اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
جمعرات

25 جنوری 2024

4:17:37 PM
1432398

طوفان الاقصی؛

اردن اور اسرائیل کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں گویا! کیا اردنی ملکہ صہیونیوں کی چھوٹی بہن نہیں رہی؟ تنازعہ یا نورا کشتی!

سات اکتوبر (طوفان الاقصیٰ) کے بعد سے اردن اور صہیونی ریاست کے تعلقات یہاں تک خراب ہو گئے ہیں کہ صہیونی ملکہ اردن کو مزید اپنی چھوٹی بہن نہیں سمجھتے اور یہ تعلقات 7 اکتوبر سے پہلے جیسے نہیں ہو سکیں گے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق،  کالم نگار   وحید صمدی نے لکھا:

طوفان الاقصیٰ کے بعد صہیونیوں نے Operation Iron Swords کے عنوان سے غزہ پر جارحیت کا آغاز کیا، تو عَمّان اور تل ابیب کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے اور یکم نومبر کو اردن نے اپنا سفیر تل ابیب سے بلوا کر صہیونی سفیر کو ناپسندیدہ شخص (Persona non grata) قرار دے کر نکال باہر کیا اور اعلان کیا کہ اسے مزید اردن واپس آنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ گوکہ کہا جاتا ہے کہ دوطرفہ تعلقات 2022ع‍ کے آخری مہینے میں نیتن یاہو کابینہ کے برسراقتدار آنے اور مغربی کنارے پر شدید دباؤ اور مسجد الاقصیٰ کی صورت حال خراب ہونے کے بعد خراب ہو گئے تھے۔

اپریل 2022ع‍ کے وسط میں ایک عجیب واقعہ ہؤا اور اردنی وزیر اعظم بشر الخصاونہ نے ـ جو کہ مغربی کنارے اور قدس میں اسرائیلیوں کے اشتعال انگیز اقدامات سے تنگ آگئے تھے ـ اردنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا: میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تمام فلسطینیوں اور اردن کے ادارہ اوقاف کے تمام کارکنوں کو درود و سلام پیش کروں جو روشنی کے میناروں کی طرح، سربلند کھڑے ہیں اور غاصب اسرائیلی ریاست کے تابع صہیونیوں پر موسلادھار بارش کی طرح پتھر برسا رہے ہیں، اس وقت جب صہیونی، غاصب صہیونی ریاست کی مدد سے مسجد الاقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں اور اسے آلود کرتے ہیں۔

الخصاونہ نے اسرائیل کو قابض اور غاصب اور مقبوضہ بستیوں کے یہودی آبادکاروں پر فلسطینیوں کی سنگباری کو خراج تحسین پیش کیا، اور یہ وہ الفاظ تھے جو اس سے پہلے صہیونی ریاست کے خلاف اردن کی صحافتی ادب میں بروئے کار نہیں آئے تھے، چنانچہ صہیونی ریاست طیش میں آگئی۔

اگرچہ اردنی حکومت صہیونیوں سے سازباز اور سودے بازی کے حوالے سے پہلی حکومتوں میں سے جنہوں نے صہیونیریاست کو تسلیم کیا ہے، لیکن اردنی عوام کے دل فلسطین کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اور اس حکومت نے اپنے عوام کے دباؤ میں آ کر اعلان کیا ہے کہ "مسجد الاقصیٰ"ہماری [یعنی اردن کی] حکومت] کے لئے سرخ لکیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ صہیونی ریاست کی چند ہی مہینوں تک قائم رہنے والی نفتالی بینت کی حکومت نے الخصاونہ کے موقف کے اشتعال انگیز قرار دیا اور یہ کشیدگی یہاں تک بڑھ گئی کہ امریکی چینل "الحرہ" (Alhurra) سمیت بعض ذرائع نے اپنی رپورٹوں میں کہا کہ "اردن اور اسرائیل کے باہمی تعلقات گھاٹی کے دہانے پر ہیں"۔

قدس شریف اور مغربی کنارے میں تناؤ کی کیفیت میں شدت اور اسی اثناء میں عَمّان اور تل ابیب کے درمیان کشیدگی جاری رہی۔ اردنی ولی عہد کی شادی میں غاصب ریاست کے صدر اسحاق ہرزوگ کو دعوت نہیں دی گئی تو صہیونیوں نے اس کو دو ملکوں کے درمیان تعلقات میں تعطل آنے کی علامت قرار دیا اور آخرکار طوفان الاقصیٰ کا آغاز ہؤا جس کے بعد یہ تعلقات مزید بد اور بدتر ہوئے، اور جب صہیونی ریاست نے غزہ کے عوام کو کوچ کروا کر اردن اور مصر میں بسانے کا اعلان کیا جو دو طرفہ تعلقات کے لئے "کوبڑ بالائے کوبڑ" ثابت ہؤا، کیونکہ اردن طوفان الاقصیٰ سے پہلے مغربی کنارے میں جاری بحران کی اپنے عوام میں سرایت، سے فکرمند تھا اور اب اسرائیل غزہ کے عوام کی اردن نقل مکانی کی بات بھی کر رہا ہے۔ چنانچہ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے جواب دیتے ہوئے کہا: "غزہ فلسطینیوں کا وطن ہے اور رہے گا"۔

ایک مہینہ بعد تعلقات اور بھی بگڑ گئے یہاں تک کہ اردن [جس کے ناجائز یہودی ریاست کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں] نے اپنا سفیر تل ابیب سے واپس بلایا۔ اس سے پہلے اردن اور صہیونی ریاست کے سیکورٹی اجلاس سال میں دو یا تین بار نیتانیا اور بحر المیت کے ہوٹلوں میں منعقد ہؤا کرتے تھے، اور ان اجلاسوں کے نتائج سے ـ ہنگامی حالات میں ـ دو ملکوں کے حکام کے لئے اطمینان بخش ہؤا کرتے تھے۔ اور یہ اجلاس سات اکتوبر کے بعد ملتوی ہو گئے ہیں۔

صہیونی اس عرصے میں شاہ اردن کی زوجہ [فلسطینی نژاد] ملکہ رانیا [بنت یاسین] نے سی این این کو انٹرویو دیا تو بھی اسرائیلی ناراض ہوگئے اور صہیونی اخبار یدیعوت آحارنوت نے لکھا کہ "7 اکتوبر کے بعد اردن میں رانیا دوسرا کردار ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف منہ کھولا"۔

اس اخبار نے مزید لکھا: رانیا فلسطینی نژاد ہیں، اور انھوں نے سی این این سے بات چیت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیل کی مذمت کی اور حماس کی طرف کے حملے کے بارے میں کچھ کہے بغیر کہا: مجھے ہزآروں نومولود اور شیرخوار بچوں کو درپیش مصائب و مسائل سے افسوس ہے۔ اس بات نے اسرائیلیوں کو ناراض کر دیا۔ کچھ دن بعد اسرائیل نے سات اکتوبر کی ایک ویڈیو ملکۂ اردن کے لئے بھجوادی، تو رانیا نے دوسرے انٹرویو اسرائیل کے خلاف اپنا لہجہ کچھ نرم کر دیا لیکن انھوں نے اسرائیل کے اس دعوے پر ـ کہ "حماس نے عیر اخلاقی جرائم" کا ارتکاب کیا ہے، یہاں تک کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی ان جرائم کی طرف اشارہ کیا ہے ـ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "صدر بائیڈن نے ان مبینہ تکلیف دہ معاملات کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے"۔

تعلقات میں کشیدگی یہیں اختتام پذیر نہیں ہوئی بلکہ اردن نے طوفان الاقصیٰ کے تین مہینے بعد 4 جنوری 2024ع‍ کو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں قلسطینی نسل کُشی ـ اور نسل کُشی کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ کے منظور کردہ 1948ع‍ کے کنونشن (مختصرا Genocide Convention) کی خلاف ورزی ـ  کے جرم میں اسرائیلی ریاست کے خلاف جنوبی افریقہ کے دائر کردہ مقدمے کی حمایت کر دی۔ اور اردن کے وزیر خارجہ نے کہا: "ہم یقینی طور پر اس شکایت کی حمایت کرتے ہیں اور ہمارے قانون دان اس مقدمے کی حمایت کے لئے ضروری دستاویزات تیار کر رہے ہیں"۔

اردنی [حکمران بظاہر] اسرائیل سے بہت زیادہ ناراض ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے آپ کو بین الاقوامی قوانین سے ما وراء سمجھتا ہے، اور اس نے بین الاقوامی برادری کے ارادے کے برعکس، اپنے آپ کو نسل کُشی کا مُجاز سمحھتا ہے"۔ یہ اردن کے وزیر خارجہ کے الفاظ ہیں۔

ان تمام ناراضگیوں کا بنیادی نکتہ یہ کہ اردن فلسطینیوں کے لئے کم اور اپنے مستقبل کے لئے زیادہ، فکرمند ہے۔ ہم نے شاید اس حقیقت کے اہم حصے کی صرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ چنانچہ کہنا چاہئے کہ اردن نیتن یاہو کی انتہاپسند کابینہ کو مغربی کنارے میں ٹائم بم کے مترادف سمجھتا ہے۔ مغربی کنارہ اگر بدانتظامی اور بے چینی سے دوچار ہوجائيں تو یہ وہاں کا سنجیدہ بحران اردن میں سرایت کر جائے گا، اس لئے بھی کہ اردن فلسطین کا ہمسایہ ہے اور بہت قریب سے دیکھ رہا ہے کہ اسرائیل غزہ کے عوام کو نقل مکانی پر مجبور کرنے کے لئے کسی بھی جرم و ظلم سے دریع نہیں کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے عوام کی نقل مکانی کے لئے اسرائیل سمیت مغربی حکومتیں بھی اپنی تمام تر طاقت استعمال کر رہی ہیں، اور اگر وہاں سے ـ 30 ہزار افراد کی شہادت، 70 ہزار افراد کے زخمی ہونے اور پانی بجلی سمیت رہنے کے لئے گھر اور اشیائے خورد و نوش کی قلت کے باوجود، ـ فلسطینیوں کی نقل مکانی کی کوئی خبر موصول نہيں ہو رہی ہے، تو اس کی وجہ صرف اور صرف غزہ کے عوام کی عجیب استقامت اور غزہ کے کھنڈرات میں جم کر رہے کا عزم ہے۔

اردن اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے کا پوری طرح پابند ہے، اور اسے یقین ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے (معاهدة وادي عربة = معاهدة السلام الأردنية الإسرائيلية = The Israel–Jordan peace treaty) کا ایک نکتہ بھی پامال نہیں کیا ہے لیکن اسرائیل نے قدس اور مغربی کنارے میں بحران پیدا کرکے فلسطین کے اسلامی اور مسیحی مقدس مقامات پر اردن کی سرپرستی کو بارہا اور بارہا پامال کر دیا ہے اور اب وہ فلسطین کا بحران اردن اور مصر منتقل کرنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف سے سعودی عرب بھی اردن کے راستے پر گامزن ہو کر فلسطینیوں کا بے شرمانہ قتل عام کرنے والے صہیونی غاصبوں کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے اور غاصب ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے پر تول رہا ہے، چنانچہ صہیونی اخبار یدیعوت آحارنوت نے بروز ہفتہ "مورخہ 23 جنوری 2024ع‍ کو لکھا کہ اردن کے حکمرانوں کو خدشہ ہے کہ اگر یہ سودے بازی نتیجہ خیز ہوئی اور صہیونی - سعودی کے درمیان [ماضی کے طویل مگر خفیہ تعلقات کے برعکس] اعلانیہ تعلقات قائم ہو جائیں تو ممکن ہے کہ تل ابیب مسجد الاقصیٰ کی سرپرستی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سپرد کرے، جو اب تک اردن کے پاس تھی، اور یوں سعودی حکمران مکہ اور مدینہ پر اپنی عملداری میں مسجد الاقصیٰ کو بھی شامل کر دے۔

بہرحال، صہیونی صدر اسحاق ہرزوگ نے ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر اردن سے اپیل کی کہ تل ابیب - عَمّان تعلقات معمول پر لایا جائے۔ لیکن اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم نے عَمّان میں ترک وزیر خارجہ حقان فیدان (Hakan Fidan) سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "غزہ کی جنگ کو رک جانا چاہئے، اور "صروری ہے کہ پورے خطے کا موقف، دو ملکی حل کو یقینی بنانے کے لئے، ہم آہنگ ہوجائے"، جبکہ ایک طرف سے پوری دنیا کے مبصرین اس منصوبے کو ناقابل عمل سمجھتے ہیں اور دوسری طرف سے اسرائیل ـ جس نے اس منصوبے پر دستخط بھی کئے ہیں ـ اس کو یکسر مسترد کرتا ہے اور وہ "ملک فلسطین" کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔

یہ نہیں معلوم کہ غاصب ریاست کے ساتھ اردن کے تعلقات میں تناؤ کہاں تک خراب ہونگے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اردن کا سخت موقف اردن کی رائے عامہ کے دباؤ کے تحت سامنے آ رہا ہے ورنہ تو اردن نے اب تک ثابت کرکے دکھایا ہے کہ انسانی ہمدردی کے تصورات (Humanitarian concepts) کے پیش نظر نہيں ہؤا کرتے، چنانچہ اس ملک کے نائب وزیر اعظم مروان المعشر نے {جمعہ 21 جنوری 2024ع‍ کو) اردنی ٹیلی وژن کے چینل "رُؤیا" میں شاہ اردن کے اس موقف کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "بالکل ناممکن ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات  7 اکتوبر 2023ع‍ سے پہلے جیسے نہیں ہو سکیں گے، اور بادشاہ کا موقف اردنی عوام سے قریب تر ہے!"

عرض مترجم:

دنیا جانتی ہے کہ کچھ اسلامی ممالک پر مسلط حکومتوں کا ایک بلاک صہیونی ریاست کی قتل عام کی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے جن میں خاص طور پر ترکیہ، امارات، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں۔

صہیونی اخبار یدیعوت آحرونوت نے فاش کیا ہے کہ سعودی عرب اور اردن بحیرہ احمر میں یمنی مسلح افواج کی ناکہ بندی توڑنے میں اسرائیل کی مدد کررہے ہیں! وہ یوں کہ اسرائیل کی جہازرانی کمپنیاں براعظم افریقہ کا چکر کاٹنے اور طویل فاصلہ طے کرنے کے بجائے، اپنا مال خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی بندرگاہوں میں اتارتے ہیں اور یہ سامان ٹرکوں کے ذریعے سعودی عرب اور اردن کے راستے صہیونی ریاست تک پہنچایا جاتا ہے۔ اور صہیونی نیوز ویب سائٹ والا (Walla) نے اس سے قبل لکھا تھا کہ متحدہ عرب امارات سے مقبوضہ فلسطین [یعنی غاصب صہیونی ریاست] تک کا زمینی راستہ امارات سے شروع ہو کر سعودی عرب سے گذرتا ہے اور یہ زمینی پل دبئی سے حیفا کی بندرگاہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اور اہم ترین نکتہ یہ کہ یمن نے غزہ کی حمایت میں، صہیونیوں کے لئے جانے والے ایندھن اور اشیاء خورد و نوش کا راستہ بحیرہ احمر میں، بند کر دیا تو اردن نے اس ان کی غذائی ضروریات پورا کرنا شروع کیا اور جب یمن سے میزآئل اور ڈرون طیارے صہیونی بندرگاہوں کو نشانہ بناتے ہیں تو سعودی عرب کے ساتھ ساتھ، اردن ان میزائلوں اور ڈرون طیاروں کو مار گرانے کی کوشش کرتا ہے۔

اس وقت جبکہ غزہ میں صہیونیوں نے نسل کشی کا بازار گرم رکھا ہے، زبانی مذمتیں بالکل سنجیدہ نہیں ہیں اور اگر اردن سمیت دوسرے اسلامی اور عرب ممالک واقعی انسانوں کے اس قتل کو ناپسند کرتے ہیں، تو انہیں صہیونیوں کو لگام دینا پڑے گا اور ان کی مدد بند کرنا پڑے گی اور ان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا پڑیں۔ ظاہری امر ہے کہ جب ان ممالک کے سفارتخانے تل ابیب میں قائم ہیں اور کے دارالحکومتوں میں غاصب صہیونیوں کے سفارتخانے قائم ہیں، صہیونی ریاست ان کی ملکاؤں کو چھوٹی بہن کہہ کر پکارتے ہیں، اور آپ کا [گھریلو] جھگڑا ہو تو کہہ دیتے ہيں کہ تمہاری ملک بس ہماری بہن نہیں ہے اور صہیونی صدر ان کے بچوں کی شادیوں میں مدعو نہ ہونے پر ناراض ہو جاتا ہے، اور غزہ کی جنگ کے بعد ان ممالک کی طرف سے تعلقات میں مزید گرمجوشی کے عزائم سامنے آ رہے ہیں تو زبانی کلامی نعرے صرف مسلم امہ اور اپنے عوام کو دھوکہ دینے کے سوا کسی کام کے نہیں ہیں۔

اردن، ترکی، امارات، بحرین، مراکش، سوڈان، سعودی عرب، مصر اور دوسرے عرب اور اسلامی ممالک سے مخاطب ہو کر ایک فلسطینی مظلوم یہی کہہ سکتا ہے کہ: 

ہر ایک شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہے یہاں

مرا خیال ہے اپنوں کے درمیاں ہوں میں

عمیر نجمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: وحید صمدی

ترجمہ وتعلقہ: ابو فروہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110