اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، صہیونی
ریاست نے بیروت میں ایک عمارت پر حملہ کرکے صالح العاروری کو دہشت گردانہ حملے کا
نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ غاصب صہیونی ریاست نے سنہ 2006ع کے بعد کبھی بھی بیروت
پر حملہ نہیں کیا تھا، چنانچہ یہ 2006ع کے بعد بیروت پر صہیونیوں کا پہلا حملہ
تھا۔
شہید صالح العاروری پر غاصب صہیونی ریاست کے دہشت گردانہ حملے کے پانچ نکات، جو اس حملے کے اہداف و مقاصد اور عوامل و اسباب کے حوالے سے بہت اہم ہیں:
1۔ غاصب صہیونی ریاست کو میدان جنگ اور فوجی تقابل میں شکست ہوئی تو اس نے مقبوضہ فلسطین کے اندر اور باہر حماس کے کمانڈروں کے قتل کو اپنی ترجیح قرار دیا، اور العاروری پر دہشت گردانہ حملے کی بنیادی یہی صہیونی حکمت عملی ہے۔
2۔ غزہ پر غاصب صہیونی ریاست کے حملے کے مقاصد میں سے ایک مقصد حماس کے راہنماؤں کے قتل تھا لیکن وہ غزہ میں انٹیلی جنس کے لحاظ سے بہت کمزور ثابت ہوئی ہے، چنانچہ اس نے فلسطین سے باہر کی دنیا میں حماس کے ان کمانڈروں کے قتل پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے، جو فلسطین کے اندر کی مقاومت [یعنی مزاحمت] کی حمایت اور پشت پناہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
3۔ العاروری ایسے کمانڈر تھے جنہیں غاصب ریاست نے کئی بار قتل کرنے کی ناکام کوششیں کی تھیں اور انہیں مغربی کنارے میں فلسطینی مقاومت کا منصوبہ ساز (Mastermind) سمجھتی تھی کیونکہ مغربی کنارے میں ان کے تعلقات بہت وسیع تھے اور مغربی کنارہ ہی ان کا آبائی علاقہ تھا۔ یہاں تک کہ صہیونیوں نے کئی بار انہیں حماس کا خطرناک رکن قرار دیا اور طوفان الاقصی کے بعد مغربی کنارے میں ان کی رہائشگاہ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
4۔ العاروری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کے دوسرے کمانڈروں کے ساتھ مل کر غاصب صہیونی ریاست کے مقابلے میں مقاومت کی طاقت کو متوازن بنا دیتے تھے، اور انہیں مغربی کنارے، غزہ اور لبنان میں مقاومت کے میدانوں کے اتحاد (Unity of the Fields) کی تزویراتی حکمت عملی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
5۔ صالح العاروری حماس کے نمایاں راہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے ہوئے تھے۔ وہ مغربی کنارے میں حماس کے فوجی کمانڈر تھے اور اس خطے میں مقاومت کے مجاہدین کو مسلح کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے تھے۔ العاروری کو حماس کا شیڈو کمانڈر کہا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110