اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

6 فروری 2024

8:51:24 PM
1435842

غزوہ خیبر:

رسول اللہ(ص) نے فرمایا: پرچم اس مرد کے سپرد کروں گا جس کے ہاتھوں خداوند عالم اس قلعے کو فتح فرمائے گا

بخاری نے صحیح میں اپنی سند سے، ابن حازم سے روایت کی ہے کہ سہل بن سعد نے مجھے خبر دی کہ یقینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے خیبر کے دن فرمایا: یقینا میں کل ضرور بضرور یہ پرچم اس مرد کے سپرد کروں گا جس کے ہاتھوں خداوند عالم اس قلعے کو فتح فرمائے گا؛ وہ ایسا مرد ہے جو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے محبت کرتا ہے اور خدا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔

غزوہ خیبر

غزوہ خیبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے غزوات میں سے ایک ہے جو سنہ 7 ہجری میں خیبر کے علاقہ میں پیش آیا۔ خیبر آج مدینہ سے 165 کلومیٹر شمال کی جانب شام کی طرف جانی والی سڑک (شاہراہ تبوک) پر واقع ہے اور اس کا مرکز الشُرَیف کہلاتا ہے۔ یہ علاقہ متعدد دیہاتوں اور ہرے بھرے کھیتیوں کا مجموعہ ہے جو خیبر ہی کے نام سے دیہی علاقہ ہے اور سطح سمندر سے 854 میٹر کی بلندی پر سنگستان میں واقع ہؤا ہے۔ خیبر بڑی بڑی وادیوں پر مشتمل ہے؛ پانی کی فراوانی ہے؛ زرعی علاقہ ہے اور یہاں کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے۔ خیبر کی زیادہ تر پیداوار کھجوروں پر مشتمل ہے۔ خیبر کے باشندے زیادہ تر قبیلہ عنزہ سے تعلق رکھتے ہیں جو سُریر نامی گاؤں اور غَرَس سے نورشید تک جانے والی پوری وادی میں سکونت پذیر ہیں۔ (1) غزوہ خیبر، جنگ خیبر یا فتح خیبر جیسے ناموں سے بھی مشہور ہے۔

 جنگ خیبر کی تمہیدات

سنہ 4 ہجری میں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بنو نضیر کے یہودیوں کو خیانت کے جرم میں مدینہ سے نکال باہر کیا، حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق اور کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق سمیت بعض یہودی خیبر کی طرف چلے گئے۔ وہ اگلے سال مکہ چلے گئے اور قریش کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف جنگ پر اکسایا۔ (2) یوں خیبر نوبنیاد اسلامی امت کے لئے خطرات اور سازشوں کا اڈہ بن گیا۔ (3)

شعبان المعظم سنہ 6ھ میں بھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو معلوم ہؤا کہ خیبر کے عرب پڑوسی قبیلے "بنو سعد بن بکر" نے خیبر کے یہودیوں کے لئے اجتماع کیا ہے تو آپؐ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ایک گروہ کی سرکردگی میں ان کی طرف روانہ کیا۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے حملہ کیا تو مذکورہ قبیلے کے جنگجو بھاگ گئے اور بہت سے غنائم مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ نیز اسی سال رمضان کے مہینے میں عبداللہ بن عتیک کی سرکردگی میں ایک سریے کے دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف احزاب کو اکسانے والے سلام بن ابی الحقیق کو ہلاک کیا گیا۔ اسی زمانے میں عبد اللہ بن رواحہ کو خیبر میں جاکر تحقیق کرنے کا حکم دیا گیا۔ (4)

 بعدازاں خیبر کے یہودیوں نے اُسَیر بن زارِم (یُسَیر بن رِزام) کو امیر بنایا اور اس نے قبیلہ غطفان سمیت عرب قبائل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف اکسایا اور ان کی مدد سے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ آپؐ نے شوال سنہ 6 ہجری میں ایک بار پھر عبداللہ بن رواحہ کو کچھ سپاہی دے کر خیبر روانہ کیا اور جنگ کے نتیجے میں اُسَیر سمیت بعض یہودی مارے گئے۔ (5)

علاوہ ازیں، مدینہ سے نکال باہر کیا گیا، شہر میں شہر میں امن و سکون بحال ہوگیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ امن منعقد تو خیبر کے یہودی ـ جو بنو نضیر کے یہودیوں کو بھی اپنے ہاں بسائے ہوئے تھے ـ آپؐ سے انتقام لینے کے درپے ہوئے تھے اور اپنی دولت کو طاقتور قبیلے بنوغطفان سمیت پڑوسی عرب قبائل کو تحریک و ترغیب دلانے کے لئے صرف کررہے تھے؛ تاکہ انہیں مسلمانوں کے خلاف اپنے ساتھ متحد کریں۔ یہی سازشیں ہی صلح حدیبیہ کے کچھ ہی عرصہ بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانب سے خیبر پر حملہ کرنے کے لئے کافی تھیں۔ (6)

عزیمت

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے محرم الحرام سنہ 7 ہجری کے اوائل میں خیبر کی طرف عزیمت کی اور ماہ صفر المظفر میں خیبر کو فتح کیا اور ربیع الثانی سنہ 7 ہجری کو مدینہ واپس تشریف لائے۔ (7)

مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) غزوہ حدیبیہ کے بعد ذوالحجہ میں مدینہ واپس تشریف فرما ہوئے اور ذوالحجہ کے باقی ماندہ ایام اور محرم الحرام کو مدینہ میں رہے اور سنہ 7 ہجری کے ماہ صفر میں ـ اور بقولے یکم ربیع الاول کی شب کو ـ خیبر کی جانب روانہ ہوئے۔ (8)

 مدینہ میں جانشینی اور لشکر اسلام کی علمداری

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سباع بن عرفطہ غفاری یا ابوذر غفاری (9) یا نمیلہ بن عبداللہ لیثی؛ (10) یا ابو رہم کلثوم بن حصین الغفاری [11) کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا اور سفید رنگ کا پرچم امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے سپرد کیا اور (12) اور آپ ؑ کو اپنے لشکر کا امیر اور سپہ سالار قرار دیا۔ (13)

سپاہ مسلمین کی تعداد

غزوہ خیبر میں مسلمانوں کی تعداد 1400، (14) یا غزوہ حدیبیہ میں حاضرین کی تعداد کے برابر یعنی 1500 (15) یا 1540 (16) تھی۔ غزوہ خیبر میں 20 خواتین نے شرکت کی جن میں ام المؤمنین ام سلمہ بھی شامل تھیں۔ بنو غفار کی خواتین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اجازت سے زخمیوں کی مرہم پٹی اور مسلمانوں کی مدد کرنے کی غرض سے شریک ہوئیں۔ (17) مدینہ کے یہودیوں میں سے 10 افراد اور غلاموں کی ایک جماعت نے بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شرکت کی۔ (18)

 اہلیان خیبر کی تعداد

تاریخی مآخذ میں خیبر کے جنگجؤوں کی تعداد کے بارے میں مبالغہ آمیز اعداد و شمار منقول ہیں؛ واقدی کا کہنا ہے کہ ہر روز 10000 یہودی جنگجو جنگ کے لئے نکلتے تھے (19) اور یعقوبی نے یہودی جنگجؤوں کی تعداد 20000 لکھی ہے۔ (20) مؤرخین لکھتے ہیں: یہودی تصور ہی نہیں کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان پر حملہ کریں گے۔ وہ اپنے پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر شدہ اپنے مضبوط قلعوں اور بڑی مقدار میں ہتھیاروں اور بے شمار جنگجؤوں، مسلسل جاری پانی کے پیش نظر، سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں کے حملے کی صورت میں وہ کئی سال تک مزاحمت کرسکتے ہیں۔ مدینہ میں سکونت پذیر بعض یہودی مسلمانوں کو ڈراتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ خیبریوں اور ان کے مضبوط قلعوں کا سامنا کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ انہوں نے حتی ایک قاصد خیبر میں کنانہ بن ابی حقیق کے پاس روانہ کیا تھا اور اس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ مسلمانوں کی تعداد قلیل اور عسکری وسائل محدود ہیں۔ کفار قریش کو بھی امید تھی کہ جنگ کی صورت میں خیبر کے یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر غلبہ پائیں گے۔ انہوں نے اس سلسلے میں آپس میں شرط بندیاں بھی کی تھی۔ (21)

 پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا راستہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) قبیلہ اشجع کے دو راہبروں (Pathfinders) کی مدد سے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ عِصر (یا عَصَر)، اور "صہباء" جیسی منازل میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مختصر قیام کی برکت سے مساجد تعمیر ہوئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک راہبر کو ہدایت کی کہ آپؐ کو ایسے راستے سے خیبر کی جانب لے جائے کہ آپؐ شام اور خیبر کے درمیان حائل ہوجائیں اور اہلیان خیبر اپنے غطفانی حلیفوں کی امداد وصول نہ کرسکیں۔ مدینہ سے خیبر کی جانب کئی راستے نکلتے تھے جن میں سے ایک کا نام "مرحب" تھا جو آپؐ نے سفر کے لئے منتخب کیا۔ (22)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہراول دستے کے ایک مامور عباد بن بشر نے راستے میں قبیلہ اشجع کے ایک یہودی جاسوس کو گرفتار کر لیا جس نے بتایا کہ قبیلہ غطفان نے خیبر کے باشندوں کو مدد کی یقین دہانی کرائی ہے اور غطفانیوں اور یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف جنگ کے دوران اتحاد قائم کیا ہے۔ اس شخص نے ابتداء میں مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب عباد بن بشیر نے اس کو ڈرایا اور اس سے سوالات پوچھے تو کہنے لگا کہ یہودی مسلمانوں سے سخت مرعوب ہو گئے ہیں۔ (23)

غطفانیوں کی مدد

کہا گیا ہے کہ قبیلۂ غطفان کو جب معلوم ہؤا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) خیبر پہنچ چکے ہیں تو اس کے جنگجؤوں نے یہودیوں کو کمک پہنچانے کے لئے ایک منزل تک کا راستہ طے کیا لیکن گھر بار اور مال و ثروت خطرے میں پڑنے کی فکر لاحق ہوئی تو خیبر کے قلعوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی پلٹ گئے۔ (24)

ایک روایت کے مطابق کنانہ جنگ خیبر سے قبل غطفانیوں کے پاس گیا اور خیبر کے کھجوروں کی ایک سال ـ اور بقولے سال کی نصف ـ پیداوار کا وعدہ دے کر انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف جنگ کے لئے اکسایا اور قبیلہ غطفان یہودیوں کا اتحادی بن گیا۔ بعد ازاں غطفانیوں نے (غزوہ بنی لحیان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اونٹ چوری کرنے والے گروہ کے سرغنے) "عیینہ بن حصن" کو اپنا سربراہ مقرر کیا۔ 4000 غطفانی جنگجو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عزیمت سے 3 روز قبل خیبر کے قلعے "نطاۃ" میں داخل ہوئے۔ آپؐ نے سعد بن عبادہ کو عیینہ کے پاس بھیجا اور پیغام دیا کہ "إِنَّ اللهَ قَدْ وَعَدَنِي خَيْبَرَ فَارْجِعُوا وَكُفُّوا، فَإِنْ ظَهَرْنَا عَلَيْهَا فَلَكُمْ تَمْرُ خَيْبَرَ سَنَةً ۔۔۔ (یعنی "خداوند متعال نے مجھے فتح خیبر کا وعدہ دیا ہے پس واپس چلے جاؤ اور جنگ سے دست بردار ہوجاؤ، تو اگر ہم خیبر کو فتح کر لیں تو خیبر کی کھجورں کی ایک سالہ پیداوار تمہارے لئے ہوگی۔۔۔)" عیینہ نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کیا۔ تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حملے سے ایک رات قبل غطفانیوں کو ایک غیبی صدا سنائی دی جو انہیں خبر دار کررہی تھی کہ مدینہ کے نواح میں واقع "حیفاء" میں ان کے اموال اور اعزاء و اقارب پر حملہ ہؤا ہے چنانچہ وہ نہایت عجلت میں خیبر چھوڑ کر چلے گئے۔ (25)

خیبری یہودیوں کی حکمت عملی

دوسری طرف سے، خیبر کے یہودیوں کو یقین ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کی طرف آکر رہیں گے، تو ابو زینب یہودی نے تجویز دی کہ قلعوں کے باہر چھاؤنی قرار دیں اور جنگ کے لئے تیار ہوجائیں، لیکن انھوں نے قلعوں کے استحکام کے سہارے قلعہ بند ہوکر لڑنے کو ترجیح دی۔ (26)

سپاہ اسلام خیبر میں

خداوند متعال نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی سپاہ کی عزیمت کو خیبر کے باشندوں سے خفیہ رکھی یہاں تک کہ آپؐ رات کے وقت خیبر کے قریب پہنچے اور "شق" اور "نطاۃ" نامی قلعوں کے درمیان سے گذرے اور معمول کے خلاف "اذان" کی صدا نہ سنی تو اپنا سفر جاری رکھا؛ اور دعا کی اور مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ بھی وہی دعا پڑھیں۔ اور پھر اپنا سفر جاری رکھا حتیٰ کہ "منزلہ" کے مقام پر پہنچے اور رات وہیں بسر کی اور نماز بھی وہیں ادا کی اور وہی مقام بعد میں "مسجد خیبر" قرار پایا۔ صبح ہوئی تو یہودی ناگہانی طور آپؐ کی آمد سے مطلع ہوئے تو وہ بھاگ کے قلعوں کی پناہ میں چلے گئے۔ (27) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے اصحاب کو عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع کیا (28) اور اس روز صبح سے شام تک قلعہ نطاۃ کے باشندوں کے ساتھ نبرد آزما رہے؛ اور پھر اپنی چھاؤنی کو اس مقام سے منتقل کیا جس کی زمین گیلی تھی اور قلعہ دشمن کی زد میں تھا؛ اور فرمایا کہ "رجیع" نامی مقام پر چلے جائیں۔ نیز فرمایا کہ خیبر کے بعض کھجوروں کو [امکانی طور پر عسکری ضروریات کے تحت] کاٹ دیا جائے۔ (29)

غزوہ خیبر کی روداد

جنگ کا آغاز

جنگ کے پہلے دن 50 مسلمان زخمی ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سات شب و روز تک چھاؤنی لگائی رکھی اور ہر روز مسلمانوں کے ہمراہ ـ جن میں سے ہر ایک گروہ کے پاس ایک پرچم ہوتا تھا ـ یہودیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف رہتے تھے۔ چھٹی رات کو نطاۃ کا ایک یہودی باشندہ ـ جس کا نام "سماک" تھا ـ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور امان مانگ کر اس قلعہ کی جانب کے داخلی راستے کی طرف راہنمائی کرنے کی پیشکش کی اور بتایا کہ قلعۂ نطاۃ ـ جو اشیائے خورد و نوش اور ہتھیاروں کا گودام بھی ہے ـ اندرونی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہوچکا ہے اور اہلیان قلعہ خوف کے مارے قلعہ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اگلے دن مسلمانوں نے قلعۂ نطاۃ کو فتح کر لیا اور سماک نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ (30) 

قلعۂ ناعم کی فتح

مروی ہے کہ سبب سے پہلا قلعہ ـ جو مسلمانوں نے فتح کیا ـ قلعۂ ناعم تھا۔ یہ قلعہ خود کئی ذیلی قلعوں اور حصاروں پر مشتمل تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان پر حملہ کرنے کے لئے اپنے اصحاب کی صف آرائی کا اہتمام کیا۔ یہودیوں نے مسلمانوں کو تیروں کا نشانہ بنایا اور اصحاب نے اپنے جسموں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے ڈھال بنا دیا۔ اس روز آپؐ نے اپنا سفید پرچم دو مہاجروں (بقولے ابن اسحق ابوبکر اور عمر) اور ان کے بعد ایک انصاری کے سپرد کیا؛ لیکن وہ کچھ زیادہ کام دکھائے بغیر میدان جنگ سے پلٹ آئے؛ بخاری کی روایت ملاحظہ ہو:

روى البخاري في صحيحه بسنده عن أبي حازم قال : قَالَ: أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: "لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ"،

ترجمہ: بخاری نے صحیح میں اپنی سند سے، ابن حازم سے روایت کی ہے کہ سہل بن سعد نے مجھے خبر دی کہ یقینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے خیبر کے دن فرمایا: یقینا میں کل ضرور بضرور یہ پرچم اس مرد کے سپرد کروں گا جس کے ہاتھوں خداوند عالم اس قلعے کو فتح فرمائے گا؛ وہ ایسا مرد ہے جو خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے محبت کرتا ہے اور خدا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔

اگلے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کو بلایا جو آشوب چشم میں مبتلا تھے اور پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے معجزے سے آشوب چشم میں افاقہ ہؤا تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے پرچم آپ کے سپرد کیا۔ (31) یہ روایت مسلم نیسابوری (32) اور دیگر مؤرخین و محدثین نے بھی نقل کی ہے۔ (33)

 مرحب کی ہلاکت

بعض روایات میں ہے کہ محمد بن مسلمہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی اجازت سے مرحب کو دو بدو لڑائی میں تلوار کا وار کرکے ہلاک کردیا۔ (34) یا اس کو شدید زخمی کیا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اس کا کام تمام کردیا۔ (35) تاہم صحیح اور دقیق روایت یہ ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے مرحب کو دو بدو لڑائی میں تلوار مار کر ہلاک کردیا اور یہ ضربت اس قدر مؤثر تھی کہ اس کے بعد قلعۂ خیبر فتح ہؤا۔ (36) اہل سنت کے مشہور مؤرخین نے مؤخر الذکر روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (37)

فتحِ قلعۂ مرحب

مروی ہے کہ خیبر کے قلعوں میں سب سے بڑا، سخت اور مضبوط قلعہ "قموص" تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اس کی فتح کا پرچم امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو عطا کیا اور آپ نے مرحب کو ـ جس کا نام اس قلعے کے لئے مختص تھا ـ ہلاک اور قلعے کو فتح کردیا۔ (38)

ابو رافع کی روایت کے مطابق، ایک یہودی نے قلعے کے دروازے کے پاس حضرت علی پر وار کیا اور آپؑ کی ڈھال گر گئی چنانچہ آپؑ نے قلعے کے ایک دروازے کو اکھاڑ کر اس کو اپنی ڈھال قرار دیا اور اسی دروازے کو ہاتھ میں لے کر آخر تک لڑتے رہے یہاں تک کہ قلعہ آپؑ کے ہاتھوں فتح ہؤا اور اسی قلعے (یعنی قلعۂ مرحب) کی فتح کی خوشخبری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے بھجوا دی۔ (39) ایک روایت کے مطابق جس یہودی مرد نے آپؑ پر تلوار کا وار کیا تھا، وہ مرحب ہی تھا۔ (40) مروی ہے کہ جنگ کے بعد 40 یا 70 افراد اس دروازے کو اٹھانے میں کامیاب ہوسکے تھے۔ (41) خیبر کی فیصلہ کن فتح امام علی (علیہ السلام) کے فضائل و مناقب میں شمار ہوتی ہے جس پر بہت سے مؤرخین اور محدثین کا اتفاق ہے۔ (42) یہودیوں کے متذکرہ بالا دلیر پہلوانوں اور قلعۂ ناعم میں بعض دیگر بہادر جنگجؤوں کی ہلاکت کے بعد خیبر کی فتح کاملہ آسان ہوگئی۔ (43)

قلعہ نطاۃ کی فتح

صعب بن معاذ کا حصار بھی نطاۃ کے احاطے میں تھا جس میں کھانے پینے کی اشیاء، دیگر ساز و سامان اور چوپائے نیز 500 جنگجو تعینات تھے۔ مسلمانوں نے 10 روز تک نطاۃ کا محاصرے کئے رکھا اور قلعے کے اطراف میں لڑتے رہے۔ مجاہدین ـ بالخصوص بنو اسلم بھوک سے نڈھال ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے دعا کی کہ خداوند متعال سب سے بڑا قلعہ ـ جو سب سے زیادہ پر ثروت بھی تھا ـ ان کے لئے کھول دے۔ بعد ازاں صعب بن معاذ کا حصار دو روز تک گھمسان کی لڑائی کے بعد تیسرے روز بوقت صبح اللہ کی مدد سے فتح ہوچکا اور یہودیوں نے ناعم، نطاۃ اور صعب بن معاذ نامی قلعوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی اور سب سے زیادہ مضبوط اور اونچے قلعے ــ یعنی قلعۂ زبیر ــ میں فرار ہو کر چلے گئے۔ (44) یہ قلعہ بھی تین دن تک محاصرے میں رہا؛ اسی اثناء میں ایک یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہؤا اور امان مانگی اور اس کی راہنمائی میں شدید جنگ کے بعد مسلمانوں نے اس حصار کو ـ جو نطاۃ کا آخری حصار تھا ـ فتح کرلیا۔ (45)

امن و سکون کا احساس اور چھاؤنی کی منتقلی

نطاۃ کے باشندے یہودیوں کے شجاع ترین لوگ سمجھے جاتے تھے اور اس قلعے کی تسخیر کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے یہودیوں کی شبیخون اور ناگہانی حملوں سے امن و سکون محسوس کیا اور حکم دیا کہ آپؐ کی چھاؤنی کو رجیع سے اس کے سابقہ مقام یعنی منزلہ میں منتقل کیا جائے اور بعدازاں کئی حصاروں اور ذیلی قلعوں پر مشتمل قلعۂ شِقّ کی طرف روانہ ہوئے اور شدید جنگ کے بعد، مسلمانوں نے ابتداء میں سُمران اور اس کے بعد نزار ناموں حصاروں کو فتح اور وہاں کے باشندوں کو قید کردیا۔ (46)

قلعے کا خزانہ مل گیا

کنانہ اور اس کے بھائی نے قسم مؤکّد اٹھا کر قلعۂ کتبیہ میں کسی قسم کے خزانے کی موجودگی سے انکار کیا تھا لیکن وہ خزانہ ـ جو انہوں نے چھپا رکھا تھا ـ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مل گیا چنانچہ آپؐ نے ان دونوں کو دو مسلمانوں کے سپرد کیا تا کہ ان سے اپنے شہید اعزاء و اقارب کا قصاص لیں۔ ان دو افراد نے قبل ازاں بھی کئی موضوعات میں عہد شکنی کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) صلح نامے کے مطابق ان کے اموال لے لئے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا۔ (47)

یہودیوں کی طرف سے مصالحت کی درخواست

نزار خیبر کا آخری قلعہ تھا جہاں لڑائی ہوئی۔ اس قلعے کے فتح ہونے کے بعد نطاۃ اور شقّ سے بھاگے ہوئے لوگ (قلعۂ کتیبہ میں واقع) قموص، وَطیح اور سُلالِم جیسے مضبوط حصاروں کی پناہ میں چلے گئے اور دروازوں کو مقفل کردیا۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے منجنیق استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ 14 دن مسلسل محاصرے کے بعد یہودی تھک ہار گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو مصالحت کی پیشکش کی۔ حصار سلالم کے امیر کنانہ بن ابی الحقیق نے بھی ـ جو اس کے باوجود کہ ایک ماہر تیر انداز تھا ـ اپنے ساتھیوں کو تیر اندازی سے منع کیا اور تھوڑی دیر بعد وہ خود چند یہودیوں کے ہمراہ ـ قلعۂ کتیبہ کے محصورین (یعنی 2000 سے زائد یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں) کی طرف سے، بعض شرطوں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ صلح کرلی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں امان دی اور انھوں نے اپنے مال و اسباب، سونے، چاندی اور زرہوں کو آپؐ کی تحویل میں دیا۔ وطیح اور سلالم خیبر کے آخری قلعے تھے جنہیں مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ 

صلح نامے کے نکات

اس صلحنامے میں قرار پایا کہ قلعوں کے اندر محصور جنگجؤوں کی جان محفوظ رہے اور وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو لے سرزمین خیبر کو ترک کرکے چلے جائيں اور اپنے اموال، زمینوں، ہتھیاروں، زرہوں، لباس وغیرہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حوالے کریں۔ (48)

جنگ خیبر کی مدت

خیبر کے یہودی ـ عام تصورات کے برعکس ـ آخرکار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہاتھوں مغلوب ہوئے۔ یہ یہودیوں کی دوسری شکست تھی (49) جو تقریبا ایک مہینے تک محاصرے اور جنگ کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی۔ بلاذری کے مطابق جنگ اور محاصرے کی یہ مدت 20 سے لے کر 30 دن تک تھی؛ (50) شیخ مفید (51) کے مطابق یہ مدت 20 سے کچھ دن زیادہ تھی؛ اسی بنا پر سنہ 7 ہجری کو سنۃ الاستغلاب کہا گیا۔ (52)

یہودی عورت کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور صحابہ کو مسموم کرنا

مروی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے ہاتھوں فتح خیبر کے بعد یہودی عمائدین میں سے سلّام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے اپنے باپ حارث، چچا اور شوہر کا بدلہ لینے کی غرض سے زہریلا گوشت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو بطور ہدیہ پیش کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بشر بن براء سمیت بعض صحابہ نے اس گوشت میں ایک ایک نوالہ تناول کیا اور پھر سب نے آپؐ کی ہدایت پر ہاتھ کھینچ لیا۔ بشر موقع پر ہی (یا ایک سال علالت کے بعد) اسی مسمومیت کی وجہ سے انتقال کرگئے؛ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کو بھی اسی زہریلے گوشت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ (53 وضاحت دیکھئے)

مقتولین کی تعداد

جنگ خیبر میں 15 سے 18 مسلم مجاہدین شہید ہوئے اور یہودیوں میں سے 93 افراد مارے گئے۔ (54)

مسلمانوں کی عسکری قوت میں اضافہ

خیبر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مسلمانوں کی فتح کے نتیجے میں قریش اور ان کے حلیف قبائل عسکری لحاظ سے کمزور ہوگئے اور مسلمین کو عسکری اور معاشی لحاظ سے تقویت ملی۔ (55)

مال غنیمت 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فروہ بن عمرو بیاضی کو خیبر کے جنگی غنائم کی حفاظت پر مامور کیا (جو شقّ، نطاۃ اور کتیبہ کے قلعوں سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے تھے) اور فرمایا: اگر کسی نے ان اموال سے سوئی یا دھاگا تک بھی اٹھایا ہے، واپس کردے۔ آپؐ نے غنائم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا؛ ایک حصہ جو سہم اللہ (خمس) تھا، آپؐ نے خود اٹھایا اور اس میں سے اپنی زوجات، اہل بیت (یعنی علی، اور فاطمہ (سلام اللہ علیہما)، بنو عبدا المطلب بن ہاشم بن عبد مناف، بنو المطلب بن عبد مناف اور بعض صحابہ، ایتام اور حاجتمندوں کی مدد فرمائی اور باقی 4 حصوں کو فروخت کردیا۔ (56)

خیبر کے دوسرے قلعے (منجملہ: وطیح اور سلالم) مصالحت کے ذریعے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سپرد کئے گئے چنانچہ ان قلعوں سے حاصل ہونے والے اموال "مالِ فیئے" (57) میں شمار ہوتے تھے جو خالصۃ الرسولؐ کے زمرے میں آتے تھے۔ (58)

مال غنیمت کی تقسیم

خیبر کا مال غنیمت خمس الگ کرنے کے بعد ان افراد کے درمیان بانٹ دیا گیا جو غزوہ حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے خواہ وہ جو جنگ خیبر میں شریک ہوئے تھے خواہ وہ جو شریک نہیں ہوئے تھے؛ (59) تاہم الواقدی کی رائے (60) زیادہ صحیح ہے جن کا کہنا ہے کہ غنائم کو خیبر میں حاضر تمام افراد کے درمیان بانٹ لیا گیا چاہے وہ جنہوں نے غزوہ حدیبیہ میں شرکت کی تھی چاہے وہ جنہوں نے شرکت نہیں کی تھی۔ فروخت شدہ اموال سے حاصلہ آمدنی بھی ان کے درمیان بانٹ دی گئی۔ تمام حصص کی تعداد 1800 تھی جن کو 18 گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر 100 حصص کی تقسیم کے لئے ایک سرپرست متعین کیا گیا۔ (61)

فتح خیبر کے بعد قبیلہ دوس کے بعض افراد ابو ہریرہ، طفیل بن عمرو اور قبیلہ اشجع کے کچھ افراد خیبر پہنچے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کو بھی غنائم میں سے حصہ عطا کیا۔ (62)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے غزوہ خیبر میں شریک یہودیوں، غلاموں اور خواتین کو بھی غنائم میں سے حصہ دیا یا کچھ چیزیں انہیں بطور عطیہ دیئے۔ (63)

یہودیوں کی خیبر میں زراعت کرنے کی درخواست

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے یہودیوں کی درخواست پر انہیں وہاں زراعت اور کھجوروں کی پرورش کی اجازت دی جس میں انہیں مہارت حاصل تھی؛ اور اجازت دی کہ خیبر کی زراعت اور نخلستانوں کی آدھی پیداوار اپنے لئے رکھیں اور ان کے ساتھ معاہدہ کیا اور ان کی جان و مال اور زمینوں کو تحفظ دیا۔ (64)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا صفیہ کے ساتھ نکاح

خیبر میں یا خیبر سے مدینہ واپسی کے وقت صہباء کے مقام پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے صفیہ بنت حیی بن اخطب کو ـ جو جنگی قیدیوں میں شامل تھیں ـ اسلام کی دعوت دی اور انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی چنانچہ آپؐ نے انہیں آزاد کیا اور ان سے نکاح کرلیا۔ (65)

غزوہ خیبر کے بارے میں اترنی والی بعض آیات کریمہ

مروی ہے کہ سورہ فتح کی آیت 18 ﴿وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً؛ انہیں عنایت کی ایک قریبی فتح﴾ میں دی گئی بشارت کا تعلق فتح خیبر سے ہے اور آیت 19 ﴿وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً ...؛ اور بہت سے اموال غنیمت ...﴾ سے مراد غزوہ خیبر میں مسلمانوں کے ہاتھ لگنے والے غنائم ہیں۔ (66) بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ سورہ فتح کی پہلی 15 آیات کریمہ اور سورہ احزاب کی آیت 27 ﴿وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا؛ اور تمہیں قابض بنایا ان کی زمین اور ان کے مکانات اور ان کے اموال اور اس زمین پر جسے تم اپنے زیر قدم لائے نہ تھے﴾ کی شان نزول غزوہ خیبر ہے۔ (67)

خلیفہ ثانی کے دور میں خیبریوں کو جلا وطن کیا گیا

خلیفۂ ثانی کے دور میں خیبر کے یہودی ایک مسلمان کے قتل میں ملوث قرار پائے اور خلیفہ نے ایک حدیث کی رو سے ـ جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے منسوب کرتے تھے کہ "دو مذاہب جزیرۃ العرب میں جمع نہیں ہوتے" ـ حجاز کے یہودیوں منجملہ اہلیان خیبر کو شام جلاوطن کیا اور خیبر کی زمینوں اور نخلستانوں کو ایک بار پھر تقسیم کیا اور بعض نے زمینوں کو پسند کیا اور بعض دوسروں نے ضمانت شدہ پیداوار کو۔ (68) خیبر سے نکالے جانے والے بعض یہودی عراق اور مصر چلے گئے۔ (69)

فتح خیبر پر شاعری 

فتح خیبر کے بعد حسان بن ثابت سمیت بعض شعراء نے اس واقعے کے بارے میں اشعار کہے۔ (70)

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شان میں حسان بن ثابت کے اشعار:

وَكَانَ عَلِيٌّ أَرْمَدَ اَلْعَيْنِ يَبْتَغِي *** دَوَاءً فَلَمَّا لَمْ يُحِسَّ مُدَاوِياً

شَفَاهُ رَسُولُ اللهِ مِنْهُ بِتَفْلَةٍ *** فَبُورِكَ مَرْقيّاً وَبُورَكَ رَاقِيًا

وَقَالَ سَأُعْطِي الرَّايَةَ الْيَوْمَ صَارِمًا *** كَمِيّاً مُحِبًّا لِلرَّسُولِ مُوَالِيًا

يُحِبُّ الْإلَهَ وَالْإلَهُ يُحِبُّهُ *** بِهِ يَفْتَحُ اللهُ الْحُصُونَ الْأَوَابِيَا

فَأَصْفَى بِهَا دُونَ الْبَرِّيَّةِ كُلِّهَا *** عَلِيًّا وَسَمَّاهُ الْوَزِيرَ المُؤاخيَا

اور علی کو آشوب چشم لاحق تھا شفا بخش دوا کے منتظر تھے ليکن طبيب نہيں مل رہا تھا

اور بالآخر رسول اللہ (صلی اللہ عليہ وآلہ) نے اپنے مبارک آب دہن سے آپ ؑ کي آنکھوں کو شفا بخشی

پس مبارک ہے وہ جس نے شفا دی اور مبارک ہے وہ جو شفا یاب ہؤا

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمايا: "ميں آج (يوم خيبر) پرچم ایسے پرعزم بہادر کو دے رہا ہوں

جو پیش قدمی کرنے والا بہادر اور حب دار ہے، اور اس [پیغمبر] کا پیرو ہے

اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے محبت کرتا ہے

اور اسی کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ قلعوں کو فتح فرمائے گا

رسول خدا (صلی اللہ اللہ علیہ و آلہ) نے اس مہم کی انجام دہی کے لئے تمام انسانوں کے درمیان علی (علیہ السلام) کو چن لیا، اور انہیں اپنا وزیر اور بھائی قرار دیا۔ (71)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1۔ البلادی، معجم المعالم، ص170-171؛ حافظ وہبۃ، جزیرۃ العرب فی القرن العشرین، ص24؛ الحربی، کتاب المناسک، ص413۔

2۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص441-442؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص201، 225؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص409؛ التجانی، الترتیبات المالیۃ، ص56-57، 92۔

3۔ التجانی، الترتیبات المالیۃ، ص93-94؛ Watt, Muhammad at Madina, p212۔

4۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص526-563؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص286-288۔

5۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص566-568؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج4، ص266-267؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص92؛ Watt, Muhammad at Madina, p212۔213۔

6۔ Watt, Muhammad at Madina, p216۔218۔

7۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص342، 355؛ ابن حبیب، المحبر، ص115۔

8۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص634۔

9۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص636-637؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص99۔۔

10۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص342۔

11۔ ابن حبیب، المحبر، ص127۔

12۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص342؛ المفید، الارشاد، ج1، ص126؛ قس الواقدی، المغازی، ج2، ص649؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص106۔

13۔ العاملی، الصحیح من سیرۃ النبیؐ، ج17، ص153-154۔

14۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص689۔

15۔ ابن زنجویہ، ج1، ص190۔

16۔ البلاذری، انساب الاشراف، ص28۔

17۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص685-687؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص357۔

18۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص684-685۔

19۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص637۔

20۔ الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص56۔

21۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص634، 637، 640-641، 701-703۔

22۔ الواقدی، المغازی، ج، 2، ص639-640؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص344۔

23۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص640-642۔

24۔ الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص650؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص344۔

25۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص650-652۔

26۔ الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص637-638۔

27۔ الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص637؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص343-344؛ البکری، معجم ما استعجم، ج2، ص522۔

28۔ ابن ابی شیبہ، المصنف، ج8، ص526۔

29۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص643-645؛ قس العاملی، الصحیح من سیرۃ النبیؐ، ج17، ص139-141۔

30۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص644-648۔

31۔ البخاری، صحیح البخاری، ج5، ص134۔

32۔ النیسابوری، صحیح مسلم، ج7، ص121-122۔

33۔ رجوع کریں: الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص648-649، 652-654؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص349؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص86، 92-93۔

34۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص348؛ خلیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ، ص49۔

35۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص655-656۔

36۔ ابن حنبل، المسند، ج4، ص52؛ النیسابوری، الصحیح، ج5، ص194-195؛ طبری، تاریخ، ج3، ص12-13؛ مفید، الارشاد، ج2، ص12-13 و ص126-127؛ صالحی شامی، ج5، ص126-127۔

37۔ الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج2، ص56۔

38۔ الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص56؛ البکری، معجم ما استعجم، ج2، ص522۔

39۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص655؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص349-350؛ المقدسی، البدء والتاریخ، ج5، ص226۔

40۔ المقریزی، امتاع الاسماع، ج1، ص310۔

41۔ المفید، الارشاد، ج2، ص128-129؛ البیہقی، دلائل النبوۃ، ج4، ص212؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج2، ص78، 125-128؛ العاملی، الصحیح من سیرۃ النبیؐ، ج18، ص27۔

42۔ ابن بابویہ، الخصال، ج2، ص369؛ مفید، الارشاد، ج1، ص124؛ العاملی، الصحیح من سیرۃ النبیؐ، ج18، ص29-34۔

43۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 657-658۔

44۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص662؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص345-346۔

45۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص666-667۔

46۔ الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص648، 668۔

47۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص671-673؛ قس ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص351؛ البلاذری، انساب الاشراف، ص23-24۔

48۔ الواقدی، وہی ماخذ، ج2، ص669-671؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص347، 351-352؛ البلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ج1، ص443۔

49۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص676۔

50۔ البلاذری، فتوح البلدان، ص39، قس ص28۔

51۔ شیخ مفید، الارشاد، ج1، ص125۔

52۔ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص256۔

53۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص677-678؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص352-353؛ البلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ج1، ص639؛ الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، ص56-57؛ 98۔ سلام، حصون خیبر فی الجاہلیۃ، ص92-93۔ وضاحت: تاریخ کے بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں اس روایت میں میں سقم پایا جاتا ہے؛ اور وہ یوں کہ جنگ خیبر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے درمیان چار سال کا عرصہ حائل ہے، اور یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا زہر کے اثر کرنے میں چار سال کا عرصہ لگتا ہے؟ چنانچہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ رسول اللہ(ص) کی شہادت کا باعث ہونے والے زہر کا خیبر سے کوئی تعلق ہے۔ شاید تاریخ میں تحریف کرکے لفظ "خیبر" کا اضافہ کیا گیا ہو، تاکہ تاریخ کی بھول بھلیوں میں "کسی نشانِ پا" کو مٹایا جاسکے۔۔۔ (کتاب: دشمن شدید [فارسی]، ص286؛ دشمن شدید [اردو] ص280) اور پھر اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت بہت اہم اور حساس ایام میں واقع ہوئی۔ بالکل اسی وقت جب آنحضرت نے "جیشِ اسامہ" کو مسلمانوں کی سابقہ مہم کی شکست کا ازالہ کرنے کی غرض سے "مؤتہ" کی طرف بھجوانے کے لئے تیار کروا لیا تھا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص337 و 338)۔ دشمن شدید کے مؤلف نے اسی صفحے پر لکھا ہے کہ "اگر آنحضرت صرف ایک ماہ تک بقید حیات رہتے اور یہ سپاہ حرکت میں آتی تو یہود کی موت یقینی تھی۔ اسی بنا پر مدینہ کے منافقین نے اپنی اور یہود کی بقاء کی خاطر پیغمبر(ص) کو زہر کا جام پلایا۔ (دیکھئے:  تفسیرالعیاشی، ج1، ص200)۔ جیش اُسَامَہ سلطنت روم کے حملوں کا سد باب کرنے کے لئے رسول اللہ(ص) کی آخری فوجی مہم کے لئے نوجوان صحابی اسامہ بن زید بن حارثہ کی سرکردگی میں تیار کی گئی سپاہ کا نام ہے۔ رسول خدا(ص) نے صحابہ کو حکم دیا کہ جیش اسامہ میں شامل ہوکر اس مہم پر چلے جائیں لیکن صحابہ نے نافرمانی کا ارتکاب کیا۔

54۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص700؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص357-358؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص107۔

55۔ التجانی، الترتیبات المالیۃ، ص60-61، 94۔

56۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص680-682، 690، 693-696؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص363، 365-366؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص107-108؛ ابن زنجویہ، کتاب الاموال، ج1، ص187۔

57۔ وہ مال جو اللہ نے بغیر جنگ کے اپنے رسول کی طرف پہنچایا۔

58۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص670-671؛ ابن فراء، الاحکام السلطانیۃ، ص200-201؛ السہمودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، ج4، ص1209-1210؛ صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج5، ص143۔

59۔ صنعانی، المصنف، ج5، ص372؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص364۔

60۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص684۔

61۔ ابویوسف، کتاب الخراج، ص23؛ الواقدی، المغازی، ج2، ص689؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص364؛ قس ابن آدم، کتاب الخراج، ص37-39؛ ابن زنجویہ، کتاب الاموال، ج1، ص188-190؛ البلاذری، فتوح البلدان، ص28-29؛ البلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ج2، ص689-690۔

62۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص683؛ العاملی،سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبیؐ، ج18، ص95-98۔

63۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص684-687؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص356-357۔

64۔ ابو یوسف، کتاب الخراج، ص50-51؛ صنعانی، المصنف، ج8، ص99؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص352، 371؛ ابن زنجویہ، کتاب الاموال، ج3، ص1066-1068۔

65۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص673-675؛ 707-708؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص354۔

66۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص684؛ الصنعانی، المصنف، ج5، ص372؛ البلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ج1، ص254۔

67۔ ابن ابی شیبہ، المصنف، ج8، ص519؛ الطبری، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، ص110 اور اگلے صفحات۔

68۔ ابویوسف، کتاب الخراج، ص89؛ الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 695-699؛ ابو یوسف، کتاب الخراج، ص89؛ الواقدی، المغازی، ج2، ص654، 695-699، 716-721؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص371-372؛ البلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ص23-26۔

69۔ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ج6، ص525۔

70۔ الواقدی، المغازی، ج2، ص701؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص355-356۔

71۔ شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ص70۔

۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ

مضمون کا اصل ماخذ: دانشنامۂ جہان اسلام ج16۔

1۔ ابن آدم، کتاب الخراج، چاپ احمد محمد شاکر، قاہرہ [بی تا]

2۔ ابن ابی شیبہ، المصنف فی الاحادیث والآثار، چاپ سعید لحام، بیروت 1409ہجری قمری /1989 عیسوی۔

3۔ ابن اثیر الجزری، علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبدالکریم بن عبدالواحد الشیبانی، الکامل فی التاریخ، دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان۔ 1407 ہجری قمری / 1987 عیسوی۔

4۔ ابن بابویہ، کتاب الخصال، چاپ علی اکبر غفاری، قم 1362 ہجری شمسی۔

5۔ ابن حبیب، کتاب المحبر، چاپ ایلزہ لیشتن اشتتر، حیدرآباد، دکن 1361ہجری قمری /1942، چاپ افست بیروت [بی تا]

6۔ ابن خرداذبہ، أبو القاسم عبید اللہ بن عبد اللہ (المتوفى: نحو 280ہـ)، المسالک والممالک، دار صادر أفست لیدن، بیروت۔ 1889 عیسوی۔

7۔ ابن زنجویہ، کتاب الاموال، چاپ شاکر ذیب فیاض، ریاض 1406ہجری قمری /1986 عیسوی۔

8۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، (بیروت)۔

9۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نجف 1956 عیسوی۔

10۔ ابن فراء، الاحکام السلطانیۃ، چاپ محمد حامد فقی، بیروت 1403ہجری قمری / 1983 عیسوی۔

11۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاہرہ 1355ہجری قمری /1936 عیسوی۔

12۔ ابوعبید، قاسم بین سلام، کتاب الاموال، چاپ محمد خلیل ہراس،بیروت 1408ہجری قمری /1988 عیسوی۔

13۔ ابویوسف، یعقوب بن ابراہیم، کتاب الخراج، بیروت 1399ہجری قمری /1979 عیسوی۔

14۔ ابن حنبل، احمد، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دار صادر [بی تا]

15۔ بخاری، محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرۃ الجعفی البخاری (194 - 256ہ‍)، الجامع المسند الصحیح المختصر، المشرف: محمد زہیر بن ناصر بن ناصی، دار الطوق النجاۃ، بیروت - لبنان 1422 ہجری قمری۔

16۔ بکری الاندلسی، أبو عبید عبد اللہ بن عبد العزیز، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، مخطوطات القاہرۃ، المحقق: مصطفى السقا، بیروت الطبعۃ الثالثۃ 1403 ہجری قمری / 1983 عیسوی۔‍

17۔ بلادی، عاتق بن غیث، معجم المعالم الجغرافیۃ فی السیرۃ النبویۃ، الناشر: دار مکۃ للنشر والتوزیع، سنۃ النشر: 1402 ہجری قمری / 1982 عیسوی۔

18۔ بلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر، جمل من أنساب الأشراف، المحقق: سہیل زکار - ریاض زرکلی، دار الفکر للطباعۃ والنشر۔ بیروت۔ لبنان، الطبعۃ الاولی ـ 1417 ہجری قمری / 1996 عیسوی۔

19۔ بلاذری، فتوح البلدان، الدکتور صلاح الدین المنجد، نشرہ ووضع ملاحقہ وفہارسہ ملتزمۃ النشر والطبع مکتبۃ النہضۃ المصریۃ، القاہرۃ مطبعۃ لجنۃ البیان العربی۔

20۔ بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ، چاپ عبدالمعطی قلعجی، بیروت 1405ہجری قمری /1985 عیسوی۔

21۔ ڈاکٹڑ جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الإسلام، ساعدت جامعۃ بغداد فی نشرہ، الطبعۃ الثانیۃ 1413 ہجری قمری / 1993 عیسوی۔

22۔ حافظ وہبہ، جزیرۃ العرب فی القرن العشرین، مطبعۃ لجنۃ التألیف والترجمۃ والنشر، الطبعۃ الاولی، 1354 ہجری قمری / 1935 عیسوی۔

23۔ حربی، ابراہیم بن اسحاق، کتاب المناسک و اماکن طرق الحج و معالم الجزیرۃ، چاپ حمد جاسر، ریاض 1401 ہجری قمری /1981 عیسوی۔

24۔ عصقری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ ابن خیاط، تحقیق: سہیل زکار، دار الفکر، بیروت لبنان 1993 عیسوی / 1414 ہجری قمری۔

25۔ سلام، سلام شافعی محمود، حصون خیبر فی الجاہلیۃ و عصر الرسول صلى اللہ علیہ و آلہ، الناشر: منشأۃ المعارف - الاسکندریۃ۔ 1409 ہجری قمری /1989 عیسوی۔

26۔ سہمودی، علی بن عبداللہ، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، چاپ محمد محیی الدین عبدالحمید، بیروت 1404ہجری قمری /1984 عیسوی۔

27۔ صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، چاپ عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت 1414 ہجری قمری /1993 عیسوی۔

28۔ تجانی، صلاح، الترتیبات المالیۃ فی تاریخ غزوۃ خیبر: بواعثہا و نتائجہا»، مجلۃ المورخ العربی، ج1، ش 5 (1997 عیسوی)۔

29۔ عبدالرزاق بن ہمام صنعانی، المصنف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت، 1403ہجری قمری /1983 عیسوی۔

30۔ طبری، ابو جعفر محمد، تاریخ الرسل والملوک، محمد ابوالفضل ابراہیم، الطبعۃ الثانیۃ، دار المعارف بمصر۔

31۔ طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آی القرآن، قدم لہ: خلیل المیس، ضبط وتوثیق وتخریج: صدقی جمیل العطار، دار الفکر، بیروت لبنان، 1415 ہجری / 1995 عیسوی۔

32۔ عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، قم، 1385 ہجری شمسی۔

33۔ مسعودی، علی بن حسین بن علی، التنبیہ والاشراف، لیدن، 1894 عیسوی۔ دار صادر بیروت۔

34۔ شیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان العکبری البغدادی (336 - 413 ہ‍)، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق: مؤسسۃ آل البیتؑ لتحقیق التراث، دار المفید۔ المؤتمر، الالفی للشیخ المفید فی مدینۃ قم سنۃ 1413 ہجری قمری۔

35۔ مقدسی، المطہر بن طاہر، (المتوفی: نحو 355ہ‍) البدء والتاریخ۔

36۔ مقریزی، أحمد بن علی بن، إمتاع الأسماع بما للنبی صلى اللہ علیہ وسلم من الأحوال والأموال والحفدۃ المتاع، محقق: محمد عبد الحمید النمیسی، دار الکتب العلمیۃ، 1420 ہجری قمری / 1999 عیسوی۔

37۔ حلبی، علی بن ابراہیم بن احمد الشافعی، السیرہ الحلبیہ: (انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون)، تحقیق: عبداللہ محمد الخلیلی بیروت، دار الکتب العلمیۃ، الطبعۃ الثانیۃ، 1427 ہجری قمری / 2006 عیسوی۔

38۔ نیشابوری، مسلم بن الحجاج ابن مسلم القشیرى، الجامع الصحیح، دار الفکر بیروت - لبنان۔

39۔ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966، چاپ افست قاہرہ، بی تا۔

40۔ یعقوبی، أحمد بن أبی یعقوب بن جعفر، تاریخ الیعقوبی، مؤسسہ ونشر فرہنگ اہل بیت ؑ - قم۔ دار صادر بیروت 1379 ہجری قمری / 1960 عیسوی۔

41۔ Watt, William Montgomery, Muhammad at Madina, Karachi 1981

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110