اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

24 جنوری 2024

1:18:44 PM
1432095

طوفان الاقصیٰ؛

اسرائیل اس فتح کو تلاش کر رہا ہے، جسے فلسطینی مقاومت پہلے ہی دن حاصل کر چکی ہے۔۔۔ رای الیوم

بین علاقائی اخبار رای الیوم نے لکھا: اسرائیل وہ کامیابی حاصل کرنے کی تلاش میں غزہ پر اپنی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے جسے فلسطینی مجاہدین پہلے ہی دن حاصل کر چکے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رای الیوم کے کالم نگار علی جمعہ العبیدی نے نے غزہ پر صہیونی جارحیت اور طوفان الاقصیٰ کاروائی کے دوران صہیونیوں کی طاقت کے مراکز پر ناقابل تلافی ضربوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

جرنیل، فوجی راہنما اور سیاستدان جنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے تین مقاصد کا تعین کرتے ہیں: جنگ کا ہدف، جنگ کا انتظام، اور جنگ کے اختتام کی کیفیت۔ یہ تین عناصر جنگ میں کامیابی کی ضمانت دے سکتے ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک بھی ہاتھ سے نکل جائے تو شکست یقینی ہوگی۔

شاید غاصب صہیونی راہنما بھی ابھی تک ان تین عناصر کے درپے ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مقاومت پہلے سے ان تمام مسائل کو پیش نظر رکھ میدان میں اتری تھی۔

صہیونیوں کی تیزگام ریل گاڑی ڈرائیور اور پٹڑی کے بغیر اندھادھند انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ابتدائی مرحلے میں صہیونی ہیلی کاپٹروں نے ریعیم ٹاؤن میں کنسرٹ پر حملہ کرکے  364 اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مقاومت نے ساتھ اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کا آغاز کرکے کچھ اعلانیہ اور کچھ خفیہ اہداف کا تعین کیا تھا جیسے: غزہ کا محاصرہ توڑنا، فلسطینی اسیروں کو رہا کروانا، مسجد الاقصیٰ پر صہیونی حملے روکنا اور مسلمانوں کے لئے مسجد الاقصیٰ میں مقام اور وقت کے تعین کا صہیونی شیڈول ختم کرنا۔

 غیر اعلانیہ اہداف میں ایک مسجد الاقصیٰ میں کھدائیوں میں اضافے کے بعد، اس مسجد کے انہدام اور یہودیانے کا سد باب کرنا اور صہیونیوں کو فوجی اور سیکورٹی کے لحاظ سے زک پہنچانا تھا، جبکہ صہیونی اپنے آپ کو شکست ناپذیر سمجھتے تھے۔

فلسطینی مقاومت صہیونیوں کے طاقت کے ان مرکز پر ضرب لگانا چاہتی تھی جن میں غزہ ڈویژن، کنکریٹ کی دیوار، کانٹے دار تاریں، کیمرے، اور خفیہ نگرانی اور سننے کے آلات، اور دیگر حصار بندیاں شامل ہیں۔

مقاومت نے ان حالات میں مکمل اتحاد کے ساتھ ایک روزہ جنگ کی منصوبہ بندی کی، جبکہ وہ صہیونیوں کا چھٹی کا دن تھا اور مقاومت نے اسی ایک دن میں اسرائیلی کی زیادہ سے زیادہ نفری کو قید کرلیا، غزہ ڈویژن کو بالکل تباہ کر دیا، فوجی اڈوں کے کمپیوٹروں کی تمام تر خفیہ معلومات حاصل کرلیں اور جنگ کا خاتمہ کر دیا، اور یوں فلسطینی مقاومت فاتح و کامیاب ہو گئی۔

دوسری طرف سے غاصب فوج تمام سطحوں پر منتشر اور فرسودگی کا شکار تھی، وہ کامیابی حاصل کرنے کے راستے سے ناواقف اور جنگ کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوکر غزہ میں داخل ہوئی۔

اسرائیلی کبھی کہتے تھے کہ حماس کو تباہ کرکے اس جنگ ميں کامیاب ہونگے، کبھی کہتے تھے کہ اسرائیلی قیدی واپس لائے جائیں تو کامیاب ہونگے، اور کبھی کہتے تھے کہ غزہ پر قبضہ کرکے اس کو اپنے اطاعت گزاروں کے سپرد کرکے کامیابی حاصل کریں گے۔

یہ اہداف حاصل نہیں ہوئے اور حاصل نہیں ہونگے، اور ان بکھرے ہوئے اور بے ربط بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی کامیابی کے سلسلے میں کوئی واضح ادراک نہیں رکھتے بلکہ وہ تو اس فتح کی تلاش میں انسانیت کو کچل رہے ہیں جسے مقاومت پہلے دن ہی حاصل کر چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر یہ کہ صہیونی اس جنگ کو جتنی طوالت دیں گے اتنا ہی غاصب ریاست کو نجات دلانے کا امکان دور سے دورتر ہوتا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

110