اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

26 جنوری 2024

9:17:46 PM
1432639

فاطمہ بنت اسد کا خانہ کعبہ میں شاندار داخلہ / بیت اللہ میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولادت

وایات اور طُرُقِ روایت سے یہ اجمالی علم حاصل ہوتا ہے کہ یہ تاریخ کے مسلّمات میں سے ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) واحد مولودِ کعبہ ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) انتہائی شاندار انداز سے کعبہ میں داخل ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے آنے کے لئے دیوار کعبہ میں نیا دروازہ کھول دیا تھا؛ اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، یزید بن قعنب روایت کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کعبہ کے سامنے کھڑی ہوئیں اور التجا کی: "اے میرے پروردگار! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری اتاری ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جد امجد ابراہیم خلیل (علیہ السلام) ـ جنہوں نے اس گھر کی بنیاد رکھی ـ کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں، تو اے پروردگار! میں تجھے قسم دلاتی ہوں اس گھر کے بانی کی اور میرے اس فرزند کی جو میرے پیٹ میں ہے، اس کی ولادت کو مجھ پر آسان فرما"۔

ولادت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور یوم والد

خانۂ خدا میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولادت، آنجناب کی منفرد فضیلت ہے جس کے بارے میں شیعہ اور سنی مصادر میں بے شمار روایات نقل ہوئی ہیں۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) جمعہ 13 رجب سنہ 30 بعد از عام الفیل میں، مکہ مکرمہ اور کعبہ مشرفہ کے اندر واقع ہوئی ہے، جو آنجناب کی منفرد فضیلت ہے، اور شیعہ اور سنی مصادر میں اس سلسلے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں۔

منقولہ روایات کی سطح یکسان نہیں ہے؛ کچھ روایات میں کعبہ کے اندر ولادت کو قابل بحث سمجھا گیا ہے اور کچھ روایتوں میں ـ شرح و تفصیل میں اختلاف کے باوجود ـ اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کعبہ میں داخل ہوئی ہیں اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولادت کعبہ میں ہی ہوئی ہے۔

یہاں ہم سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) دیوار کعبہ میں شگاف پڑنے ـ جسے نفیس الذہن لوگ "کعبہ کی مسکراہٹ" کہتے ہیں ـ کے حیرت انگیز واقعے کے سلسلے میں شیعہ اور سنی مرویات کا جائزہ:

سنی مصادر

پانچویں صدی ہجری کے شافعی فقیہ علی بن محمد بن طیب واسطی جُلاّئی (المعروف بہ) ابن المغازلی ام عمارہ بنت عبادہ بن نضلہ الساعدی سے نقل کرتے ہیں:

"میں کچھ عرب خواتین کے ساتھ تھی کہ اچانک دیکھا کہ ابو طالب اپنی زوجہ فاطمہ کے ساتھ آرہے ہیں اور بہت مغموم اور فکرمند ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا: فاطمہ کو درد زہ کے مشکل مرحلے کا سامنا ہے اور پھر انھوں نے پریشانی کی شدت سے اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لئے، گویا کہ کوئی راہ علاج تلاش کر رہے تھے، اسی اثناء ميں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنے چچا کے پاس آئے اور ان کی پریشان کا سبب پوچھا اور ابو طالب نے اپنی بات دہرائی۔ چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور فاطمہ بنت اسد کے ساتھ کعبہ کے پاس چلے گئے۔ اور انھوں نے فاطمہ کو کسی طرح کعبہ میں داخل کر دیا اور ان کے طفل کی ولادت ہوئی، ایک لڑکا جس کی طرح کا تروتازہ اور خوبصورت لڑکا میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بعدازاں ابوطالب نے اس طفل کا نام علي رکھا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے انہیں اپنی گود میں اٹھایا اور وہ سب گھر چلے گئے۔ (1)

ساتویں صدی ہجری کے سنی عالم عمر بن محمد شافعی موصلی، نے اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے: "مولده عليه السّلام في الكعبة المعظمة ولم يولد بها سواه، في طلقة واحدة؛

کعبہ میں آپ (علیہ السلام) کی ولادت ایک ناگہانی ولادت تھی، اور کوئی بھی آپ کے سوا، کعبہ میں پیدا نہیں ہؤا"۔ (2)

یہ ایک علامتی بیان ہے جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کے کعبہ میں ناگہانی اور شاندار داخلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ساتویں صدی کے سنی عالم سبط بن جوزی (یوسف بن حسام الدین) نے کچھ زیادہ صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کعبہ کے دروازے سے داخل ہوئیں جو غیر معمولی انداز سے ان کے لئے کھل گیا تھا۔ (3)

ان کتب و مصادر میں، مذکورہ روایت کو ابہام، اشارے اور کنائے کی صورت میں نقل ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل سنت کے غالب مصادر میں یہ بیان پوری شفافیت کے ساتھ موجود تھا اور رفتہ رفتہ تحریف اور ابہام کے معمول کے رویے کا شکار ہؤا ہے۔ ہمارے اس مدعا کا ثبوت بعض سنی علماء کی روایت ہے جو شفافیت کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

دوسری صدی ہجری کے سنی عالم سفیان بن عیینہ (پیدائش سنہ 107، وفات 198ھ) اسلام کے پہلے دور کے مشہور حجازی راوی ہیں جنہوں پہلے عرب نسب نگار ابن شہاب زہری (متوفی ٰ124ھ) سے نقل کیا ہے اور شہاب نے ام المؤمنین عائشہ سے کعبہ میں فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کے شاندار داخلے کو شفاف انداز میں نقل کیا ہے۔ جیسا کہ شعبہ (پیدائش 83، وفات 160ھ) نے قتادہ (پیدائش 60، وفات 117ھ) سے انھوں ںے انس بن مالک (متوفیٰ 93ھ) سے، اور انس نے عباس بن عبدالمطلب سے نقل کیا ہے:

"جب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس آئیں، جبکہ بحرانی کیفیت سے گذر رہی تھیں، تو انھوں نے خدائے بزرگ و برتر سے بہتری کی التجا کی تو اچانک دیوار کعبہ میں شگاف پڑا اور وہ کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوبارہ بند ہو گئی اور تین دن بعد، جبکہ اپنے بیٹے علی (علیہ لاسلام) کو آغوش میں لئے ہوئی تھیں، باہر آ گئیں"۔

محمد بن احمد بن حسن القمی، المعروف بہ ابن شاذان (رحمہ اللہ) (زنده بسال 412ھ) نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے جو بعد میں شیخ محمد بن حسن الطوسی اور ان سے ابن شہر آشوب (محمد بن علی) تک پہنچی ہے۔ (4)

اس کے باوجود، سوال یہ ہے کہ یہ روایت آج، زیادہ تر سنی مصادر و مآخذ میں میں موجود نہیں ہے؟ کونسے عوامل اور محرکات باعث ہوئے ہیں کہ یہ روایت ان کتب میں دستیاب نہیں ہے؟ یہ روایت اور فضائل اہل بیت (علیہم السلام) پر مبنی دوسری بہت سی روایات کو کس زمانے میں ان کتب سے ہٹایا گیا ہے؟ یہ صرف ایک سوال ہے جس کا جواب کی گنجائش اس مختصر مضمون میں نہیں ہے، اور قارئیں خود ان سوالات کا جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

بہر حال، أَهْلُ الْبَیْتِ أَدْرَی بِمَا فِی الْبَیْتِ؛ گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں کہ گھر میں کیا ہے:

شیعہ مصادر:

قدیم شیعہ مصادر میں اس واقعے کو وسیع پیمانے پر نقل کیا گیا ہے، اور شیعہ علماء نے کعبہ میں سیدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کے شاندار داخلے کو حقیقت کے مطابق، نقل کیا ہے۔

سب سے پہلے ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القمی، المعروف بہ شیخ صدوق (رحمہ اللہ) نے اس واقعے کو اپنی تین کتابوں میں ثبت کیا ہے۔ (5)

شیخ محمد بن حسن بن علی بن حسن الطوسی، المعروف بہ شیخ طوسی (متوفیٰ 460ھ)، محمّد بن‌ حسن المعروف بہ فَتّال نیشابوری و شیخ شہید (رحمہ اللہ) (شہادت: 508ق)، محمد بن علی طبری، المعروف بہ عماد الدین الطبری (زندہ بسال 553ھ)، محمد بن علی بن شهرآشوب سَرَوی مازندرانی، المعروف بہ ابن شہر آشوب (متوفیٰ 588ھ)، علی بن عیسی الإربلی المعرف بہ بہاء الدین الإربلی (متوفیٰ 692ھ)، محمد بن علی بن حمزه الطوسی (متوفیٰ بعد از سال 585ھ)، اور حسن بن یوسف بن مطہّر الحلی، المعروف بہ علامہ حلی (متوفیٰ 726ھ) (رحمہم اللہ) (6) سمیت بہت سارے علماء نے اس واقعے کو ثبت کیا ہے۔

شیخ صدوق (رحمہ اللہ) نے اس روایت کو اپنی سند سے (7)، سعید بن جبیر سے اور انھوں نے یزید بن قعنب (یا قُعیب) سے یوں نقل کیا ہے:

یزید بن قعنب کہتے ہیں:

"ایک دن عباس بن عبدالمطلب اور آل عبدالعُزیٰ کے کچھ افراد کے ساتھ بیت اللہ الحرام میں بیٹھے تھے، کہ اسی اثناء میں امیرالمؤمنین کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد (علیہما السلام) بیت اللہ میں آ گئیں، جبکہ ان کے حمل کے 9 مہینے مکمل ہوئے تھے، اور انہیں درد زہ لاحق تھا۔ انھوں نے کعبہ کی طرف رخ کیا اور التجا کی:

"اے میرے پروردگار! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری اتاری ہوئی کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جد امجد ابراہیم خلیل (علیہ السلام) ـ جنہوں نے اس گھر کی بنیاد رکھی ـ کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں، تو اے پروردگار! میں تجھے قسم دلاتی ہوں اس گھر کے بانی کی اور میرے اس فرزند کی جو میرے پیٹ میں ہے، اس کی ولادت کو مجھ پر آسان فرما"۔

یزید بن قعنب کہتے ہیں:

"فاطمہ بنت اسد کا راز و نیاز ختم ہؤا تو ہم نے دیکھا کہ کعبہ کی پچھلی دیوار کھل گئی اور فاطمہ داخل ہو کر ہماری نظروں سے اوجھل ہوئیں اور دیوار بند ہو گئی۔ ہم نے کعبہ کا داخلی دروازہ کھولنے کی بہت کوشش کی لیکن تالا نہیں کھلا۔ چنانچہ جان گئے کہ یہ اللہ کا ارادہ ہے۔ وہ سیدہ چند روز [تین یا چار روز] بعد باہر آگئیں جبکہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) ان کی آغوش میں تھے اور کہہ رہی تھیں:

"میں تمام سابقہ عورتوں سے برتر و افضل ہوں؛ کیونکہ آسیہ بنت مزاحم ایسی جگہ چھپ کر خدا کی عبادت کرتی تھیں جہاں خدا پسند نہیں فرماتا کہ اضطرار اور مجبوری کے سوا اس کی عبادت کی جائے (کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان سے پہلے کے انبیاء کی امتیں صرف عبادت گاہوں اور کنیسوں میں عبادت کر سکتی تھیں)، اور عمران کی بیٹی مریم نے اپنے ہاتھ میں خشک کھجور کو ہلایا تاکہ وہ اس کی تازہ کھجوروں سے مستفید ہو سکیں۔ جبکہ میں اللہ کے بیتِ معظم میں داخل ہوئی اور جنتی پھلوں اور طعاموں سے استفادہ کیا اور جب باہر آنے لگی تو آواز آئی: "اے فاطمہ! اس بچے کا نام "علی" رکھنا، اور وہ "علی" ہیں اور خدائے علی الاعلیٰ کہتا ہے: میں نے اس کے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا اور اس کو اپنے آداب سے آراستہ کیا اور اپنے علم میں سے اس کو عطا کیا اور وہی ہے جو میرے گھر کے اطراف کے بتوں کو توڑ دے گا اور میرے اس گھر کی چھت سے اذان دے گا اور میری تقدیس و تمجید کرے گا۔ تو خوشحالی ہے اس کے محبوں اور پیروکاروں کے لئے اور ہلاکت ہے اس کے لئے جو اس سے بغض و نفرت رکھے اور اس کی نافرمانی کرے"۔ (8)

شیخ طوسی (رحمہ اللہ) نے یہ واقعہ محمد بن احمد بن حسن قمی المعروف بہ ابن شاذان (رحمہ اللہ) (9) سے نقل کیا ہے؛ جنہوں نے تین واسطوں سے اسے ثبت کر لیا ہے اور یہ تینوں اسناد ان اسناد سے مختلف ہیں جن سے شیخ صدوق (رحمہ اللہ) اپنی روایت نقل کی ہے۔ ابن شاذان (رحمہ اللہ) کی ایک روایت کی سند عائشہ تک، دوسری انس بن مالک اور عباس بن عبدالمطلب اور تیسری امام صادق (علیہ السلام) تک پہنچتی ہے جنہوں نے اپنے اجداد طاہرین (علیہم السلام) سے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے چچا عباس بن عبدالمطلب سے نقل کیا ہے۔ (10) نیز عماد الدین طبری (رحمہ اللہ) نے یہ واقعہ شیخ صدوق (رحمہ اللہ) سے نقل کیا ہے۔ (11)

ابن شہر آشوب (رحمہ اللہ) نے اپنی اسناد کی بنیاد پر اس واقعے کو تین واسطوں اور تین اسناد سے نقل کرکے ثبت کیا ہے۔ پہلی سند یزید بن قعنب اور جابر بن عبداللہ تک، دوسری سند بالترتیب، شعبہ، قتادہ، انس بن مالک اور آخرکار عباس بن عبدالمطلب تک پہنجی ہے اور تیسری سند حسن بن محبوب کے ذریعے امام صادق (علیہ السلام) تک پہنچتی اور پھر ابن شہر آشوب (رحمہ اللہ) نے اس واقعے کی تائید میں سید اسماعیل بن محمد حِمْیَری المعروف بہ سید حِمْیَری (متوفی سنہ 173ھ) اور محمد بن منصوری سرخسی (متوفی 490ھ) وغیرہ کے وہ اشعار بھی نقل کئے ہیں جو انہوں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی کعبہ میں ولادت کے سلسلے میں کہے ہیں؛ اور آخرکار نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) وہ واحد مولود ہیں جو بہترین سرزمین اور پورے کرہ ارضی کی بہترین مسجد، اور شریف ترین مقام پر "یعنی کعبۃ اللہ کے گوشے میں" اور ہفتے کے سیدالایام "جمعۃ المبارکہ" کو متولد ہوئے ہیں اور یہ خصوصیت بے مثال ہے۔ (12)

نتیجہ

مذکورہ روایات سے معلوم ہؤا کہ اگر ان اسناد میں کچھ راویوں میں فکرمند ہوں بھی، ان سب کو غیر موثق قرار نہیں دے سکتا، اور روایات اور طُرُقِ روایت سے یہ اجمالی علم حاصل ہوتا ہے کہ یہ تاریخ کے مسلّمات میں سے ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) واحد مولودِ کعبہ ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) انتہائی شاندار انداز سے کعبہ میں داخل ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے آنے کے لئے دیوار کعبہ میں نیا دروازہ کھول دیا تھا؛ اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اہل سنت محمد بن عبداللہ نیسابوری المعروف بہ حاکم نیسابوری (متوفیٰ 405ھ) نے اس کو حدیث متواتر قرار دیا ہے اور مشہور سنی عالم و مفسر قرآن محمود بن عبداللہ الآلوسی البغدادی (متوفی 1270ھ) کہتے ہیں کہ یہ واقعہ دنیا کی مشہور واقعات میں سے ایک ہے، لکھتے ہیں:

"وَفِی كَونِ الأَمِیرِ كَرَّمَ اللهُ وَجهَهُ وُلِدَ فِي البَيتِ أَمرٌ مَشهورٌ فِي الدنيا وَذُكِرَ في كُتُبِ الفَرِیقَینِ السُنَّةِ وَالشِّيعَةِ؛

کعبہ میں امیرالمومنین (کرم اللہ وجہہ)  کی ولادت کا واقعہ دنیا کے مشہور واقعات میں سے ایک ہے کہ اور یہ واقعہ فریقین "یعنی سنی اور شیعہ تصانیف میں بیان ہؤا ہے"۔ (13)

جی ہاں! یہ کہ خدائے متعال اس طریقے سے اعلان عام کیا کہ کعبہ کے انتظام کا شیوہ نیا ہونا چاہئے اور کعبہ بعدازیں بتوں کے اپنے اندر جگہ نہیں دے گا اور یہ مولود وہی ہے جو دوش رسالت پر کھڑے ہوکر کعبہ کو بتوں سے نجات دلائے گا اور کعبہ بعدازیں آہستہ آہستہ دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ بن جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ تیز فہم محقق میرزا محمد علی غَرَوی اُردوبادی المعروف بہ علامہ اردوبادی (رحمہ اللہ) (متوفیٰ 1380ھ) نے اس حوالے سے ایک قابل قدر اور عمدہ تحقیق کی ہے اور اس کا نام "علی ولید الکعبہ" رکھا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں کعبہ میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ولادت کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے جیسے: "شیعہ اور سنی راویوں کا اہتمام"، "حدیث کا تواتر"، "مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ہاں اس واقعے کی عام شہرت"، "شاعروں کے ہاں اس واقعے کا خصوصی اہتمام"، "حدیث کا جائزہ نَسَب شناسوں اور مؤرخین کی نگاہ کی رو سے"۔ (14)

علامہ اردوبادی کے شاگرد، علامہ عبدالحسین امینی المعروف به علامہ امینی (متوفیٰ 1390ھ) نے اپنی گہری تحقیقی تصنیف "الغدیر" میں اہل سنت کی 20 کتب اور 70 قدیم و متوسط مصادر کا حوالہ دیا ہے جن میں اس موضوع کا جائزہ لیا گیا ہے۔ (15)

۔۔۔۔۔۔

ماخذ: کتاب "باز پژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان علیہم السلام / یداللہ مقدسی/ نشر پژوہشگاه علوم و فرہنگ اسلامی

حوالہ جات:

1۔ ابن المغازلی، علی بن محمد بن طیب واسطی جُلاّئی، مناقب علی بن أبی طالب، ص6-7؛ ابن بطریق حلی، ابن بطریق، یحییٰ بن حسن اسدی حلی، عمدۃ عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار، ص71 بحوالہ ابن المغازلی۔

2۔ موصلی شافعی، عمر بن محمد، النعيم المقيم لعترۃ النبأ العظیم، ص55، باب2، فصل1۔

3۔ سبط بن الجوزی، یوسف بن حسام الدین، تذکرۃ الخواص، ص10۔

4۔ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص706-707؛ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، ‌مناقب آل أبی طالب، ج2، ص198۔

5۔ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، ص62، ح10؛ علل الشرائع، ‌باب116، ح3؛ أمالی شیخ صدوق، مجلس27، ح9۔ 

6۔ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص706-709؛ فتال نیشابوری، محمّد بن‌ حسن (شیخ شہید)، روضۃ الواعظین، ص76؛ عماد الدین طبری، محمد بن علی، بشارۃ المصطفیٰ، ص26-27 و ص76؛ ابو حمزہ طوسی، محمد بن علی، الثاقب فی مناقب آل أبی طالب، ص197؛ حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین فی فضائل امیر المؤمنین (علیہ السلام)، ص17؛ قطب الدین الراوندی، سعید بن عبداللہ، ج1، ص171؛ مجلسی محمد باقر بن محمد تقی، بحارالانوار، ج35، ص8۔

7۔ اس روایت میں شامل ناموں کی فہرست:

- علی بن احمد دقاق، محمد بن یعقوب کلینی کے شاگرد اور شیخ صدوق کے استاد ہیں جن سے شیخ صدوق نے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں۔ شیخ اپنے اس استاد کے لئے اللہ کی رحمت و رضوان کی دعا کیا کرتے تھے۔ ان کا نام شیخ صدوق کی ان روایات میں نمایاں ہے جو محمد بن سنان تک پہنچتی ہیں۔ (خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج11، ص255، شمارہ 7907؛ و نمازی شاہرودی، علی بن محمد، (متوفیٰ 1405ھ)، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج5، شمارہ 9673 اور شمارہ 9682)۔

- محمد بن جعفر بن عون اسدی المعروف بہ ابوالحسین (312ھ) ثقہ اور معتبر ہیں۔ (خوئی، معجم رجال الحدیث، ج15، ص165-169، شمارہ 10384؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج4، ص476)۔

- موسیٰ بن عمران نَخَعی [ان کا نام ابن قُولِوَیْہ قمی، ابو القاسم جعفر بن محمد (متوفیٰ 368ھ) کی کتاب کامل الزیارات میں منقولہ روایات کی سند میں پایا جاتا ہے جو خود ان کے ثقہ اور معتبر ہونے کا ثبوت ہے]۔ نخعی اپنے چچا حسین بن یزید نوفلی سے روایت کرتے ہیں۔ (خوئی، معجم رجال الحدیث، ج19، ص60-61؛ شمارہ 12818)۔

- حسین بن یزید نوفلی ادیب اور شاعر راویوں میں سے تھے، ان کی کئی قلمی کاوشیں تھیں اور وہ کامل الزیارات کے راویوں میں سے ہیں [جو ان کے ثقہ ہونے کا ثبوت ہے]۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں اور برقی قمی، احمد بن محمد بن خالد، نے رجال البرقی میں انہیں امام علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام) کے اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ (خوئی، معجم رجال الحدیث، ج6، ص113، شمارہ 3705)۔ ابو جعفر زاہری، محمد بن سنان (متوفیٰ 220ھ) جن کے بارے میں آراء مختلف ہیں؛ تاہم وہ اہل بیت (علیہم السلام) کے معتقد اور امام موسیٰ کاظم، امام علی بن موسیٰ الرضا، اور امام محمد تقی الجواد (علیہم السلام) کے اصحاب سِرّ میں شامل تھے۔ شیخ طوسی نے انہیں ممدوح اور حسن الطریقہ قرار دیا ہے اور شیخ محمد بن محمد مفید (متوفیٰ 413ھ) انہیں موثق قرار دیا ہے۔ اگرچہ بعض علمائے رجال نے ان کی روایات پر عمل کو دشوار سمجھا ہے۔ (خوئی، معجم رجال الحدیث، ج 16، ص 160)؛ اور آراء کے اسباب تلاش کرکے معلوم ہوتا کہ چونکہ وہ ائمۂ طاہرین کے صاحب سِرّ تھے اسی بنا پر کچھ بھاری اور پرمغز احادیث نقل کرتے تھے جن کا مکمل ادراک سب کے لئے ممکن نہيں تھا؛ چنانچہ یہ مسئلہ ان کے ضعف کی دلیل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ خود ان کے قابل وثوق و اعتماد ہونے کا ثبوت ہے۔ (دیکھئے: علی پیرخادم کی کتاب "بررسی توصیف رجالی محمد بن سنان" (محمد بن سنان کی رجالی توصیف کا جائزہ)، ص67-79)۔

- ابو عبداللہ مفضل بن عمر جعفی امام صاق اور امام کاظم (علیہما السلام) کے راویوں میں شامل ہیں۔ وہ ایک فکری شخصیت تھے۔ علمائے رجال ان کے بارے میں مختلف آراء کے قائل ہوئے ہیں؛ شیخ مفید نے انہیں ثقہ اور قابل اعتماد گردانا ہے، مرحوم آیت اللہ خوئی (رحمہ اللہ) نے ان کے بارے میں مختلف آراء نقل کرنے کے بعد نتیجہ لیا ہے کہ مفضل عظیم علمی شخصیت کے مالک اور امام صادق (علیہ السلام) کے اصحاب خاص میں سے تھے اور ہم بہت ساری روایات کا مطالعہ کرکے اس نتیجے پر پہنچے ہیں، یہ روایات اس اجمالی علم کا سبب بھی ہیں کہ ان کی منقولہ احادیث صحیح ہیں، اور ان کی کتاب التوحید ان ہی علامات میں سے ہے اور احمد بن علی نجاشی (متوفیٰ 450ھ) اپنی کتاب "رجال نجاشی" (فہرست اسماء مصنفی الشیعۃ) میں ان کی کتاب کو "کتاب الفکر" کا نام دیا ہے۔ (خوئی، معجم رجال الحدیث، ج18، ص292-305، شمارہ 12586)۔

- ثابت بن دینار المُکنّیٰ بہ ابو حمزہ ثمالی، اور سعید بن جبیر دونوں " الشمس فی رائعۃ النہار" (دن کی روشنی کی طرح واضح اور روشن) ہیں۔ 

8۔ صدوق، ‌ معانی الأخبار، ص62، ح10؛ علل الشرائع، باب 116، ح3؛ الأمالی؛ مجلسی، بحارالانوار، ج27، ح9۔

9۔ ابوالحسن محمد بن احمد بن حسن بن شاذان القمی، (زندہ بسال 412ھ) علمی خاندان کے چشم و چراغ اور عظیم الشان عالم دین، کامل الزیارات کے مؤلف جعفر بن محمد بن قُولِوَیہ کے بھانجے تھے۔ انھوں نے شیخ صدوق اور شیخ مفید سمیت بزرگ علمائے دین سے فیض حاصل کرکے فقاہت و درایت کے مراتب پر فائز ہوئے اور ابو الفتح کراجکی (محمد بن علی) جیسے علماء کی تربیت کی جنہوں نے ان سے علم و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ ان کا نام معارف اہل بیت (علیہ السلام) کے راویوں اور مصنفین و مؤلفین کے زمرے میں آتا ہے اور کئی کتب کے مصنف ہیں جن میں " إیضاح دفائن النواصب فی مأۃ منقبۃ من مناقب علی بن أبی طالب (علیہما السلام)" شامل ہے۔ شیخ طوسی کے سوا، سید بن طاؤس اور ابن شہر آشوب جیسے علماء نے ان کی روایات اور کتب سے استفادہ کیا ہے۔ (مأۃ منقبۃ، ص5-10) (مقدمہ)؛ نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج6، ص428)۔

10۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص706۔

11- عماد الدین طبری، بشارۃ المصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ)، ص26-27، ح10۔

12۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ج2، ص197-200۔

13۔ حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص550۔   

14۔ آلوسی بغدادی، محمود، شرح الخريدۃ الغیبیۃ فی شرح القصیدۃ العینیۃ، ص15۔

15۔ الامینی، عبدالحسین، الغدیر، ج6، ص39-59۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110