اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

3 نومبر 2023

1:14:26 PM
1408060

طوفان الاقصی؛

امریکہ اصلی مجرم ہے / امریکی بجری بیڑے اور فوجی اڈے ہمارے نشانے پر ہیں، وہ ہمیں خوفزدہ نہیں کرتے۔۔۔ سید حسن نصراللہ

سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے طوفان الاقصی کی کاروائی کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے مسلم ممالک کی طرف سے صہیونی ریاست اور امریکہ کو تیل کی ترسیل بند کرنے پر زور دیا اور کہا: بحیرہ روم میں امریکی بحرے بیڑے مقاومت کو خوفزدہ نہیں کرتے، وہ مقاومت کے نشانے پر ہیں۔ غزہ میں جاری صہیونی جرائم کا اصل کردار امریکہ ہے۔ [سید المقاومہ کے خطاب کا مکمل متن]

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے آج [روز جمعہ 3 نومبر 2023ع‍ کی] شام کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کے جنوبی نواح ـ شہدائے طریق القدس [راہ قدس کے شہداء] ـ کے عنوان سے، طوفان الاقصی کی کاروائی کے حوالے تاریخی خطاب کیا جس کو عالمی سطح پر چار ارب انسانوں نے براہ راست دیکھا۔ انھوں نے خطاب کے آغاز میں تقریر سننے کے لئے آنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا: لبنان کی اسلامی مقاومت راہ قدس کے شہیدوں پر فخر کرتی ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ 

اعوذ باللہ الرحمن الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد لله رب العالمین

والصلاة والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم محمد وآله الطاهرین وصحبه المنتجبین

وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین

السلام علیکم جمیعاً و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ سب محترم حضرات و خواتین کو، جو یہاں ہمارے فخر و عزت کے لئے جمع ہوئے ہیں، خوشامدید کہتا ہوں، آپ جو تمام شہداء، جن کی خاطر آپ اس مجلس تکریم میں اور تجدید عہد کی اس کی محفل میں، ان کے اہداف اور ان کا مشن جاری رکھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔  

آج ہم زندہ کرتے ہیں شہداء کی یاد کو، مقاومت اسلامی کے شہداء کی یاد کو، خواہ وہ حزب اللہ لبنان اور غاصب صہیونی ریاست کے خلاف لبنانی بریگیڈز کے شہداء ہوں، لبنان میں القسام بریگیڈز کے شہداء ہوں یا لبنان میں القدس بریگیڈز کے شہداء ہوں یا غیر فوجی عوام جو صہیونیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے؛ جن میں کئی افراد صحافی اور نامہ نگار بھی تھے۔

سب سے پہلے شہداء کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا، فی الحاد لبنانی شہداء کے بارے میں، چاہے وہ لبنانی ہوں یا فلسطینی، جو لبنان میں تھے۔ کے گھرانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کے پیارے اس درجے پر فائز ہوئے۔ اور تعزیت پیش کرتا ہوں اپنے ان جگرگوشوں کے کھو دینے پر، بہر حال وہ اپنے خاندانوں سے جدا ہو گئے، باپ تھا، شریک زندگی تھا، بیٹا تھا اور ہم سے الگ ہو کر چلے گئے، اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہوں کہ ہم سے قبول فرمائے ان شہیدوں کو، اور شہداء کے گھرانوں کے لئے یہ سب تبریکات اور تعزیتیں غزہ کی پٹی تک، مغربی کنارے تک، بھی پہنچیں جہاں بھی کوئی شہید زمین پر گرا اس جنگ میں اس طوفان الاقصیٰ میں ۔ جو آج کئی مقامات اور کئی میدانوں میں جاری ہے اور کئی نقطوں تک پھیل گیا ہے۔ شہداء کے بارے میں اس وقت زیادہ بات نہیں کر سکتا۔ کچھ دن بعد یوم شہید ہے، اور اس بارے میں زیادہ باتیں ہو نگی۔

شہداء، کامیاب ہو گئے اور بڑی کامیابی حاصل کر گئے، ریاست کے خلاف ، بعض آیات قرآنی کی تلاوت کرتے ہیں جو شہیدوں اور شہادت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، کہ ہم سمجھ لیں کہ ہمیں ان پر فخر کرنا چاہئے، یقین تک پہنچنا چاہئے کہ وہ جو اپنے خاندانوں کے لئے باعث فخر اور باعث احترام ہیں۔ جس جگہ وہ پہنچے، ایسی جگہ کہ جسے نہ آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا اور نہ کسی ذہن میں مجسم ہوئی ہے، خدائے متعال شہداء کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

"اور جو لوگ راہ خدا میں شہید کیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہیں ہونے دے گا * وہ عنقریب انہیں (جنت کی) سیدھی راہ پر ڈال دے گا اور ان کے احوالِ (اُخروی) کو خوب بہتر کر دے گا * اور (بالآخر) انہیں جنت میں داخل فرما دے گا جس کی اس نے (پہلے ہی سے) انہیں خوب پہچان کرا دی ہے * اے ایمان والو! اگر تم اﷲ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط رکھے گا"۔ (سورہ محمد 4-6)۔

اور سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا: "اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں * اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں خوشخبری دیتے ہیں (کہ قیامت کے روز ) ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے *  وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پربھی کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (آل عمران، آیات 69-72)

تو شہداء اس وقت زندہ ہیں، میرا مطلب قیامت کی زندگی نہیں ہے، ابھی قیامت نہیں ہوئی، میں تو سب زندہ ہوجاتے ہیں؛ جبکہ شہداء اسی وقت زندہ ہیں، وہ مرے نہیں ہیں، وہ خوش ہیں، رزق پاتے ہیں، اللہ کے فضل سے، اور سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے: " اور انہیں جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں یہ نہ کہو کہ مردہ ہیں، بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں ہے"، (آیت 154) 

مبارک ہو تمام شہیدوں کو، شوق سے لذت اٹھایئے ان انعامات سے جو انہیں اللہ کی طرف سے نصیب ہونگے۔ مجاہد شہداء، مظلوم شہداء، شہید ہونے والے مرد، خواتین، بچے اور سن رسیدہ افراد، آپ سب شہیدوں کو مبارک ہو، وہ جو اس دنیا سے اگلے عالم میں منتقل ہوتے ہیں اللہ کے قرب میں، انبیاء اور فرشتوں اور رسولوں اور اللہ کے اولیاء اور شہداء کے پاس؛ کیونکہ نہ وہاں کوئی استکبار ہے نہ ہی کوئی طاغوت، نہ وہاں صہیونی استبدادیت ہے، نہ وہاں کوئی جارحیت اور زیادتی ہے نہ قتل عام ہے۔

چنانچہ ہم اسی اعتقادی موقف سے شہادت کو دیکھتے ہیں، شہداء کو گھرانوں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور میں ان گھرانوں سے کہتا ہوں کیونکہ آپ کے فرزند اور آپ کے اعزہ ایسے معرکے میں چلے گئے جو روئے زمین پر جاری و ساری ہے، میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ اگر ہم کسی ایسے معرکے میں شامل ہونا چاہیں جو انسانی لحاظ سے، اخلاقی لحاظ سے، دینی لحاظ سے جائز اور صحیح ہو تو ہمیں کوئی جنگ نہیں ملے گی اور ایسی جنگ کو نہیں دیکھ سکیں گے، جو صہیونیوں اور ان صہیونیوں اور غاصبوں کے ساتھ جنگ سے زیادہ مقدس ہو، یہ ایک ایسا معرکہ ہے کہ اس کو اوپر انسانیت کے لحاظ سے بھی، اخلاقیات کے لحاظ سے بھی اور شرعی لحاظ سے بھی کوئی بھی دھول [یا ابہام] نہیں ہے۔ لہذا یہ اللہ سبجانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہاد کا واضح ترین، روشن ترین اور عظیم ترین مظہر ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم سب کو جاننا چاہئے۔ آج ہم شہداء کے خاندانوں کی طرف توجہ دیتے ہیں، ہم ان پر فخر کرتے ہیں، یہ ہماری عزت ہیں۔ دنیا نے بھی سنا اور ہم نے بھی سنا ان کے موقف کو ان کی باتوں کو، کہ کتنے بہادر، ثابت قدیم اور صاحب یقین ہیں، اللہ کے سامنے تسلیم و رضا کا مظہر ہیں، اور یہ کہ اللہ نے کس طرح ان کے بچوں کو منتخب کیا اور یہ ہماری حقیقی قوت ہے، اسلحے سے بھی زیادہ بڑی قوت، یہی ایمان، یہی بصیرت، یہ آگہی، ہمارے موضوعات کی یہ گہری پابندی، یہ صبر و تحمل جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جنہیں آج شہداء کے والدین، زوجات، اور اولادوں اور خاندانوں، نے انہیں بیان کیا۔ نیز درود و سلام بھیجتے ہیں افسانوی قوم پر، جس کی کوئی مثال نہیں ہے، غزہ کے پر، قوم غزہ پر، جنہیں ہم نے ٹیلی ویژن کے اسکرین پر دیکھا کہ ایک مرد، ایک عورت اور ایک بچہ ملبے سے باہر آتا ہے، جس کا گھر ویران ہو گیا ہے، افراد خاندان شہید ہو گئے ہیں، اونچی آواز سے کہتے ہیں کہ "جو کچھ بھی ہم نے دے دیا، وہ مقاومت پر، مسجد الاقصٰی  پر اور فلسطین پر فدا ہو۔ اصل قوت یہاں ہے، یہاں ہے وہ قوم جس کی عظمت، صبر و استحکام اور بہادری بیان کرنے سے زبان و قلم قاصر ہے۔ نیز وہ سب کچھ جو ہم مغربی کنارے میں دیکھتے ہیں جانفشانی ہے اور استقامت و استحکام، اور تمام مستحسن اوصاف ہیں۔ 

بھائیو اور بہنو

آج میرے خطاب کا زیادہ تر حصہ موجودہ صورت حال پر مرکوز ہوگا، اپنا موقف بیان کریں گے، اور دیکھیں گے کہ ہمیں اس صورت حال میں کیا کرنا ہے، ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اور مستقبل کیا ہوگا؟

بعض باتوں کا تعلق لبنان اور اس کے داخلی امور سے ہے جن کے بارے میں مستقبل میں تفصیل سے بات کروں گا۔

میں ابتداء میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں انہیں جنہوں نے غزہ اور مقاومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، مظاہرے کئے، اور نعرے لگائے، مقاومت اور غزہ کی تائید و حمایت اور مدد و پشت پناہی کی، پوری دنیا میں، ان حکومتوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ان عرب، اسلامی اور لاطینی امریکی حکومتوں کا اور اقوام عالم کو اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان تمام اقدامات اور موقفوں کو جو اخذ کئے گئے ہیں۔

بالخصوص عراقی اور یمنی بازوؤں کو جو معرکے کے قلب میں داخل ہو گئے۔

بھائیو اور بہنو!

سوال یہ ہے کہ وہ پس منظر کیا تھا کہ جو اس مرحلے تک پہنچا کہ سات اکتوبر 2023ع‍ طوفان الاقصی کا آغاز ہؤا اور حماس نے اس جنگ کا آغاز کیوں کیا؟

آپ جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کا رنج و غم گذشتہ 75 برسوں سے جاری ہے اور آپ جانتے ہیں یہ سب۔ لیکن فلسطین کی حالیہ برسوں کی صورت حال بہت سخت تھی، خصوصا اسرائیل میں اس احمق، کند ذہن اور وحشی کابینہ کے برسراقتدار آنے کے بعد۔ چار موضوعات وہ ہیں جنہوں نے فلسطین کو شدید دباؤ سے دوچار کیا۔

سب سے پہلا مسئلہ اسیروں کا تھا۔ ہزاروں فلسطینی مرد، خواتین اور بچے صہیونی ریاست کی جیلوں میں بند ہیں، جن میں سے بعض طویل عرصے سے قید ہیں۔ بعض مریض ہیں، اور قریب الموت ہیں۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اور اس انتہاپسند کابینہ اور احمق وزیروں کی حکومت کابینہ کے دور میں پر قیدیوں اور ان کے اہل خانہ پر دباؤ بڑھایا گیا۔ اس مسئلے کا انسانی پہلو بہت سخت ہو گیا۔

دوسرا مسئلہ، قدس شریف اور مسجد الاقصٰی کا مسئلہ ہے۔ بالخصوص وہ واقعات جن سے قدس شریف اور مسجد الاقصٰی کو حالیہ مہینوں اور سات اکتوبر اور طوفان الاقصٰی سے پہلے کے چند ہفتوں میں، گذرنا پڑا ہے۔ ان آخری ہفتوں میں مقبوضہ سرزمین اور مسجد الاقصٰی کے مسائل کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

 تیسرا مسئلہ غزہ کا محاصرہ ہے جو تقریبا 20 برسوں سے جاری ہے، 20 لاکھ زیادہ انسان وہاں ایک تنگ جغرافيائی ماحول اور سخت حالات میں جی رہے ہیں۔ اس دنیا میں کوئی بھی ان کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہا تھا۔

چوتھا مسئلہ ان چیلنجوں سے تعلق رکھتا تھا جن کا مغربی کنارے کو سامنا کرنا پڑا۔ زمین چور یہودیوں کے لئے نئے قصبوں کی تعمیر کا سلسلہ بھی تھا جو انتہاپسند صہیونی کابینہ نے حالیہ ہفتوں میں شروع کیا تھا؛ علاوہ ازیں مغربی پٹی میں ہر روز قتل اور گھروں کی ویرانی کے لئے ہونے والی کاروائیاں بھی جاری تھی۔

ان چار مسائل کی وجہ سے فلسطین میں مقاومتی تحریکوں پر کافی دباؤ آیا  اور کوئی بھی نہیں پوچھتا، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل، عرب لیگ، اسلامی کانفرنس اور یورپی اتحاد جیسے عالمی اداروں نے نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ فلسطین کا مسئلہ، اور اس سرزمین پر رونما ہونے والے واقعات کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا تھا، اور یہ ان مسائل کا حمل ان کے ایجنڈے پر ہی نہیں تھا۔ اور دوسری طرف سے دشمن کی تشدد پالیسیوں اور مظالم میں مسلسل اضافہ ہؤا، اور فلسطینیوں کی تذلیل میں بھی اضافہ ہؤا۔ چنانچہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونا چاہئے تھے، جو اس غاصب ریاست کو جھنجھوڑ دے، ور ان کے حامیوں کو ـ بطور خاص واشنگٹن اور لندن میں ـ تھوڑی سے سزا دینا ضروری ہو گیا تھا۔

ضروری ہو گیا تھا کہ تمام فائلوں کو دوبارہ کھول دیا جائے اور مسئلہ فلسطین کو دوبارہ رائے عامہ میں لوٹایا جائے۔ اور اس مظلوم ملت کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے نمایاں کر دے، ان مقدسات کو جنہیں ہر روز خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کو پھر بھی سامنے لانا چاہئے تھا، دوباری شہ سرخی میں بدلنا چاہئے تھا؛ چنانچہ سات اکتوبر کی عظیم جہادی کاروائی کا آغاز ہؤا۔ اس کاروائی کا آغاز عزالدین قسام(رض) بریگیڈز نے کیا۔ اور غزہ پٹی میں بعض مقاومتی تحریکوں نے بھی ساتھ دیا۔ یہ اس کاروائی کا پس منظر تھا۔

اس عظیم کاروائی کا فیصلہ 100٪ فلسطینی تھا؛ اور اس کا نفاذ بھی 100٪ نے کیا۔ یہ درست ہے کہ اس کاروائی کے منصوبہ سازوں نے اسے صیغۂ راز میں رکھا تھا، حتی کہ غزہ میں موجود بعض جہادی تحریکوں سے بھی اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔ چنانچہ بعض ممالک یا محور مقاومت کے دوسرے ارکان تو ویسے بھی بے خبر تھے۔  خفیہ رکھنے کی اسی پالیسی کی وجہ سے ہی، یہ کاروائی اس حد تک کامیاب رہی اور یہ سب کے لئے ایک ناگہانی واقعہ رہا۔ گو کہ بعض لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں، مجاہدین کے حوصلے گرانا چاہتے یا فتنہ آنگیزی کرنا چاہتے ہیں۔

ان لوگوں کی باتوں کے برعکس، اس کاروائی کی خفیہ منصوبہ بندی ہمارے لئے ناراضگی کا باعث نہیں تھی، محور مقاومت میں کوئی بھی ناراض نہيں ہؤا اور کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں یہ سب کیوں معلوم نہ تھا، بلکہ ہم سب نے القسام بریگیڈز اور حماس کو مبارکباد پر پیغامات بھی بھیجے اور خراج تحسین بھی پیش کیا کیونکہ کسی بھی کاروائی کے لئے کامیابی کا راز یہی ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے۔ اس کاروائی نے ہم پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں کیا، اور ہمارے کسی بھی فیصلے پر اس کا منفی اثر نہيں ہوگا۔ حماس میں ہمارے برادران کی یہ کاروائی ہمارے معرکے اور ہمارے اہداف کی اصل حقیقت پر تاکید ہے۔ اس کاروائی نے ان دشمنوں، منافقوں اور فتنہ پرور عناصر پر راستہ بند کر دیا چنانچہ وہ اب حقائق تحریف کرنے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اور وہ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ حماس کی کاروائی کا تعلق [فلسطین سے باہر] کسی دوسری مقاومتی تحریک  سے تھا۔ اب وہ اسے ایران کے ایٹمی مسئلے، ایران اور یورپ کے دوطرفہ مذاکرات یا ایرانی-امریکی مذاکرات سے نہیں جوڑ سکتے اور نہیں کہہ سکتے کہ کاروائی خطے میں ایران کے اہداف و مقاصد کے لئے تھی۔

یہ دعوے کرنے والے لوگ درحقیقت اس مسئلے کو اصل راستے سے منحرف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب جھوٹ اور دھوکہ ہے۔

اسی ایک بات سے ـ کہ کوئی بھی اس کاروائی کی خبر نہیں رکھتا تھا ـ ثابت ہے کہ طوفان الاقصٰی کاروائی سو فیصد فلسطینی ہے، فلسطینیوں کے لئے تھی فلسطینی مسائل و موضوعات کے لئے ہے، فلسطینی محور کے لئے ہے، فلسطینی قوم کے لئے ہے، دوسرے علاقائی یا بین الاقوامی مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

 اس کاروائی کا ایک مقصد یہ ہے کہ دوست بھی جان لے اور دشمن بھی جان لے ان حقائق کو، گو کہ کچھ لوگ  سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔ بلا شبہ مقاومت کے فیصلے مقاومت کے کمانڈروں کے ہاتھ میں ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کے ہاتھ اپنی تاسیس سے لے کر آج تک، جبکہ اس کی قیادت امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے ہاتھ میں ہے، مقاومت کی حمایت کرتی ہے، مدد کرتی ہے، آشکارا، روز روشن کی طرح، خطے میں تمام اسلامی مقاومتی تحریکوں کی مدد و حمایت کرتی ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے متعلقہ حکام نے ڈکٹیٹ نہیں کیا اور کوئی تقاضا نہیں کیا اور آج تک مقاومت کے کمانڈروں سے کچھ نہيں مانگا۔ ماضی کے واقعات اور آج طوفان الاقصی  کی کاروائیوں کے حقآئق سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوئی ہے۔ مستقبل میں بھی اس طرح کی کاروائیاں ہو سکتی ہیں چنانچہ سب کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہئے کہ کاروائیوں کے اصل صاحبان اختیار خود مقاومت اور اس کے کمانڈرز اور مجاہدین ہیں۔ 

بھائیو اور بہنو!

اس واقعے اور اس کے اثرات کے بارے میں ہم زیادہ نہیں بول سکتے، سات اکتوبر کو سب نے دیکھا یہ ایک دلیرانہ اور شجاعانہ کاروائی تھی، طوفان الاقصٰی ایک عظیم تخلیقی کارنامہ تھا، سب پر لازم ہے کہ اس کاروائی کے منصوبہ سازوں اور مجاہدوں پر سلام بھیجیں۔ اس عظیم کاروائی نے کیا کیا؟ یہ کس چیز پر منتج ہوئی؟ طوفان الاقصی کاروائی غاصب ریاست کے اندر ایک بھونچال پر منتج ہوئی، ایک عظیم سیاسی، فوجی، سیکورٹی اور نفسیاتی بھونچال پر۔ اس کے متعدد تزویراتی، وجودی اور شناختی نتائج اور اثرات ہیں و نتائج ہیں۔ یہ کاروائی حال حاضر میں بھی اور اس غاصب ریاست کے مستقبل پر بھی اثرات مرتب کرے گی۔ حالیہ ایک مہینے میں غاصب دشمن نے جو بھی کیا اور جو کچھ بھی اگلے دنوں اور ہفتے میں کرے گا، وہ اس کاروائی کے نتائج کو ہرگز بدل نہیں سکے گا۔ کوئی بھی چیز اس کے آثار کو کم نہیں کر سکتی۔ غاصبوں کے ساتھ معرکے کے قواعد اور مستقبل کے معرکوں پر اس کاروائی کے گہرے اثرات باقی رہیں گے۔ اس کاروائی نے بہت سارے حقائق کو آشکار کر دیا جنہیں ہم سب کو جان لینا چاہئے۔ اس عظیم کاروائی کے نتائج اور اثرات بہت زیادہ ہیں اور اب وقت کی کمی کی وجہ سے ان کی تشریح شاید اس وقت ممکن نہ ہو۔

اس کاروائی سے صہیونی ریاست کی سستی، زد پذیری اور کمزوری ثابت ہوئی اور ثابت ہوؤا کہ یہ ریاست مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ میں نے بعض صہیونی اخبارات اور جرائد میں پڑھا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلیوں نے خود یقین کر لیا، حسن نصراللہ سے بھی زیادہ، یقین پر پہنچے کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے۔ اور یہ وہی حقیقت ہے جس کو طوفان الاقصٰی نے ثابت کرکے دکھایا۔ طوفان الاقصی نے امریکیوں کو اور اس کے صدر، وزراء اور جرنیلوں کو عجلت زدگی اور جلدبازی سے دوچار کیا اسی کاروائی نے عجلت زدہ کردیا، وہ فوری طور اس ریاست کو سنبھالا دینے آگئے جو ڈگمگا گئی ہے، اور چاہا کہ یہ ریاست اس حیرت و پریشانی سے باہر آجائے اور اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے۔ وہ غاصب ریاست کو امور و معاملات کو سہارا دینے آئے لیکن کوششوں کے باوجود، ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور غاصب ریاست اپنے معاملات کا انتظام ابھی تک نہیں سنبھال سکی ہے، حالانکہ امریکیوں نے ہمہ جہت امداد و حمایت کی۔ امریکی جلدبازی اور گرتی صہیونی ریاست کو گود میں لے مزید دھنسنے سے نجات دلانے کی اس امریکی عجلت زدگی سے معلوم ہؤا کہ کس قدر سست بنیاد اور کمزور ہے یہ ریاست۔

دیکھئے، ایک محصور علاقے سے شروع ہونے والی طوفان الاقصٰی کاروائی کے پہلے ہی دن غاصب ریاست کو بحیرہ روم میں امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی کی ضرورت پڑی۔ تاکہ صہیونیوں کی حوصلہ افزائی ہو اخلاقی حمایت ہو اور فوجی پشت پناہی بھی ہو۔ تو ہم پوچھتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ تمہاری طاقتور فوج کہاں گئی؟ تمہاری فضائیہ کہاں ہے؟ کہاں ہے وہ اسرائیل جو ہمیشہ فخر و غرور سے کہتا تھا کہ اس کے پاس خطے کی سب سے بڑی فوج ہے؟ یہ تمہارا حال ہے کہ امریکی بحری بیڑوں اور طیارہ بردار جہازوں کو آنا پڑا تاکہ کچھ سہارا دے دیں۔ اور امریکی جرنیل اور فوجی ماہرین آکر اس ریاست کی مدد کریں۔ پہلے ہی دن سے امریکہ کے تمام تر تزویراتی گوداموں کے دروازے اسرائیلیوں کے لئے کھول دیئے گئے۔ پہلے دن ہی سے اسرائیل کہنے لگا کہ اسے نئے ہتھیاروں اور نئے میزائلوں کی ضرورت ہے، اور امریکہ نے وہ سب کچھ دے دیا۔ اسرائیل کو پہلے دن سے ہی ـ جبکہ ابھی جنگ صحیح معنوں میں شروع بھی نہیں ہوئی تھی ـ کہنے لگا کہ اس کو 10 ارب ڈالر کی مدد درکار ہے۔ اور یہ امداد بھی اسے مل گئی، تو سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ایک طاقتور ریاست ہے؟ یہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے؟ یہ ریاست اس قدر امریکی امداد کی محتاج کیوں ہے پھر؟

یورپ سے بھی امداد کا سیلاب جاری ہؤا، ان کے وزرائے اعظم اور دوسرے وزراء، جرنیل اور وزرائے دفاع پوری دنیا سے آ گئے۔ اسرائیل کی حوصلہ افزائی کے لئے!

طوفان الاقصٰی نے تمہارے ساتھ کیا کیا ہے اسرائیلی حکومت؟

ان اثرات و نتائج کی تشریح ضروری ہے، اب وقت کی قلت ہے، ان کی وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ ہم جان لیں کہ یہ جانفشانیاں جو اس وقت غزہ اور مغربی کنارے اور دوسرے محاذوں میں ہو رہی ہیں یہ سب کچھ حق ہے۔

یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ کیا حماس نے منصوبہ بندی نہیں کی تھی، اور اندازے نہیں لگائے تھے؟ یقینا منصوبہ بندی ہوئی تھی اور یہ جانفشانیاں اور یہ قربانیاں اتنی عظیم کامیابیوں اور فتوحات کی مستحق ہیں کیونکہ اس کاروائی نے دشمن کے ساتھ معرکوں اور ایک نئے تاریخی مرحلے کے لئے، مستقبل کے لئے، اور فلسطین کے لئے اور خطے کے ممالک کے لئے ایک نئی بنیاد رکھ لی۔ چنانچہ طوفان الاقصٰی کاروائی بالکل بجا اور درست تھی۔ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، اور نہیں ہے۔ دوسرا آپشن خاموشی ہے، منہ بند رکھنا ہے، منتظر رہنا اور موت کا انتظار کرنا ہے، مغربی کنارے اور قدس کے ہاتھ سے چلے جانا کا انتظار ہے، محاصر میں شدت آنے اور فلسطینی اسیروں کی موت کا انتظار ہے! چنانچہ کاروائی کا آپشن بالکل صحیح، حکمت آمیز اور شجاعانہ، بر حق تھا اور ان قربانیوں کے قابل تھا، اور اس کی ضرورت تھی۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ دشمن نے 7 اکتوبر اور طوفان الاقصٰی کے مقابلے میں کیا رویہ رکھا؟

بہت واضح ہے کہ طوفان الاقصٰی کے فورا بعد صہیونی دشمن بھٹک گیا تھا، کھو گیا تھا، صرف ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ سینیچر کا دن تھا، یہودی جشن منا رہے تھے، وقت کا تعین مقاومت نے بہت باریک بینی سے کیا تھا۔ رت جگے کی وجہ سے سو رہے تھے، یا نشے میں دھت تھے، صرف غزہ کے آس پاس ہی نہیں بلکہ تل ابیب اور قدس میں بھی یہی صورت حال تھی۔ کئی گھنٹے بعد ہی نیتن یاہو وغیرہ نے آکر رد عمل ظاہر کیا۔ غاصب صہیونی پریشانی اور حیرت سے دوچار تھے؛ ان پر جنون اور ہسٹیریائی غصے کی کیفیت طاری تھی۔ وہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کیا واقعہ رونما ہؤا ہے، چنانچہ جب صہیونی قصبوں کو مقاومت سے واپس لینے کے لئے غزہ کے اطراف کے پہنچے تو جیسا کہ انھوں نے خود ہی کہا، خود ہی یہودی بستی نشینوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا اور وسیع پیمانے پر اپنے صہیونیوں کو ہلاک کردیا۔ [موقع پر موجود صہیونیوں نے بارہا کہا کہ "ہمیں اسرائیلی فوج نے مارا ہے"، لیکن ان کی آواز اب تک دبا دی گئی ہے]۔

اب وہ تمہت لگا رہے ہیں کہ گویا حماس اور دوسری مقاومتی تحریکوں نے صہیونیوں کا قتل عام کیا ہے

جنون طاری تھا کہ یہ سب کیا ہؤا سات اکتوبر کے دن؟ اور بہت ساری آوازیں اٹھ گئی ہیں، صہیونی ریاست کے اندر مضامین شائع ہونے لگے ہیں، جن میں اس حقیقت پر زور دیا جا رہا ہے کہ [مسلح یہودی] بستی نشینوں کو [جنہیں وہ نہتے اسرائیلی شہری کہہ رہے ہیں] کو خود اسرائیلی فوجیوں نے ہلاک کر ڈالا۔ مستقبل میں جب حقیقت یاب کمیٹیاں قائم ہونگی اور جب تحقیق ہوگی تو دنیا دیکھ لے گی کہ جنہیں وہ عام شہری کا نام دے رہے ہیں، وہ اپنے نوآباد قصبوں میں اسرائیلی فوج کے میزائلوں اور توپخانے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہ غیظ و غضب اور جنون اور ہسٹریا کے ساتھ ان شہروں کو چھڑانا چاہتے تھے۔ بدمستی اور جنون کی حالت میں ان کے لئے نشانوں کا تعین ممکن نہیں تھا، اور اپنے ہی ہم ریاستیوں کو حماس سمجھ کر نشانہ بنایا۔

جہاں تک غزہ کا تعلق ہے، تو غاصب صہیونی دشمن گویا ماضی سے عبرت نہیں لینا چاہتے۔ نعرے بہت لگاتے ہیں کہ وہ تحقیق کرنا چاہتے ہیں، مسائل کی حقیقت معلوم کریں گے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اسرائیلی ماضی سے عبرت حاصل کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں۔ بالخصوص وہ لبنان اور فلسطین میں مقاومتی تحریکوں اور تنظیموں کے ساتھ اپنی جنگوں سے ہرگز عبرت حاصل نہیں کرتے۔

ظاہر ہے کہ جو کچھ آج وقوع پذیر ہو رہا ہے، وہ اس سے پہلے 2006ع‍ کے دوران کے ساتھ 33 روزہ جنگ یا غزہ کے ساتھ دہرائی گئی جنگیں، ـ جن کی سطح البتہ موجود جنگ سے مختلف تھی ـ عبرت آموز ہیں صہیونیوں کے لئے۔ اسرائیلیوں نے ایک سے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا جس کا اب بھی وہ ارتکاب کر رہے ہیں، اہداف اور نشانوں (Targets) کے تعین کا مسئلہ تھا۔ صہیونیو! تم نشانوں اور پروگراموں کا اعلیٰ سطحی انداز سے تعین نہیں کر سکتے ہو، تم ان اہداف تک و مقاصد تک اور نشانوں تک رسائی نہیں پا سکتے ہو۔

مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ "ہم غزء میں حماس کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں"، تو سوال یہ ہے کہ تم پوری حماس تحریک کا خاتمہ کرنا چاہتے ہو؟ اگر کوئی کہے کہ "ہم غزء میں حماس کی حکومت کا تختہ اٹننا چاہتے ہیں یا "ہم حماس کے راہنماؤں کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں"، یا "ہم حماس کی عسکری شاخ کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کہہ رہے ہیں کہ پوری حماس کو نابود کرنا چاہتے ہیں، تو کیا کوئی صاحب عقل انسان ایسا مقصد متعین کرتا ہے؟ پھر جب ان کی آنکھ کھل گیا، نشہ اڑ گیا، بدمستی سے خارج ہوئے تو دوسرے مقصد کا اعلان کیا اور کہا: "ہم حماس سے اپنے قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کروانا چاہتے ہیں"، چھڑانا چاہتے ہیں"،

تو یک شخص جو ان مقاومتی تحریکوں واقف ہے لبنان اور فلسطین میں ان تحریکوں کی تاسیس سے لے کر اب تک، تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا کبھی بھی صہیونی اپنے قیدیوں کو مذاکرات اور رسمی مذاکرات کے بغیر رہا ہر سکے ہیں؟ یہ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے۔ مثلا 2006 میں لبنان میں کیا واقعہ رونما ہؤا؟ ہم نے ان کے دو قیدی پکڑ لئے، تو بولے، جنگ کا مقصد حزب اللہ کا خاتمہ ہے، امریکہ نے بھی مدد کی مغربیوں نے بھی مدد کی، عرب ممالک نے بھی مدد کی، مقصد حزب اللہ کو نابود کرنا اور دو قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کروانا تھا۔ 33 روز تک لڑے لیکن نہ حزب اللہ کو نیست و نابود کر سکے نہ ہی اپنے قیدیوں کو مذاکرات اور غیر مشروط طور پر رہا کرو سکے۔ یہ تجربہ بھی وہی تجربہ ہے۔ غزہ میں بھی یہی واقعہ رونما ہؤا ہے، ہاں جرائم، نسل کشی، قتل و غارت، اور ویرانی اور تباہی پھیلانے کے حوالے سے موجودہ صورت حال لبنان کی 2006 کی صورت حال سے مختلف ہے۔

سنہ 2006 میں صہیونیوں نے لبنان میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مکانات کو ویران کر دیا، ہزاروں لبنانی شہید ہوئے؛ لبنانی عوام نے صبر و استقامت سے کام لیا، جمے رہے اور دشمن کو آخر کار رکنا پڑا اپنے اعلان کردہ اہداف و مقاصد سے پسپا ہو گیا، ، گھروں کو ویران کردیا دشمن نے اور عوام نے استقامت کی اور صہیونی صلح پر مجبور ہوئے اور شرائط کو بدل دیا۔

آج بھی جو کچھ فلسطین اور غزہ میں ہو رہا ہے، اس سے غاصب دشمن کی حماقت، اور کند ذہنی کا پتہ ملتا ہے۔ آج وہ کیا کررہا ہے، انسانوں کو قتل کر رہا ہے، شہداء میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ شہداء کی غالب اکثر نہتے اور غیر فوجی فلسطینی ہیں؛ ویران کر رہا ہے، گرجا گھروں، مساجد، اسپتالوں، اداروں اور اسکولوں کو تباہ کررہا ہے، غزہ میں کسی چیز کے لئے حرمت کا قائل نہیں ہے، پورے محلوں کو دنیا کی آنکھوں کے سامنے تباہ کر رہا ہے دنیا کی آنکھوں کے سامنے! اس کے پاس اسلحہ ہے، خطے کی سب سے بڑی فضائیہ کا مالک ہے؛ کوئی بھی فوج یہ کام کر سکتی ہے جس کے پاس چند طیاروں ہوں، ، کسی بھی چیز کے لئے یکن ایک مہینہ ہؤا، اور اس عرصے میں وہ ایک فوجی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکا ہے۔

لبنان کی طرح، حب زمینی جنگ کے لئے داخل ہوا ، 33 روزہ جنگ کا منظرنامہ دہرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے دیکھا کہ قتل عام، نسل کشیوں، تباہ کاریوں اور عوام کے شہید اور بے گھر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، دیکھا کہ مقاومت کے حوصلوں کو کمزور نہیں کر سکا ہے، تو زمینی حملے کا آغاز کیا۔ بہادریوں اور دلیریوں کو دیکھا مارون الراس میں، جبیل میں، عیتا اور دوسرے علاقوں میں، اور دنیا نے دیکھا کہ ان کے ٹینک کس طرح ٹوٹ کر کر ٹکڑوں میں بٹ رہے ہیں، تو مقصد بدل گیا۔ یہی کچھ وہ اس وقت غزہ میں کر رہے ہیں۔ اب وہ غزہ میں زمینی محاذ سے ناخل ہونا چاہتا ہے تو فکرمند ہے، دنیا سے کہہ رہا ہے کہ زمینی حملہ کرے گا لیکن تشویش میں مبتلا ہے، احتیاط سے آگے بڑھتا ہے، اور بالکل کمزور اور بے بس ہے، اور جو مختصر سی پیشقدمی کی اس نے تو ہم نے دیکھا، اور دنیا نے دیکھا غزہ میں غزہ کے فرزندوں کی شجاعت اور بہادری کو۔ فلسطینی مجاہدین دوڑ کر ٹینک شکن بم ٹینک سے چسپاں کر دیتے ہیں۔ تو یہ [صہیونی] فوج ایک ایسی سرزمین میں اس طرح کے مجاہدوں سے کیونکر لڑ سکے گا؟ یہ دشمن کی وہی پرانی حکمت عملی ہے۔ 

صہیونی دشمن زمینی جنگ سے ڈرتا ہے، بے بس ہے، کمزور ہے۔ ہاں ایک خاص مہارت رکھتا ہے یہ دشمن، کہ جرائم کا ارتکاب خوب کرتا ہے اور نسل کُشی خوب کرتا ہے، یہ ان کی 75 سالہ پالیسی ہے۔

جرائم، قتل اور نسل کُشی کے سوا صہیونیوں کو کچھ بھی نہیں آتا، وہ مقاومت کے کمانڈروں کا ارادہ کمزور کرکے انہیں ہتھیار ڈالنے اور اپنے سامنے کورنش بجا لانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ صہیونی دن رات بہیمانہ حملے کر رہے ہیں، بچوں اور خواتین کا قتل عام کر رہے ہیں، لیکن فلسطینی مرد، خواتین اور بچے اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے سے نکل کر مقاومت کی حمایت پر مبنی کامیابی اور فتح کے نعرے لگاتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جنگ غزہ کی کامیابی اور صہیونی دشمن کی شکست پر اختتام پذیر ہوگی۔  اور یہ دشمن ان نسل کشیوں اور قتل عام سے، کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔

میرے بھائیو اور بہنو!

جو کچھ غزہ میں ہو رہا اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے، یہ ہمیں ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ غاصب ریاست کی وحشی اور درندہ فطرت ہے جس کا بیج ہمارے اس خطے اور فلسطین میں بویا گیا، مسٹر بالفور کے وعدے کی بنیاد پر، جس کے بدنام زمانے اعلامیے کی برسی ایک دو دن قبل تھی، کہ یہ ریاست ان کی حمایت کرے اور ان کی چھاؤنی کا کردار ادا کرے، اور خطے کے ممالک کی تسخیر کے لئے کام کرے۔ صرف ملت فلسطین ہی ان کے نشانے پر نہیں تھی بلکہ وہ ان کا ہدف اردن، شام، لبنان سمیت پورے خطے، سب کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔

پہلی بات یہ ہے کہ آج اتنا عرصہ گذرنے کے باوجود، جس کے دوران انھوں نے خطے کے ممالک سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ جو ریاست آپ کے پڑوس میں قائم ہوئی ہے یہ ایک جمہوری ملک ہے جو انسانی اور اخلاقی اقدار پر استوار ہے اور یہاں قانون کی حکمرانی ہے، یہ حکومت بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتی ہے، آج غزہ کے شہداء، غزہ کے عوام اور غزہ کے بچوں نے سب کچھ واضح کر دیا، مظلوموں نے واضح کر دیا اس سے پہلے کے صہیونی مظالم کے وقت بھی واضح کر دیا اور ان کے جھوٹے دعوؤں کو خاک میں ملا دیا۔ مغربی اور عربی سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ نے بدقسمتی سے اپنی قوموں کو دھوکہ دیا اور تلقین کی کہ غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات قائم کریں یا اس کے جرائم کے سامنے خاموشی اختیار کریں۔

دوسری بات یہ کہ اس پورے قتل عام اور نسل کشی میں امریکہ برابر کا شریک ہے اور یہ سب امریکی منافقت کا نتیجہ ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم [اسرائیلی] اپنا دفاع کرو لیکن عام شہریوں کو مت مارو، یہ سب باتیں بے بنیاد اور کھوکھلی ہیں۔ تمہاری چہیتے اسرائیلی 30 دن سے پوری دنیا، مغربی حکومتوں کی آنکھوں کے سامنے ـ جو انسانی حقوق اور اخلاق وغیرہ کے دعویدار ہیں ـ غزہ کو ویران کر رہے ہیں۔ انہوں نے جھوٹی افواہیں پھیلا دیں کہ حماس نے صہیونی بچوں کے سر قلم کئے ہیں، اور کوئی ثبوت بھی نہ دکھا سکے، اور اب جب ہزاروں فلسطینی بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور ان کے سر کٹ رہے ہیں اور ان کے جسموں کے ٹکڑے کئے جا رہے ہیں، تو یہ خاموش ہیں۔ یہ امریکہ، مغرب اور نام نہاد بین الاقوامی برادری اور نام نہاد بین الاقوامی قوانین کی اصل حقیقت ہے۔ یہ ہے ان کی درندہ خوئی، آپ اس مغربی چڑیا گھر کو اچھی طرح پہچان لیجئے۔

بھائیو اور بہنو!

ان حقائق کی رو سے، ہمیں جان لینا چاہئے کہ آج غزہ کی اس جنگ میں امریکہ براہ راست ذمہ دار ہے، غزہ کی ویرانی اور تباہی اور غزہ کی قوم کے خلاف ہونے والے اقدامات میں امریکہ کا براہ راست کردار ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کر رہا ہے، اسرائیل صرف ایک بازو ہے امریکہ کا۔ امریکہ ہی ہے جو اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مذمت کے اعلان کی راہ میں رکاوٹ ہے، امریکہ غزہ میں جنگ بندی کی راہ مین رکاوٹ ہے، امریکہ ہی غزہ پر جارحیت کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اور امریکی ان دنوں زیادہ آشکار انداز سے ثابت کر رہے ہیں کہ ـ  جیسا کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے فرمایا تھا ـ امریکہ بڑا شیطان ہے، یہ سب آج پوری دنیا کے سامنے ثابت ہو رہا ہے۔ امریکہ پہلا ذمہ دار ہے، امریکہ ہی ذمہ دار ہے ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے لے کر ویت نام اور عراق، افغانستان، لبنان اور فلسطین اور پورے خطے تک؛ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جرائم کے حوالے سے اس کا احتساب کیا جائے، ہمارے خطے کی اقوام کے خلاف جرائم کی بنا پر اس کو سزا ملنی چاہئے۔

بھائیو اور بہنو!

اسی بنیاد پر ہم عراق کی اسلامی مقاومت کو دیکھتے ہیں جس نے عراق اور شام میں قابض امریکیوں کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا کیونکہ امریکہ ہی ہے جو غزہ کی جنگ کا انتظآم و انصرام کر رہا ہے، اور اسے خود ہی اس کی قیمت چکانا پڑے گی، اور اپنے جرائم کے حوالے سے جوابدہ بننا پڑے گا عراق اور شام میں بھی اور فلسطین میں بھی، اور یہ عراقی مقاومت کے کمانڈروں کا عقلمندی اور حکمت پر مبنی فیصلہ ہے، اور بہت شجاعانہ فیصلہ ہے، اور ہم نے آج بھی سنا ہے، اور کل بھی سنا کہ انہوں نے نئے قدم اٹھائے ہیں اور سرزمین فلسطین کی طرف عزیمت کا اہتمام کیا ہے، اور کئی مقامات پر عراقی عوام اکٹھے ہوئے ہیں، اور اگلے اوقات اور آنے والے دنوں میں اس قسم کے اقدامات کے بارے میں زیادہ خبریں سننے کو ملیں گی۔ میں اس معزز اور با شرف مقاومت کو سلام و درود بھیجتا ہو جو غزہ میں اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کرتی ہے اور میدان میں اترتی ہے۔ 

بھائیو اور بہنو!

اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ رائے عامہ کی جنگ ہے اور رائے عامہ اس وقت شبہات، تحریفات، جھوٹ اور دھوکہ بازی اور مکاری سے بھری پڑی ہے۔ اور اب رائے عامہ خدا کے فضل سے پلٹ رہی ہے، اور سمجھ رہی ہے کہ بچوں کے قاتل کون ہیں؟ اور دنیا سمجھ گئی ہے کہ کیمروں کے سامنے ہی ہزاروں بچے اور خواتین کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور کے جسموں کے ٹکڑے کئے جا رہے ہیں، چنانچہ ہر شریف اور حریت پسند انسان کی ذمہ داری ہے، کہ حقائق کو رائے عامہ کے سامنے واضح کر دے،

حق و باطل اورانسانیت اور درندگی کے اس معرکے میں جو ظلم و ستم اور درندگی اور اس کی چوٹی پر امریکہ برطانیہ، اسرائیل اور بعض دوسرے مغربی ممالک، کے مقابلے میں میں جو کم از کم موقف جو اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ غزہ کے عوام کا دفاع ہے، یہ ہر انسان کے لئے ایک انسانی فریضہ ہے، فریاد اٹھائے، لکھ دے، رد عمل ظاہر کرے، مظاہرے کرے، حمایت کرے، مدد کرے، تقریر کرے، اگر کوئی لڑ سکتا ہے تو لڑے۔ یہ ہر انسان کا ایک انسانی فریضہ ہے۔ اگر کوئی خاموش رہے تو یقینا اسے ایک بار دیکھ لے کہ کیا وہ انسان بھی ہے؟ دیکھ لے کہ کیا اس کا کوئی دین بھی ہے یا نہیں ہے؟ اس کا کوئی شرف بھی ہے یا نہیں؟ یہاں سب کو ذمہ دار ہونا چاہئے، اور اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہئے۔

بھائیو اور بہنو! ذمہ دار بنیے۔

سنہ 1948ع‍ میں جب پوری دنیا نے فلسطین کی مدد و حمایت کو ترک کردیا، اور اسے تنہا چھوڑا تو ایک غاصب ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور فلسطینی عوام اور خطے کی حکومتوں اور عوام کو اس کا تاوان دینا پڑا اور اس کے منفی اثرات اور صدموں اور دکھوں کو برداشت کرنا پڑا، اس کے اثرات فلسطینی عوام کے ساتھ ساتھ اردن، مصر، شام اور لبنان کے عوام کو بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑی۔ لبنان کو اس جارح اور متجاوز ریاست کی جانب سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔

آج بھی وہی حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے یہ پچھلی جنگوں کی طرح نہیں ہے۔ ایک معمولی معرکہ نہیں ہے، یہ ایک تقدیر ساز اور تاریخ ساز جنگ ہے، اور جو کچھ اس کے بعد سامنے آئے گا، مطلقاً اس سے پہلے کی طرح نہیں ہوگا۔ چنانچہ سب کو اپنی ذمہ داری سے واقف ہونا چاہئے۔  ذمہ دار بننے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے قلیل مدتی اور طویل مدتی مقاصد کا تعین کریں اور ان مقاصد پر کام کریں۔ اس وقت ہمارے سامنے دو اہم مقاصد پر کام کرنا پڑے گا:

پہلا ہدف غزہ کی پٹی پر ہونے والی جارحیت کو روکنا ہے۔ اور غزہ پر مسلط کردہ جنگ کا خاتمہ ہے جس پر ہم سب کو شب و روز کام کرنا ہوگا۔

دوسرا ہدف و مقصد یہ ہے کہ غزہ اور مقاومت اور خاص طور پر حماس کو حتمی طور پر کامیاب ہونا چاہئے، اس کے لئے کار کرنا چاہئے۔ اور ہمیں ان اہداف کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہئے۔

پہلا ہدف یعنی جنگ کے خاتمے کے دلائل واضح ہیں؛ یہ ایک انسانی، اخلاقی، دینی، شرعی اور قانونی، ذمہ داری ہے اور ناقابل انکار ہے۔

دوسرا ہدف، اے میرے بھائیوں اور بہنو، اور اے وہ لوگو جو میری باتوں کو سن رہے ہو اور دیکھ رہے ہو، غزہ اور حماس کی کامیابی سب کے مفاد میں ہے۔ درست ہے کہ سب سے پہلے یہ فلسطین اور پوری فلسطینی قوم کے مفاد میں ہے، ـ کچھ لوگ شبہہ ڈالتے ہیں، الفاظ سے کھیلتے ہیں کہ اگر غزہ کامیاب ہو جائے تو یہ ایران کی کامیابی ہے، یہ اخوان المسلمین کی کامیابی ہے، یہ درست نہیں ہے یہ شببہ ہے یہ تحریف ہے ـ غزہ کی کامیابی فلسطینیوں کی کامیابی ہے، فلسطینی اسیروں کی کامیابی ہے، مغربی کنارے، مسجد الاقصیٰ، قدس اور کلیسائے قیامت (عیسائیوں کے بڑے گرجے) کی فتح ہے۔ نیز یہ کامیابی ہے خطے کے تمام ممالک اور حکومتوں اور بالخصوص پڑوسی ممالک کے لئے۔ زیادہ تفصیلات بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے لیکن کہنا چاہتا ہوں کہ غزہ کی فتح آج ایک سب کے قومی مفاد میں ہے اور تقدیر ساز ہے۔ غزہ کی فتح اردن کے قومی مفاد میں ہے، شام کے قومی مفاد میں ہے، اور سب سے پہلے غزہ کی فتح لبنان کے قومی مفاد میں ہے۔ ہم نے ان مسائل کی اس سے پہلے بھی وضاحت کی ہے۔

سوال: اگر اسرائیل غزہ میں کامیاب ہو جائے اور مقاومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑے تو کیا ہوگا؟ تو خطے اور خاص طور پر لبنان پر اس کا کیا اثر ہوگا سیکورٹی کے لحاظ سے، سیاسی لحاظ سے، قومی لحاظ سے، عوامی اور جغرافیائی لحاظ سے؟ دشمن ہمیشہ لبنان اور اس کے عوام کو دھمکیاں دیتا ہے۔ خود غزہ کی دلدل میں دھنس گیا ہے صہیونی دشمن اور شکست کھا چکا ہے، لیکن لبنان کو دھمکی دے رہا ہے، ہمیشہ لبنان کے سامنے غل غپاڑے کرتا ہے اور شیخیاں بگھارتا ہے، غزہ کے بچوں کے خون کا حوالہ دے کر لبنان کو دھمکی دیتا ہے، کہ دیکھو ہم غزہ میں کس طرح عورتوں کو قتل کرتے ہیں، ان کے گھروں کو کس طرح ویران کرتے ہیں، یہ حقیقتا خونخواری اور درندگی کی انتہا ہے۔

لہٰذا اے بھائیو اور اے بہنو! پوری دنیا میں سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر شریف حریت پسند کو ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔ تمام اسلامی اور عربی حکومتوں کو کام کرنا پڑے گا، کوشش کرنا پڑے گی کہ اس جارحیت کو روک لیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر تم اپنے دین، اپنی انسانیت، اپنے اخلاق، اپنے ضمیر کے مطابق کچھ نہیں کرنا چاہتے ہو پھر بھی تمہیں پہلے ہدف ـ یعنی جنگ کے اختتام ـ کے لئے کام کرنا پڑے گا۔  سفرا کو واپس بلاؤ، اشیائے خورد و نوش نہ دو اسرائیل کو، تیل اور گیس نہ دو۔ ماضی کی جنگوں میں عرب اور اسلامی حکومتیں کہتی تھیں کہ امریکہ کو تیل کی ترسیل بند کرو، لیکن آج ہم ان دنوں کا صرف خواب دیکھ سکتے ہیں اور بس؛ چنانچہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کو تیل کی ترسیل بند کرو۔ امریکہ کا تیل نہیں بند کرنا چاہتے ہو تو بند نہ کرو، لیکن اسرائیل کو کھانے پینے کی اشیاء مت دو کم از کم۔ جو کچھ اسرائیل کو برآمد کرتے ہو، اب برآمد نہ کرو۔

میں نے یہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں دیکھا کہ وہ متکبرانہ انداز سے عربوں سے کہتے ہیں کہ تم حتٰی غزہ سے ایک بیمار اور زخمی بھی نکال نہیں سکتے ہو، امدادی سامان کا ایک ٹرک بھی غزہ نہیں بھیج سکتے ہو! عربوں کی بے بسی کی انتہا ہے۔

ادھر غزہ کے عوام ہمیشہ سے، عرب ممالک سے کہتے رہے ہیں کہ "ہمیں تمہاری کی فوجوں، تمہارے ہتھیاروں، اور تمہارے میزائلوں کی ضرورت نہیں ہے، لیکن کیا تم میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ رفح کی گذرگاہ کو کھول دو، امدادی سامان غزہ میں پہنچا دو اور زخمیوں کو باہر لے جاؤ؟ کچھ بھی نہیں کر سکتے ہو تو آؤ، رفح کی گذرگاہ کے سامنے دھرنا دو، تمہاے سربراہان، وزرائے اعظم، حکمران، وزراء، بیوی بچوں کے ساتھ پہنچیں اور غزہ کے عوام اور خواتین اور بچوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرو اور رفح گذرگاہ کو ایک اسٹیج میں تبدیل کریں اور پوری دنیا سے مخاطب ہو کر غزہ کے حقائق بیان کریں۔ ذمہ دار بننے کا مطلب یہ ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں کہنا چاہئے۔ میں یہ نہيں کہتا کہ فلان شخص نے غداری کی ہے، یا خیانت کی ہے، ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن ہم ناامید نہیں ہیں، اور ناامید نہں ہؤا کرتے، کم از کم اتمام حجت کرتے ہیں اس لئے کہ ممکن ہے کہ کسی جگہ کوئی ضمیر جاگ جائے اور کچھ کر دے۔ 

مقاومتی تحریکوں کے بارے میں

شاید سب میری تقریر کے اس آخری حصے کے منتظر تھے۔

عراق کی اسلامی مقاومت نے اپنا ذمہ قبول کیا اور اپنے کام کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ "ہم نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔

یمن نے ہمارے شریف بھائیوں نے، یمن کی فوج، انصار اللہ تحریک، یمن کے مظلوم اور مجاہد عوام تما تر خطروں اور امریکہ، مغرب اور بیگانوں کی دھمکیوں کے باوجود، اعلانیہ طور پر فعال ہو گئے، ان کے میزآئل اور ڈرون مقبوضہ سلسطین کی طرف بھیج کئے گئے، گوکہ ان میں سے کچھ میزائلوں اور ڈرونز کو امریکیوں یا اسرائیلوں نے مار گرایا لیکن بہرحال یہ میزآئل اور یہ ڈرونز ایلات تک پہنچے اور جنوبی فلسطین تک اور اسرائیلی اڈوں تک پہنچیں گے۔ ہم ان کو سلام کرتے ہیں۔

جہاں تک لبنانی محاذ کا تعلق ہے تو، بہت لوگ سمجھتے تھے کہ "سید جنگ میں کودے گا"، تو کہنا چاہوں گا کہ میرے عزیزو! ہم بہت عرصہ پہلے اس جنگ میں کود گئے ہیں، ہم سات اور آٹھ اکتوبر کو ہی ـ طوفان الاقصٰی کے فورا بعد اس جنگ میں شامل ہوئے۔ ہمیں کوئی پیشگی خبر نہیں تھی، ہم بھی سینیچر سات اکتوبر 2023ع‍ کو ہی مطلع ہو گئے، پوری دنیا کی طرح۔ اور بہت تیزی سے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ دوسرے دن سے [جنوبی لبنان کے مبقبوضہ علاقے] شبعا فارمز میں ہماری کاروائیوں کا آغاز ہؤا۔ آپ نے خود بھی دیکھا۔ اور یہ کاروائیاں مقبوضہ فلسطین کے ساتھ ہماری پوری سرحدی پٹی تک پھیل گئیں۔ آپ نے بھی یہ سب کچھ دیکھا۔

جو کچھ لبنان میں ہمارے محاذ پر ہو رہا ہے وہ بہت اہم اور اثرگذار ہے۔ بعض لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ حزب اللہ دشمن کے ساتھ مکمل اور ہمہ جہت جنگ کا آغاز کرے؛ وہ شاید سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، وہ کم ہے۔ آٹھ اکتوبر سے آج تک ہم نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ کم نہیں تھا اور بہت زیادہ مؤثر تھا تاہم، ہم اسی پر اکتفا نہیں کریں گے اور یہیں نہیں رکیں گے، یہ بھی میں آپ سے کہہ دوں۔

جو کچھ ہمارے محاذ میں ہو رہا ہے، سنہ 1948ع‍ میں غاصب دشمن کی تاسیس سے لے کر اب تک، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جس وقت سے ہماری سرحد کے قریب اسرائیلی اڈے تعمیر ہوئے تھے، اور نوآبادیاں اور نوآبادیوں میں زمین چور صہیونی تھے اور غاصبین تھے، اس وقت سے اب تک ہمارے حالیہ اقدامات کی کوئی مثال نہيں ملتی، حتی ہم نے 33 روزہ جنگ کے ایام سے بھی بڑھ کر اقدامات کئے ہیں۔ ہم نے شمالی فلسطین اور جنوبی لبنان میں، سمندر سے لے کر شبعا فارمز تک، صہیونیوں کے تمام فوجی اڈوں، چھاؤنیوں اور چوکیوں کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا اور ہر شب و روز نشانہ بنا رہے ہیں، ان کے ٹینکوں، بکتر گاڑیوں، عام فوجی گاڑیوں، فنی آلات، ـ جو ان کی آنکھوں اور کانوں کا کام دیتے ہیں ـ ان کے ڈرون طیاروں اور نفری کو مختلف ہتھیاروں سے نشانہ بنایا۔ لبنان کی اسلامی مقاومت (حزب اللہ) نے آٹھ اکتوبر سے دشمن کے خلاف ایک ہمہ جہت اور حقیقی جنگ کا آغاز کیا ہے۔ جو سرحدوں پر موجود ہیں، ـ خواہ مجاہدین خواہ وہاں کے رہائشی ـ وہی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقی جنگ ہے جو سنہ 2000ع‍ سے پہلے اور 2006 کے بعد کی سابقہ جنگوں سے مختلف ہے، یہ جنگ مقاصد، روشوں، حکمت عملیوں اور ہتھیاروں کی نوعیت، آلات اور اوزاروں، اور نشانہ بننے والے اہداف کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے شہداء کا ایک قافلہ بھی روانہ کیا ہے، ایسے شہداء جو محاذ جنگ اور اپنے مورچوں میں رہنے پر اصرار کرتے تھے۔

سات اکتوبر کو طوفان الاقصی کے بعد ہم نے اپنے مجاہدین کی تعیناتیوں میں اضافہ کیا۔

جب ہم لبنانی محاذ پر شہداء کی بات کرتے ہیں، تو ہم نے اب تک 57 شہداء کا نذرانہ پیش کیا جن میں سے دو لبنانی بریگیڈز میں سے تھے، دو فلسطینی القدس بریگیڈز اور القسام بریگیڈز سے تھے، کچھ عام شہری تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری اس قربانی کے اثرات کیا تھے؟ یہ جاننا بہت اہم ہے۔ البتہ ہم اپنی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔

سات اکتوبر کو صہیونی دشمن نے اپنی کچھ نفری کو لبنان کی سرحدوں سے ہٹایا۔ غاصب ریاست شکست و ریخت کے مرحلے سے گذر رہی تھی، اور اس نے ریزرو فوجیوں کو بھی غزہ کی طرف بلایا، جبکہ غزہ ایک محدود اور محصور علاقہ ہے اور صہیونی اپنی پوری فوج کو غزہ کے اطراف میں تعینات کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی افواج کو شمالی فلسطین اور مغربی کنارے سے پیچھے ہٹایا اور ریزرو فوجیوں کو بلایا۔ 

کاروائی کے آغاز کے بعد کشیدگی میں اضافہ کیا گیا، چنانچہ انہیں لبنان اور مقبوضہ فلسین کی سرحد پر دوبارہ فوج تعینات کرنے پر مجبور کیا گیا، اور انہیں ہماری سرحد پر نفری میں اضافہ کرنا پڑا۔ جو ایلیٹ فورس مغربی کنارے میں تھی، صہیونی اس کو غزہ لے جانے پر بھی راضی نہیں تھے لیکن اسی ایلیٹ فورس کو شمالی فلسطین لانے پر مجبور ہو گئے۔ یوں لبنانی محاذ اپنے ایک مشن میں کامیاب ہو گیا اور غزہ پر سے صہیونی افواج کا بوجھ کم ہؤا۔ ہم صہیونی فوج کے ایک بڑے حصے کے اپنی طرف کھینچ لانے میں کامیاب ہو گئے۔ جی ہم اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتے ہیں، ہم کچھ لوگوں کے بقول، مہم جوئی کر رہے ہیں، یہ درست ہے لیکن یہ مہم جوئی منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہی ہے۔

تمام تر صہیونی فوج کو غزہ پر چڑھائی کے لئے تیار کیا گیا تھا لیکن آدھی صہیونی بری فوج کو ہم شمالی فلسطین کی طرف کھینچ لائے۔ آدھی صہیونی بحریہ کو ہم اپنے سامنے کے سمندر میں کھینچ لائے؛ ایک چوتھائی صہیونی فضائیہ اس وقت لبنان کے مقابلے کے لئے تیار باش کی حالت میں ہے،  آئرن ڈوم اور پیٹریاٹ سمیت نصف میزائل شکن نظامات کو ہم اپنی طرف کھینچ لائے۔ صہیونی لاجسٹک فورسز کا ایک تہائی حصہ لبنان کی طرف لایا گیا۔ یہ سب ہماری کاروائیوں کے بلاواسطہ اثرات میں سے ہے۔ یہ اعداد و شمار بالکل درست ہیں۔

دوسرا سہارا جو ہم نے غزہ اور فلسطینی مقاومت کو دیا وہ یہ تھا کہ ایک لاکھ کے قریب صہیونیوں کو شمالی فلسطین میں زمین چور صہیونیوں کے لئے بنائے گئے نوآباد شہروں سے مار بھگایا گیاا، کچھ تو خود ہی بھاگ گئے، کچھ کو صہیونی فوج نے منتقل کیا۔ شمالی فلسطین میں اس قسم کے 43 شہر اور قصبے خالی ہو چکے ہیں۔ اور ان شہروں میں اس وقت جو لوگ مقیم ہیں وہ سب فوجی ہیں۔ غزہ کے قریب 58 قصبوں اور بستیوں کو حماس کے حملے کے بعد صہیونی نوآبادکاروں سے خالی کرایا گیا۔ شمال اور جنوب سے بھاگنے والے صہیونی اس وقت بڑا دباؤ لا رہے ہیں غاصب حکمرانوں پر، نفسیاتی دباؤ بھی، مالی بھی اور معاشی بھی۔ صورت حال یہ ہے کہ صہیونی وزیر خزانہ چیختا چلاتا اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ جنک ختم کرو۔

تیسرا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے فلسطین کی سرحد اور شبعا فارمز میں مسلسل کاروائیوں کے ذریعے کے دشمن کے سیاسی اور فوجی حکام نیز امریکی حکام کو اس قدر خوف و تشویش مبتلا کر دیا کہ وہ آج لبنان کے محاذ پر کشیدگی میں اضافے اور ممکنہ حقیقی جنگ سے خوفزدہ ہیں، وہ اس امکان سے بری طرح فکرمند ہیں کہ یہ واقعات ایک وسیع تر جنگ کا باعث بن جائیں۔ یقینا یہ ایک حقیقی امکان ہے، اور دشمن کو جان لینا چاہئے کہ وسیع تر جنگ عین ممکن ہے، گوکہ وہ خود جانتے ہیں اور کئی بار اس امکان پر بولتے بھی رہے ہیں۔ امریکیوں، برطانویوں، فرانسیسیوں، مغربی ممالک اور حتی کہ بعض عرب ممالک کو ہم بھی مغرب اور عربوں کی طرف سے اس حوالے سے مختلف پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔

دشمن کے اندر یہ تشویش اور یہ فکرمندی اور خوف و ہراس پیدا کرنا دو حقیقی امور کا باعث ہے؛ ایک یہ کہ دشمن کو لبنان کے حوالے سے محتاطانہ انداز اپنانا پڑتا ہے؛ یہاں تسدید (deterrence) کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں میں صہیونی دشمن کے حقیقی خوف کی بات کر رہا ہوں۔ کسی وقت اگر شمالی فلسطین میں کسی ایک اسرائیلی اڈے، ایک ٹینک یا نفری کے خلاف کوئی کاروائی بھی ہوتی تو صہیونی دشمن اس حد تک برداشت نہ کرتا، لیکن آج اسے سب کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کو طمانچہ مارا جاتا ہے اور برداشت کرتا ہے، خاموشی اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ خائف ہے کہ حالات اس مرحلے پر پہنچیں جس سے اس کو تشویش لاحق ہے۔ تو ایک تو محاذ جنگ میں ہماری موجودگی، ہماری مکمل تیاری اور ہماری روزانہ کاروائیوں نے دشمن کو خوف میں مبتلا کر دیا۔ ورنہ تو ہم نے ان وزیر جنگ اور دوسرے عہدیداروں سے سنا تھا جو کہہ رہے تھے کہ "ہمیں امریکیوں کی حمایت سے فائدہ اٹھا کر ایک نئی جنگ کا آغاز کرنا چاہئے، ہمیں ایک پیشگی (Preemptive) جنگ کا آغاز کرنا چاہئے"۔ جنوبی لبنان میں ہماری کاروائیوں اور جنوبی لبنان میں ہمارے اور فلسطینی شہیدوں کا خون اس دشمن سے کہتا ہے کہ کہ "شاید لبنان پر جارحیت کے بارے بھی سوچ بھی لو، یا پیشگی حملہ بھی کرو، لیکن جان لو کہ یہ تمہارے اس وجود کی پوری تاریخ میں تمہاری سب سے بڑی حماقت ہوگی"۔ وہ سنہ 1948ع‍ سے اب تک اسی پالیسی پر کاربند رہے ہیں، وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں اور جتانا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا!  لیکن ہم یہ سب کچھ 1948ع‍ سے اب تک دیکھتے رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔  ہم نے تمہارے جرائم اور تمہارے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشیوں کو دیکھا ہے، ہم نے صبرا اور شتیلا کیمپوں میں تمہارے کرتوت دیکھے ہیں، اور ہم تمہاری اس درندگی کے عادی بن چکے ہیں۔ لیکن جان لو کہ غزہ میں تمہار مظالم اور جرائم ہمارے عزم و ایمان میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں اور ہمیں اس حقیقت کا قائل کر دیتے ہیں کہ استقامت کریں، تمہارے سامنے سے ہتھیار نہ ڈالیں، تمہارا دباؤ جنتا بھی بڑھے ہمارا عزم اتنا ہی پختہ تر ہو جاتا ہے اور ہم سمجھ گئے ہیں کہ ہمیں تم پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہئے۔

تیسرا نتیجہ یہ ہؤا کہ ہماری کاروائیوں نے ـ جو شہداء کے خون کی برکت سے انجام کو پہنچیں ـ غزہ کے خلاف صہیونی کاروائیوں کو متاثر کیا اور وہ صورت حال کی جانچ پڑتال پر مجبور ہو گئے۔ حالیہ ہفتوں میں ہماری کاروائیوں سے دشمن کو انسانی اور اقتصادی نقصان پہنچا ہے۔ ہماری یہ کاروائیاں اور ہمارے شہداء کا خون اور ہمارے مجاہدین، شہداء اور زخمیوں کی جانفشانیاں، ہمارے ہراول دستے اور ہماری سرحدی بستیوں میں ابھی تک رہائش پذیر ہم وطن ـ جو وقتی طور پر گھر سے منتقلی پر مجبور رہتے ہیں ـ معرکۂ طوفان الاقصٰی میں کا حصہ ہیں اور غزہ میں ہونے والی جانفشانیوں میں برابر کے شریک ہیں۔

ہم ان کاروائیوں میں شہداء کے خون سے، مجاہدین کی شب بیداریوں کے ذریعے غزہ کے اوپر لائے گئے دباؤ کو کم کرنا چاہتے ہیں، کہ وہ دشمن کی اس دیوانگی کو لگام دیں۔

تو اب ہم اہم نکتے تک پہنچتے ہیں

ان ہفتوں میں ہمیں مختلف قسم کے پیغامات موصول ہوئے، ہم سے راابطے کئے گئے، ہمیں دھمکیاں دی گئیں کہ آگر آپ نے جنوبی لبنان میں کاروائی کی تو جان لو کہ یہ امریکی بیڑے آپ (حزب اللہ) سے لڑنے آئے ہیں، امریکی طیارے آپ پر بمباری کریں گے؛ انہوں نے سے کہہ دیا، اتوار 8 اکتوبر کو، طوفان الاقصی کے ایک دن بعد، اور یہی باتیں دہرائی گئیں، حتی کہ تفصیلات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا اور بعض فلسطینی تنظیمیں بھی بیچ میں آ گئیں؛ ہمیں دھمکی دی گئی کہ فلسطین کی سرحد سے داخل نہ ہوں اور دھمکی دی گئی کہ یہ امریکی طیارے آپ پر بمباری کریں گے؛ اور اسی دوران ہمارا اگلا گروپ فلسطین میں داخل ہوگیا اور پھر اگلا گروپ اور اگلا گروپ، ہم کس چیز سے خائف ہوسکتے ہیں!  گروپ بیچ میں آیا، اور ہمارے مجاہدین فلسطین میں داخل ہوتے رہے اور یوں ہم نے کہا کہ تم سے نہيں ڈرتے۔ یہ امریکی دھمکیاں کبھی بھی ہمارے موقف کو تبدیل نہ کر سکیں۔ چنانچہ ہم نے اس محاذ پر اپنا کام شروع کیا۔ اب اس جنگ اور کشیدگی میں شدت کا انحصار دو چیزوں پر ہے: پہلی چیز، غزہ کے واقعات ہیں۔ ہمارا یہ محاذ در حقیقت غزہ کی پشت پناہی ہے اور ہم غزہ کے حالات و واقعات کے تناسب سے کاروائیاں کرتے ہیں اور ہم غزہ کی صورت حال دیکھ کر کشیدگی میں شدت لائیں گے۔

دوسرا مسئلہ یہ کہ دیکھتے ہیں کہ دشمن لبنان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتا ہے۔ میں پھر بھی خبردار کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے بعض شہریوں کو شہید کیا؛ یہ صورت حال ہمیں عام شہریوں پر حملوں کے مقابلے میں عام شہریوں پر حملے کی طرف لوٹاتی ہے۔ چنانچہ لبنان کے ساتھ دشمن کا رویہ بھی ہماری کاروائیوں میں مؤثر ہے۔ میں پوری "ابہام میں لپٹی ہوئی شفافیت" کے ساتھ ـ جو شاید ایک تعمیری عمل بھی ہو سکتا ہے ـ کہ لبنان کے محاذ میں تمام اپشن کھلے ہیں اور کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحے عزیمت کر سکتے ہیں، اور ہم سب کو تمام احتمالات اور تمام امکانات اور تمام آپشنز کے لئے تیار اور کمر بستہ رہنا چاہئے ان تمام مفروضوں کے لئے جو ممکن ہے کہ عملی صورت میں نمودار ہو جائیں،۔

اور میں امریکیوں سے کہتا ہوں، لبنان لبنانی مقاومت اور خطے کی مقاومت کو، مقاومتی محاذوں اور تحریکوں اور مقاومت کی حکومتوں کو تمہاری دھمکیوں کا مزید کوئی فائدہ نہیں ہے۔

داستان یہاں تک بھی پہنچی کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر آپ کچھ کریں گے تو امریکہ نہ صرف آپ کو حنوب لبنان میں، بلکہ شاید ایران کو بھی نشانہ بنائیں۔ یہ دھمکیاں، یہ غل غپاڑے، مزید مؤثر نہیں ہیں۔ [یہ سب شیخیاں ہیں]۔

بحیرہ روم میں تمہارے بحری بیڑے ہمیں ہرگز خوفزدہ نہیں کرتے، یہ کبھی بھی ہمیں خوفزدہ نہيں کر سکے ہیں۔ اور میں تم سے پوری سچائی کے ساتھ کھلے الفاظ میں، کہتا ہوں کہ جن بحری بیڑوں کے ذریعے تم ہمیں دھمکیاں دے رہے، ان کے لئے ہم نے مناسب ہتھیار تیار کر رکھے ہیں۔

اے امریکیو! یاد کرو اپنی شکستوں کو لبنان میں، عراق میں اور افغانستان میں، اور یاد کرو کہ تمہیں کس طرح ذلیل و خفیف ہو کر افغانستان سے نکلنا پڑا۔

اے امریکیو! جن لوگوں نے لبنان میں 1980ع‍ کے عشرے کے ابتدئی برسوں میں تمہیں شکست دی، وہ ابھی زندہ ہیں، آج ان کے بیٹے بھی ہیں اور ان کی اگلی نسلیں بھی ان کے ساتھ ہیں۔  امریکیوں عراق، افغانستان اور لبنان میں اپنی ناکامیوں کو یاد کرو، جنہوں نے 80 کی دہائی میں تمہیں شکست دی تھی وہ آج بھی تیار ہیں۔

اگر امریکیوں اور مغربیوں کی پالیسی یہی ہے کہ جنگ کا دامن وسیع تر نہ ہو تو اس کا ایک ہی راستہ ہے اور دھمکی نہیں ہے، ڈرانا دھمکانا نہیں ہے، تم با شرف مقاومت کو دھمکی نہیں دے سکتے ہو، مقاومت جو مظلوم کی مدد کرتی ہے اور مقدسات کی حفاظت کرتی ہے، اسے تم خوفزدہ نہیں کر سکتے ہو۔ واحد راستہ یہ ہے کہ غزہ پر جارحیت کا سلسلہ بند کرو،  اسرائیل تمارا بازو ہے تمہارا آلہ کار ہے، تمہاری سرپرستی کے تحت ہے، تمہارا کٹھ پتلی ہے۔ تم اس جارحیت کو روک سکتے ہو کیونکہ یہ جارحیت در حقیقت تمہاری جارحیت ہے۔

اگر امریکی نہیں چاہتے کہ یہ جنگ پورے علاقے تک پھیل جائے تو غزہ کے اوپر جنگ کو فوری طور پر بند کر دیں۔

امریکیو! تم خوب جانتے ہو کہ اگر خطے میں جنگ کی آگ بھڑک جائے، نہ تو تمہارے بیڑے کسی کام کے ہیں اور نہ ہی تمہاری فضائیہ کسی کام کی رہے گی، اور اس جنگ کی قیمت سب سے پہلے تم چکا دو گے، تمہارے مفادات، تمہارے فوجی، تمہارے جنگی بحری جہاز ہونگے جنہیں سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

پوری دنیا کو مطالبہ کرنا پڑے گا، یہ غزہ میں بے گناہوں، بچوں اور خواتین کے خون کی طرف سے، شہریوں، مساجد، گرجا گھروں اور اسپتالوں کی طرف سے، انسانیت اور انسان کی طرف سے مطالبہ ہے، جو لوگ اخلاقیات، ضمیر اور تعلیمات کے پابند ہیں، انہیں شب و روز سنجیدگی سے کام کرنا پڑے گا، کہ یہ جارحیت بند ہو جائے۔

بھائیو اور بہنو!

مستقبل کے افق کے بارے میں فلسطین اور خطے کے شریف عوام سے کہتا ہوں اور غزہ میں اپنے عوام سے کہتا ہوں اور فلسطین اور خطے میں مقاومت کے باعزت مجاہدین سے کہتا ہوں کہ مستقبل کا افق یہ ہے کہ ہم ابتداء سے، جب سے کہ مقاومت شکیل پائی اس غاصب ریاست کی تأسیس کے بعد، ہم استقامت کر رہے ہیں، ہمارا یہ معرکہ ابھی تک فتح و کامیابی کے مرحلے تک نہیں پہنچا ہے۔ ابھی کچھ وقت باقی ہے، حقیقت پسند بنئے، کچھ مزید وقت کی ضرورت ہے اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ ہم بعض مواقع پر کامیاب بھی ہوئے۔ مقاومت لبنان میں بھی، سنہ 1985ع، سنہ 2000 اور سنہ 2006ع‍ اسی طرح کامیاب ہوئی، اسی طرح ہی غزہ اور مغربی کنارے میں کامیابی اصل ہوئی۔ عراق اور افغانستان میں بھی اسی طرح کامیاب ہوئی، صبر و تحمل، استقامت، ثابت قدمی یہ وہ چیزیں ہیں جو دشمن کے پاس نہیں ہیں۔

آج غزہ میں بمباری سے تباہ ہونے والے گھروں اور عمارتوں کے ملبے سے نکل کر کہتے ہیں کہ ہم مقاومت پر فدا ہوں، ہم فلسطین پر فدا ہوں۔ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں بمباری ہوتی تھی گھر تباہ ہو جاتے تھے لوگ کہتے تھے  کہ ہم مقاومت پر فدا ہوں۔ آپ کو کہیں اس کی مثال مل سکتی ہے؟ یہ جو تارکین دوسرے ممالک سے فلسطین میں قائم کردہ نو آباد شہروں قیام پذیر ہیں، کیا ان میں ہے کوئی جو کہہ دے کہ ہم اسرائیل پر فدا ہوں! ہم نے آج تک ایسی کوئی بات نہیں سنی ہے۔ صہیونی کبھی بھی ایسی بات نہیں کرتے!

ہمارا معرکہ صبر، استقامت، تحمل، کامیابی حاصل کرنا اور دشمن کو شکست دینا اور انہیں ان کے مقاصد حاصل نہ کرنے دینا؛ ہم یقینا کامیاب ہونگے۔ ہم سب کو کام کرنا چاہئے تاکہ سب سے پہلے یہ جارحیت بند ہو جائے، غزہ کامیاب ہو جائے اور غزہ میں مقاومت کامیاب ہوجائے۔

میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ [کامیابی کی شرط] سب سے پہلے یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھیں، کیونکہ اللہ نے سچے مؤمنوں کو فتح و نصرت کا وعدہ دیا ہے اور خدا اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتا۔ جب اللہ دیکھتا ہے کہ ہم سچے ہیں، ثابت قدم ہیں میدان میں، اس کی راہ میں لڑ رہے ہیں، اس کی راہ میں جانفشانی کرتے ہیں، خواہ اس جانفشانی کی قیمت جتنی بھی ہو، ـ جتنی بھی اس کی قیمت زیادہ ہو، صدق و اخلاص کی علامت ہے ـ تو ہم اللہ کی نصرت کے مستحق ہیں۔ گذشتہ جنگوں میں بھی یہی کچھ ہؤا۔

میرا ذاتی تجربہ بھی ہے امام القائد السید الخامنہ ای (حفظہ اللہ) کے ساتھ نے 2006 میں ہم سے فرمایا، کہ آپ کامیاب ہونگے اور حالیہ ایام میں آپ نے پھر بھی فرمایا کہ غزہ کامیاب ہوگا، فلسطین کامیاب ہوگا، سید الخامنہ ای نے (حفظہ اللہ) نے 2006ع‍ کی 33 روزہ جنگ کے آغاز کے چند دن بعد، جب کامیابی کی کوئی روشن امید نہ تھی، فرمایا کہ کہ آپ کامیاب ہونگے اور ایک بڑی قوت بنیں گے۔

میں غزہ سے کہتا ہوں، کہ تمام تر زخموں کے باوجود، تمام دردوں، صعوبتوں اور مسائل و مشکلات کے باوجود، مغربی کنارے سے اور مقاومتی تحریکوں خطے کی تمام حکومتوں سے، ان تمام لوگوں سے جن کے دل فلسطین اور غزہ کے بچوں اور خواتین کے لئے تڑپتے ہیں، کہتا ہوں کہ ان تمام مصائب کے سامنے صبر و تحمل سے کام لینا، اور اس درندگی کے مقابلے میں ہماری استقامت، ہمارا خون اور ہماری قربانیاں، سب اللہ کے لئے ہیں اور اللہ کے راستے پر ہیں۔ اور ان کا نتیجہ حتمی طور پر ہماری آخری فتح ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اور میں اور آپ، جو اس آج شہداء کی تکریم کر رہے ہیں بہت جلد غزہ کی کامیابی اور غزہ کے عوام اور غزہ کی مقاومت کی کامیابی کا جشن منائیں گے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110