اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
بدھ

13 دسمبر 2023

5:57:21 PM
1419979

طوفان الاقصٰی؛

غزہ پر جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک امریکیوں کے پیغامات وصول کرتے رہے ہیں / مغربی ممالک نے 28 مرتبہ حزب اللہ کو پیغامات دیئے ہیں / فلسطینی عوام ہی غزہ اور فلسطین کے مستقبل کا تعین کریں گے۔۔۔ امیرعبداللٰہیان

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: حالیہ چھ ہفتوں کے دوران امریکہ سے ـ بالخصوص تہران میں سوئس سفارتخانے کے ذریعے ـ متعدد پیغامات موصول ہوئے ہیں / وہ 2006 ميں حزب اللہ کا خاتمہ چاہتے تھے لیکن آج حزب اللہ کو جنگ کے پھیلاؤ کا سد باب کرنے کے لئے پیغامات ارسال کر رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈآکٹر حسین امیرعبداللٰہیان نے قطر کے الجزیرہ چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: صہیونیوں کے جنگ جرائم اور غزہ کے عوام کی نسل کُشی کا سلسلہ وقتی طور پر رک گیا ہے، امید ہے کہ عارضی جنگ بندی دائمی جنگ بندی اور صہیونی جرائم کے مکمل توقف پر منتج ہو جائیں۔ البتہ میں یہاں واضح الفاظ میں کہنا چاہوں گا کہ صہیونی ریاست امریکی امداد کے بغیر اتنے وسیع پیمانے پر ان جنگی جرائم کا دوبارہ ارتکاب نہیں کر سکتی تھی، جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دہرائے جا چکے ہیں۔ جو کچھ گذشتہ چھ ہفتوں میں وقوع پذیر ہؤا اس کی ذمہ داری بلاواسطہ طور پر امریکی اور صہیونی جنگی مجرموں پر عائد ہوتی ہے۔

انٹرویو کی تفصیل حسب ذیل ہے:

الجزیرہ: کیا جنگ بندی میں آپ کا کردار تھا؟

امیرعبداللٰہیان: ممالک کے سربراہوں کی سطح پر صدر ابراہیم رئیسی نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لئے وسیع سطح پر رابطے کئے، اسلامی سربراہی کانفرنس اور برکس ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس نیز بعض ممالک کے دورے، اور تقاریر اور فلسطین اور غزہ کے حوالے سے اہم ترین تجاویز ان کوششوں کا حصہ تھیں۔ میں نے بطور وزیر خارجہ اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر سفارتی اقدامات کی صورت میں صہیونی جرائم روکنے اور صورت حال کو فلسطینی عوام کے حق میں بدلنے کی کوششیں کیں۔ دوسرے ہفتے سے ہی قطر کے وزیر اعظم، ترکی کے وزیر خارجہ، اور خطے کے وزرائے خارجہ نیز یورپی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطوں میں رہے۔ البتہ میں دوست اور برادر ملک قطر کے امیر اور وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن سے ہم مسلسل رابطے میں ہیں اور فریقین حماس کے راہنماؤں کے ساتھ بھی رابطوں میں ہیں اور ہم نے صہیونیوں کے جنگی جرائم روکنے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کے حوالے سے ان کی مدد کی۔

البتہ اہم بات یہ ہے کہ یہ جارحیت اور جرائم رک جائيں، اور عارضی جنگ بندی دائمی جنگ بندی پر منتج ہے جائے، بصورت دیگر خطے کے نئی صورت حال کا سامنا ہوگا اور صہیونی ریاست اور امریکہ کو صہیونیوں کے جنگی جرائم کا سلسلہ نہ رکنے کے سلسلے میں ان کے خطرناک نتائج کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔

الجزیرہ: ممکن ہے کہ جنگ بندی 10 دن تک جاری رہے، لیکن صہیونیوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی جارحیت دوبارہ شروع کریں گے، تو کیا جیسا کہ آپ نے پہلے بھی کہا تھا، اس صورت میں جنگ پھیلنے کا خطرہ پھر بھی ہوگا؟

امیرعبداللٰہیان: اسرائیل صرف اس صورت میں جنگ پھیلنے کا خیر مقدم کرے گا کہ امریکہ گذشتہ چھ ہفتوں کی مانند اپنی پوری قوت اور تشہیری مشینری کو فلسطینیوں کی نسل کشی پر مرکوز کرنے کے لئے صہیونیوں کے پلڑے میں رکھے۔ البتہ ہمیں کچھ ثالثوں سے معلوم ہؤا کہ امریکہ کے اندرونی حلقے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صہیونیوں کی بلا چون و چرا حمایت حتی کہ امریکی سیاستدانوں اور مجموعی طور پر وائٹ ہاؤس کے مفاد میں بھی نہیں ہے؛ اور امریکہ اس وقت صہیونیوں کے جنگی جرائم روکنے، پائیدار جنگ بندی، انسانی بنیادوں پر امداد کی ترسیل، جبری نقل مکانی کا [امریکی-صہیونی] منصوبے کو روکنے اور فلسطینیوں کے حقوق کے احترام کے لئے تیار ہے۔ یہ خبریں ہمیں ملی ہیں اور امید ہے کہ درست ہوں۔ فطری امر ہے کہ اگر امریکہ اپنے اس عزم کو ثابت کرنا چاہے تو اسے امریکہ کو جنگ بندی جاری رکھنے اور عارضی جنگ بندی کو دائمی جنگ بندی میں تبدیل کرنے اور دائمی جنگ بندی کی پابندی پر مجبور کرنا پڑے گا۔

 الجزیرہ: کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ نہ پھیلنے کے لئے امریکہ کے ساتھ چینلز موجود ہیں؟

امیرعبداللٰہیان: ہم نے گذشتہ چھ ہفتوں سے سفارتی ذرائع اور بالخصوص تہران میں امریکی مفادات کی حفاظت کرنے والے سوئس سفارتخانے سے متعدد پیغامات وصول کئے ہیں، انہوں نے ان پیغامات میں مسلسل زور دے کہ کہا ہے کہ وہ جنگ کے پھیلاؤ کے خواہاں نہیں ہیں، البتہ ہم نے بھی کہا ہے کہ اگر حنگ کے پھیلاؤ کے خواہاں نہیں ہو تو اسرائیل کے ساتھ کیوں کھڑے ہو اور ان نہیں وسیع پیمانے پر اسلحہ کیوں فراہم کر رہے ہو، اور خطے میں امریکی اڈوں کے تمام وسائل کو تل ابیب کے لئے کیوں بھجوا رہے ہو، اور یہ کہ تم ہی نے جنگ کو جہاں تک ہو سکا ہے پھیلا دیا ہے؛ اور خطے میں مقاومت کے اقدامات، جنگ بندی پھیلانے کے سلسلے میں تمہارے ان ہی اقدامات اور غزہ میں خواتین اور بچوں کے قتل عام کے رد عمل کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور ہاں، جنگ کے آغاز سے اب تک امریکہ اور مغربی ممالک نے 28 مرتبہ حزب اللہ کو بھی پیغامات بھیجے ہیں۔

الجزیرہ: اگر جنگ جاری رہے اور صہیونی ریاست اپنی کاروائیوں کو شدید تر کردے اور خطے کے مقاومتی محاذ ایران سے براہ راست مداخلے کی درخواست کریں تو جواب کیا ہوگا؟

امیرعبداللٰہیان: ہمیں یقین ہے کہ کسی ملک پر قبضہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے ایک منحوس اقدام ہے جس کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک امریکی اخبار کے نامہ نگار نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیوں نہیں کرتے، حالانکہ دنیا کے زیادہ تر ممالک نے اسے تسلیم کیا ہے؟ تو میں نے کہا فلسطین کی سرزمین فلسطینی عوام کی سرزمین ہے، اور دنیا کے زیادہ تر ممالک سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، چنانچہ فلسطینی عوام ہی اپنے مقدر کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق، مقبوضہ سرزمین کے اپنے خاص قوانین و ضوابط ہیں اور جو لوگ قابض قوت کے زیر قبضہ ہیں، انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی آزآدی کے لئے اسلحہ استعمال کریں۔ ہم بین الاقوامی قوانین اور انسانی اور دینی اقدار کی رو سے اس بات کے قائل ہیں کہ قبضے اور غصب کے مقابلے میں فلسطینی عوام کی مدد کریں، اور مقبوضہ سرزمین کی سیاسی اور سفارتی مدد کریں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ایک قانونی اور انسانی اور اسلامی بنیادوں پر استوار ہے۔

الجزیرہ: اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ اسلامی مقاومت کے راہنماؤں کے خلاف کاروائی [دہشت گردانہ اقدامات] کا دائرہ پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے، اور انہیں نشانہ بنائیں گے چاہے وہ کہیں بھی ہوں، اگر یہ اقدام ایران کے اندر عمل میں لایا جائے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟

امیرعبداللٰہیان: صہیونی ریاست نے گذشتہ 75 برسوں میں دہشت گردی، قتل اور جارحیت کے سوا اس علاقے میں کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ صہیونیوں کے اقدامات خطے اور عالم اسلام میں بدامنی پھیلنے پر منتج ہوئے ہیں۔ فطری امر ہے کہ وہ اپنی فطرت کے مطابق پھر بھی اسی طرح کے اقدامات جاری رکھے گی۔ صہیونیوں نے گذشتہ 75 برسوں میں اسلامی ممالک کو چند ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے وسیع اقدامات کئے ہیں اور ان اقدامات کو جاری رکھے گی۔

ہم بہ آواز بلند فلسطین اور مقاومت کی حمایت کا موقف اپناتے رہیں ہیں اور ساتھ ہی ہم نے اقوام متحدہ میں فلسطین کا مسئلہ جمہوری انداز سے حل کرنے کے لئے ایک منصوبہ رجسٹر کرایا ہے جس کے تحت زور دیا گیا ہے کہ فلسطین میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرینڈم کا اہتمام کیا جائے، اور فلسطین کے مقامی مسلمان، یہودی اور عیسائی ریفرینڈم میں ووٹ ڈالیں، دوسرے ممالک اس ریفرینڈم کے اخراجات برداشت کریں، اور ایک بار ہمیشہ کے لئے، فلسطینی یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔

فطری امر ہے کہ اگر صہیونی ریاست اسلامی جمہوریہ ایران کی سلامتی کے خلاف کوئی بھی اقدام کرے، اس کو پشیمان کر دینے والے جواب کا سامنا کرنا ہوگا۔

الجزیرہ: عراق میں مسلح تنظیمیں امریکی مفادات اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جس کی ذمہ داری ایران پر ڈالی جا رہی ہے، صہیونی ریاست نے بھی ایک اسرائیلی تاجر کے بحری جہاز پر یمنیوں کے قبضے کے بعد الزام لگایا ہے کہ اس کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے، کیا آپ فکرمند ہیں کہ یہ صورت حال کشیدگی میں شدت آنے کا باعث بن سکتی ہے؟

امیرعبداللٰہیان: خطے میں مقاومت کے عنوان سے تنظیموں اور تحریکوں کی موجودگی ایک حقیقت ہے، جن کے معرض وجود میں آنے کے اسباب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ، لبنان میں ایک بڑا اور اثر گذار گروپ ہے، لیکن وجہ کیا تھی کہ حزب اللہ معرض وجود میں آئی؟ صہیونی ریاست نے لبنان کو جارحیت کا نشانہ بنایا اور لبنانیوں نے فیصلہ کیا اور یوں حزب اللہ قائم ہوئی، اور حزب اللہ نے لبنان کا دفاع کیا اور خطے میں صہیونیت اور داعش کی دہشت گردی کے خلاف پورے خطے میں مؤثر اقدامات کئے۔ جس کی وجہ سے لبنان کی سلامتی کی ضمانت فراہم ہوئی۔

عراق پر سنہ 2003ع‍ میں امریکہ نے قبضہ کیا، 2011ع‍ میں داعش معرض وجود میں آئی، جسے ہلیری کلنٹن کے اعتراف کے مطابق امریکہ نے بنایا تھا، چنانچہ 2003 سے 2011 تک ـعراقی نوجوانوں نے ابضوں اور دہشت گردوں کے خلاف جدوجہد اور اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے تنظیمیں تشکیل دیں۔ عراق، شام اور یمن میں ان مقاومتی تنظیموں کی کچھ جڑیں ہیں اور کچھ اسباب ہیں۔ انہوں نے غزہ پر جاری رہنے والی صہیونی جارحیت کے چھ ہفتوں کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں عربی اور اسلامی امت کے ایک حصے کے دفاع کر لئے اپنے فرائض پر عمل کیا۔ جیسا کہ حماس نے بھی طوفان الاقصی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا، یہ تنظیمیں بھی خود ہی فیصلہ کرتی ہیں اور اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ ہم نے امریکیوں سے سنا ہے کہ شام اور عراق میں ان کے کچھ اڈوں پر حملے ہوئے ہیں، اورامریکی فوجیوں اور ان تنظیموں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ہمیں بھی اس سلسلے میں پیغامات بھیجے گئے ہیں لیکن امریکی پیغامات کو ہمارا جواب یہ تھا کہ خطے میں ہمارا کوئی پراکسی گروپ نہیں ہے، اور یہ تنظیمیں اپنے ممالک کے مفادات، علاقائی سلامتی اور عربی-اسلامی امت کی سلامتی کے لئے اقدامات بجا لاتی ہیں۔

الجزیرہ: اس وقت ایک بار پھر دو ملکی حل کی باتیں ہو رہی ہیں، آپ کی کیا رائے ہے؟

امیرعبداللٰہیان: ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے طور پر، پوری سرزمین فلسطین میں ـ جو کہ فلسطینیوں کی مادر وطن ہے ـ واحد فلسطینی مملکت کے قیام کی حمایت کرتے ہیں جس کا دارالحکومت قدس شریف ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرینڈم کا اہتمام کیا جائے، اور فلسطین کے مقامی مسلمان، یہودی اور عیسائی ریفرینڈم میں ووٹ ڈالیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ فلسطین کے مقامی اور تاریخی باشندے فیصلہ کریں۔ یقینی امر ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کے مقامی شہریوں کی رائے اور ووٹ کا احترام کرے گا۔

الجزیرہ: آج حنگ کے بعد غزہ کے مستقبل کے بارے میں بہت ساری باتیں کہی جا رہی ہیں، خاص طور پر امریکی وزیر خارجہ نے کئی مرتبہ اس بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ جنگ کے بعد غزہ کی صورت حال اور من حیث المجموع خطے کی صورت حال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

امیرعبداللٰہیان: صہیونیوں نے چھ ہفتوں تک غزہ پر وسیع پیمانے پر جارحیت کا ارتکاب کیا، جبکہ کہہ رہے تھے کہ مقصد حماس کا خاتمہ ہے، حماس غزہ میں موجود ہے، حالات پر اس کا پوری طرح کنٹرول ہے، میں نے حال ہی میں دوحہ میں اسماعیل ہنیہ کے ساتھ بات چیت کی اور اس سے پہلے بیروت میں اسلامی جہاد اور حماس کے راہنماؤں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ اب تک مقاومتی تحریکیں صرف 10 سے 12 فیصد تک وسائل اور ہتھیار میدان میں لائی ہیں اور 90 فیصد جنگی اور دفاعی صلاحیت، ہتھیار اور افرادی قوت اب تک میدان میں نہیں آئی ہے، چنانچہ مقاومتی مجاہدن پوری طرح طاقتور اور جنگ کے لئے تیار ہیں۔

یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ غزہ کا انتظام اور غزہ کے شہریوں کا انتظام و انصرام اور جنگ کا انتظام اور صہیونی ریاست سے نمٹنے کا انتظام و انصرام حماس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی میدان میں موجودگی اور صہیونی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے نیز چھ ہفتوں تک ہمہ جہت [مشترکہ] بمباریوں اور زمینی کاروائیوں کے باوجود حماس بدستور میدان جنگ میں جم کر کھڑی ہے اور وہ حماس اور اس مقاومتی تنظیموں کو شکست نہیں دے سکے ہیں۔۔

حماس ایک ناقابل انکار حقیقت ہے جس کی جڑیں پوری فلسطینی سرزمین میں پیوست ہیں۔ حماس فلسطینی مقاومت کا حصہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ غزہ کے غزہ کے مستقبل کا فیصلہ فلسطینی عوام اور فلسطینی مقاومت کے ہاتھوں رقم ہوگا۔

البتہ میں یہاں واضح الفاظ میں کہنا چاہوں گا کہ صہیونی ریاست امریکی امداد کے بغیر اتنے وسیع پیمانے پر ان جنگی جرائم کا دوبارہ ارتکاب نہیں کر سکتی تھی، جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دہرائے جا چکے ہیں۔ جو کچھ گذشتہ چھ ہفتوں میں وقوع پذیر ہؤا اس کی ذمہ داری بلاواسطہ طور پر امریکی اور صہیونی جنگی مجرموں پر عائد ہوتی ہے۔

میں یہاں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر امریکہ تصور کرتا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کے انتظام کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے، تو یہ تصور بالکل غلط ہے۔ جس طرح کہ امریکہ نے 2006ع‍ میں حزب اللہ کے خلاف صہیونیوں کی 33 روزہ جنگ اور اس کے بعد کے واقعات میں امریکہ نے ابتداء میں حزب اللہ کے خاتمے، اور بعد کے مرحلے میں حزب اللہ کا اسلحہ چھیننے، کے لئے بہت سی کوششیں کیں؛ لیکن وہ کسی بھی مرحلے میں کامیاب نہیں ہو گا، اور حزب اللہ آج خطے کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور تحریک ہے، جہاں تک کہ حالیہ چھ ہفتوں میں امریکہ اور بعض دوسرے مغربی ممالک نے حزب اللہ کے پیغامات ارسال کئے ہیں اور کہا ہے: از راہ کرم، صبر و تحمل سے کام لیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ کے پھیلاؤ کا سد باب کریں"، چنانچہ غزہ کا مستقبل فلسطینی عوام کے ہاتھوں رقم ہوگا۔ فلسطینی عوام ہی فلسطین کے مستقبل کا تعین کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110