اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
اتوار

14 جنوری 2024

6:16:26 AM
1429204

طوفان الاقصیٰ؛

یحییٰ السنوار جشن فتح منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔۔۔ صہیونی صحافی

ایک صہیونی صحافی نے اپنے مضمون میں لکھا: حماس تحریک کے سربراہ غزہ میں جشن فتح منانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، ایک اسرائیلی صحافی نے اپنے مضمون میں غزہ میں تین مہینوں کی جنگ بندی اور صہیونی قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی کے منصوبے کے بارے میں لکھا: حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ "حماس" کے سربراہ یحییٰ السنوار غزہ میں ہیں اور وہ اسرائیلی بمباریوں کے نتیجے میں اس علاقے سے چلے جانے کی کوشش کے بجائے، جشن فتح منانے کے لئے منصوبے بنا رہے ہیں۔

فلسطینی خبر ایجنسی ـ سما نیوز ـ کے مطابق، صہیونی صحافی ناحوم برنیاع (Nahum Barnea) نے لکھا: اس بات سے قطع نظر کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا عنوان کیا ہے اور اس منصوبے کی تجویز کرنے والا کون ہے، قیدیوں کی آزادی کا سمجھوتہ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے غزہ کے محدود اثرات کو قبول کیا ہے۔

برنیاع کا کہنا ہے:

توقع کی جاتی ہے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کی طرف وسیع پیمانے پر انسانی بنیادوں پر امداد پہنچے گی، شمالی غزہ کے فلسطینی اپنے گھروں میں واپس آئیں گے، اسرائیلی فوجی دستے پسپا ہونگے اور غزہ کی تعمیر کے لئے بین الاقوامی بجٹ سے ایک ادارہ تشکیل دیا جائے گا۔

"بدترین نکتہ اس سلسلے میں، یہ ہے کہ مستقبل میں حماس بھی غزہ غزہ کے کنٹرول اور انتظآم و انصرام میں شریک ہوگی"۔

کسی بھی قسم کے سمجھوتے کا پہلا مرحلہ انسانی مسائل کے لئے مختص ہوگا جس کی رو سے، ہزاروں فلسطینی اسیروں کی رہائی کے بدلے، [صہیونی] مریضوں، زخمیوں اور معمر لوگوں کی رہائی کو ترجیح حاصل ہوگی۔

غزہ میں 100 روزہ ناکامی اور ویرانی کے بعد، اسرائیلی فوج کے کمانڈروں نے حالات کو بخوبی سمجھ لیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور اس کے وزراء اپنی پیدا کردہ غیر ذمہ دارانہ توقعات اور ان مشکل فیصلوں کے درمیانی دراڑوں کو کیونکر پُر کر سکیں گے جن کے سامنے وہ مزاحمت کرتے ہیں [اور ان فیصلوں سے دور بھاگتے ہیں]؟

"اسرائیل کے لئے یہ بات بہت خوش کن ہوگی کہ وہ یحییٰ السنوار اور محمد الضیف سمیت حماس کے راہنماؤں کو غزہ سے نکلنے اور قطر یا دوسرے ممالک میں چلے جانے کی اجازت دے دے، اور وہ بھی جنگ لبنان میں عرفات اور ان کے ساتھیوں کے انجام سے دوچار ہوجائیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ غزہ بیروت نہیں ہے اور السنوار بھی یاسر عرفات نہیں ہیں؛ اور پھر السنوار غزہ کی پٹی سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ وہ تو غزہ میں جش فتح منانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں"۔

سب سے اہم سوال، بدستور، یہی ہے کہ 136 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی امید، اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کا معقول جواز بن سکتی ہے یا نہیں؟ میں کہتا ہوں کہ جی ہاں! اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو کابینہ اور فوج کی کوتاہی کا شکار ہوئے ہیں، اور اس کابینہ اور فوج نے ہی انہیں 7 اکتوبر سے پہلے اور اس کے بعد کی عظیم شکست اور ناکامی میں، اپنے حال پر چھوڑ رکھا ہے، بلکہ وجہ یہ ہے کہ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ، موجودہ صورت کے ذمہ دار ہیں، اور ان افراد کی رہائی ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔

اسرائیل کے اعلی سیاسی اور عسکری حکام کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو غزہ میں قید اسرائیلیوں کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور انہیں صہیونی ریاست کے ایجنڈے سے حذف کرنا چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ قیدیوں کے معاملے میں الجھنا، غزہ میں اسرائیلی فوج کی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹ اور حماس کے موقف کی تقویت کا باعث ہے، ان کی رائے یہ ہے کہ ان کو مقدر کے سپرد کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔

اسرائیل کی موجودہ کابینہ جنگ کے انتظام سے عاجز ہوئی ہے، کیونکہ یہ کابینہ "بن گویر اور اسوٹرچ کے باہمی اختلافات، اور جو بائیڈن اور انتونی بلنکن کے گانٹز اور آئزنکوٹ کے درمیان اختلافات کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہو رہی ہے۔

حماس غزہ کو ترک نہیں کرے گی اور ممکن ہے کہ اگلی جنگوں میں ـ اور منعقد ہونے والے سمجھوتے کو توڑ کر ـ مستقبل میں اس کی بیخ کنی کی جائے۔ [= صہیونیوں کے سپنے]

برنیاع نے آخر میں لکھا ہے: بہترین صورت حال یہ ہے کہ "اسرائیلی قیدی رہا ہوں گے، اسرائیلی فوج صرف شمالی محاذ [مقبوضہ فلسطین اورلبنان کی سرحد] کو توجہ دے گی"، لیکن بدترین منظرنامہ یہ ہے کہ "سمجھوتہ منعقد نہیں ہوگا، اسرائیلی فوج کو کسی منصوبے اور پروگرام کے بغیر 20 لاکھ پناہ گزینوں کا سامنا ہوگا جن کے بسانے کے لئے اس کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے؛ اسے ایسی دنیا کا سامنا ہوگا جو آج اس کی دشمن بن چکی ہے، امریکہ کی حکمرانی کا سامنا ہوگا جو تھکی ماندہ اور بے بس ہوچکی ہے، ان قیدیوں کا سامنا ہوگا جنہیں نجات نہیں ملے گی، ان نوآبادکار یہودیوں کا سامنا ہوگا جو اپنی نوآباد بستیوں اور شہروں میں واپس نہیں جا سکیں گے؛ اور وہ [فوج] بحران زدہ معیشت، ختم ہونے والے بجٹ اور اندرونی کشیدگیوں سے دوچار سیاسی ماحول میں حیرت زدہ اور سرگردان ہوگی"۔     

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110