراہ زویکا فوگیل خود نوآباد یہودی بستی کا مکین ہے، اور اس کا اتحادی، صہیونی ریاست کا داخلی سلامتی کا وزیر ایتامار بن گویر (Itamar Ben-Gvir) بھی ایسا ہی ہے اور میں ان سے کہتا ہوں: "تم آج بھی برطانیہ کے زیر سرپرستی جی رہے ہو اور امریکی پرچم کا 51واں ستارہ ہو کیونکہ اگر ان ملکوں کی حمایت نہ ہوتی تو تم 75 سال تک قائم نہیں رہ سکتے تھے"۔

بائیڈن حرکت میں آگئے ہیں اور اپنے وزیر خارجہ انتونی بلنکن کو چار ماہ کے مختصر عرصے میں پانچویں بار ـ نیز وزیر جنگ لائیڈ آسٹن (Lloyd Austin) اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان (Jake Sullivan) کو بھی کئی کئی بار ـ عرب ممالک کے دورے پر روانہ کرتے ہیں اور یہ سب محض تل ابیب کے بچاؤ کے لئے نہیں ہے، بلکہ امریکہ کو بھی اگلی شکستوں سے بچانے کے لئے ہے؛ بالخصوص اس لئے کہ وہ عراق اور یمن میں بری طرح الجھا ہؤا اور پھنسا ہؤا ہے اور اس کے فوجی اڈے اور جنگ بحری جہاز ان دو ملکوں کے مقاومتی تحریکوں کے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کے لئے مناسب شکار بن چکے ہیں۔

حال ہی امریکہ نے عراق کی الحشد الشعبی پر حملے کئے، امریکی بی-52 طیارے عراق پر بمباری کے لئے آئے ہیں، اور اردن میں اپنے خفیہ اڈے میں ہلاک ہونے والے "تین فوجیوں" کا بدلہ لینے کے لئے الحشد الشعبی کی چھاؤنیوں پر بمباری کرکے 25 عراقیوں کو شہید اور دسوں افراد کو زخمی کر دیا ہے۔

گویا امریکہ اور اس کے صدر بھول گئے ہیں کہ انہوں نے بھوک مسلط کرکے، افراغ شدہ یورینیم پر مشتمل گولہ بارود استعمال کرکے اور بہیمانہ بمباریاں کرکے 20 لاکھ عراقیوں کا قتل عام کیا ہے۔ امریکہ اپنے تین ہلاک شدگان کا بدلہ لینے کی جرات تو کرتا ہے تو وہ کیا عراقیوں کے لئے اپنے 20 لاکھ شہیدوں کا بدلہ لینے کے حق کا قائل نہیں ہے؟ 

امریکہ نئے حملے کرکے نئے نئے محاذ کھول رہا ہے اور اس نے مشرق وسطی کو جنگی محاذوں میں بانٹ دیا ہے، اور یہ سب تل ابیب کی خاطر، اور غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل کی تائید، یعنی عربوں اور مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل کی خاطر ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک شام، لیبیا اور یمن کی نابودی اور شام میں پانچ لاکھ اور لیبیا میں 50 ہزار عرب اور مسلمانوں کے قتل عام، عرب ممالک کو مقروض اور آئی ایم ایف سے وابستہ کرنے جیسے واقعات کو کیونکر فراموش کر سکتے ہیں۔

یقینا امریکیوں کی حکمت عملیاں قابل اعتماد نہیں ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کے مابین [ظاہری] جھگڑا ہمیں بہکا نہیں سکتے۔

ان دنوں اسرائیل ہی ـ امریکی حکومت میں اپنے صہیونی بازوؤں اور متعلقہ اداروں ـ کے ذریعے امریکہ کا اصلی حکمران ہے، اور یہی قضیہ برطانیہ پر بھی صادق آتا ہے۔ امریکہ نے غاصب ریاست کے بچاؤ کے لئے اپنے دو ہزار فوجیوں کو تل ابیب بھیج دیا اور گولہ بارود، بموں اور میزائلوں کی متنقلی کے لئے فضائی پل قائم کیا اور یہ سب اس نے اس وقت کیا جب صہیونی ریاست تمام محاذوں پر مقاومت کے ہاتھوں پٹ گئی تھی۔

اسرائیل شکست کھا چکا ہے اور اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور امریکہ بھی یمن، عراق، لبنان اور شام کی مقاومت کے مجاہد جوانمردوں کے ہاتھوں عظیم ترین تاریخی شکست کی طرف بڑھ رہا ہے، کیونکہ وہ نئی نسل کے راہنماؤں اور ان کی شجاعت اور قوت کو نہیں پہچانتا۔

۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔

110