اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

30 جنوری 2024

2:28:16 PM
1433711

طوفان الاقصیٰ؛

غیرقانونی امریکی اڈے پر ڈرون حملہ اور امریکیوں کی ہلاکت؛ کیا امریکہ حماقت کرکے ایران سے لڑ پڑے گا؟

کوئی بھی امریکی اقدام تنازعے میں شدت کا باعث بنے گا اور خطے میں اس کے ٹھکانوں کو مزید کاروائیوں کا نشانہ بننا پڑے گا۔ یہ تنازعہ غزہ پر امریکہ کی مدد سے غاصب صہیونی فوج کی جارحیت سے شروع ہؤا ہے، اور مقاومت اسلامی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک غزہ پر صہیونیوں کی جارحیت جاری رہے گی یہ حملے بھی جاری رہیں گے، اور پھر امریکیوں نے عراقی مجاہد کمانڈروں کو دہشت گردانہ حملے کرکے شہید ہو چکے ہیں اور امریکی اڈے کے خلاف کاروائی در حقیقت ایک انتقامی کاروائی تھی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امریکی اڈے پر عراقی مقاومت کے ڈرون حملے اور امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور ممکنہ امریکی انتقامی کاروائی کو یہاں سوال اور جواب کی صورت میں زیر بحث لایا گیا ہے:

 س۔ کیا امریکہ اپنے 30 دہشت گردوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا جواب دے گا؟ / ایران کی کسی تنصیب یا مقاومت کے کسی ٹھکانے پر امریکی حملے کا کوئی رد عمل ہوگا یا نہیں؟ /  کیا امریکہ اپنے 30 قوجیوں [سینٹکام کے دہشت گردوں] کے ہلاک اور زخمی ہونے کا جواب دے گا؟

ج۔ شاید۔

س۔ اگر جواب دینا چاہے تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟

ج۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرے گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت بعید ہے کہ وہ ایسی احمقانہ مہم جوئی کا ارتکاب کرے۔ 

امریکہ کسی صورت میں بھی ـ بالخصوص ان حالات میں ـ خطے کی سب سے بڑی طاقت کے ساتھ الجھنے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ امریکی ایران کے کے ساتھ براہ راست کشیدگی کے خطرات سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ محض حماقت ہوگی۔ لیکن اب جبکہ مقاومتی افواج نے اردن میں ـ یا پھر شام میں ـ امریکی اڈے کو نشانہ بنا کر کچھ امریکیوں کو ہلاک اور زخمی کر دیا ہے، اور بائیڈن انتظامیہ کو، اس کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ موجودہ رویے پر ریپبلکن جماعت کی شدید تنقید کا سامنا ہے، لہٰذا انہیں کوئی سرکاری اقدام ضرور کرنا پڑے گا لیکن یہ اقدام قطعی طور پر ایران میں نہیں ہوگا اور چونکہ عراقی مقاومت نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، چنانچہ امریکہ عراق یا شام میں ایک نسبتا بھاری مگر محدود کاروائی کرے گا اور معمول کے مطابق کاروائی سے پہلے یا اس کے بعد، ایران کو پیغام بھیجے گا کہ "ہم جنگ کا دائرہ وسیع نہیں کرنا چاہتے اور یہ محض ہمارے فوجیوں کی ہلاکت پر ایک انتقامی کاروائی ہے / تھی"۔ 

صدارتی انتخابات کی آمد آمد ہے اور ریپبلکنز نے اس مسئلے کو زوردار طریقے سے اٹھایا ہے چنانچہ  ڈیموکریٹ انتظامیہ سستی اور کم ہمتی نہیں دکھانا چاہتی، لہٰذا زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ مقاومت کے حالیہ حملے پر رد عمل دکھا دے؛ لیکن دوسری طرف سے وہ نیتن یاہو کی خواہش پر بھی عمل نہیں کرنا چاہتے، جو کہ امریکہ کو براہ راست جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے۔

امریکہ کو غزہ اور یوکرین میں معاشی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے شدید نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اور اس کی ساکھ کو زبردست دھچکا لگا ہے، جبکہ اس کے عوض وہ کوئی بھی قابل قدر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے؛ تو وہ یقینا موجودہ پیچیدہ حالات میں ایران کے خلاف میدان جنگ میں اترنے کو اپنے لئے مناسب نہيں سمجھتے۔ اس سے انہیں فائدہ نہیں پہنچے گا، بلکہ جنگ پھیل جائے گی اور خطے میں امریکی مفادات پر زیادہ آزادانہ انداز سے تباہ کن حملے ہونگے اور یہ سلسلہ بہت پھیل جائے گا، یہاں تک کہ بعض مبصرین کے مطابق اس طرح کا کوئی حملہ تیسری عالمی جنگ پر بھی منتج ہو سکتا ہے، جو ایک روبزوال سلطنت کے مفاد میں نہیں ہے۔ 

بہت کم امکان ہے کہ امریکہ کا سب سے زیادہ شدید اقدام شام میں ایرانی فوجی مشیروں کے خلاف ہو، اور اوسط درجے کا اقدام شاید عراق میں مقاومتی تحریکوں کے خلاف ہو اور شاید ایک کمزور سا اقدام ایران کے اندر تخریب کاری یا دہشت گردی کی صورت میں ہو جس کی ذمہ داری امریکہ قبول نہیں کرے گا! یہ بزدلانہ کاروائی اصلی یا پھر جزوی اقدامات کے موقع پر ہی ہو سکتی ہے!

ادھر امریکہ کو ایک اور چیلنج بھی درپیش ہے اور وہ یہ ہے عراق کی اسلامی مقاومت تنظیموں اپنے کچھ راہنماؤں پر امریکیوں کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اعلان کیا تھا کہ "امریکہ کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جو پہلے سے شدیدتر اور وسیع تر ہوگا"، اور حالیہ حملے کے بعد بھی انہوں نے کہا ہے کہ یہ حملہ امریکہ کے ہاتھوں ان کے کمانڈروں کی شہادت کا حملہ تھا چنانچہ اگر امریکی شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تنصیبات یا عراق یا شام میں مقاومتی محاذ کے کسی ٹھکانے پر حملہ کرتا ہے تو اسلامی جمہوریہ اور مقااومت کا رد عمل کیا ہوگا، یہ الگ مسئلہ ہے جس کا پیشگی تجزیہ کرنا واشنگٹن کے لئے قطعی طور پر دشوار ہے۔ بہر حال ممکن ہے کہ امریکہ ایک بڑا اور ایک اوسط درجے کا جزوی سا اور ایک چھوٹا مگرغیر اعلانیہ چھوٹا سا اقدام کر دے۔

گوکہ کوئی بھی امریکی اقدام تنازعے میں شدت کا باعث بنے گا اور خطے میں اس کے ٹھکانوں کو مزید کاروائیوں کا نشانہ بننا پڑے گا۔ یہ تنازعہ غزہ پر امریکہ کی مدد سے غاصب صہیونی فوج کی جارحیت سے شروع ہؤا ہے، اور مقاومت اسلامی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک غزہ پر صہیونیوں کی جارحیت جاری رہے گی یہ حملے بھی جاری رہیں گے، گوکہ عراقی مقاومت کی تحریکوں کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو عراق اور شام سے مار بھگانا بھی ان کے دینی اور قومی اہداف و مقاصد میں شامل ہے۔

یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے ستر اسی سال بعد تک کسی میں امریکیوں پر براہ راست حملے کی ہمت نہیں تھی؛ چنانچہ جب ایران اور اس کے اتحاد ـ جب بھی ارادہ کرتے ہیں ـ ان کو جانی نقصان پہنچاتے ہیں، تو یہ یقینا ان کے لئے بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ آج امریکہ عالمی سطح پر شدید رسوائی محسوس کر رہا ہے۔

س: امریکہ اس حملے پر جواب کاروائی کرکے اپنی ساکھ بحال کر سکے گا؟

ج: جی نہیں بلکہ یوکرین، فلسطین اور یمن، نیز عراق اور شام میں امریکیوں کی موجودہ حالت کی رو سے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے پاس نہ آگے کا راستہ ہے نہ پلٹنے کا امکان، اور غزہ کی جنگ نے اس کے زوال کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے، چنانچہ، خواہ وہ انتقامی کاروائی کرے یا نہ کرے، لگتا نہیں ہے کہ وہ ایک بار پھر ایک سوپر پاور کے طور پر اپنی حیثیت بحال کر سکے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واضح رہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مملکت عمان اور بعض دیگر ذرائع سے امریکیوں کو پیغام بھیجا ہے کہ ایران پر انتہائی چھوٹا سا حملہ بھی، ایران کی طرف سے ہمہ جہت فوجی جواب کا باعث بنے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: عبدالرحیم انصاری ـ فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110