اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

4 اکتوبر 2023

1:49:42 PM
1397823

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کا حتمی نظریہ یہ ہے کہ جن حکومتوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کے جؤے کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنایا ہؤا ہے، وہ نقصان اٹھائیں گی، وہ غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے میلاد مسعود کی سالگرہ کے موقع پر (17 ربیع الاول سنہ 1445ھ | 3 اکتوبر سنہ 2023ع‍ کو) ملکی حکام اور سرکاری اہلکاروں، اسلامی ممالک کے سفیروں اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں نیز عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات کے دوران فرمایا: جابر طاقتیں قرآن کی تعلیمات سے خوفزدہ ہیں، اور یہی ان کی طرف اس کتاب مقدس کی توہین کا سبب ہے، اور امریکہ اور جابر طاقتوں کی مداخلتوں اور ریشہ دوانیوں کے مقابلے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک بنیادی مسائل میں یکسان حکمت عملی اپنائیں۔

آپ نے فرمایا:  صہیونی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات کے قیام کا جؤا ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کے مترادف ہے اور یہ جؤا بہر صورت خسارہ ہی خسارہ ہے، وہ اس لئے کہ فلسطینیوں کی مقاومتی تحریک آج پہلے سے کہیں زیادہ تر و تازہ اور آمادہ ہے، اور صہیونی ریاست رخصت ہونے کے مراحل میں اور جان کنی کی حالت میں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت کی عظیم عید کے موقع پر مسلمانان عالم کو ہدیۃ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے فرمایا: انسانی فہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی عظیم الشان شخصیت کے ادراک سے اور بنی نوع انسان کی زبان آنحضرت کے فضائل کے بیان اور تشریح سے عاجز ہے؛ اور یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر اعظم اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے تابندہ سورج کا تمام انسانوں پر حق ہے اور ہر کوئی آپ کا مقروض اور مرہون منت ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ایک ماہر اور ذہین طبیب کی طرح ـ غربت، جہل، ظلم و جبر، امتیازی سلوک، شہوتوں، بے ایمانی، لا مقصدیت، اخلاقی برائیوں اور سماجی خرابیوں سمیت ـ بنی دعوت انسان کو درپیش کے لئے ایک جامع علمی اور عملی نسخہ انسانوں کو فراہم کیا ہے۔

آپ نے فرمایا: دنیا کے تمام عقلمندوں کے ہاں ـ اعلیٰ ترین انسانی حق کے طور پر ـ حقِّ حیات کی غیر معمولی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تمہیں ابدی حیات عطا کرتے ہیں اور تمہاری دنیاوی اور اخروی سعادت و کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں، یہ وہ حیات ہے جو اختتام پذیر نہیں ہوتی اور زد پذیر نہیں ہے، چنانچہ ہم سب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مرہون منت ہیں اور آپ کا پوری انسانیت پر حق ہے۔  

رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کی ایک آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خدا کی راہ میں "جہاد کامل" رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حق و قرض کی ادائیگی کا راستہ ہے، جہاد کے معنی صرف اسلحہ اٹھا کر لڑنے کے نہیں ہیں بلکہ جہاد کا مصداق تمام میدانوں ـ بشمول علم و سائنس، سیاست، علم و معرفت اور اخلاق ـ میں جہاد ہے، اور ان میدانوں میں جہاد کے ذریعے آنحضرت کا حق ممکنہ حد تک ادا کیا جا سکتا ہے۔

آپ نے نے فرمایا کہ اسلام دشمنوں کی دشمنی پہلے سے کہیں زیادہ آشکار ہے، اور ان دشمنیوں کا ایک نمونہ قرآن کی جاہلانہ توہین ہے؛ ایک جاہل احمق توہین کرتا ہے اور ایک حکومت [اس کی] حمایت کرتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ منظر عام میں محض ایک سادہ سا توہین آمیز اقدام نہیں ہے۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: ہمارا اس نادان اور جاہل انسان سے کوئی سروکار نہیں ہے جو پس پردہ عناصر کے مقاصد کے حصول کے لئے، خود کو شدید ترین سزا اور سزائے موت سنا دیتا ہے ـ ہماری بحث ان جرائم اور نفرت انگیز اقدامات کے منصوبہ سازوں کے بارے میں ہے۔

امام خامنہ ای (دام  ظلہ العالی) نے فرمایا: ان اقدامات کے ذریعے قرآن کریم کو کمزور اور بے اثر کرنے کا تصور، خام خیالی اور یہ قرآن دشمنوں کے باطن کے فاش فاش خونے کا سبب ہیں؛ قرآن حکمت و علم و معرفت، انسان سازی اور بیداری کی کتاب ہے اور قرآن کے ساتھ دشمنی درحقیقت ان اعلیٰ مفاہیم کے ساتھ دشمنی ہے۔ البتہ [یہ درست ہے کہ] قرآن برائی کی طاقتوں کے لئے خطرہ ہے، کیونکہ یہ ظلم کی مذمت بھی کرتا ہے اور اس انسان پر بھی ملامت کرتا ہے جو ظلم و ستم کو قبول کرتا ہے [اور ستم کے سامنے جھکتا ہے]۔

آپ نے توہین قرآن کا جواز پیش کرنے کے لئے آزادی اظہار جیسے بار بار دہرائے جانے والے دعوؤں کو [آزآدی اظہار کے] دعویداروں کی رسوائی کا با‏عث قرار دیا اور فرمایا: جن ممالک میں آزآدی اظہار کے بہانے توہین قرآن کی اجازت دی جا رہی ہے، کیا وہاں صہیونیوں کے علائم کی توہین کی اجازت بھی دی جاتی ہے؟ کس زبان سے، اس سے زیادہ واضح طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ ممالک ظالم، جرائم پیشہ اور دنیا کو لوٹنے والے صہیونیوں کے زیر تسلط ہیں؟

رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتہ وحدت مسلمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، عالم اسلام کے سربراہوں، سیاستدانوں، ماہرین اور دانشوروں کو اس سوال پر غور کرنے کی دعوت دی کہ "اسلامی ممالک کے اتحاد کا دشمن کون ہے، اور مسلمانوں کے اتحاد سے کس کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ اتحاد کن ممالک کی دست درازیوں، مداخلتوں اور لوٹ مار کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے؟"  

آپ نے زوردے کر فرمایا: مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ (مشرق وسطیٰ) اسلامی ممالک کا اتحاد امریکہ کی چوربازاری، جبر اور مداخلتوں کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ جبکہ آج امریکہ خطے کے ممالک کو سیاسی اور معاشی حوالے سے نقصان پہنچاتا ہے، شام کا تیل چوری کرکے لے جا رہا ہے، اپنے اڈوں اور کیمپوں میں ظالم ، وحشی اور خونخوار داعش کی نگہداشت کر رہا ہے، تاکہ ضرورت کے وقت پھر بھی اس کو میدان میں اتار دے اور پھر بھی ممالک میں مداخلت کر سکے، تاہم اگر ہم متحد ہوں، ایران، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب، مصر، اردن اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں بنیادی اور عام مسائل میں مشترکہ حکمت عملی اپنائیں، جابر طاقتیں ان کے اندرونی معاملات اور خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کرسکیں گی اور ایسا کرنے کی ہمت بھی نہیں کرسکیں گی۔  

حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے مزید فرمایا: جس طرح کہ ہم بدستو کہتے آئے ہیں، کسی کو بھی جنگ اور فوجی اقدام کی ترغیب نہیں دلاتے اور خود بھی اس سے اجتناب کرتے ہیں، چنانچہ اکٹھا ہونے اور متحد ہونے کی دعوت، امریکہ کی جنگ پسندی کا سد باب کرنے کے لئے ہے، کیونکہ وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، اور خطے کی تمام جنگوں کا سبب، بیرونی عوامل ہیں۔

آپ نے عالم اسلام کے تمام سربراہان اور سماجی، دینی اور سیاسی شخصیات اتحاد کے حیاتی مسئلے پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے خطے میں دوسرے مسئلے ـ یعنی صہیونی ریاست کے مسلسل جرائم اور مظالم ـ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج یہ غاصب ریاست نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ شدید بغض اور دشمنی کرتی ہے بلکہ وہ اپنے آس پاس کے تمام ممالک جیسے مصر، شام اور عراق سے بھی شدید نفرت اور غیظ و غضب سے لبریز ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: صہیونیوں کی نفرت اور غصے کا سبب یہ ہے کہ نفرت کا نشانہ بننے والے ملکوں نے مختلف مواقع پر ان کے مقصد کے حصول ـ یعنی نیل سے فرات کے خطے کو غصب کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل ـ کی راہ میں رکاوٹ بنتے آئے ہیں۔ وہ کینے اور غصے سے لبریز ہیں، البتہ قرآن کی تعبیر کے مطابق "مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ؛ کہو کہ [غصے میں مبتلا رہو اور اس غصے سے ] مر جاؤ تم لوگ اپنے غصے سے"؛ (آل عمران-119) وہ موت [اور جانکنی] کی حالت میں ہیں، اور اللہ کی مدد سے اس غاصب ریاست کے بارے میں یہ آیت کریمہ پوری ہو رہی ہے۔

آپ نے مسئلہ فلسطین، فلسطینیوں کی سرزمین کے غصب ہونے اور ان کے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کئے جانے، تشدد کا نشانہ بنانے اور ان کے قتل عام، کے مسئلے کو حالیہ چند دہائیوں کا پہلے درجے کا مسئلہ قرار دیا اور فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کا حتمی نظریہ یہ ہے کہ جن حکومتوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کے جؤے کو اپنے لئے نمونۂ عمل بنایا ہؤا ہے، وہ نقصان اٹھائیں گی، وہ غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہ جعلی ریاست جانے والی ہے اور وہ ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے میں مصروف ہیں۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے آخر میں، امید ظاہر کی کہ امت اسلامیہ پروردگار عالم کے کے فضل و کرم سے سربلندی، شرافت اور رفعت کے ساتھ اپنی بے مثل طبیعی اور انسانی استعدادات اور صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110