اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
پیر

22 جنوری 2024

6:28:39 PM
1431553

طوفان الاقصی؛

ایک عظیم کارنامہ مقاومتی منطق کی وسعتوں جتنا

مغرب اور صہیونی ریاست کا واحد سہارا یہ تھا کہ وہ آج تک فلسطینی حقائق کی بگڑی ہوئی تصویر پیش کرکے رائے عامہ کو بھٹکا دیتے تھے لیکن یہ اوزار غزہ کی جاری جنگ کے دوران ان کے ہاتھ سے چھین لیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمیں عالمی سطح پر مقاومتی منطق اور مقاومتی مکالمے کی توسیع کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ ان شاء اللہ

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، محمد مہدی ایمانی پور نے اپنے کالم میں لکھا: مقاومت کی منطق ایک فطری اور مقدس دائرے کا نام ہے اور مسئلۂ فلسطین صرف اسی دائرے میں قابل تشریح و تنویر ہے۔

حجت الاسلام والمسلمین محمد مہدی ایمانی پور لکھتے ہیں:

رہبر انقلاب امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے پورے ملک کے ائمۂ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عوام کو اندرونی اور عالمی مسائل، دشمنوں کی سازشوں اور عزائم، معاشرتی ضروریات اور حقائق سے آگاہ کرنا، جمعہ کے خطبوں کا متنی تقاضا ہے۔

آپ نے خطے میں جاری حالات و واقعات کے حوالے سے زور دے کر فرمایا: آج اللہ کا ہاتھ غزہ کے بین الاقوامی مسئلے میں بالکل نمایاں ہے۔ غزہ کے مظلوم اور باوقار لوگوں نے دنیا کو اپنی جدوجہد سے متاثر کر دیا اور آج دنیا ان لوگوں اور مجاہدوں اور ان کی مقاومت [و مزاحمت] کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں ہیرو سمجھتی ہے۔

رہبر انقلاب کے ارشادات کی تشریح کے بارے میں کچھ نکات ایسے ہیں جن کی تشریح کی جاتی ہے:

پہلا مسئلہ غزہ کی بین الاقوامیت ہے، بنیادی طور پر ـ امامین انقلاب کی نظر میں ـ قدس شریف کی آزادی اور فلسطین کی مظلوم قوم کی حمایت، ایک جغرافیائی یا علاقائی مسائل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ سنہ 1948ع‍ (ناجائز صہیونی ریاست کے قیام کے زمانے) سے دشمنان اسلام کی ایک بنیادی سازش ـ جو آج تک جاری ہے ـ یہ ہے کہ محدود کر دینے والے عناصر سے فائدہ اٹھا کر مسئلۂ فلسطین کی عظمت کو کم کیا جائے۔ آج ہم سنہ 2024ع‍ کے ابتدائی مہینوں سے گذر رہے ہیں، صہیونی ریاست کے ساتھ غیر مساوی اور غیر منصفانہ تصادم میں، [عالمی سطح پر] غزہ اور فلسطینی قوم کی حمایت، ـ انسانیت کے موروثی دشمنوں کے خلاف ـ حریت پسندی، انسان دوستی، اور استقامت کا معیار اور پیمانہ بن گئی ہے۔ یہ عالمی معیار سازی مسئلۂ فلسطین کی حقیقت سے عالمی آگہی کا حاصل ہے؛ اور اس حیاتی اور بین الاقوامی مسئلے کے حوالے سے مغرب اور غاصب ریاست کے جعلی بیانیے کو، ماضی کی نسبت کہیں زیادہ عالمی رائے کی طرف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسرا مسئلہ رائے عامہ اور عالمی بیداری کو اجاگر کرنے میں فلسطینی قوم کی استقامت کے اثرات اور نتائج سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں مقاومتی (یا مزاحمتی) منطق کی مرکزیت اور اس منطق کی مرکزی علامت یعنی اسلامی _ انقلابی تشخص اور اس کے اجزاء و لوازمات، بشمول جبر و استکبار کے مقابلے میں استقامت اور عدم تزلزل اور اللہ کی راہ میں جدوجہد پر یقین ناقابل تردید ہے۔ آزادی قدس شریف کے مسئلے کی کسی وقت یا کسی علاقے سے ماوراء نوعیت، اسی بھرپور اور متحرک منطق سے جنم لیتی ہے۔ مقاومت کی منطق ایک فطری اور مقدس دائرے کا نام ہے اور مسئلۂ فلسطین صرف اسی دائرے میں قابل تشریح و تنویر ہے۔ مقاومت کی منطق کے سائے میں ہی [دشمن کے آگے] عدم استقامت، سازباز، تسلیم اور تسلط پذیری پر تنقید کی جاسکتی ہے اور اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

تیسرا مسئلہ،  جنگ کے مسئلے میں غزہ کے باشندوں اورمقاومتی نظام کے اجزاء کی بہادرانہ مقاومت اور مسئلہ فلسطین کی مستقبلیات پر اس کے اثرات سے تعلق رکھتا ہے آج مغربے تجزیاتی اور اخباری ذرائع بلا واسطہ طور پر بنیادی، تجریدی (Abstractional)، مُکالمَاتی، میدانی اور عملیاتی (Operational) اندازوں اور پیشگی مفروضوں اور جنگ کے حقائق اور ماورائے حقائق، کے درمیان تضادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور عالمی نظام پر مقاومتی منطق اور اس سے متعلقہ معاملات کی پختگی کے اثرات کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں۔ اس عمل کے یہاں تک پہنچنے کی راہ بند رکھنے کے لئے مغرب اور صہیونی ریاست کا واحد سہارا یہ تھا کہ وہ آج تک فلسطینی حقائق کی بگڑی ہوئی تصویر پیش کرکے رائے عامہ کو بھٹکا دیتے تھے لیکن یہ اوزار غزہ کی جاری جنگ کے دوران ان کے ہاتھ سے چھین لیا گیا ہے۔ چنانچہ ہمیں عالمی سطح پر مقاومتی منطق اور مقاومتی مکالمے کی توسیع کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ ان شاء اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: محمد مہدی ایمانی پور

ترجمہ: ابو فروہ