اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

22 جنوری 2024

10:48:58 PM
1431584

طوفان الاقصی؛

اردگان اور خلیج فارس کے عرب شیوخ کی فلسطین سے غداری

کچھ اسلامی ممالک پر مسلط حکومتوں کا ایک بلاک صہیونی ریاست کی قتل عام کی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے جن میں خاص طور پر ترکیہ، امارات، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، غزہ کے شہداء کی اعلان کردہ تعداد 25000 سے تجاوز کر گئی، 7000 کے قریب غزاوی عوام ملبوں تلے مدفون ہیں، چنانچہ یہ تعداد 30 ہزار سے تجاوز کرے گی۔ شہداء کی نصف تعداد بچوں کی ہے۔

اکیسویں صدی کی سب سے بڑی نسل کُشی ہے. المیہ اتنا بھیانک ہے کہ اطالوی حکومت نے صہیونی جنگی مشین کی حمایت کا دھبہ ماتھے پر لگنے کے خوف سے اعلان کیا کہ اس نے 7 اکتوبر 2023ع‍ سے تل ابیب کو ہتھیاروں کی ترسیل روک رکھی ہے۔

لیکن ایک دوسرا واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ کچھ اسلامی ممالک پر مسلط حکومتوں کا ایک بلاک صہیونی ریاست کی قتل عام کی مشین کو ایندھن فراہم کر رہا ہے جن میں خاص طور پر ترکیہ، امارات، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں۔

صہیونی اخبار یدیعوت آحرونوت (Yedioth Ahronoth) نے فاش کیا سعودیہ اور اردن بحیرہ احمر میں یمنی مسلح افواج کی ناکہ بندی توڑنے میں اسرائیل کی مدد کررہے ہیں! وہ یوں کہ اسرائیل کی جہازرانی کمپنیاں براعظم افریقہ کا چکر کاٹنے اور طویل فاصلہ طے کرنے کے بجائے، اپنا مال خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی بندرگاہوں میں اتارتے ہیں اور یہ سامان ٹرکوں کے ذریعے سعودی عرب اور اردن کے راستے صہیونی ریاست تک پہنچایا جاتا ہے۔ (1)

یہ وہ مسئلہ ہے جس کی رپورٹ اس سے پہلے صہیونی نیوز ویب سائٹ والا (Walla) نے دی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امارات سے مقبوضہ فلسطین تک کے زمینی راستے کا تجربہ کامیابی سے مکمل ہؤا ہے۔ یہ راستہ امارات سے شروع ہو کر سعودی عرب سے گذرتا ہے۔ یہ زمینی پل دبئی غاصب ریاست کی ضرورت کا سامان دبئی سے حیفا کی بندرگاہ پہنچا دیتا ہے اور حیفا سے مال تجات لے کر دبئی پہنچا دیتا ہے۔ یہ راستہ بحیرہ احمر اور آبنائے ہرمز کو بائی پس کرنے لئے قائم کیا گیا ہے گوکہ اس پل کے اثرات و فوائد کا اندازہ لگانا فی الحال قبل از وقت ہے۔ (2) (3)

 دبئی ـ حیفا کا درمیانی راستہ، خلیج فارس کے عربوں کی غداری

لیکن اس قصے کا حیران کن عنصر اردگان کی ذات ہے۔ گوکہ، اگر کسی نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے دنوں سے اردگان کے موقف کو توجہ دی ہو تو شاید وہ یہ تصور کرے کہ ترکیہ اسرائیل مختلف ملکوں کے اگلے مورچوں میں بیٹھے ہیں اور فلسطینی کاز کے جان نثار حامی ہیں، کیونکہ دنیا کے کم ہی ممالک کے حکام نے صہیونی ریاست کے خلاف اردگان جتنی شعلہ بیانی دکھائی ہے۔ انھوں نے حتیٰ کہ نیتن یاہو کو ہٹلر سے تشبیہ دی!

اس کے باوجود، اردگان کے ان لفظی حملوں کے موقع پر ہی، ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارت اپنے بہترین تاریخی دور سے گذر رہی ہے۔ دسمبر 2023ع‍ میں ـ جب صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام عروج پر تھا ـ اسرائیل کے لئے ترکیہ کی برآمدات میں 34/8 فیصد اضافہ ہؤا اور نومبر میں 319.5 ملین ڈالر سے بڑھ کر دسمبر میں 430.6 ملین تک پہنچ گئی۔ اس قصے کا نکتہ کیا یہ ہے کہ اکتوبر 2013ع‍ [فلسطینیوں کے قتل عام] سے قبل ترکیہ اور اسرائیل کی تجارت مجموعی طور پر 408.3 ملین ڈالر یعنی موجودہ رقم سے کم تھی۔

علاوہ ازیں، آذربایجان پر مسلط علی اف، حکومت تل ابیب کی تیل کی ضروریات پوری کرنے والا پہلا ملک ہے، اور اس کا تیل ترکیہ کے راستے اسرائیل تک پہنچتا ہے۔ ترکیہ اگر غداری نہ کرتا اور اگر واقعی فلسطین کا حامی ہوتا تو تیل کی اس ترسیل میں رکاوٹ ڈال کر صہیونی طیاروں اور ٹینکوں کی یلغار میں خلل ڈال سکتا تھا۔ (4)

صہیونی ریاست نے قتل عام کے ساتھ ساتھ ان 105 دنوں کے دوران غزہ کے عوام پر پانی اور بجلی بند کر دی ہے اور ٹیلی مواصلات کو بھی بند کرکے رکھا ہے۔ غزہ میں 800000 سے زائد فلسطینیوں کو قحط کا سامنا ہے۔ رفح کی گذرگاہ واحد راستہ ہے جس سے غزہ کے عام شہریوں کی زندگی کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن مصر کی حکومت امداد کی ترسیل کے بجائے، خود غزہ کا محاصرہ تنگ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

کس وقت ایک شیعہ حکومت اور خطے کی شیعہ انقلابی تحریکوں کا مشترکہ محاذ ہے جو فلسطین اور غزہ کی پشت پناہی کر رہا ہے اور فلسطینیوں کے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ جبکہ بڑے بڑے دعوے کرنے والی حکومتیں اسرائیل کو اچھے دنوں کی نویدیں سنا رہی ہیں، کچھ ممالک نے تو تعلقات بنا لئے ہیں اور اپنے دارالحکومتوں میں صہیونی سفارتکاروں کے میزبان ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے سفراء کو بھی واپس نہیں بلوایا، اور کچھ کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی کے بعد تعلقات فلسطینیوں کی قاتل ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے؛ اور بد قسمتی سے یہ وہ ممالک ہیں جن کے حکام اسلام اور امت کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں اور سنی بھی کہلواتے ہیں۔ جبکہ ان ممالک کے مسلم عوام اپنے حکمرانوں کے اس رویے کی وجہ سے شرمساری کا احساس و اظہار کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

1. mehrnews.com/x342cr

2. jpost.com/business-and-innovation/all-news/article-778335

3. cars.walla.co.il/item/3629150

4. new.thecradle.co/articles/erdogans-double-game-praising-palestine-aiding-israel