اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

2 جنوری 2024

11:18:43 PM
1426118

تاریخ میں شہید جنرل سلیمانی پر عالمی دہشت گرد امریکہ کے دہشت گردانہ حملے کی چوتھی برسی غزہ میں جرائم پیشہ صہیونی ریاست کے جرائم کے عین موقع پر منائی جا رہی ہے، جبکہ غزہ میں مقاومت اسلامی نے استقامت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے، اور ایک بار ثابت ہؤا ہے کہ مکتب سلیمانی قائم و دائم ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، شہید الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کی جوتھی برسی کے مراسمات کے ادارے کے ترجمان سید مجتبی ابطحی نے کہا: آج ہم خطے کے چھپے چھپے میں محور مقاومت کے ہر کاروائی میں، شہید سلیمانی کا عکس ابھر کر دکھائی دے رہا ہے، اور بزدل دشمن کو ہر روز صہیونی مورچوں اور امریکی ٹھکانوں میں الحاج قاسم کی صدا سننا پڑ رہی ہے۔

انھوں نے کہا: شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی چوتھی برسی کا شعار "شہید القدس" ہے۔

حالیہ چند مہینوں ـ یعنی شہید جنرل سلیمانی کی شہادت کی چوتھی برسی کے ان ایام ـ میں فلسطینی مقاومت کے آپریشن "طوفان الاقصی" کے موقع پر، یمن، لبنان اور عراق کی مقاومت نے غزہ کے ساتھ عملی یکجہتی کا اظہار کیا اور ثابت ہؤا کہ گوکہ امریکہ نے ایک بزدلانہ اور دہشت گردانہ اقدام میں شہید جنرل سلیمانی کو جسمانی طور پر ہم سے دور کیا مگر وہ سلیمانی کے مکتب کے خاتمے سے بالکل عاجز ہے۔

امریکی دہشت گردانہ کاروائی سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سورما کے جنازے میں کروڑوں انسانوں کی شرکت تک کے واقعات کی روداد

جمعہ 3 جنوری سنہ 2020ع‍ کو جنرل الحاج قاسم سلیمانی، عراق کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر عادل عبدالمہدی کی دعوت پر دہشت گرد ٹولوں کے خلاف جدوجہد کے سلسلے تعاون اور عراقی افواج اور الحشد الشعبی کو مدد پہنچانے کی غرض سے، عراق کے معمول کے دورے پر شام سے بغداد پہنچے تھے، اور پروگرام کے مطابق جمعہ کی صبح آٹھ بجے عراقی وزیر اعظم سے ملنا چاہتے تھے۔

عبدالمہدی نے دو سال بعد اپنے ایک انٹرویو میں اس رات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: "آدھی رات کو صبح کی میٹنگ کے لئے اہم نکات کاغذ پر لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں میرے دفتر کا ڈائریکٹر پریشانی کے ساتھ آیا اور کہا کہ عراقی انٹیلی جنس کے سربراہ نے کہا ہے کہ بغداد کے ہوائی اڈے پر ایک زوردار دھماکہ ہؤا ہے لیکن تفصیلات ہنوز معلوم نہیں ہوئیں، میں فکرمند ہؤا۔۔۔ عجیب گھبراہٹ محسوس کر رہا تھا، بالخصوص اس وقت جب مجھے معلوم ہؤا کہ ایک مسافر طیارہ کچھ دیر پہلے دمشق سے بغداد پہنچا ہے۔۔۔ میں اپنے دفتر پہنچا اور بغداد ایئرپورٹ کے واقعے سے لمحہ بہ لمحہ تفصیلات حاصل کرتا رہا۔ تصویریں یکے بعد دیگرے شائع ہو رہی تھیں اور پھر اچانک میں شہید قاسم سلیمان کے بریدہ ہاتھ کی تصویر نظر آئی انگلی میں انگشتری کے ساتھ، میں اس ہاتھ کو اچھی طرح پہچانتا تھا"۔

شہید ابو مہدی المہندس کے باڈی گارڈ نے الحاج قاسم سلیمانی کے ہاتھ کی شناخت کے لمحے کے بارے میں کہا: "بغداد ہوائی اڈے کے دھماکے اور دو کاروں کو راکٹ لگنے کی خبروں اور تصویروں کی اشاعت کے بعد عراق کی الحشد الشعبی اور پھر سپاہ پاسداران کی قدس فورس نے تصدیق کی کہ صبح 1:20 بے، قدس فورس کے کمانڈر الحاج قاسم سلیمانی اور الحشد الشعبی کے نامی گرامی کمانڈر ابو مہدی المہندس اپنے ساتھیوں کے ہمراہ، بغداد کے ہوائی اڈے سے نکلتے وقت، امریکی ڈرون طیاروں کے حملے میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں"۔

ادھر امریکی وزارت دفاع نے بھی اپنے بیان میں الحاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس پر دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاروائی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر انجام پائی ہے۔

ٹرمپ ـ جس نے <بقول اس کے> وائٹ ہاؤس سے اس کاروائی کی نگرانی کی تھی ـ اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا تھا کہ "جنرل سلیمانی کو برسوں قبل قتل ہونا چاہئے تھا؛ جنرل سلیمانی نے ہزاروں امریکیوں کو [عراق] میں ہلاک یا شدید زخمی کیا تھا اور مزید امریکیوں کے قتل کے لئے منصوبہ بندی کر رہے تھے، لیکن انہیں روک لیا گیا"۔ دوسرے روز تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعوی کیا: "ہمارا کل کا فیصلہ جنگ شروع کرنے کے لئے نہیں بلکہ ایک جنگ کا سد باب کرنے کے لئے تھا"۔

لیکن اس تاریخی جرم سے پہلے جنرل سلیمانی کی غیر معمولی صلاحیتوں اور ان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے مؤثر اقدامات کے بارے میں امریکی اہلکاروں کے موقف اور ان کی شہادت پر عالمی رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جنرل قاسم سلیمانی کے سامنے بالکل بے بس ہو گیا تھا۔

سابق امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ـ جو اس وقت سینٹکام کا کمانڈر بھی تھا ـ  نے جنرل سلیمانی کے بارے میں کہا تھا: "جنرل سلیمانی عراق میں میری موجودگی کے چار سالہ دور میں ہمارے اہم ترین دشمن تھے۔ جس وقت میں سینٹ کام کا کمانڈر تھا اور پھر جس وقت میں سی آئی کا ڈائریکٹر تھا، وہ علاقے میں نمایاں ترین اور اہم ترین ایرانی شخصی تھے اور شیعہ ہلال پر کنٹرول کے سلسلے میں ایرانی کوششوں کے اہم ترین معمار اور بے شمار تخلیقی کاروائیوں کے کمانڈر تھے۔

پیٹریاس نے سنہ 2013ع‍ میں شہید سلیمانی کو "لائق دشمن" قرار دیا تھا اور کہا تھا: میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ بہت باصلاحیت اور منتظم شخصیت اور ایک لائق دشمن ہیں۔ انھوں نے یہ کھیل مستحسن طریقے سے کھیلا ہے، یہ ایک طویل المدت کھیل ہے، تو دیکھتے ہیں کہ واقعات کس طرح رونما ہوتے ہیں۔

نیویارکر کے قلمکار ڈيکسٹر فلکنز (Dexter Filkins) نے سنہ 2013ع‍ میں شہید جنرل کو "شیڈو جنرل" کا عنوان دیا اور کہا کہ جنرل سلیمانی مشرق وسطی کا نیا خاکہ تیار کر رہے ہیں، یہ وہ لقب تھا جسے بعد میں متعدد مغربی ذرائع نے دہرایا۔

سی ائی کے سابق افسر جان میگوئیر (John Maguire) نے "مشرق وسطی کا واحد طاقتورترین مؤثر کردار" قرار دیا تھا اور کہا تھا: Suleimani is the single most powerful operative in the Middle East today اور ایک دستاویزی فلم میں اس عظیم الشان شہید کے ساتھ ناخواستہ ملاقات کے بارے میں کہا تھا: "ایک کمانڈر کی خصوصیات نمایاں طور پر ان میں دکھائی دیتی تھیں"۔

ایک امریکی قومی انسٹی ٹیوٹ کے مبصر مارک گرچ (Mark Gritch) نے الحاج قاسم سلیمانی کو سیکورٹی اور دفاع کے حوالے سے دنیا کے 10 پہلے نمبر کے کرداروں کے زمرے میں شمار کیا اور کہا: ان کی سرگرمیوں کے آثار شام اور یمن میں بخوبی نمایاں ہیں۔

افعان امور میں سابق [افغان نژاد] امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد نے یہ کہہ کر امریکی حکام کے دعوؤں کو پانی پھیر دیا کہ "گوکہ امریکی اہلکاروں نے قاسم سلیمانی پر جنگ پسندی کا الزام لگایا لیکن انھوں نے خطے میں امن قائم کرنے میں فعال کردار ادا کیا"۔

امریکی جریدے نیوزویک نے نومبر سنہ 2014ع‍ کے شمارے کے سرورق پر "ناقابلِ شِکست حریف" (Nemesis) کے عنوان کے تحت سرخی لگا دی: "پہلے وہ امریکہ کے خلاف لڑے اور اب وہ داعش کو نیست و نابود کر رہے ہیں"۔ (First He Fought Ameirca, Now He's Crushing ISIS)۔

شہید الحاج قاسم سلیمانی پر دہشت گردانہ حملہ، ایک مجرمانہ اقدام اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی

اس وقت کی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی مقرر کردہ ماورائے عدالت یا خودسرانہ سزائے موت کے شعبے میں اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی موجودہ سیکریٹری جنرل اکنیس کالامارڈ (Agnès Callamard) نے اپنے ابتدائی رد عمل میں کہا: "قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس پر قاتلانہ حملہ، تقریبا یقینی طور پر غیر قانونی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے"۔

کالامارڈ نے چند بعد اقوام متحدہ کے لئے اپنی 44 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اعلان کیا: "جنرل سلیمانی پر قاتلانہ حملہ اور ان کے ساتھیوں کا قتل، خودسرانہ سزائے موت کے زمرے میں آتا ہے، اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین تحت امریکہ جوابدہ ہے"۔

انھوں نے امریکی حیلوں بہانوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ہمیں کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں مل سکا ہے کہ جنرل سلیمانی فوری طور پر ـ بالخصوص عراق میں ـ امریکی مفادات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، جس کے لئے حفظ ما تقدم کے طور پر ایسا کوئی فوری اقدام ناگزیر ہو۔

امریکہ کے سابق سیکورٹی اہلکار اسکاٹ رٹر نے بھی ٹرمپ کے دعؤوں کے برعکس، اعتراف کیا کہ "ہم نے انہیں قتل کیا کیونکہ وہ امن بحال کر رہے تھے، ان کی طرف سے فوری خطرے کا دعوی بالکل بے بنیاد اور بنا بنایا ہے۔ امریکی اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ہم جس زاویے سے بھی اس مسئلے کو دیکھیں، جن لوگوں نے اس قاتلانہ حملے کی ہدایات دی ہیں، اور جن لوگوں نے ان ہدایات پر عمل درآمد کیا، وہ سب جنگی مجرم ہیں اور انہیں جوابدہ ہونا پڑے گ"۔

کتاب "پروپیگنڈا، جھوٹ اور جھوٹے جھنڈے: امریکہ اپنی جنگوں کے لئے کس طرح جواز فراہم کرتا ہے" کے مصنف رابرٹ فانٹینا (Robert Fantina) نے امریکہ کے ہاتھ جنرل سلیمانی کے قتل کے بارے میں کہا: "یہ دہشت گردانہ حملہ، بین الاقوامی قوانین کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے، یہ قتل خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف دشمنیوں میں شدت آنے کا سبب بنا۔ امریکہ دنیا میں اپنی بالادستی اور مشرق وسطی میں اسرائیل کی بالادستی کے لئے کوشاں ہے، لیکن اس حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے کہ ہر دلعزیز فوجی حکام کا قتل، ان کے قاتلوں کو لوگوں کے نزدیک ہر دلعزیز نہیں بنایا کرتا"۔

جنرل شہید سلیمانی کا جنازہ کربلا سے کرمان تک

جنوری 2020ع‍ میں سوگوار مسلمانوں کا سیلاب نہ صرف ایران کے مختلف شہروں میں، بلکہ عراق میں بھی، انسانی تاریخ کا عظیم ترین اجتماع تھا جو شہید جنرل سلیمانی کے جسم اطہر سے وداع کے لئے اکٹھا ہو گیا تھا۔

عراقی وزیر اعظم ڈاکٹر عادل عبدالمہدی نے الحاج قاسم کے جلوس ہائے جنازہ کے بارے میں کہا: "میں دو ٹوک الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے عراقی تاریخ میں اتنا اعظیم جلوس جنازہ کبھی بھی نہیں دیکھا۔ شاید صرف ایران میں امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی آخری رسومات میں اتنا عظیم اجتماع منعقد ہؤا تھا۔ بغداد سے نجف تک یہ عظیم اجتماع ثابت کر رہا تھا کہ عوام "قادۃ النصر" (فتح کے کمانڈروں) سے کتنی گہری عقیدت رکھتے ہیں، اور وہ عوام کے درمیان ناقابل فراموشی اور انتہائی مقبول اور ہر دلعزیز ہیں۔ یہ جلوس عراقی عوام کی طرف سے ان لوگوں سے وفاداری کا ثبوت ہے جو انتہائی دشوار صورت حال میں آ کر ان کے دوش بدوش کھڑے ہوئے اور انہیں داعش پر فتح حاصل کرنے میں مدد دی۔ تاریخ اس واقعے کے ثبت کرے گی"۔

شہید الحاج قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کے جلوسہائے جنازہ 4 جنوری سے 8 جنوری 2020ع‍ تک کاظمین، بغداد، نجف، کربلا، اہواز، مشہد، تہران اور قم میں نکلے جن میں کروڑوں سوگواروں نے شرکت کی اور شہید سلیمانی کا جسم اطہر آٹھ جنوری کو رات گئے آپ کے آبائی شہر کرمان منتقل کیا گیا اور دوسرے روز صبح کے وقت، ـ عراق کے عین الاسد فوجی چھاؤنی میں امریکی فوجی اڈے پر تاریخ کے پہلے میزائل حملے کے بعد ـ کرمان کے "گلزار شہداء" میں ان کی تدفین ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110