اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

29 ستمبر 2023

2:59:35 PM
1396597

ایک مختصر تحقیق

نو ربیع الاول عید کیوں؟ آغاز امامت امام زمانہ علیہ السلام

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ 9 ربیع الاول یوم عید ہے، کچھ نے اسے عید الزہراء یا عید الشجاع کا نام بھی دیا ہے، شیعہ مخالفین کہتے ہیں کہ اس دن شیعہ خلیفۂ دوئم کے قتل کا جشن مناتے ہیں جو من گھڑت کہانی ہے، اور ان کے قتل کا واقعہ آخر ذوالحجہ میں رونما ہؤا ہے؛ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ قاتل امام حسین (علیہ السلام)، "عمر بن سعد لعین" کا یوم ہلاکت ہے، جو صواب کے قریب تر ہے؛ بہرحال، یقینی امر ہے کہ یہ دن امامت امام زمانہ (علیہ السلام) کا آغاز ہے، چنانچہ یہ عید غدیر کی طرح، عید اکبر ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، اس مضمون میں، قارئین و صارفین کو بعض حقائق سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔

آٹھ ربیع الاول 260 کو گیارہویں امام حضرت ابن الرضا امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کا دن درحقیقت محرم اور صفر کی عزاداریوں کا اختتام ہے تو 9 ربیع الاول امام زمانہ حضرت م ۔ ح ۔ م ۔ د بن الحسن المہدی (علیہ السلام) کی امامت کا آغاز ہے

امام (عج) کی عمر اس وقت پانچ سال تھی گوکہ شیعیان آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے لئے یہ موضوع کوئی تازہ موضوع نہ تھا کیونکہ آپ سے قبل امام محمد تقی الجواد (علیہ السلام) سات یا آٹھ سال کی عمر میں اور امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) چھ سال کی عمر میں مقام امامت پر فائز ہوئے تھے۔

اور ہاں! اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) گہوارے میں اور حضرت یحییٰ بن ذکریا نو سال کی عمر میں مقام نبوت پر فائز ہوئے تھے اور طفولت میں نبوت کے الٰہی منصب پر فائز ہونے کے یہ معجزنما واقعات درحقیقت بندگان الٰہی کے لئے ایک آزمائش و امتحان کی حیثیت رکھتے تھے۔ جیسا کا امام رضا (علیہ السلام) نے ایک حدیث کے ضمن میں قرآن کریم سے استناد کرکے ان واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔

دوسری جانب سے امامت کے لئے علم لدنی اور الٰہی دانش کی ضرورت ہے چنانچہ یہ الٰہی ارادہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ـ جب بھی وہ ارادہ فرماتا ہے ـ ظہور پذیر ہوسکتا ہے۔ البتہ انبیاء اور ائمہ (علیہم السلام) کے درمیان ان نمونوں اور مثالوں کا ذکر، شیعیان اہل بیت علیہم السلام کو پانچ سال کی عمر میں، حضرت بقیۃ اللہ امام زمانہ (علیہ السلام) کی امامت قبول کرنے کے لئے آمادہ کرنے کے لئے تھا۔

بہرصورت یہ بذات خود حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کے حق میں ایک الٰہی معجزہ ہے اور ہم آل محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہم) کے پیروکار اس عظیم واقعے کی مناسبت سے جشن مناتے ہیں؛ کیونکہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حیّ و حاضر امام ہیں اور ہمارے زمانے کے امام آپ ہی ہیں اسی لئے یہ جشن ہم سب کے لئے مقدم ہے۔

البتہ شیعیان آل رسول (علیہم السلام) تمام ائمہ (علیہم السلام) کی ولادت پر جشن مناتے ہیں چنانچہ اس لحاظ ائمہ کے درمیان فرق کے قائل نہيں ہوتے۔

سطور بالا کی روشنی میں اس دن کی تکریم اور اس روز کا جشن ہمارے لئے ایک دینی فریضہ ہے اور لازم ہے کہ ہم اس روز حضرت مہدی (علیہ السلام) کے وجود شریف کی سلامتی کے لئے دعا کریں اور صدقہ دیں۔ یہ خود درحقیقت اُس امام کریم کی بیعت کا اعلان اور محبت کا اظہار ہے جو پردہ غیب میں ہیں اور پوری کائنات آپ کے آنے کے لئے لمحہ شماری کر رہی ہے۔

سوال: عید الزہراء کے عنوان سے منائے جانے والے جشن کا موضوع کیا ہے؟

جواب: بعض علماء کا کہنا ہے کہ شیعہ دو جہتوں سے اس جشن کو عید الزہراء کے طور پر مناتے ہیں: اول یہ کہ: اس روز مہدی آل محمد (علیہ السلام) نے امامت کا الٰہی عہدہ سنبھال لیا ہے اور وہ وہی ہیں جو اللہ کی حکومت عدل کی جلوہ گری کے وعدے کا مصداق تامّ و کامل ہیں؛ وہی جو ظلم و جور کا خاتمہ کریں گے اور مظلومین کا انتقام لیں گے؛ اور ہاں! وہ کون ہے جو اہل بیت (علیہم السلام) سے زیادہ مظلوم ہو جبکہ وہ ہر لحاظ سے مظلوم واقع ہوئے اور ان کا حق ہر لحاظ سے پامال کیا گیا اور چھین لیا گیا۔

حضرت مہدی (علیہ السلام) اللہ کے وعدے کو عملی جامہ پہنا کر حضرت زہراء (سلام اللہ علیہا) کا دل خوش نہیں کریں گے؛ اور پھر 9 ربیع الاول عمر بن سعد کی ہلاکت کا دن ہے، وہی جس نے میدان کربلا میں عاشورا کے دن امام حسین (علیہ السلام) اور خاندان رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جو تاریخ نے ثبت کیا ہے۔ اس نے خاک کربلا کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے مَردوں کے خون سے رنگ دیا اور سیدہ ثانی زہراء اور خاندان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کربلا سے کوفہ و شام تک بازاروں میں پھرانے کے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے سامنے کے سامنے پیش کیا اور اہل بیت (علیہم السلام) کے پیروکاروں کو بے شمار مظالم کا نشانہ بنایا۔ گوکہ جیسا کہ امام حسین (علیہ السلام) نے اسے وعدہ دیا تھا وہ رے کی حکمرانی تک نہ پہنچ سکا اور رے ہی کی نہیں عراق کی گندم بھی زیادہ دیر تک نہ کھا سکا اور یزید کے ہلاکت کے بعد اس جیسے یزیدی گماشتوں کے برے دن آئے۔

نو ربیع الاول کو مختار بن ابی عبیدہ ثقفی نے عمربن سعد ملعون کو ہلاک کرڈالا اور مختار کے حکم پر اس کا سر بدن سے الگ کردیا کیا چنانچہ نو ربیع الاول اس لحاظ سے حضرت زہراء اور اہل بیت (علیہم السلام) اور حق و حقیقت کے پیروکاروں کے لئے جشن و سرور کا دن ہے۔

بعض لوگ نو ربیع الاول کی رات کو جو جشن اور بعض مراسمات بپا کرتے ہیں ان کا تعلق اباعبد اللہ الحسین (علیہ السلام) کے قاتل عمر سعد کی ہلاکت سے ہے اور بعض لوگ تو اس سلسلے میں انتہا پسندی کی راہ پر چل کر خرافات کے قائل ہوئے ہیں جن کی کوئی تاریخی اور علمی بنیاد اور شرعی حیثیت نہیں ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ نہ تو 9 ربیع الاول کے جشن میں اور نہ ہی دوسرے کسی جشن میں افراط اور افراط (یعنی دو انتہاؤں) کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور ہر وہ عمل جو شریعت سے متصادم ہو، حرام ہے الی یوم القیامہ، اور انسان کو کسی حالت میں بھی گناہ سے معاف نہيں کیا گیا ہے۔ اور خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ:

"مَا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ؛

"کوئی بات اس (انسان) کی زبان سے نہیں نکلتی مگر یہ کہ اس کے پاس نگران تیار موجود ہیں"۔ (1)

یعنی اللہ کے نگران فرشتے انسان کے ہرقول و فعل کو ثبت کرتے ہیں اور خدا کسی کے لئے بھی استثناء کا قائل نہیں ہؤا ہے۔ اور ہاں! حکم یہ ہے کہ نہ صرف ایک افواہ یا شبہہ بلکہ حتیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے کہ "اگر میری طرف سے تمہیں کوئی حدیث پہنچتی ہے تو اس کا موازنہ قرآن سے کرو، اگر قرآن کے موافق ہو تو قبول کرو اور اگر قرآن کے خلاف ہو تو اسے دیوار پر دے مارو"۔  (2)

زبان بازی کی آزادی اور سب کچھ بولنے کی اجازت کے بارے میں ہونے والی بات کے بارے میں قرآن کریم سے رجوع کرنا چاہئے۔

کہی گئی بات کے بارے میں بھی قرآن کریم سے رجوع کرنا چاہئے جہاں ارشاد ہوتا ہے:

"أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ؛

ارے تم مردوں سے نفسانی خواہش پوری کرتے ہو اور راہ زنی کرتے ہو اور اپنی مجالس میں کار بد (یعنی مزاح کی غرض سے بدزبانی) کرتے ہو تو ان کی قوم والوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوا اس کے کہ انہوں نے کہا لاؤ ہم پر اللہ کا عذاب اگر تم سچے ہو"۔ (3)

یعنی قوم لوط کی تین عادتیں تھیں جن میں لواطت، رہزنی اور بدزبانی جیسے گناہ شامل تھے۔ یعنی بدزبانی اور بری اور بھونڈی باتوں کو دو دوسرے بڑے گناہوں کے زمرے میں بیان کیا گیا ہے؛ چنانچہ فرائض واضح ہیں۔ مجالس جشن میں بھی اور کسی بھی موقع پر بدزبانی او سب و شتم کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اور پھر یہ بھی اللہ کا ارشاد ہے کہ:

"فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ * وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَرَهُ؛

تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی اسے بھی دیکھ لے گا * اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی اسے بھی دیکھ لے گا"۔ (4)

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے جنگ صفین میں معاویہ کے سب و شتم کرنے والوں سے فرمایا: تمہیں سبّ کرنے اور گالی دینے کا حق نہيں ہے ہمیں حق حاصل ہے کہ ان کے خلاف لڑیں۔

ان ایام میں بعض اعمال کا تعلق انجام دینے والوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا جواب بھی بارگاہ الٰہی میں وہی لوگ دیں گے اور اہل بیت (علیہم السلام) کے نام سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں جس میں رضائے الٰہی نہیں بلکہ اللہ کا غضب اور ناراضگی کے سوا کچھ نہيں ہے۔

اہل بیت علیہم السلام کی اعیاد عبادت کے مواقع اور الٰہی فرائض کی مناسبتیں ہیں اور حبّ اہل بیت (علیہم السلام) اللہ کی فرمانبرداری میں ہے اور امام باقر (علیہ السلام) کے فرمان کے مطابق: جس نے اللہ کی اطاعت کی وہ ہمارا حبدار ہے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی وہ ہمارا دشمن ہے۔

واضح رہے کہ خلیفہ ثانی پر قاتلانہ حملہ ذوالحجۃالحرام میں انجام پایا تھا چنانچہ اس حوالے سے جو شبہہ افواہِ عوام پر ہے وہ غلط اور بے بنیاد ہے۔

اہل بیت (علیہم السلام) کے جشن یا ایام غم میں ان کی مداحی اور مرثیہ گوئی کو اہمیت دینا چاہئے اور اہل بیت (علیہم السلام) کی معرفت حاصل کرنا چاہئے۔ لوگوں کو طعام دینا چاہئے؛ جو پورے سال کے دوران ہر دن رات، ایک مستحسن عمل ہے، لیکن بدقسمتی سے، نامعلوم وجوہات کی بنا پر، لوگوں کو طعام دینے کی سنت حسنہ کو محرم اور صفر تک محدود کیا گیا ہے۔ روایات میں ہے کہ اگر کوئی عید کے دن لوگوں کو کھانا کھلائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ اس شخص کی طرح ہو جس نے انبیاء عظام (علیہم السلام) کی میزبانی کی ہو۔

ان ایام میں صلۂ رَحِم، اپنوں، عزیزوں اور دینی برادران کے درمیان اختلاف و منافرت کو ختم کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے سرور و شادمانی کا اظہار کرنا چاہئے اور یہ سرور و شادمانی، حسنات اور نیک اعمال سے بھرپور اور برائی اور گناہوں سے بالکل دور، امام زمانہ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے مترادف ہے۔

عمر بن سعد بن ابی وقاص کون ہے؟

امام حسین (علیہ السلام) نے کربلا میں ابن سعد کو بات چیت کرنے کے لئے پیغام بھیجا۔ اس ملاقات میں ابوالفضل العباس (علیہ السلام) آپ کے ساتھ تھے اور حفص بن عمر سعد اور اس کا غلام لاحق، ابن سعد کا ساتھ دے رہے تھے۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ رات گئے تک مذاکرات جاری رہے لیکن معلوم نہ ہوسکا کہ مذاکرات میں فریقین نے کیا کہا اور کیا سنا۔ لیکن بعض دوسرے مؤرخین نے لکھا ہے کہ سیدالشہداء (علیہ السلام) نے فرمایا: اے ابن سعد! خدا کا خوف کرو! تم جانتے ہو کہ میں کس کا فرزند ہوں پس تم میرا ساتھ کیوں نہیں دیتے ہو؟ عمربن سعد نے بہانہ جوئی کرتے ہوئے کہا: مجھے خوف ہے کہ یزید کی حکومت میرا گھر ویراں کرے گی!

امام نے فرمایا: میں وہ گھر تمہارے لئے از سر نو تعمیر کر دونگا۔

ابن سعد نے کہا: مجھے خوف ہے کہ وہ میرے باغ اور میری زراعت پر قبضہ کریں گے!

سیدالشہداء (علیہ السلام) نے فرمایا: میں اس سے بہتر زمین و جائیداد حجاز میں تمہیں دے دوں گا۔

عمر سعد نے پھر بھی بہانہ بنایا اور کہا: مجھے خوف ہے کہ وہ میرے بیوی بچوں کو کوفہ میں قتل کردیں۔

یہاں امام (علیہ السلام) غضبناک ہوئے اور ابن سعد پر نفرین کرکے فرمایا:

"مالَكَ، ذَبَحَكَ اللَّهُ عَلى‌ فِراشِكَ عاجِلًا، وَلَا غَفَرَ لَكَ يَوْمَ حَشْرِكَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُوا أَلّا تَأْكُلَ مِنْ بُرِّ الْعِراقِ إِلّا يَسِيراً؛

اللہ تمہیں تمہارے بستر پر ذبح کروا دے! اور جس دن تم اٹھائے جاؤ اللہ تمہیں نہ بخشے، پس اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ تم عراق کی گندم میں سے نہ کھا سکو گے، سوائے قلیل کے"۔

عمر بن سعد نے اپنے انجام کے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا: گندم نہیں کھائیں گے تو جو کھائیں گے!۔ (5)

ابن حجر لکھتا ہے: ایک دن عمر بن سعد نے امام حسین (علیہ السلام) سے عرض کیا: بعض نادان لوگ کہتے ہیں کہ میں آپ کا قاتل ہوں۔

امام نے فرمایا: یہ نادان نہیں ہیں اور سچ کہہ رہے ہیں۔ (6)

عمر کے باپ سعد بن ابی وقاص نے امامت و ولایت کے سلسلے میں قصور کیا مگر کبھی بھی امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے فضائل بیان کرنے میں کوتاہی نہيں کی اور سفر حج کے دوران اپنے دو عراقی ساتھیوں کو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی فضیلت پر مبنی پانچ حدیثیں سنائیں:

1۔ حدیث برائت؛

2۔ حدیث سد الابواب؛

3۔ حدیث رأیہ؛

4۔ حدیث منزلت؛

5۔ حدیث غدیر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے لئے سعد بن ابی وقاص کی منقولہ پانچ فضیلتیں

1- حدیث برائت: سعد بن ابی وقاص نے کہا: اس حدیث کی رو سے، سورہ برائت (یا سورہ توبہ) کفار سے مسلمانوں کے اعلان بیزاری کے طور پر اتری تو رسول الله (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اسے ابوبکر کے سپرد کیا جاکر مشرکین مکہ کو پڑھ کر سنائیں؛ وہ روانہ ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کو مشن سونپا کہ جاکر سورہ توبہ ابوبکر سے لے کر واپس لائیں تا کہ میں یہ مشن ایسے شخص کے سپرد کروں جو اس کام کی اہلیت رکھتا ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی؛ اور سورہ برائت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے سپرد کرتے ہوئے پوچھا: ابوبکر یہ سورت مکہ کیوں نہ لے کر جائیں، اور اہل مکہ کو کیوں نہ سنائیں؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جبرائیل امین اللہ کی طرف سے پیغام لے کر آئے کہ "لَا يُؤَدِّي عَنْكَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ رَجُلٌ مِنْكَ؛ اے رسول! یا تو آپ خود یہ سورت لے کر مکہ والوں کو سنائیں یا پھر ایسے مرد کو یہ مشن سونپ دیں جو آپ سے ہو"؛ "وَعَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ؛ اور علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں"، چنانچہ تم ہی میری طرف سے سورہ برائت مشرکین مکہ کو پڑھ کر سناؤ"۔ (7)

2۔ حدیث سد الابواب (دروازوں کی بندش کی حدیث): سعد بن ابی وقاص نے کہا: مجھے یاد ہے کہ ہم مسجد مدینہ میں تھے، ایسا مقام تھا جس پر کوئی چھت نہیں تھے اور اطراف کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے؛ اور ان گھروں کے مکین مسجد میں جا سکتے تھے اور اس کے سستانے اور اسے گھر کے طور پر استعمال کر سکتے تھے، ہم سب مسجد میں تھے اور آل علی، ابوبکر اور عمر بھی وہاں موجود تھے۔ رات کو حکم آیا کہ سب لوگ مسجد سے باہر نکل جلے جائیں؛ اور آل رسول اور آل علی کے سوا کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ مسجد میں رہے۔ ہم سب باہر چلے گئے، صبح ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چچا حمزہ بن عبدالمطلب (علیہما السلام) نے عرض کیا: "يَا رَسُولَ اللهِ! أَخْرَجْتَنَا وَأَسْكَنْتُ هَذَا الْغُلَامَ؛ اے اللہ کے پیغمبر! آپ نے ہمیں نکال باہر کیا اور اس نوجوان (علی بن ابی طالب) کو (مسجد میں) بسا دیا"۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: میں نے تمہيں نہیں نکالا، خدا نے حکم دیا اور فرمایا کہ علی بن ابی طالب (علیہما السلام) مسجد سے اسی طرح استفادہ کر سکتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے گھر سے استفادہ کرتے ہیں۔ (8)

یہ اس خاندان کے فضائل کی کچھ مثالیں ہیں کہ خدائے متعال مریم بنت عمران (سلام اللہ علیہا) کو زچگی کے وقت حکم دیتے ہیں کہ مرکز قدس سے باہر نکل جاؤ، اور (علی کی والدہ) فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کو حکم دیتے ہیں "آؤ میرے گھر میں داخل ہوجاؤ" اور مسجد کی دیوار کھل جاتی ہے۔

3۔ حدیث رأیہ (پرچم کی حدیث): سعد نے مزید کہا: علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی ایک خاص فضیلت جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے، فتح خیبر کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے کچھ صحابیوں کو جنگ کے لئے بھیجا جو ناکام ہوئے اور فرمایا:

"َلَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلًا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ يُحِبُّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ كَرَّاراً غَيْرَ فَرَّارٍ؛ میں کل ضرور بضرور یہ پرچم ایسے مرد کو عطا کروں گا، جس کو اللہ اور اس کا رسول، دوست رکھتے ہیں اور خدا اور رسول سے محبت کرتا ہے، جو بہت حملہ کرتا ہے اور بھاگنے والا [اور موت سے ڈرنے والا] نہیں ہے۔

دوسرے روز سب جاننا چاہتے تھے کہ یہ عظیم انسان کون ہے؛ اور اسی اثناء میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: علی بن ابی طالب کو حاضر کرو۔ آپ کو آنحضرت کے سامنے حاضر کیا گیا، جبکہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنا آب دہن مبارک آپ کی آنکھوں میں ڈالا، اور پھر پرچم بھی آپ ہی کو تھما دیا اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے اہل خیبر کو شکست دی اور اسلام کے لئے عظیم فتح و کامیابی رقم کر دی۔ (9)

4۔ حدیث منزلت: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) غزوہ تبوک کے لئے مدینہ سے باہر چلے گئے، اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا تاکہ وہ مدینہ کو ممکنہ حملوں اور فتنوں سے محفوظ رکھیں۔ کچھ لوگ حسد سے دوچار ہوئے اور اس عظیم فضیلت کو کمزوری قرار دیا اور کہا: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نہیں چاہتے تھے کہ علی جنگ میں شرکت کریں!"۔

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) یہ سن کر مدینہ سے باہر کی لشکرگاہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کیا: قریشی کہتے ہیں کہ آپ مجھے ساتھ نہیں لے گئے کیونکہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ میں جنگ میں شرکت کروں! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) شہر میں داخل ہوئے اور حکم دیا کہ لوگوں کو اکٹھا کیا جائے۔ جب لوگ جمع ہوئے تو فرمایا:

"أَيُّهَا النَّاسُ أَ فِيكُمْ أَحَدٌ إِلَّا وَ لَهُ مِنْ أَهْلِهِ خَاصَّةٌ قَالُوا أَجَلْ قَالَ فَإِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَاصَّةُ أَهْلِي وَ حَبِيبِي إِلَى قَلْبِي؛

کیا تم میں سے ایسا کوئی ہے جس کا اپنے خاندان میں ایک کوئی خاص، قابل اعتماد اور قریب ترین شخص نہ ہو؟ سب نے کہا: کیوں نہیں۔ فرمایا: تو یقین کے ساتھ جان لو کہ علی بن ابی طالب میرے خاندان میں میرے خاص، قابل اعتماد، بہت قریبی اور میرے دل کا محبوب ہیں"۔

اور پھر لوگوں کی موجودگی میں علی بن ابی طالب کی طرف رخ کرکے فرمایا:

"َأَما تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي؛

کیا آپ راضی نہیں ہیں اس پر کہ مجھ سے تمہاری وہی نسبت ہو جو موسیٰ (علیہ السلام) سے ساتھ  ہارون (علیہ السلام) کی تھی"۔

تو علی بن ابی طالب نے عرض کیا: "رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِه‏؛

میں اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہوں"۔ (10)

5۔ حدیث غدیر: ابن ابی وقاص نے کہا: میرے پاس ایک پانچویں فضیلت بھی ہے، اور وہ یہ کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ تھے، جب ہم غدیر خم کے مقام پر پہنچے، تو آنحضرت نے منادی کو حکم دیا کہ لوگوں کو اکٹھا کر دے۔ لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛

جس جس کا میں مولا و سرپرست ہوں، تو یہ علی بھی اس کے مولا و سرپرست ہیں، اے میرے معبود! جو ان کی پیروی کرے، اس کو دوست رکھ، اور جو اس سے دشمنی برتے، اس سے دشمن کر، اے معبود! جو ان کی مدد کرے، اس کی مدد فرما اور جو ان کو تنہا چھوڑے [اور ان کی مدد نہ کرے] اس کو بے یار و مددگار چھوڑ دے"۔ (11)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکہ میں جب معاویہ کے بعض حامیوں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے حق میں گستاخی کی تو سعد بن ابی وقاص نے رو رو کر کہا: وہ فضائل جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو اللہ نے عطا کئے تھے، اگر ان میں سے ایک فضیلت مجھ میں ہوتی تو بےشک میرے لئے بہتر ہوتی دنیا اور ان تمام اشیاء و موجودات سے جو اس میں ہیں۔

ابن ابی وقاص نے معاویہ کو مدینہ میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی توہین کی اجازت نہ دی جیسا کہ ان ہی ایام میں عائشہ ام المؤمنین نے معاویہ کو یزید کے لئے بیعت کا مسئلہ نہیں اٹھانے دیا اور یہ دونوں معاویہ کے ہاں گردن زنی کے لائق قرار پائے اور اگرچہ آج بہت سے لوگ ام المؤمنین کے لئے بھی گریباں پھاڑتے ہيں اور معاویہ کا دامن بھی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں لیکن معاویہ نے متعدد دیگر صحابہ کی طرح ابن ابی وقاص کو زہر دے کر اور اعمش کی روایت کے مطابق، عائشہ کو گڑھے میں گرا کر قتل کیا یا پھر مروان نے معاویہ کے حکم پر انہیں گڑھے میں گرایا اور یوں وہ وفات پا گئیں۔ (12)

ابن سعد نے یزید کے راستے میں جہنم کا راستہ اختیار کیا؛ جبکہ سنہ 50 یا 55 ہجری میں یزید کے باپ معاویہ نے ہی اس کے باپ سعد بن ابی وقاص کو زہر دے کر قتل کیا۔ اور ابن ابی وقاص نے وصیت کی کہ "مجھے اسی لباس میں دفن کیا جائے جو میں نے بدر کے دن مشرکین کے خلاف لڑتے ہوئے پہنا تھا"۔ (13) سعد بن ابی وقاص کی 11 بیویوں سے 36 بیٹے بیٹیاں تھیں جن میں ایک کا نام عمر تھا: عمر بن سعد۔

سوال یہ ہے کہ ابن ابی وقاص نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی بیعت سے انکار کیوں کیا اور اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ خود خلافت کے مسند پر بیٹھنے کے لئے سقیفہ میں خلیفہ اول اور خلیفہ ثانی کے ساتھ جدال و نزاع کرتا رہا تھا اور خلافت کو اپنا حق سمجھتا تھا۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

"أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ اثْنَانِ: اتِّباعُ الْهَوَى، وَطُولُ الْأَمَلِ؛

اے لوگو! میں دوچیزوں سے بہت زیادہ خائف ہوں کہ تم ان سے دوچار ہوجاؤ: ہوائے نفس کی متابعت اور طویل آرزوئیں"۔  لیکن ان لوگوں نے دوسروں کی مدد بھی نہیں کی جیسا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: (14)

"هُمُ الذِينَ خَذَلُوا الْحَقَّ وَلَمْ یَنْصُرُوا الْبَاطِلَ؛

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو بے یار و مددگار چھوڑا اور باطل کی مدد بھی نہیں کی"۔ (15)

جس دن خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب پر قاتلانہ حملہ ہؤا اسی دن عمر بن سعد پیدا ہؤا اور واقعۂ کربلا میں اس کی عمر 37 برس تھی اور چھ سال بعد 43 سال کی عمر میں مختار کے حکم پر ہلاک کیا گیا۔

عمر بن سعد کے جرائم میں ایک نہایت شرمناک جرم یہ تھا کہ اس نے رسول (صلی للہ علیہ و آلہ) کی آل و اولاد پر پانی بند کردیا۔ یزید بن حصین ہمدانی (16) ـ جو شہدائے کربلا میں جاوید ہوچکے ہیں ـ نے سیدالشہداء (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا: آپ کی اجازت ہو تو میں ابن سعد سے پانی کی بندش کے موضوع پر بات چیت کرتا ہوں شاید کہ مؤثر واقع ہوجائے۔ امام نے اجازت دی۔ یہ شہید کربلا جب عمر سعد کے خیمے میں داخل ہوئے اور ابن سعد کو سلام نہیں کیا۔ عمر سعد اس طرز سلوک پر بہت ناراض ہوا اور کہا:

یَا أَخَا هَمدَان! مَا مَنَعكَ مِنَ السَّلَامِ، أَلَستُ مُسلِماً!؛

اے ہمدانی بھائی! تم نے سلام کیوں نہیں کیا؟ کیا میں مسلمان نہیں ہوں۔

فَقَالَ لَهُ: هَذَا مَاءُ الفُرَاتِ تَشَرَبُ مِنهُ كِلَابُ السَّوَادِ وَخَنَازِيرُهَا وَهَذَا الحُسَينُ بنُ عَلِيٍ وَنِسَاؤُهُ وَأَهلُ بَيتِهِ يَمُوتُونَ عَطَشاً وَأَنتَ تَزعَمُ أَنَّكَ تَعرِفُ اللّهَ وَرَسُولَهُ؛

یزید بن حصین نے ابن سعد سے کہا: یہ فرات کا پانی ہے جس میں سے تمام حیوانات سیراب ہو رہے رہے ہیں، یہ حسین بن علی (علیہما السلام) اور آپ کی خواتین اور بچے ہیں جو پیاس سے رو بہ موت ہیں اور تمہارا گمان یہ ہے کہ گویا اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو پہچانتے ہو [اور خود کو مسلمان سمجھتے ہو]؟ عمر سعد نے سر جھکا کر کہا:

"وَاللَّهِ يَا أَخَا هَمْدَانَ إِنِّي لَأَعْلَمُ حُرْمَةَ أَذَاهُمْ وَلَكِنْ مَا أَجِدُ نَفْسِي تُجِيبُنِي إِلَى تَرْكِ الرَّيِّ لِغَيْرِي؛

خدا کی قسم اے ہمدانی بھائی! میں یقینا جانتا ہوں کہ ان کو آزار و اذیت دینا حرام ہے لیکن میری نفسانی خواہشات مجھے "رے" کی حکومت دوسروں کے حق میں، ترک کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں"۔ یـزید بن حصین پلٹ کر امام (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

"إِنَّ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ قَدْ رَضِيَ أَنْ يَقْتُلَكَ بِمُلْكِ الرِّيِّ؛

میرے مولا! ابن سعد رے کی حکومت کی خاطر آپ کے قتل پر آمادہ ہو چکا ہے"۔ (17)

کربلا میں یزیدی لشکر کے کمانڈر ابن سعد نے پانی بند کرکے صفین میں معاویہ کی روایت زندہ کر دی۔ چنانچہ کربلا میں پانی کی بندش کوئی نئی بات نہیں بلکہ اموی روایت تھی۔ معاویہ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر پانی بند کرکے اس بھونڈی روایت کی بنیاد رکھی تھی اور جب امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے مالک اشتر اور اشعث بن قیس کو بھجوا کر شریعۂ فرات کو معاویہ سے چھڑوایا تو معاویہ نے عمرو عاص سے کہا: کیا علی بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم نے کیا؟ عمرو نے جواب دیا:

"ظَنِّي بِهِ أَنَّهُ لَا يَسْتَحِلُّ مِنْكَ مَا اسْتَحْلَلْتُ مِنْهُ وَأَنْ الَّذِي جَاءَ لَهُ غَيْرُ الْمَاءِ؛

میرا خیال یہ ہے کہ وہ تیرے ساتھ وہ سلوک روا نہیں رکھیں گے جو تو نے ان کے ساتھ روا رکھا، اور جس کے لئے وہ یہاں آئے ہیں، وہ پانی [کی بندش] کا مسئلہ نہیں ہے"۔ (18)

آخری بار عاشورا کی صبح کو دوسرے خطبے اور اتمام حجت کے بعد امام حسین (علیہ السلام) نے عمر سعد کو بلایا اور فرمایا:

"أَيْ عُمَرُ أَتَزْعَمُ أَنَّكَ تَقْتُلُنِي وَيُولِيَكَ الدَّعِيُّ بِلَادَ الرَّيِّ وَجُرجَانَ، وَاللَّهِ لَا تتهنأ بِذَلِكَ، عَهْدُ مَعْهُودُ، فَاصْنَعْ مَا أَنْتَ صَانِعُ، فَإِنَّكَ لَا تَفْرَحْ بَعْدِي بِدُنْيَا وَلَا آخِرَةٍ وَكَأَنِّي بِرَأْسِكِ عَلَى قَصَبَةِ يَتَرَامَاهُ الصِّبْيَانِ بِالْكُوفَةِ وَيَتَّخِذُونَهُ غَرَضاً بَيْنَهُمْ؛

تم سمجھتے ہو کہ مجھے قتل کروگے اور یہ زنازادہ شخص کا بیٹا تمہیں رے اور گرگان کی حکومت دے گا! خدا کی قسم! یہ ایک طے شدہ عہد و پیمان ہے۔ اب تم جو کرسکتے ہو کر گذرو، لیکن جان لو کہ میرے بعد کبھی بھی دنیا اور آخرت میں فرح و سرور کا منہ نہیں دیکھ سکوگے؛ اور گویا میں ابھی سے دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا سر نیزے کے اوپر نصب کیا جا چکا ہے اور کوفہ کے بچے اس کو ایک دوسرے کے پاس پھینک رہے ہیں اور اس کو بازيچہ بنائے ہوئے ہیں"۔  (19)

عمر بن سعد عاشورا کے دن

"فَتَقَدَّمَ عُمَرُ بْنِ سَعْدٍ فَرَمَى نَحْوَ مُعَسْكِرِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقَالَ اشْهَدُوا لِي عِنْدَ الأمِيرِأَنِّي أَوَّلُ مَنْ رَمَى، وَأَقبَلَتِ السِّهَامَ مِنَ الْقَوْمِ كَأَنَّهَا الْمَطَرُ؛ (20)

تو عمر بن سعد نے ایک تیر امام حسین (علیہ السلام) کی لشکرگاہ کی طرف پھینکا، اور کہا: امیر (ابن زیاد لعین) کے پاس گواہی دو کہ میں پہلا شخص تھا جس نے تیر پھینکا؛ اور [اس کے بعد] یزیدی لشکر کی طرف سے اتنے تیر برسے کہ گویا تیروں کی بارش ہو رہی ہے۔

"ثُمَّ رَمَاهُ سَنَانُ أَيْضاً بِسَهْمٍ فَوَقَعَ السَّهْمُ فِي نَحْرِهُ فَسَقَطَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَجَلَسَ قَاعِداً فَنَزَعَ السَّهْمَ مِنْ نَحْرِهِ؛

عاشورا کے ظہر کے بعد، سنان بن انس لعین نے ایک تیر امام حسین (علیہ السلام) کی طرف پھینکا جو آپ کے گلے میں لگا اور آپ (علیہ السلام) زین سے زمین پر گرے؛ اور زمین پر بیٹھ گئے اور تیر اپنے گلے سے باہر نکالا"۔

تو عمر بن سعد ملعون نے ایک دوسرے شقی سے کہا کہ اترے اور امام حسین (علیہ السلام) کا کام تمام کردو۔ خولی بن یزید اصبحی ملعون اترا لیکن گھبرا کر پیھچے ہٹا اور سنان بن انس نخعی ملعون نے آپ کا سر مبارک آپ کے جسم مبارک سے جدا کر دیا"۔

"فَوَقَعَ السَّهمُ فِي نَحرِهِ فَسَقَطَ عَلَيهِ السَّلَام؛"۔ عمر بن سعد نے ایک شقی سے کہا کہ اترو اور امام حسین (علیہ السلام) کا کام تمام کردو۔ خولی نیچے اترا لیکن گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا حتیٰ کہ سنان بن انس نخعی نے سرمبارک تن سے جدا کیا۔ (21) یہ بھی روایت ہے کہ ریحانۃ الرسول امام حسین بن علی (علیہما السلام) کا سر مبارک شمر نے جدا کیا تھا۔ (22)

عمر بن سعد نے کربلا میں اشقیاء کی سپہ سالاری قبول کرنے سے قبل "کامل" نامی شخص سے مشورہ کیا جو اس کے باپ کا دوست تھا۔ کامل نے اس سے کہا: ہلاکت ہو تیم پر! کیا تم فرزند رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو قتل کروگے؟ اگر وہ پوری دنیا میرے حوالے کرنا چاہیں پھر بھی امت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ایک عام فرد بھی قتل کرنے کے لئے تیار نہیں ہونگا چہ جائے کہ فرزند رسول (ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کروں! عمر سعد نے کہا: اگر میں امام حسین (علیہ السلام) کو قتل کروں تو مجھے ستر ہزار افراد کا امیر بنایا جائے گا۔

کامل نے جب دیکھا کہ عمر قتل حسین (علیہ السلام) کا ارادہ کرچکا ہے تو اس نے ایک روایت اس کو یوں سنائی:

ایک دفعہ میں تمہارے باپ سعد بن ابی وقاص کے ساتھ شام کے سفر پر جارہے تھے۔ میری رفتار کم تھی چنانچہ پیچھے رہ گیا اور پیاس مجھ پر غالب آگئی۔ ایک راہب کے دیر میں پہنچا، گھوڑے سے اترا اور پانی کی درخواست کی۔

راہب نے کہا: کیا تم اسی امت میں سے ہو جس کے بعض بعض دوسروں کو قتل کرتے ہیں؟

میں نے کہا: میں امت مرحومہ سے ہوں۔

راہب نے کہا: وائے تم پر قیامت کے دن، کہ تم اپنے پیغمبر کے فرزند کو قتل کروگے اور ان کے خاندان کو اسیر بناؤگے۔

میں نے کہا: کیا ہم اس عمل کے مرتکب ہونگے؟

راہب نے کہا: اور اس وقت زمین اور آسمان آہ و فریاد کریں گے اور اس کے قاتل زیادہ عرصے تک اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکیں گے حتیٰ کہ ایک شخص خروج کرکے ان سے انتقام لے گا۔

راہب نے مزید کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس کے قاتل کو جانتے ہو۔

میں نے کہا: خدا کی پناہ! کہ میں اس کے قاتلوں میں شمار ہوجاؤں۔

راہب نے کہا: اگر تم نہ بھی ہوئے تو تمہارے اقرباء میں سے کوئی ہوگا۔ امام حسین کے قاتل کا عذاب فرعون و ہامان سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ اس کے بعد راہب نے دروازہ بند کردیا۔

کامل کہتا ہے: میں اپنے گھوڑے پر سوار ہؤا اور اپنے ساتھیوں سے جا ملا۔ اور تمہارے باپ کو ماجرا کہہ سنایا۔ اور تمہارے باپ نے کہا کہ راہب سچ کہتا ہے اور یہ کہ اس نے بھی قبل ازیں اس راہب کو دیکھا ہے اور اس کو بتا چکا ہے کہ "اس کا بیٹا فرزند رسول کا قاتل ہے"۔

کامل نے یہ بات عمر بن سعد کو سنائی اور خبر یزید کے گورنر ابن زیاد کو پہنچی تو ابن زیاد نے کامل کو بلوایا اور اس کی زبان کٹوا دی اور کامل ایک دن زندہ رہا اور دنیا سے رخصت ہؤا۔ (23)

ابن سعد اور اس کے ساتھیوں کا انجام

مختار بن ابی عبیدہ ثقفی نے کوفہ میں حکومت قائم کرنے کے بعد ایک قاصد عبداللہ بن زبیر کے پاس روانہ کیا جو اس وقت حجاز میں اپنی حکومت قائم کر چکا تھا۔ مختار نے قاصد سے کہا کہ وہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے بیٹے محمد بن حنفیہ سے بھی ملاقات کرے اور انہیں سلام پہنچا دے۔

محمد نے کہا: مختار ہم سے محبت کا اظہار کیونکر کرتا ہے جبکہ عمر بن سعد ابھی تک زندہ ہے اور ان کی مجلس میں بیٹھتا ہے!

مختار کو پیغام ملا تو کوفہ کے امیرشرطہ (یعنی پولیس سربراہ اور ابن سعد کے بہت سے ساتھیوں کو موت کی سزا دینے والے، عبد اللہ بن کامل شاکری [المعروف بہ بن کامل]) کو حکم دیا کہ کچھ لوگوں کو اجیر کرے تا کہ وہ جا کر عمر بن سعد کے گھر کے سامنے سیدالشہداء امام حسین (علیہ السلام) کے لئے عزاداری کریں۔

منصوبے پر عمل ہؤا تو عمر بن سعد نے اپنے بیٹے حفص کو (جو کربلا کے جرائم میں اس کے ساتھ برابر کا شریک تھا) مختار کے پاس روانہ کیا اور کہا:

"مَا شَأنُ النَوَائِحِ يَبكِينَ الحُسَينَ عَلَى بَابِي؟؛

میرے گھر کے دروازے پر امام حسین (علیہ السلام) کے لئے عزاداری کرنے والوں کا یہ اجتماع کیا ہے؟

جب حفص مختار کے پاس پہنچا، تو اسی وقت شُرطہ کے کارکن عمر بن سعد کے گھر میں داخل ہوئے اور ابن سعد کو اپنے بستر پر لیٹا پایا اور کہا: اٹھو! وہ اٹھا جبکہ لحاف میں لپٹا ہوا تھا۔ اسی وقت اس کا سر بدن سے جدا کرکے فوری طور پر مختار کے پاس پہنچا دیا گیا جہاں اس کا بیٹا موجود تھا۔

مختار نے حفص سے کہا:

"هَل تَعرِفُ هَذَا الرَّأسَ؟؛

کیا تم اس سر کو پہچانتے ہو؟

حفص نے کہا: ہاں!

مختار نے کہا: کیا پسند کرتے ہو کہ تمہیں بھی اس سے ملحق کردوں؟

حفص نے کہا: باپ کے بعد زندگی میں مزید کوئی خیر نہیں ہے چنانچہ مختار نے اس کو باپ سے ملحق کردیا۔ (24)

یہ واقعہ 9 ربیع الاول کو رونما ہوا اور یوں نو ربیع الاول جشن اور عید کا دن ٹہرا۔

..........

حوالہ جات:

1۔ سورہ ق، آیت 18۔

2۔ شیخ طوسی، (محمد بن حسن)، التبیان فی تفسیر القرآن، ج‏1، ص5؛ امین الاسلام طبرسی، (فضل بن حسن)، مجمع البیان فى تفسیر القرآن، ج1، ص39؛ فیض کاشانی، محمد بن مرتضی المعروف بہ ملا محسن)، تفسیر الصافی، ج‏1، ص36؛ شیخ طوسی، (محمد بن حسن)، العدۃ فی أصول الفقہ، ج1، ص350۔

3۔ سورہ عنکبوت، آیت 29۔

4۔ سورہ زلزال، آیات 7-8۔

5۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج44، ص388؛ سید امین العاملی، أعیان الشیعہ، ج1، ص595؛ ابن کثیر، (اسماعین بن عمر)، البدایۃ والنہایۃ،ج8، ص175، الخوارزمی، مقتل الحسین، ج1، ص245۔

6۔ ابن حجر العسقلانی، (احمد بن علی)، تہذیب التہذیب،، ج7، ص450۔

7۔ الأمالي، مفيد، محمد بن محمد، محقق / مصحح: استاد ولى، حسين، غفارى، على اكبر، كنگره شيخ مفيد، قم‏، 1413 قمری‏، چاپ: اول، ص56۔

8۔ میلانی، سید علی حسینی، حدیث سد الأبواب، ص15؛ النسائی، (احمد بن علی بن شعیب)، خصائص امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، ص59؛ احمد بن حنبل، (احمد بن محمد شیبانی)، المسند، ج32، ص41؛ قاضی نعمان، (ابوحنیفه نعمان بن محمد التمیمی)، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار علیہم السلام؛  ج2، ص180، ح520؛ الاربلی، (علی بن عیسیٰ)، کشف الغمہ، ج1، ص451؛ قمی، (شیخ عباس، المعروف بہ محدث قمی)، وقائع الایام، ص116۔

9۔ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، مفيد، محمد بن محمد، محقق / مصحح: مؤسسة آل البيت(عليهم السلام‏)، كنگره شيخ مفيد، قم‏، ‏1413 قمری، چاپ: اول، ج ‏1، ص 64.

10۔ شیخ مفید، (محمد بن محمد)، الأمالي (للمفيد)، همان، ص 57۔

11۔ الكافي، كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق‏، محقق / مصحح: غفارى، على اكبر، آخوندى، محمد، دار الكتب الإسلامية، تهران، ‏1407 قمری، چاپ: چهارم، ج ‏1، ص 138، باب (جوامع التوحيد)۔

12۔ سید بن طاؤس، (علی بن موسیٰ الحسنی)، الطرائف في معرفۃ مذاہب الطوائف، ص503۔

13۔ عز الدین ابن اثیر، (علي بن محمد الجزری)، اسد الغابہ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص290؛ مجلسی،  بحارالانوار، ج28، ص130- ج40،ص 39۔

14۔ نہج البلاغہ، خطبہ 43۔   

15۔ نہج البلاغہ، حکمت 18۔  

16۔ شیبہ نے یہ واقعہ انس بن حرث کاہلی اور بریر بر خضیر ہمدانی کے لئے بھی نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ واقعہ دو بار دہرایا گیا ہے یا پھر راویوں کے نام میں اشتباہ واقع ہؤا ہے۔

17۔ الاربلی (علی بن عیسیٰ)، كشف الغمہ، ج2، ص47۔

18۔ نصر بن مزاحم المنقری، وقعۃ صفین، ص186۔

19۔ مقتل الحسین علیه السلام خوارزمى، 2/8 / مقتل الحسین مقرم، 289۔

20۔ سید بن طاؤس، (علی بن موسیٰ الحسنی)، ص42؛ ابن کثیر، البدایة والنهایة، 8/181۔

21۔ شیخ صدوق (محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابَوَیْہ قمی)، اعتقادات الامامیۃ، ص98؛ سید بن طاؤس، اللہوف، ص52۔

22۔ شیخ مفید، (محمد بن محمد)، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، ج‏2، ص112۔

23۔ علامہ مجلسی، بحارالانوار، ج44، ص306۔

24۔ ابن قتیبہ الدینوری، (عبداللہ بن مسلم)، الامامۃ و السیاسۃ، ج2، ص19؛ الطبری، (محمد بن جریر)، ج6، ص62۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مضمون کئی برس پہلے لکھا گیا تھا اور خبرایجنسی ابنا پر شائع ہؤا تھا اور ابنا کے حوالے سے ہی دوسری ویب گاہوں پر بھی صارفین و قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا؛ اور کچھ اصلاحات اور اضافات کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

بقلم: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110