اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

14 دسمبر 2023

12:51:03 AM
1420043

طوفان الاقصیٰ؛

غزہ کی جنگ اسرائیلی نہیں، امریکی جنگ ہے / مقصد تیل اور گیس کے ذخائر پر قبضہ ہے۔۔۔ لبنانی تجزیہ کار

لبنانی سیاسی تجزیہ کار نضال عیسیٰ نے جو بائیڈن انتظآمیہ کی جانب سے غزہ کے خلاف بہیمانہ صہیونی جرائم کی اندھادھند حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس جنگ کو امریکی جنگ قرار دیا اور کہا کہ جنگ جاری رکھنے سے امریکہ کا مقصد مشرق وسطیٰ کے ساحلوں پر تیل اور گیس کے ذخائر کو ہتھیانا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق لبنانی سیاسی تجزیہ کار نضال عیسٰی نے کہا: امریکہ بلا شبہ مشرق وسطی میں اپنے حلیف "اسرائیل" کا اتحادی ہے، لیکن غزہ میں نسل کُشی اور یہاں کے عوام کے خلاف مجرمانہ جنگ سے ثابت ہؤا کہ یہ ایک امریکی جنگ ہے۔

انھوں نے کہا:

سلامتی کونسل میں امریکی مندوب کے نائب رابرٹ ووڈ نے آشکار کہہ دیا کہ جنگ بندی کی قرارداد کو حماس کے مفاد میں ہے، اور صہیونی جارحیت کی طرف اشارہ کئے بغیر کہا کہ یہ جنگ بندی اگلی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

امریکی نمائندے کا موقف در حقیقت امریکہ کا اصل موقف ہے، اور یہ ایک دستاویز ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ دنیا میں دہشت گردی کا اصل حامی ہے، اس نے درجنوں بار اسرائیل کے خلاف آنے والی قراردادوں کے خلاف ویٹو کا اختیار استعمال کیا ہے اور اسی بنا پر جنگ کا جاری رہنا دہشت گردی کی ترغیب ہے۔

طوفان الاقصیٰ نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا، عرب ممالک کے موقف کی کمزوری کو آشکار کردیا اور ثابت کیا کہ وہ حقائق سے بالکل ناواقف یا غافل ہیں اور آج، امریکہ طوفان الاقصیٰ کے ٹوٹے ہوئے اسرائیل کو سنبھالا دینے کی بھرپور کوشش کررہا ہے۔

امریکہ کا دباؤ صرف حماس کے خاتمے کے لئے نہیں ہے بلکہ وہ مشرق وسطیٰ کے ساحلوں پر موجود تیل اور گیس کے ذخائر کو ہتھیانا چاہتا ہے، یہ وہ سلسلہ ہے جو شام سے شروع ہؤا، بیروت بندرگاہ میں دھماکہ بھی، اسی سلسلے کی ایک کڑی، تھا،  اور اب وہ غزہ کی جنگ تک پہنچ گیا ہے۔

غزہ پر صہیونی جارحیت کے ایک مہینے بعد منعقدہ اسلامی اور عرب ممالک کے سربراہی اجلاس میں عرب ممالک تمام تر مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے اور اس اجلاس میں ایرانی صدر کا یہ مطالبہ ـ کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کے تحفظ کے لئے مسلح کیا جائے ـ ایک شریفانہ اور مستحکم موقف اور مطالبہ تھا۔

اسلامی سربراہی کانفرنس اور سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، اور ان دو کا مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ عرب ممالک نے مجرمانہ بے اعتنائی دکھائی اور امریکہ نے شرمناک موقف اپنایا۔ ہمیں امریکہ سے کوئی امید نہیں ہے، اور اس سے ویٹو کرنے کی توقع کی جا سکتی تھی، کیونکہ غزہ کی جنگ تمام مقاومتی تحریکوں کے لئے ایک اہم پیغام رکھتی ہے اور وہ یہ کہ ان سب کو امریکی سازشوں سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے گذشتہ سینیچر (9 دسمبر 2023ع‍) کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا، جبکہ 13 اراکین نے اسے ووٹ دیا تھا اور برطانیہ نے ووٹ دینے سے امتناع کیا تھا۔

اس امریکی اقدام نے پوری دنیا کو ناراض کر دیا صرف صہیونی نمائندے نے اپنے X اکاؤنٹ پر جو بائیڈن کی فیصلہ کن حمایت کا شکریہ ادا کیا۔ اور نیتن یاہو نے بائیڈن کی طرف سے جنگ جاری رکھنے کی حمایت کو خراج  تحسین پیش کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110