اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
بدھ

31 جنوری 2024

5:55:29 PM
1434036

طوفان الاقصی؛

عربی حمیت کی بربادی کا سلسلہ جاری / ریاض میں مصر، اردن اور فلسطینی اتھارٹی کا خفیہ اجلاس!

امریکیوں اور صہیونیوں کی حیرت انگیزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہاری ہوئی جنگ کے مستقبل میں بھی فاتحانہ انداز سے کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

 

فلسطین لڑ رہا ہے اور کچھ عرب ممالک فلسطین کے مستقبل کے لئے جلسے منعقد کر رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سعودی عرب، مصر اور اردن اور فلسطین کی [نام نہاد] خودمختار اتھارٹی کے حکام کو جنگ کے بعد کے غزہ کے مستقبل میں اتھارٹی کے کردار ادا کرنے کے لئے تیار کررہے ہیں! انھوں نے حال ہی میں اتھارٹی کے حکام کے ساتھ ریاض میں ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا ہے۔

صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ نے لکھا: سعودی، مصری اور اردنی حکام نے ایک ہفتہ قبل فلسطینی اتھارٹی کے اہلکاروں کے ساتھ ـ غزہ کے مستقبل کے بارے میں ـ یک خفیہ اجلاس منعقد کیا جس میں اتھارٹی کے انتظامی امور میں اصلاحات پر بھی زور دیا گیا ہے۔

سعودی سلامتی کونسل کے مشیر مساعد العیبان کے زیر اہتمام منعقدہ اجلاس میں مصر، اردن اور فلسطینی اتھارٹی کے سلامتی کے مشیران عباس کامل، احمد الحسنی، اور ماجد الفَرَج، نے شرکت کی. میزبان سعودی حکومت تھی۔  

یروشلم پوسٹ نے لکھا: اسرائیلی حکومت اس خفیہ اجلاس کے ایجنڈے سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ اس اجلاس میں سعودیہ، مصر اور اردن نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا کہ اپنے نظام میں اصلاحات کا اہتمام کرے، اور محمود عباس کے کچھ اختیارات دوسروں کو منتقل کرے۔

ایکسیوس ویب سائٹ 29 جنوری کو لکھا: بعض عرب ممالک اور فلسطینی اتھارٹی، کے سربراہوں نے ریاض میں ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودیہ، اردن، مصر اور فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام 19 جنوری کے اجلاس میں شریک تھے اور اجلاس کا مقصد موجودہ جنگ کے بعد کے غزہ کے مستقبل پر بحث کرنا تھا اورن انھوں ںے غزہ کی حکومت میں فلسطینی اتھارٹی کی دوبارہ شراکت پر بات چیت کی۔

یہ اجلاس حالیہ مہینوں میں سعودیہ اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان قریبی رابطوں ـ اور قطعی طور پر سعودی – اسرائیلی ہم آہنگی ـ میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔  

فلسطینی اتھارٹی اور اس کے عرب اتحادی ـ جو صہیونیوں کے ساتھ قریبی رابطوں میں ہیں ـ کے درمیان جنگ کے اگلے دن کے بارے میں بات چیت ہو رہی ہے، تاہم صہیونی ریاست نے ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے کہ اگر بالفرض وہ حماس کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو جائے تو غزہ کا انتظام کس انداز سے چلایا جائے گا۔ [گویا وہ غزہ کے حقائق کو دوسروں سے بہتر جانتی ہے] اور نیتن یاہو غزہ کے انتظام میں فلسطینی اتھارٹی کی شراکت کے خلاف ہے۔

صہیونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف کے سربراہ جنرل حرزی حالیوی (Herzi Halevi) نے صہیونی جنگی کابینہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل سفارتی میدان میں کام نہ کریں تو غزہ میں جنگی فتوحات! جنگ کے بعد ختم ہو سکتی ہیں!

ذرائع کے مطابق ریاض کے خفیہ اجلاس کے عرب شرکاء نے اجلاس میں ہونے والی بات چیت کی تفصیلی رپورٹیں امریکی اور اسرائیلی حکام تک پہنچائی ہیں۔

ان ذرائع نے کہا کہ سعودیہ، مصر اور اردن کے سیکورٹی حکام نے فلسطینی اتھارٹی کے سلامتی کے مشیر ماجد الفَرَج سے کہا ہے کہ اتھارٹی، غزہ میں اپنی سیاسی قیادت کے احیآء کی غرض سے اپنے نظام میں اصلاحات کا اہتمام کریں اور اگر فلسطینی اتھارٹی کی تشکیل نو ممکن ہوئی تو محمود عباس اپنے کچھ اختیارات وزیر ا‏عظم کو منتقل کریں۔

واضح رہے کہ حالیہ چند برسوں میں محمود عباس نے فلسطینی اتھارٹی کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔

سعودیوں، مصریوں اور اردنیوں نے فلسطینی اتھارٹی سے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی سے پہلے ان اصلاحات کی ضرورت ہونگی۔

سعودی سیکورٹی مشیر نے اس اجلاس میں کہا کہ سعودی حکومت، یہودی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے عمل کو جاری رکھے گا بشرطیکہ اسرائیل ایسے عملی اقدامات عمل میں لائے جو فلسطینی ریاست کے قیام پر منتج ہو جائیں، چاہے یہ ریاست جنگ کے فورا بعد قام نہ بھی ہو۔ [دو ریاستی حل کا گھسا پٹا منصوبہ، جسے صہیونیوں نے مسترد کیا ہے اور آزاد مبصرین نے ناممکن قرار دیا ہے]۔

گویا سعودی حکمت عملی امریکی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان (Jacob Jeremiah Sullivan) نے جنوری 2024ع‍ کو ڈیوس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر میں کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام کو ایک فلسطینی حکومت کی تشکیل کی طرف جانا والا راستہ قرار دیا جائے!

بائیڈن انتظامیہ فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈآل رہی ہے کہ ضروری اصلاحات کا اہتمام کرے اور غزہ کی پٹی میں کردار ادا کرے۔ اور نیتن یاہو پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ جنگ کے بعد کے غزہ کے منصوبے کے بارے میں، نیز اگلی کابینہ فلسطینی اتھارٹی کی شرکت کے حوالے سے، تعاون کرے۔

۔۔۔۔۔

نکتہ: امریکیوں اور صہیونیوں کی حیرت انگیزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہاری ہوئی جنگ کے مستقبل میں بھی فاتحانہ انداز سے کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

جنگ غزہ کے اگلے دن کا تصور ـ جو امریکیوں اور ان کے عرب حلیفوں کے ذہن میں ہے اور ان کی دلی خواہشوں سے جنم لیتا ہے ـ یہ ہے کہ جنگ کے بعد غزہ ان کے قبضے میں ہوگا اور وہ اس کے مستقبل کے بارے میں کئے ہوئے پیشگی فیصلوں پر عملدر آمد کریں گے!!! لیکن دوسرا تصور ـ خواب و خیال سے نہیں بلکہ حقیقت سے جنم لے رہا ہے ـ ایک حقیقی تصور ہے اور وہ یہ ہے کہ صہیونی امریکیوں کی مدد سے، صرف فلسطینیوں کا قتل کرنے اور ان کا گھر بار تباہ کرنے میں، کامیاب ہوئے ہیں لیکن انہیں حماس کے خلاف کوئی عسکری کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے، چنانچہ مذکورہ بالا تصورات کے برعکس، حماس غزہ کے حوالے سے مذاکرات میں فی الحال اصل فریق ہے اور جنگ بندی بھی صرف اس وقت ہوگی جب حماس کے راہنما جنگ بندی کے منصوبوں سے اتفاق کریں، چنانچہ غزہ حماس سے خالی سرزمین کا نام نہیں ہے جس میں دوسرے باہر سے آکر ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کریں گے۔ چنانچہ غزہ کا مستقبل پھر بھی ـ اور اب ہمیشہ کے لئے ـ حماس کے ہاتھ میں ہوگا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو اس کی اور اس کے دین کی مدد کرے گا اللہ ضرور اس کی مدد فرمائے گا، اللہ یقیناً بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔

"وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ؛ (الحج-40)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ مہدوی