اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
ہفتہ

13 جنوری 2024

4:15:03 PM
1429105

طوفان الاقصی؛

نیتن یاہو کی سیاسی زندگی ہو رہی ہے ختم

نیتن یاہو کے حلف اٹھانے کے پہلے ہی دنوں سے لوگوں نے ان کی کابینہ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا، جو اب بھی جاری ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات، عدالتی اصلاحات کا منصوبہ اور انتہاء پسند کابینہ کی تشکیل نیتن یاہو کی برطرفی کے مطالبے کی چند وجوہات میں شامل ہیں۔ غزہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی قیدیوں کی رہائی میں ناکامی بھی نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہونے والے مظاہروں کی وجوہات میں شامل ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس بات کا خدشہ ہے کہ لیکوڈ پارٹی کے ارکان میں بڑھتا ہوا مایوسی کا عنصر ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور مشترکہ کارروائی کا باعث بن سکتا ہے۔ غزہ میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، لیکن بنجمن نیتن یاہو کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ جنگ سے پہلے بھی نیتن یاہو کی اقتدار کے ڈھانچے میں کوئی اچھی پوزیشن نہیں تھی۔

نیتن یاہو کے حلف اٹھانے کے پہلے ہی دنوں سے لوگوں نے ان کی کابینہ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا، جو اب بھی جاری ہے۔ بدعنوانی کے مقدمات، عدالتی اصلاحات کا منصوبہ اور انتہاء پسند کابینہ کی تشکیل نیتن یاہو کی برطرفی کے مطالبے کی چند وجوہات میں شامل ہیں۔ غزہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی قیدیوں کی رہائی میں ناکامی بھی نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہونے والے مظاہروں کی وجوہات میں شامل ہے۔

صیہونی حکومت کے سابق وزیراعظم “ایہود اولمرٹ” نے نیتن یاہو کو ہٹانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو نے فریب، دھوکہ دہی اور سیاسی شو کا طریقہ اپنایا ہے اور ان کے یہ طریقے اس کے جھوٹ کی واضح مثال ہیں۔ اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیئے کہ اس نے غزہ میں جن مقاصد کا اعلان کیا ہے، ان کا حصول ممکن نہیں۔ نیتن یاہو کی برطرفی کا مطالبہ حالیہ ہفتوں میں بڑھ گیا ہے۔ کابینہ میں نیتن یاہو کے کچھ اتحادی بھی انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ کابینہ کے اندر پیدا ہونے والی تلخی اور مختلف طرح کا تناؤ بنجمن نیتن یاہو کو ہٹانے کے مطالبات کی ایک وجہ ہے۔

صہیونی اخبار “یدیعوت احرونوت” نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد صیہونی حکومت کے حکمران اتحاد کے ارکان کے درمیان اختلاف کی خلیج میں اضافے کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: 7 اکتوبر کی عظیم شکست کے بعد، وزیراعظم نے کہا: اب اسے اپنے اہم سیاسی اتحادیوں کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ تیسرا فریق جو نیتن یاہو کی برطرفی چاہتا ہے، وہ لیکوڈ پارٹی کے ارکان پر مشتمل ہے۔ نیتن یاہو کے راسخ العقیدہ اتحادیوں کے علاوہ ان سے دوری اختیار کرنے والے لیکوڈ پارٹی کے بہت سے ارکان، جو صیہونی حکومت کے طاقت کے ڈھانچے میں اس پارٹی کی پوزیشن کے کمزور ہونے سے پریشان ہیں، انہوں نے بھی انہیں پارٹی کی قیادت سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ وہ آئندہ انتخابات میں دوسری جماعتوں سے بہتر پوزیشن حاصل کرسکیں۔

نیر برکات، موجودہ وزیر اقتصادیات، ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے نیتن یاہو کی برطرفی کے بعد لیکوڈ پارٹی کی قیادت کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا تھا۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں نے نیتن یاہو کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں موجودہ صورتحال کو نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کا بہترین موقع سمجھتی ہیں۔ نیتن یاہو کو لیکوڈ پارٹی کی قیادت سے ہٹا دیا گیا تو ان کی سیاسی زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔ ماضی میں اپوزیشن نے نیتن یاہو کو ہٹانے کی کوشش کی، لیکن چونکہ وہ لیکوڈ پارٹی کے سربراہ تھے، اس لیے ان کے پاس اقتدار میں واپس آنے کا موقع تھا۔

اس حوالے سے لیکوڈ پارٹی کے نام ایک پیغام میں اپوزیشن نے اس پارٹی کے کسی اور رکن کو وزیراعظم کے ساتھ نئی کابینہ بنانے کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے حزب اختلاف کے دھڑے کے رہنماء یائر لاپیڈ نے پیر کو X سوشل نیٹ ورک پر اپنے صفحہ پر اعلان کیا ہے کہ”ان کی پارٹی – یش اتید – لیکوڈ پارٹی کے یولی یول ایڈلسٹین کی قیادت میں حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہاں تک کہ وہ بینی گانٹز یا گاڈی آئزن کوٹ کے ساتھ مل کر نیشنل یونٹی پارٹی (اپوزیشن) کے حق میں ووٹ دینے کے لئیے بھی تیار ہیں۔”