اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

13 نومبر 2023

11:49:52 AM
1411106

ایسے کئی افراد ہوں گے جن کے خیال میں فلسطین میں صرف سنی مسلمان سکونت پذیر ہیں اور حماس و دیگر اسلامی تحریکیں سنی تحریکیں ہیں۔ البتہ یہ الگ مسئلہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے شیعہ ہوں یا سنی، اس وقت اسلام کی فرنٹ لائن میں لڑ رہے ہیں اور پورا عالم کفر ان کی خلاف برسرپیکار ہے جبکہ عیش پرست عرب حکمران ان کی ناکہ بندی اور قتل عام کا تماشا دیکھ رہے ہیں اور سعودی، بحرینی اور اماراتی حکمرانوں مغرب سے کہہ رہے ہیں کہ "حماس کو نیست و نابود کرو"، بہر حال ہم ان سب کی کامیابی کے لئے دعا کرتے ہیں۔

بلا شبہ اہل قلم افراد کی کم از کم ذمہ داری یہ ہے کہ ان کے مصائب کو عیاں کریں، مگر یہ بات بہت سوں کے لئے یقینا نئی ہے کہ اس سرزمین پر شیعیان محمد و آل و محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی رہتے ہیں جو حماس اور اسلامی جہاد تحریک کے شانہ بشانہ اللہ اور بنی نوع انسان کے دشمنوں سے لڑ رہے ہیں اور بیت المقدس اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصٰی کی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے خون کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔

دریں اثناء اسلام کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے والے نا عاقبت اندیش مذہبی ٹھیکیداروں کی کوشش ہے کہ فلسطین کو بھی اپنی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنائیں اور وہاں کے لوگوں کو صہیونیوں کے بجائے تشیع کے خلاف صف آراء کردیں اور مسلمانوں کے لئے ذلت خرید کر دشمنان اسلام کی خوشنودی حاصل کریں۔

مثال کے طور پر شیخ یوسف القرضاوی (مرحوم) نے تاریخ کے دوران اسلام کے دفاع میں تشیع کی عظیم قربانیوں اور عصر جدید میں تشیع کی بنیاد پر ظہور پذیر ہونے والے اسلامی انقلاب کی وجہ سے عالمی سطح پر اسلامی بیداری کو نظرانداز کیا، کئی عشروں تک پوری عرب دنیا پر مسلط رہنے والی اسرائیلی ریاست کی لبنانی شیعوں کی ہاتھوں ذلت آمیز شکست کو ہیچ سمجھا اور تعصب کی انتہاؤں پر فلسطین میں تشیع کے پھیلاؤ ک مفروضے کو فتنہ قرار دیا اور کہا فلسطین کے رنج کشیدہ لوگ گھٹن میں مبتلا ہیں اور انہیں اب یہ نہیں معلوم کہ انہیں صہیونیت کے خلاف لڑنا چاہئے یا پھر اس فتنے کے مد مقابل کھڑا ہونا چاہئے!!! یہ البتہ بجائے خود غاصب یہودی ریاست کی بڑی خدمت تھی۔

یہی مولوی قرضاوی صاحب جو عراق جنگ کے دوران امریکی فوجی ہیڈکوارٹرز میں ان کو گویا نمازیں پڑھایا کرتے تھے! اور جب عرب مسلمانوں نے از خود ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو انھوں نے " گویا محض رضائے الٰہی کی خاطر ڈنمارک کے سفارت خانے سے معمول کا لفافہ اور عطیات حاصل کرکے بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیل کی"۔

یہ حضرات شیعہ مذہب کی معقولیت کو نظر انداز کرتے ہیں اور شیعہ مخالف افکار کی خامیوں کو خاطر میں نہیں لاتے جبکہ سابق وہابی عالم کچھ اور کہتے ہیں:

"میں بخوبی جانتا ہوں کہ ہمارے برادران کو جب تشیع کے فضائل سنائے جاتے ہیں تو وہ ابتداء میں ناراض ہوجاتے ہیں جبکہ یہ ایک حقیقت ہے ورنہ بڑے وہابی اور سنی علماء تشیع اختیار نہ کرتے۔ اگر یہ لوگ شیعہ ہو ہی جاتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ میرے غیر شیعہ قارئین بھی شیعہ مذہب کا اپنے مذہب سے موازنہ کریں اور دیکھیں کہ عقلاء اور علماء کیوں تشیع اختیار کررہے ہیں؟ مذہب شیعہ کی کیا خوبیاں ہیں اور دوسری طرف کیا مسائل اور خامیاں ہیں جس کی بنا پر حتی کہ وہابی علماء بھی تحقیق کے مراحل میں شیعہ مذہب اختیار کرلیتے ہیں؟

سعودی جامعات سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے اور سعودی جامعات میں وہابی مذہب کے بڑے یمنی استاد پروفیسر ڈاکٹر عصام العماد کے کہتے ہیں:

میں نے ڈاکٹریٹ کے لئے تشیع کے بارے میں تحقیق کر رہا تھا اور مجھے تشیع کے خلاف ہتھیار ڈھونڈتے ڈھونڈتے اچانک تشیع کی حقانیت کی نشانیاں مل گئیں اور پروفیسرشپ کا درجہ ترک کرکے ایران آئے اور جامعۃ المصطفی العالمیۃ میں حصول تعلیم میں مصروف ہو کر طالب علم بن گئے؛ "وہاں کے استاد یہاں کے شاگرد بن گئے"،  دیکھئے:

ڈاکٹر العمادعصام عماد کہتے ہیں:

وہابی لفظ "عقل" سے نفرت کرتے ہیں۔

انہوں نے قم کے حجتیہ ہائر اسکول میں "اہل بیت اور وہابیت" کے عنوان سے منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

وہابی لفظ 'عقل' سے بیزار اور فکری جمود کا شکار ہیں جبکہ اہل تشیع کی فکری اساس قرآن اور اہل بیت ہیں اور اسی اعلیٰ فکر سے لیس ہوکر ہمیں انحرافات کا سامنا کرنا ہے۔۔۔ حوزہ علمیہ قم میں انحرافی مذاہب کے عقائد و افکار پر بحث ہونا چاہئے کیونکہ علمی ارتباط اور آراء و افکار کا تقابل انسانوں کی ہدایت کا باعث ہے جس کے باعث لوگوں کے لئے حق و ہدایت ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے۔۔۔ مکتب اہل بیت (علیہم السلام) عقل کی بنیاد پر استوار ہونے کی بنا پر روز بروز ترقی کررہا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کو دنیا میں عام کردیں"۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت مغربی ایشیا میں صہیونی مخالف و امریکہ مخالف تحریکوں میں تشیع کا رنگ بڑا واضح ہے، گو کہ سلفیوں نے علاقے میں گلے کاٹنے کی وحشیانہ لہریں کھڑی کرکے تشیع کا رنگ ختم کرنے اور اسلام کو ایک وحشی مکتب کے عنوان سے متعارف کرانے کے کی بہتیری کوشش کی ہیں مگر

پھونکوں سے یہ چراغ بھجایا نہ جائے گا

اب تو دنیا کو اعتراف کرنا پڑرہا ہے کہ علاقے میں دو تحریکیں پروان چڑھی ہیں: ایک سلفی تحریک ہے جو خون کے دریا بہا کر، اور ریالوں کے بھرے لفافے بانٹ کر اپنی ترویج پر یقین رکھتی ہے اور اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ذاتی اور حزبی مفادات کو دین اور امت کے مفادات پر ترجیح دینے والے افراد خریدتے آئے ہیں۔ تو دوسری طرف تشیع ہے جو اپنی منطق کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے اور اپنے ہزاروں شہداء کی لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنے عزیزوں کے قاتلوں تک کو اتحاد کی دعوت دے رہا ہے یعنی یہ صہیونیوں اور سامراجیوں کے دانستہ اور ندانستہ گماشتے اختلافات کو تفرقے اور دشمنی میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور دشمنوں کی امیدیں بڑھا رہے ہیں تو تشیع اتحاد کی دعوت دے کر دشمنان اسلام کو مایوس کررہا ہے۔

شیعہ اشداء علی الکفار ہیں جہاں بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے، چاہے وہ سنی ہوں چاہے شیعہ ہوں، چاہے عراقی ہوں، چاہے افغانی ہوں یا یمنی اور بوسنیائی یا پھر فلسطینی ہوں، اہل تشیّع سب سے پہلے اور دائمی طور پر ان کی مدد و حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اور اشداء علی الکفار کے ساتھ ساتھ رحماء بینہم کو بھی با معنی بنا دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اہل اسلام برے ہوں بھی تو اہل کفر و نفاق سے بہتر ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کا دفاع کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ شیعہ؛ نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں وحشیانہ انداز میں کفر کے فتؤوں کا شکار ہوکر قتل بھی ہوتے ہیں تو جاہلوں کے خلاف کفر کا فتویٰ نہیں دیتے کیونکہ انہوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے اور انہیں امید ہے کہ ایک دن یہ جاہل بھی دشمن کو پہچان ہی لیں گے۔

اتحاد و اتفاق پر تاکید کرنے کے باوجود، شیعہ اپنے عقائد کا ڈٹ کر دفاع کرتے ہیں اور اپنے احکام پر کاربند رہتے ہیں مگر دوسرے فرقوں کو بھی مسلمان سمجھتے ہیں اور کسی کو بھی خارج از اسلام قرار نہیں دیتے کیونکہ یہ ارشاد ربانی ہمیشہ ان کے سامنے ہوتا ہے:

کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ سامنے دشمن ہے جو تمام فرقوں کو یکسان طور پر دشمن سمجھتا ہے۔

وہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن، کعبہ، رسول اللہ (ص) دشمنان اسلام کی یلغار کا اصلی ترین ہدف ہیں اور یہ مقدسات سارے اسلامی فرقوں کے ہاں یکسان طور پر مقدس ہیں۔

شیعہ مکتب کی بڑی نشانی اس کی انقلابی روح ہے اور انقلاب میں معقولیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور معقولیت کا تقاضا ہے کہ مسلمان فرقے متحد ہوجائیں۔ یقینی بات ہے کہ اتحاد کا فائدہ سب کو ملے گا اور جو لوگ اکثریت کو حقانیت کا نشان سمجھ کر دشمن کی چکی کو پانی فراہم کرتے ہوئے شیعہ کو اقلیت کے عنوان سے ناحق سمجھتے ہیں انہیں سمجھنا چاہئے کہ اتحاد کا زیادہ فائدہ بھی اکثریت کو پہنچے گا اور پھر اتحاد و یکجہتی پر یقین اس امر کا باعث بنا ہے کہ دنیا کی سطح پر تشیع کا چہرہ زیادہ پروقار اور معتدل نظر آرہا ہے کیونکہ شیعہ ہر کسی کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا اور اپنے اردگرد بے شمار محاذ قائم نہیں کرتا اور مسلمانوں کو مشترکات کی حفاظت کی دعوت دیتا ہے جبکہ اسلام کے اصلی دشمنوں کے سامنے نہایت مضبوط اور ساز باز نہ کرنے والا مجاہد ہے مگر مسلمان بھائیوں کے سامنے نہایت مہربان دوست ہے اور وحدت و یگانگت کی دعوت دیتا ہے۔

شیعہ اپنوں کے ہاتھوں اپنے کٹتے ہوئے گلے سے بھی اذان وحدت دیتا ہے اور اپنے قاتل کو دشمن شناسی کا درس دیتا ہے۔

اسلامی انقلاب اور تشیع

اسلامی انقلاب سے پہلے تشیع گوشہ نشینی پر مجبور تھا اور اکثریتی مسلمان ـ جو سیکولرزم کے دلدادہ ہوگئے تھے اور روز بروز مذہب سے دور ہورہے تھے ـ شیعوں پر بڑی آسانی سے ظلم و ستم روا رکھتے تھے اور بہ الفاظ دیگر یہ سیکولر مسلمان شیعوں کے سامنے آکر راسخ العقیدہ سنی مسلمان بن جاتے تھے اور شیعوں پر ظلم کرنا اپنا حق سمجھتے تھے مگر اسلامی انقلاب کے بعد جہاں اہل تشیع ابھر کر سامنے آئے وہاں عالم اسلام میں سیکولرزم نے بھی اسی انقلاب کی برکت سے اپنی جگہ اسلام کو دے دی اور سنی بھی دینی عقائد و احکام کی طرف لوٹ آئے گو کہ اس واپسی  میں دوسروں کا بھی ہاتھ تھا جو سنی عقائد کا احیاء کرکے اسلامی انقلاب کے سامنے عالم اسلام کے تمام ممالک میں بند باندھنا چاہتے تھے۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پھر حزب اللہ سمیت عالمی استکبار کے سامنے مقاومت کی راہ پر گامزن کے باعث، دنیا میں شوق تشیع بڑھ گیا اور دنیا کے گوشے گوشے میں شیعیان اہل بیت (علیہم السلام) اپنے وجود و ظہور کا اعلان کرچکے ہیں اور اگر کہیں شیعہ اپنے "بھائیوں" کے خوف سے چاہ یوسف میں چھپ کر رہنے پر مجبور تھے انہوں نے کنوئیں سے نکل کر اپنی موجودگی کا اعلان کیا ہے اور نقطۂ عروج کی طرف صعود کررہے ہیں بقول حافظ

عزیز مصر به رغم برادران غیور

ز قعر چاه برآمد به اوج ماه رسید

عزیز مصر اپنے حاسد بھائیوں کی خواہش کے برعکس

کنوئیں کے تہہ سے نکل کر چاند کی بلندی تک عروج کر گیا

ارض فلسطین بھی اسی دنیا کے ایک چھوٹے سے خطے کے طور پر اس قاعدے سے مستثنی نہیں رہی اور یہاں بھی تشیع کے مؤثر جہادی پہلؤوں کے پیش نظر مکتب تشیع دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا، چنانچہ مذہب کے بعض ٹھیکیداروں اور ادھر ان لوگوں کے ساتھ ساتھ فلسطین پر قابض صہیونی قوتوں نے یکسان طور پر تشویش ظاہر کی ہے اور ان کی تشویش میں شدت آ رہی ہے۔ شہید محمد شحادہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے میں صہیونی وزیر اعظم کی بلاواسطہ مداخلت اسی حقیقت کا عینی ثبوت ہے۔ صہیونی کابینہ نے شحادہ کی شہادت کے بعد عالمی صہیونیوں کو مبارکباد دی تھی۔

 صہیونی تشویش کے حوالے سے ایک رپورٹ

اسرائیل کا دعویٰ؛ ایران فلسطین میں تشیع کی تبلیغ کررہا ہے!

صہیونی اخبار "ہاآرتص" نے (اپنے 11 جون 2008ع‍ کے شمارے میں) دعویٰ کیا کہ "ایران فلسطینیوں کو شیعہ بنانے کے لئے فلسطینی علاقوں میں بڑی رقوم خرچ کررہا ہے اور جہاد اسلامی تحریک کے اکثر ممبران شیعہ ہوگئے ہیں"۔  

عجب یہ کہ مصر، اردن، سعودی عرب، شیخ نشین ریاستوں اور ترکی تک کے بعض مذہبی راہنماؤں سمیت بہت سے سیکولر حکام نے بھی ایسی ہی تشویش ظاہر کی ہے۔

صہیونی روزنامے نے مزید لکھا ہے کہ "ایران فلسطین میں مذہب شیعہ کی ترویج کے منصوبے پر عملدرآمد کررہا ہے"۔

صہیونی ریاست، حماس کی تشکیل سے لے کر اب تک سینکڑوں بار اعلان کرچکی ہے کہ ایران حماس کو اقتصادی اور فوجی مدد دے رہا ہے مگر صہیونی کالم نویس "ایساخاروف" نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کی خاطر سابقہ صہیونی پروپیگنڈے پر بطلان کی لکیر کھینچتے ہوئے لکھا ہے کہ "حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین نے کبھی بھی ایران سے مدد نہیں لی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ایران کی مدد حاصل کرنے کی بنا پر انہیں ایران کے شیعہ رجحانات سے وابستہ ہونا پڑے گا!!! لیکن [ایساخاروف کے بقول] ان کے مارے جانے کے بعد حماس بھی حزب اللہ کی مانند ایران سے مالی امداد حاصل کررہی ہے"۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس صہیونی صحافی کو خدشہ ہے کہ "حماس بھی جلدی یا بدیر شیعہ مکتب سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گی"۔

بہت عجیب بات یہ ہے کہ غاصب صہیونیوں کے خلاف جہاد میں صرف ایران ہے جو حماس اور دوسری جہادی تنظیموں کو مدد فراہم کرتا ہے اور فلسطین میں تشیع کے فروغ سے تشویش ظاہر کرنے والی قوتیں یا تو صہیونیوں کی طرح انہیں بدترین مظالم کا نشانہ بناتی ہیں، یا پھر مسلمان ہوتے ہوئے بھی ان کے دشمن صہیونی ریاست کی ہمہ جہت امداد فراہم کرتے ہیں اور صہیونیوں کے مفاد کے لئے فلسطینیوں کے خون میں برابر کے شریک ہوتے ہیں!

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ صہیونی ریاست کس حد تک تشیع کی ترویج سے فکرمند ہے جبکہ دوسری طرف سے یہودیت کی ظاہری طور پر برائی کرنے والے مسلمانوں کی تشویش واقعی باعث حیرت ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ اسرائیل اور یہ صاحبان ایک ہی مسئلے سے فکرمند ہیں؛ دونوں سمجھتے ہیں کہ ان کا دشمن ایک ہی ہے؛ یا یوں کہئے کہ اب بس انہیں اسرائیل کے ساتھ مصالحت کی راہ پر گامزن ہونا چاہئے یعنی یہ کہ قبلہ اول اور ارض فلسطین کو فراموش کرلینا چاہئے اور دونوں کو مل کر تشیع کا مقابلہ کرنا چاہئے یا یوں کہئے کہ اب جبکہ تشیع سامنے ہے تو جہاد فلسطین کے مسلمہ اہداف و مقاصد کا خاتمہ ہوگیا ہے کیونکہ تشیع سے اسرائیل کو بھی سنجیدہ خطرہ ہے اور ٹھیکیداران اسلام کے ٹھیکوں کو بھی؛ چنانچہ اب آل محمد (علیہم السلام) کے ماننے والوں کا مقابلہ کرنا چاہئے!!!

ٹھیکیداران اسلام اپنے عوام کو سوچنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ اپنی سوچ ان پر ٹھونس دیتے ہیں حالانکہ یہ افراد امت کی توہین ہے اور قرآن مجید نے امت کے تمام افراد کی عقل کو قابل قدر قراردیتے ہوئے انہیں تدبر، تفکر اور تعقّل کی دعوت دی ہے اور قرآن کریم نے چودہ مرتبہ مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا تم تفکر نہیں کرتے؟ کیا تم تدبر نہیں کرتے؟ اور کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یا کیا تم میں عقل نہیں ہے؟ تفکر و تعقل و تدبر سے منع کرکے مسلمانوں پراپنی سوچ ٹھونسنے کے اسی رجحان کی بنیاد پر ان حضرات کی تشویش کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ عشروں میں ایک شیخ نشین ریاست کے امام جمعہ شیخ یوسف قرضاوی مرحوم، کا موقف قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

انھوں نے چند سال قبل اپنی عمر کے آخری برسوں میں منعقدہ "تقریب بین المذاہب الاسلامیہ" کے اجلاس میں ـ عرب عوام کی عقل و ہوش اور ان کے ذاتی اور فطری شوق تشیع کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طبیعی عمل کو شیعیان اہل بیت کی تبلیغ کا نتیجہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ـ پیروان اہل بیت پر تنقید کی اور مطالبہ کیا کہ پیروان وہ سنی ممالک میں تشیع کی ترویج و تبلیغ سے اجتناب کریں!!!

انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے اس اجلاس میں فلسطین پر یہودیوں کے ظالمانہ قبضے کو صاف طور پر نظر انداز کرکے کہا تھا کہ "فلسطین میں تشیع کی ترویج ایک فتنہ ہے اور فلسطین کے محروم عوام اس وقت گھٹن کا شکار ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم کہ صہیونیت کے خلاف لڑیں یا پھر اس فتنے کا مقابلہ کریں!!!"

الازہر یونیورسٹی میں شیعیان اہل بیت (ع﴾ کا داخلہ؛ مصری پارلیمان نے مخالفت کی

یہی نہیں بلکہ مصر کے دینی اور سیکولر پارلیمانی ممبران بھی مل کر صہیونیوں کی مانند فروغ تشیع سے نالاں ہیں۔

ماجرا کـچھ یوں ہے کہ حال ہی میں جامعۃ الازہر کے سربراہ نے اعلان کیا کہ "بعدازیں دوسرے اسلامی فرقوں کے پیروکاروں کی طرح شیعہ بھی جامعۃ الازہر اور اس کے متعلقہ جامعات و کالجز میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں" تو مصری پارلیمان نے اس حکم کی مخالفت کی۔

اخوان المسملون کے نمائندے "شیخ علی لبن" نے اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "شیخ الازہر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ چھٹی صدی ہجری میں صلاح الدین ایوبی کی طرف سے الازہر میں "شیعہ طلباء کے داخلے پر پابندی" کے قانون کا خاتمہ کریں"۔ یاد رہے کہ الازہر یونیورسٹی کی بنیاد فاطمی شیعہ حکمرانوں نے رکھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ "الازہر میں شیعہ مذہب پر تحقیق و مطالعہ شروع ہونے کی وجہ سے اس جامعہ کی فضا میں سنیوں کے سوا دوسری فکر بھی پروان چڑھے گی اور مصر میں مذہبی فتنوں کا آغاز ہوجائے گا کیونکہ اس صورت میں سنی طلباء بھی شیعہ مذہب کی تعلیمات کا اپنی تعلیمات سے موازنہ کرنے لگیں گے [اور پھر وہی ہوگا جس کی ہمیں توقع نہیں ہے!!!]۔

سیدھی بات یہ ہے کہ اخوان المسلمون کو سنی طالبعلموں کی شیعیت کی طرف رجحان سے تشویش لاحق ہے اور اس سلسلے میں وہ اسرائیل نواز سیکولر نمائندوں کو بھی ساتھ ملا کر سنی اور شیعہ طالب علموں کے اکٹھے ہونے کا سدباب کررہے ہیں۔ جیسا کہ کسی زمانے میں کـچھ لوگ حاجیوں سے کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) (معاذ اللہ) ساحر ہیں اور ان کے سحر سے بچنے کے لئے کانوں میں روئی ٹھونس کر مسجدالحرام میں داخل ہؤا کریں! یہاں بھی کہا جارہا ہے کہ سنی طالبعلموں کو شیعہ تعلیمات کے قریب نہیں جانا چاہئے کیونکہ اگر وہ طالب علم تشیع کو قریب سے دیکھیں تو جامعۃ الازہر میں داخل ہونے والے سنی طالب علم شیعہ ہوکر فارغ التحصیل ہونگے اور نتیجہ جو بھی ہوگا ان حضرات اور صہیونیوں سمیت سیکولر قوتوں کے لئے اچھا نہ ہوگا۔

فلسطین میں تشیع کا تاریخی سفر

جب سے ارض فلسطین پر اسلام کا پرچم لہرایا ہے اسی وقت سے تشیع بھی اس سرزمین میں آبسا ہے۔

ہمارے قارئیں و صارفین کو اگر تاریخ کا سبق یاد ہو تو سب سے پہلے اس سرزمین میں عظیم شیعہ بزرگ صحابی رسول حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) نے قدم رکھا اور انھوں نے شام و فلسطین کی سرزمین میں لوگوں کو تشیع کا سبق سکھایا اور اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت و مودت ان کے دلوں میں بسا دی اور لوگوں کو امیرالمؤمنین (علیہم السلام) کے افکار و تعلیمات سے روشناس کرایا۔

بعدازاں تاریخِ فلسطین میں تشیع کی موجودگی قوی سے قوی تر ہوئی اور اس سرزمین کی اکثریت نے شیعہ امامیہ مکتب کی پیروی اختیار کرلی۔

قبیلۀ خزاعہ

تشیع کے استحکام کا ایک سبب یہ تھا کہ قبیلہ خزاعہ نے فلسطین کی طرف ہجرت کی جو نسل شناسی کے اعتبار سے جنوبی عرب سمجھا جاتا تھا اور قریش سے قبل مکہ پر مسلط رہا تھا اور جب اسلام کا سورج طلوع ہؤا تو یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حلقۂ معرفت کے پروانے بنے اور مسلمان ہوئے۔ تاریخ کے مختلف مراحل میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ [سوره شوری کی آیت 23 : قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى = کہہ دو کہ میں تم سے رسالت کی عوض کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے اس کے میرے قرابتداروں سے مودت و محبت رکھو", پر کاربند رہ کر ] حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رحلت کے بعد بھی خاندان رسالت کے وفادار اور خاندان بنو ہاشم کے دائمی حلیف کے عنوان سے اپنے پیمان اولین پر قائم رہے۔ اس قبیلے کی ایک شاخ نے بعد میں فلسطین کا رخ کیا اور وہاں خزاعہ نامی شہر کی بنیاد رکھی جو غزہ کے شہر خان یونس کے قریب واقع تھا۔

(بنوخزاعہ اور ایران کی تشیع میں ان کا کردار – رسول جعفریان – اسلام و ایران کا تخصصی کتب خانہ ویب سائٹ)

مؤرخین اور مسلم جغرافیہ نویسوں کے قلمی آثار کو رجوع کیا جائے تو اس حوالے سے حقائق زیادہ سے زیادہ واضح ہونگے۔

چوتھی صدی ہجری کے جغرافیہ دان محمد بن احمد مقدسی لکھتے ہیں کہ:

فلسطین میں تشیع پھیل چکا ہے اور طبریا، نابلُس اور القدس کی نصف آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ (احسن التقاسیم فی معرفہ الاقالیم ج1، ص252۔)

پانچویں صدی کے مسلمان عالم لکھتے ہیں کہ فلسطین کے شہر رملہ (رام اللہ﴾ کی پوری آبادی شیعیان اہل بیت (ع﴾ پر مشتمل ہے۔ (داأرۃ المعارف الشیعۃ، ج12، ص203)

مشہور فارسی شاعر اور اسماعیلی مذہب کے داعی "ناصر خسرو قبادیانی" (متوفی 481ھ) اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں: فلسطین میں ابوہریرہ کی قبر بھی ہے مگر وہاں کے لوگ اس قبر کی طرف کوئی رغبت نہیں رکھتے کیونکہ وہاں کے عوام تماماً شیعہ ہیں۔ ناصر خسرو - جو سنہ437 ہجری کو فلسطین کا سفر کرچکے ہیں - لکھتے ہیں کہ قدس شہر کے باشندوں کی اکثریت شیعیان اہل بیت (ع﴾ پر مشتمل ہے۔ (سفرنامہ ناصر خسرو، ص30-31)

چھٹی صدی ہجری کے ابن جبیر اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ فلسطین در حقیقت مختلف شیعہ فرقوں کی سرزمین ہے اور یہاں امامیہ، اسماعیلیہ، زیدیہ اور نصریہ شیعہ فرقے رہتے ہیں۔

فاطمی سلطنت کا خاتمہ ہؤا تو صلاح الدین ایوبی کو اقتدار ملا اور ایوبی نے شیعیان اہل بیت خلاف تشدد آمیز رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے تشیع کا سلسلہ ارض فلسطین میں رک گیا اور یہ سلسلـۂ توقف ایران کے اسلامی انقلاب تک جاری رہا۔

تشیع کی ترویج میں اسلامی انقلاب کا کردار

لبنان ابتداء ہی سے اہل تشیع کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا چنانچہ فلسطین میں رہنے والے شیعیان اہل بیت نے اپنے تعطل کے دوران شیعیان لبنان کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھا اور اسلامی انقلاب کے کامیابی کے بعد یہ رابطہ مضبوط سے مضبوط تر ہوگیا۔

فلسطین کے شیعہ ترین جہادی تحریک «الجہاد الاسلامی» نے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ اپنا ربط استوار کیا اور اس تحریک نے فلسطین میں احیائے تشیع میں اہم کردار ادا کیا۔

اسلامی انقلاب کے سنجیدہ حامی اور جہاد اسلامی کے سابق سیکریٹری جنرل "شہید فتحی شقاقی" نے بارہا اس حقیقت کا اعلان کیا تھا کہ کہ "ہم 1970 کی دہائی سے انقلابی اسلامی سے روشناس ہوئے اور ہمیں یہ نعمت امام خمینی اور شہید آیت اللہ سیدمحمد باقر الصدر کے قلمی آثار سے ملی"۔

اسلامی جہاد کے علاوہ کئی ملّی اور دینی تحریکیں تشیع کے محور پر فلسطین کی مقبوضہ سرزمین پر معرض وجود میں آئیں جو ثقافتی اور سماجی امور میں سرگرم عمل ہیں۔ آج کے دور میں صابرین کی جہادی تحریک خالصتا شیعہ تحریک ہے جو فلسطینی مقاومت کے شانہ بشانہ انسان اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔

اسلامی انقلاب کے بعد "اتحاد الشباب الاسلامی" کے نام سے ایک تنظیم "بیت لحم" میں قائم ہوئی جو ایک خیراتی اور تبلیغی تنظیم ہے جس نے "الاحسان خیراتی شفاخانہ"، "السبیل خیراتی شفاخانہ"، "نقاء الدوحہ سرجری سینٹر"، "مدرسۃ  النقاء" اور ایک خواتین مرکز کی بنیاد رکھی اور مساجد اور متعلقہ اداروں میں تعلیم القرآن کے کورس رکھے اور اس فعالیت نے فلسطین میں تشیع کے احیاء کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

ایک اور فعال تنظیم "الحرکة الاسلامیۃ الوطنی (قومی اسلامی تحریک)" ہے۔ اس تنظیم کے سربراہ "محمد ابوسمرہ" اور دیگر ارکان و ممبران کچھ عرصہ قبل شیعہ ہو کر الجہاد الاسلامی میں شامل ہوئے تھے۔ اس تنظیم نے اپنے تبلیغی اہداف کے حصول کے لئے "القدس مطالعاتی و تحقیقاتی مرکز" کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی ہے۔

بیت لحم میں ایک "شیعہ مرکز" جہاد اسلامی کے شہید کمانڈر "شہید محمد الشحادہ" کی سربراہی میں قائم ہؤا تھا جس نے تشیع کے احیاء و ترویج میں بنیادی کردار ادا کیا اور اس وقت بھی فعالانہ کردار ادا کررہا ہے۔

فلسطین میں ایک اہم اور فعال ادارہ "جمعیت الجعفریہ" ہے جو "دبوریق" کے علاقے میں قائم ہؤا ہے اور اس کے سربراہ "استاد اشرف امونہ" ہیں۔

اس ادارے کے تحت متعدد ذیلی ادارے کام کررہے ہیں۔ "حسینیۃ الرسول الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ)، "مکتب الزہراء" اور "مجلۃ السبیل" ان ہی اداروں میں شامل ہیں۔

( مجلۃ الثقافی، کربلا یونیورسٹی کے محقق "صلاح نوری عبود کا انٹرویو)

 حال ہی میں فلسطین میں شیعیان اہل بیت کی شورائے عالی تشکیل پائی ہے جس کے سربراہ سابق رکن جہاد اسلامی "محمد غوانمہ" ہیں۔

یاد رہے کہ فلسطین کے سنی مسلمانوں میں ناصبیوں کی تعداد بہت کم ہے اور اگرچہ بقول شہید محمد شحادہ "فلسطین کے آج کے زمانے کے عوام نہ صرف تشیع کو نہیں جانتے بلکہ انہیں اہل بیت (علیہم السلام) کے بارے میں بھی بہت کم معلومات حاصل ہیں"۔ بہرحال دنیا کے شیعہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے شیعہ عوام اور حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت کا فلسطینیوں کے شیعہ یا سنی ہونے سے تعلق نہیں ہے اور شیعہ اور ایران فلسطین کی تمام تنظیموں کی بلا امتیاز حمایت کرتے ہیں، لیکن یہ جاننا واقعی ضروری ہے کہ: اسرائیل کی قید میں ہزاروں فلسطینی مجاہدین شیعہ ہوچکے ہیں اور جعلی صہیونی ریاست اسی وجہ سے ان کی رہائی سے پرہیز کررہی ہے اور اس وقت ایک پوری نسل طویل المدت قید کے ایام کاٹ رہی ہے جس کی مطلق اکثریت شیعیان اہل بیت پر مشتمل ہے اور اگر یہ لوگ رہا ہوجائیں تو فلسطین کی جدوجہد آزادی نیا رخ اختیار کرے گی اور غاصب صہیونیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کیوں کہ یہ نو رسیدہ انقلابی شیعہ شہید محمد الشحادہ کی مانند "جہاد تا شہادت" کا نظریہ قبول کرچکے ہیں۔ محمد شحادہ بھی جیل میں شیعہ ہوگئے تھے۔

مذہب شیعہ قبول کرنے والے عرب

اجتماعی تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں گذشتہ چند سالوں سے تشیع کی ایک نئی لہر اٹھی ہے اور اس لہر کا نام "استبصار" رکھا گیا ہے ۔ اس نئی لہر نے تشیع کے احیاء میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔

ان مستبصرین میں بعض تو فلسطین کے سنی علماء تھے جنہوں نے شیعہ کتب کا مطالعہ کرکے مذہب شیعہ کی حقانیت کا ادراک کیا اور اہل بیت رسول کے مذہب میں داخل ہوئے، بعض تشیع کے جہادی فلسفے اور اس فلسفے کے عملی نتائج دیکھ مذہب تشیع اختیار کرگئے اور یہ سلسلہ آج پہلے سے کہیں تیزی سے جاری ہے۔ یقینا طوفان الاقصیٰ کے بعد تشیع کو مزید فروغ ملے گا کیونکہ آج کئی عرب سیاسی اور دینی راہنما بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بولنے لگے ہیں کہ "ہمارے نوجوان ہم سے پوچھتے ہیں کہ غزہ پر صہیونی مظالم و جرائم کا سد باب کرنے کے لئے حزب اللہ کب مداخلت کرے گی یا ایران کب مداخلت کرے گا لیکن کوئی بھی نہیں پوچھتا کہ اتنے سارے سنی ممالک مداخلت کریں گے یا نہیں کیونکہ انہیں ان حکومتوں سے کوئی امید نہيں ہے؛ یا یہ عرب دنیا کو اگلے ایک دو برسوں میں تشیع کی لہر کا سامنا ہوگا اور ایک عرب پروفیسر نے تو یہ بھی کہا ہے کہ عرب ممالک کی 80 فیصد آبادی شیعہ ہو جائے گی"، یقینا فلسطین بھی یہی صورت حال ہوگی جنہیں آج ایران، عراق، حزب اللہ اور یمن کی حمایت حاصل ہے جبکہ عرب ممالک یا تو خاموش ہیں یا پھر صہیونیوں کی صف میں کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔

"شیخ محمد عبد العال" ان ہی علماء میں سے ہیں جنہوں نے کئی برسوں تک شیعہ مذہب پر تحقیق کی۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: "۔۔۔ جن کتابوں کا میں نے مطالعہ کیا ان میں "المراجعات" سب سے اہم تھی (اس کتاب میں لبنانی عالم مرحوم سید عبدالحسین شرف الدین اور الاز ہر کے سابق سربراہ مرحوم شیخ سلیم البشری کا نہایت عالمانہ مناظرہ درج ہے) اس کتاب نے میرے ایمان میں اضافہ نہیں کیا (کیوں کہ میرا ایمان یہ کتاب پڑھنے سے قبل ہی مکمل ہوچکا تھا) مگر اس کتاب کی وجہ سے میری معلومات میں کافی اضافہ ہؤا"۔

نہایت دلچسپ واقعہ:

ہمیں روزمرہ کی زندگی میں مختلف حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ان واقعات کی طرف کم ہی توجہ مبذول کرتے ہیں تاہم اپنی گمشدہ چیز کے متلاشی ان ہی واقعات سے متاثر ہوکر زندگی کے اہم ترین فیصلے کرلیتے ہیں۔

شیخ عبدالعال کہتے ہیں:

ایک واقعے نے میری تحقیقات میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور میں نے قطعی فیصلہ کرکے ولایت اہل بیت (علیہم السلام) کا راستہ چن لیا؛ اور وہ واقعہ یوں تھا:

"ایک روز میں اپنے ایک عزیز کی دکان کے سامنے سڑک کے کنارے بیٹھا تھا۔ دکان کافی چھوٹی تھی۔ میں نے سنا کہ مالک دکان اپنے پوتے سے کہہ رہا ہے: "میری جگہ دکان میں بیٹھو اور اس کا خیال کرو میں نماز عصر پڑھ کر آتا ہوں"۔ میں سوچ میں ڈوب گیا اور میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ جب ایک شخص اپنی چھوٹی سے دکان چھوڑ کر نماز کے لئے قیام نہیں کرتا اور کسی کو اپنی جگہ بٹھا کر ہی نماز کے لئے چلا جاتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی عظیم امت کو امام اور جانشین مقرر کئے بغیر بے آسرا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہوں؟ خدا کی قسم ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے"۔

عظیم فلسطینی مجاہد شہید محمد شحّادہ

شہید محمد شحادہ عظیم فلسطینی مجاہد تھے جنہوں نے اسرائیل کی قید میں رہتے ہوئے لبنانی شیعہ قیدیوں کے ساتھ وسیع بحث و تمحیص کے بعد شیعہ مذہب کی حقانیت کا ادراک کیا اور شیعہ ہوکر فلسطین میں تشیع کے اعلانیہ مبلغ بن گئے۔ محمد الشحادہ وہ شخصیت ہیں جنہیں - فلسطینی ذرائع کے مطابق - فلسطینی اتھارٹی کے بہائی و صہیونی سربراہ "محمود عباس ابومازن" کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے صہیونی دہشت گردوں نے بیت لحم میں شہید کردیا۔

انھوں نے "المنبر" نامی مجلے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ: "میرے شیعہ ہونے کا سیاسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے۔۔۔ میں بھی دیگر مسلمانوں کی طرح جنوب لبنان میں حزب اللہ کی فتوحات پر فخر کرتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے شیعہ ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی حقائق تھے۔ میں درحقیقت اپنے اندر بنیادی اعتقادی تبدیلی کی بنا پر شیعہ ہؤا اور اس کے سوا کوئی بھی چیز شیعہ ہونے کے حوالے سے مجھ پر اثر انداز نہیں ہوئی ہے"۔

شہید محمد شحادہ کے فرزند شحادہ شحادہ کہتے ہیں:

میرے والد شیعہ تھے

شحادہ شحادہ نے والد کی شہادت کے بعد کہا: "میرے والد شیعہ تھے" اور دوسری طرف سے جہاد اسلامی تحریک کے ایک سینئر کمانڈر نے کہا ہے کہ "فلسطین کے اکثر فکری راہنما حزب اللہ کی طرف مائل ہورہے ہیں"۔

صہیونی روزنامے ہاآرتص نے بھی لکھا ہے "کہ اکثر فلسطینی راہنما اور مجاہدین حزب اللہ کی طرف مائل ہوکر شیعہ ہو رہے ہیں"۔ ہاآرتص لکھتا ہے کہ "محمد شحادہ کے بیٹے کے سیل فون پر سید حسن نصراللہ کے خطابات کے ریکارڈ موجود ہیں" اور یہ کہ "شحادہ شحادہ نے اس روزنامے کو بتایا ہے کہ ان کا پورا خاندان حزب اللہ کا حامی ہے اور ان کے والد کو 1992ع‍ میں اسرائیلیوں نے مرج الزہور جلا وطن کیا تو اسی وقت انھوں نے شیعہ ہونے کا فیصلہ کیا اور انھوں نے لبنان کے مرج الزہور کیمپ میں دیکھا کہ لبنانیوں کی دشواریاں بھی فلسطینوں کی مشکلات سے ملتی جلتی ہیں۔۔۔۔ میرے والد نے سرتسلیم خم نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور انھوں نے آخرکار شہادت کا انتخاب کیا اور اسی طرح شہید ہوئے جس طرح کہ امام حسین (علیہ السلام) نے کربلا میں لڑنے کا فیصلہ کیا اور شہید ہوگئے۔ میرے والد حزب اللہ کے رکن نہ تھے مگر حزب اللہ سے معنوی لحاظ سے وابستہ تھے  اور ان کی ہویت (Identity) حزب اللہ کی ہویت تھی"۔ ہاآرتص نے دعویٰ کیا کہ شحادہ شحادہ نے حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل کے دفتر سے ٹیلیفون پر ان کے خاندان کو مالی امداد کی پیشکش کو رد نہیں کیا!

فلسطینی ڈاکٹر اسعد وحید قاسم بھی فلسطینی مستبصرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے تشیع کے سلسلے میں طویل مدت تک تحقیق و مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف راستوں سے تشیع کی حقانیت کے اثبات کی کوشش کی اور اس راہ میں صبرآزما جدوجہد کے بعد شیعہ ہوگئے اور اس کے بعد تشیع کے احیاء کی تحریک میں شامل ہوئے۔ انھوں نے مذہب تشیع کے دفاع میں کتابیں تالیف کیں۔ ان کی مشہور تالیفات میں "ازمة الخلافۃ و الامامۃ و آثارہا المعاصرہ" (خلافت و امامت کا بحران اور عصر حاضر پر اس کے اثرات" شامل ہے۔

(علی اصغر رضوانی- شیعہ شناسی و پاسخ بہ شبہات، ص365)

فلسطین میں تشیع کی تدریجی پیشرفت نہایت مضبوط ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہے اور اس پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے گو کہ استعمار و استکبار کی خدمت پر مأمور تفکر کے لئے فلسطین کی تشیع کی جانب رجعت قابل برداشت نہیں ہے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر تشیع فلسطین کو فتح کرے تو یہاں صہیونیوں کے لئے رہنے کا امکان نہیں رہے گا۔ اسی وجہ سے مغرب بھی فکر مند ہے اور صہیونیوں کی بھی نیندیں اڑگئی ہیں گوکہ بعض دیگر افراد بھی فکر مند ہیں مگر انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسرائیل اور مغربی دنیا فلسطین میں تشیع کے رواج کو اپنے لئے تزویراتی (Strategic) خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ کیوں؟

اس لئے کہ فلسطین میں تشیع کے رواج کے بدولت جعلی اسرائیلی ریاست زوال کے قریب ترہوجائے گی اور یہ وہی خطرہ ہے جس سے عالمی صہیونیت، اسرائیلی ریاست اور اسرائیل کا دفاع کرنے والے عرب حکمران خوف و ہراس میں مبتلا ہیں کیونکہ فلسطین میں جہاد جاری ہے اور اس جہاد کو عاشورا اور سید الشہداء (علیہ السلام) کے انقلاب سے الہام ملنا شروع ہوجائے تو یہ جہاد ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کی تعلیمات کے مطابق، فتح یا شہادت تک جاری رہے گا اور ہم جانتے ہیں کہ شہادت کے مقصد سے جہاد ہی قدس اور مسجد الاقصٰی کی آزادی کا ضامن ہے ۔۔۔ دنیا جانتی ہے کہ شیعیان امیرالمؤمنین (علیہ السلام) جب دیکھتے ہیں کہ اسلام کی اساس کو خطرہ ہے اور جب دشمن کو پہچان لیتے ہیں تو ہمیشہ کی طرح وحدت مسلمین کو اپنا شعار بنا کر آگی بڑھتے ہیں؛ تفرقہ انگیزیوں کا منطق کے ذریعے مقابلہ کرتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عالم اسلام کا پہلا ترجیحی مسئلہ ہے چنانچہ فلسطین کی آزادی کو یقینی  بنانے کے لئے سنی علماء کو بھی فلسطین میں تشیع کی حوصلہ افزائی کرنے پر غور کرنا چاہئے۔ انہیں اس حقیقت کی طرف خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ لبنانی شیعوں نے پورے عالم اسلام کی عزت بحال کی ہے اور شیعہ ہرگز ان کے لئے خطرہ نہیں ہیں بلکہ ان کے دست و بازو ہیں خطرہ تو صہیونیت اور یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ ہے۔ شیعہ تمام مسلمانوں کے دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور فلسطین میں جہاد کا پرچم شیعیان اہل بیت کے سپرد ہوگا صہیونی دم دباکر بھاگیں گے، فلسطین آزاد ہوگا اور مسلمانوں کا قبلۂ اول آزاد ہوجائے گا؛ چنانچہ عرب ممالک میں تشیع کا پھیلاؤ ان کے لئے باعث تشویش نہیں ہونا چاہئے۔ سنی حکمران اور علماء اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ عاشورا کا سبق اچھی طرح یاد کرنے والے شیعہ ان کے دشمنوں کا پیٹھ خاک سے آشنا کرسکتے ہیں اسی بنا پر پورا عالمی استعمار اس وقت شیعہ مکتب کو زک پہنچانے کے درپے ہے اور ناعاقبت اندیش تفرقہ انداز قوتیں مغرب کی ان سازشوں سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ اپنے فتؤوں سے تشیع کو کمزور کرنے کے سامراجی مقصد کے لئے بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ اور ہاں! انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ شیعہ کو نقصان پہنچے گا تو وہ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہ رہیں گے کیوں کہ ان کے حکمران پہلے ہی بک چکے ہیں اور وہ خود بھی دشمن کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔

انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ شیعیان اہل بیت مسلمانوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اہل بیت (علیہم السلام) کا کنبہ سمجھتے ہیں اور ان کی دشمنی کا ارادہ کبھی بھی نہیں کرتے مگر وہ دشمن کے سامنے کبھی بھی جھکنے والے نہیں ہیں اور حصول شہادت یا دشمنان اسلام کو شکست فاش دینے تک لڑتے ہیں کیونکہ ان کا مدرسہ کربلا، سبق عاشورا اور استاد سیدالشہداء حسین بن علی (علیہما السلام) ہیں۔

المختصر، فلسطین میں تشیع کا رواج قدس و مسجد الاقصٰی کی آزادی کی کنجی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

یہ مضمون کئی برس پہلے لکھا گیا تھا اور اب کچھ اصلاحات کے بعد دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110