23 ستمبر 2023 - 01:08
آٹھ سالہ دفاع مقدس نے ثابت کیا کہ ہمارے نوجوان تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں / دشمن کا اصل مسئلہ اسلامی جمہوریہ ہے۔۔۔ امام خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی نے مدافعین کی دینی خصوصیت کو دوسری جنگوں سے دفاع مقدس کا ایک اہم فرق قرار دیا اور فرمایا: محاذ جنگ میں اللہ تعالیٰ اور معنویت کی طرف توجہ، مجاہدین کے تئیں عوامی پشت پناہی اور شہداء کے والدین اور زوجات کی استقامت نے دفاع مقدس اور اگلے مورچوں کو محراب عبادت بنا رکھا تھا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے کل (بروز بدھ 20 ستمبر 2023ع‍) کی صبح کو مقدس دفاع کے ہزاروں طلایہ داروں (Vanguards) اور دفاع مقدس کے نقیبوں نیز مسلط کردہ جنگ کی تشریح اور وضاحت کے مختلف شعبوں میں سرگرم کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے دفاع مقدس کی عظمت اور اس مشکل تقابل کے میدان میں ایرانی قوم کی استقامت کے ثمرات کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے ارضی سالمیت، ملت ایران کی عظیم صلاحیتوں کے منظر عام پر آنے، اسلامی جمہوریہ ایران کی غیر جغرافیائی حدود کی وسعت میں اضافے اور ملک کے اندر اور عالمی سطح پر مقاومت (Resistance) کے مفہوم اور ثقافت کی نشوونما اور استحکام کو عالمی غنڈوں اور صدام خبیث کے مقابلے میں ملت ایران کی استقامت کے عمومی دفاعی اقدام کے نتائج میں شمار کیا اور فرمایا: دفاع مقدس کے دوران نوجوانوں کی استعدادوں اور تخلیقی صلاحیتوں کی بالیدگی سے ثابت ہؤا کہ نوجوان ہمیشہ اور ہر وقت، ملکی مسائل حل کرنے پر قادر ہیں۔ 

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے دفاع مقدس کو تاریخ ایران کا اہم اور نمایاں مرحلہ قرار دیا اور فرمایا: اگر تاریخ ایران کے اس بامعنی اور بنیادی مرحلے کے پہلوؤں اور مسلط کردہ جنگ میں ملت ایران کی فتح یابی کو نوجوانوں کی پے در پے آنے والی نسلوں کے لئے واضح کیا جائے، کارہائے عظیم آگے بڑھیں گے، اور اس سلسلے میں کام ہؤا ہے؛ لیکن صلاحیتوں اور قابلیتوں اور دفاع مقدس کی حیرت انگیز باریکیوں اور جزئیات کی تشریح کے لئے اس کام میں سو گنا اضافہ ہونا چاہئے۔

رہبر معظم نے دفاع مقدس کے ایک اہم حصے کی تشریح کے لئے، اس کا چار بنیادی زاویوں سے جائزہ لیا: جنگ میں کس چیز کا دفاع کیا گیا، کن کے مقابلے میں دفاع کیا گیا، دفاع کرنے والے کون تھے اور اور اس دفاع کے نتائج اور ثمرات کیا تھے۔

رہبرانقلاب نے فرمایا: دشمنوں کا مقصد یہ تھا کہ انقلاب اسلامی اور اسلامی جمہوریہ کو کچل دیں اور ملک کے کچھ حصوں کو الگ کر دیں۔

آپ نے فرمایا: عظیم اسلامی انقلاب ایک بے مثل اور انوکھا واقعہ تھا کیونکہ اُس وقت تک ایسا انقلاب کہیں بپا اور کامیاب نہیں ہؤا تھا جس کا حاصل ایسی حکومت ہو جو دینی بھی ہو اور عوامی بھی۔ اور عالمی غنڈے اسلامی جمہوریہ کی اس نئی بات یعنی "اسلامی جمہوریہ اور دینی جمہوریت" کو تباہ کرنا چاہتے تھے اور آج تک بھی اسی مقصد کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے فرمایا: ایک ملک کے بعض حصے الگ کرنے کے لئے سرحدی جنگیں بپا کرنا، ایک مروجہ رجحان تھا۔ لیکن ان جنگوں کے برعکس، ہمارے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا مقصد، ایک ملک کا پورا وجود، ایک ملت کی شناخت و تشخص اور اس کی تمام حصول یابیوں اور جانفشانیوں کو نیست و نابود کرنا تھا؛ اور اسی زاویئے سے دفاع مقدس کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب نے فرمایا: دفاع مقدس کی عظمت کے ادراک کے لئے، حملہ آوروں کی شناخت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ اس دن دنیا کی تمام نمایاں طاقتیں ایک مورچے میں اکٹھی ہو گئیں اور ملت ایران پر صدام کی یلغار کی حمایت کی۔

آپ نے صدام کے تئیں استکباری طاقتوں کی امداد کی تشریح کرتے ہوئے ان رپورٹوں کی طرف اشارہ کیا جن سے ثابت ہے کہ امریکہ ہی نے صدام کو ایران پر حملے کی ترغیب دلائی تھی، اور فرمایا: امریکی صدام کو مسلسل معلومات فراہم کرتے تھے، جارحوں کو تربیتی سہولیات فراہم کرتے تھے، فرانسیسیوں نے صدام کو جدید ترین فضائی اوزار اور آلات دیئے، جرمنوں نے صدام کو المناک کیمیاوی ہتھیاروں کی تیاری کا امکان فراہم کیا، سوویت اتحاد کی سرکردکی میں مشرقی بلاک نے ہر وہ زمینی اور فضائی وسائل فراہم کئے جو صدام چاہتا تھا؛ اور خطے کے عربوں نے بے حساب و کتاب پیسہ صدام کو دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے "مستکبرین، صدام اور خطے کے عرب ممالک" کے ساتھ جنگ میں جمہوریہ اور ملت ایران کی تنہائی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ملت ایران اس نابَرابَر (unequal) جنگ میں کامیابی کے چبوترے پر کھڑی ہوئی اور اپنی عظمت اور شان و شِکُوہ کو ثابت کرکے دکھایا۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے دفاع مقدس کی عظمت کی تشریح کا تیسرا زاویہ بیان کیا اور اس بے مثل تاریخی حماسے (Epic) پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: اس مسئلے کی ظاہری صورت یہ تھی کہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ایران کی مسلح افواج ـ بشمول سپاہ پاسداران، فوج اور بسیج ـ کی طرح، [دشمن کے] حملے کا سد باب کر رہے ہیں، لیکن اس دفاع کی باطنی حقیقت اور دوسری جنگوں کے باطن میں فرق ہے۔

آپ نے امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کی سپہ سالاری کو اس فرق کا ایک اہم مصداق قرار دیا اور فرمایا: اس [دفاعی] مجموعے کی کمان امام بزرگوار کے ہاتھ میں تھی جو ایک الٰہی انسان تھے ایک بے مثل الٰہی شخصیت، جو علم و دانش اور تجربے اور پختگی کے ساتھ ساتھ ایک شفاف روح اور روحانی خلوص کے مالک تھے، چنانچہ آپ کا کلام اثر انگیز تھا۔ [مثال کے طور پر جب آپ نے فرمایا کہ] "شہر پاوہ کو نجات دلانا چاہئے"، تو اس سلسلے میں میں نے شہید ڈاکٹر چمران سے خود سنا جو کہہ رہے تھے کہ "سہ پہر دو بجے امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کا پیغام ریڈیو سے نشر ہؤا ـ یہ وہ وقت تھا جب شہید چمران اور ان کے ساتھی گھیرے میں تھے ـ تو اچانک، اور پیغام کے نشر ہوتے ہی، جبکہ ابھی کوئی نفری نہیں پہنچی تھی، یا شاید کوئی نفری روانہ ہی نہیں ہوئی تھی، ہم نے دیکھا کہ ہمارے اطراف [کے راستے] کھل گئے"۔ اس پیام کی صدا اور اس کلام کی اثرانگیزی، [یہ تھی]؛ یہ میں نے خود شہید عزیز ڈاکٹر چمران سے سنا۔ یا جب امام نے فرمایا کہ "آبادان کا محاصرہ ٹوٹ جانا چاہئے"، تو چون و چرا کے بغیر، محاصرہ ٹوٹ گیا۔ مختلف مسائل میں، [مثلاً] سوسنگرد شہر [پر صدامی فوج کے قبضے کے بعد]، اس شہر پر حملے کے سلسلے میں اس کشمکش کے باوجود، ـ کہ جاکر دفاع کریں یا نہ کریں، کچھ مسائل پائے جاتے تھے، [لیکن] ـ جب امام کا پیغام ـ بالواسطہ طور پر ـ پہنچا، تو مسئلہ حل ہو گیا۔ [یہ محاذ جنگ پر] امام جیسے ایک سپہ سالار [کے اثرات تھے]، جن کا کلام اس قدر اثرانگیزی تھا اور جو روحانیت اور خلوص کے کے مالک تھے۔.

رہبر انقلاب نے دفاع مقدس کے مجاہدین کی الٰہی خصوصیت کو دوسری جنگوں اور دفاع مقدس کے دوسرے فرق کا مصداق قرار دیا اور فرمایا: محاذ جنگ میں خدا کی طرف توجہ اور روحانیت و معنویت، مجاہدین کے تئیں عمومی عوامی پشت پناہی اور شہیدوں کے والدین اور زوجات کی استواری اور استقامت نے دفاع مقدس اور اگلے مورچوں کو محراب عبادت بنا رکھا تھا۔

رہبر معظم نے فرمایا: دفاع مقدس میں تمام معاشرتی طبقات نے کردار ادا کیا، مساجد، دینی مدارس، عام اسکول، یونیورسٹیاں مجاہدین کی اٹھان اور محاذ جنگ میں نفری بھیجنے میں مصروف تھیں، اور یہ دفاع مقدس کی دینی خصوصیت کا ایک مظہر ہے، اور آج ان تمام معاشرتی تہہوں اور طبقوں میں دلکش فنکارانہ کاوشیں تیار کی جا سکتی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کی عظمت کے چوتھے حصے میں، ملک و ملت کی کثیر اور بے مثل ثمرات اور حصول یابیوں کا جائزہ لیا۔

آپ نے فرمایا: دفاع مقدس میں ارضی سالمیت کا کامیابی سے تحفظ کیا گیا اور ہمارے وطن عزیز کا ایک انچ بھی مادر وطن سے جدا نہیں ہؤا۔ قوم کی عظیم صلاحیتوں کا آشکار ہونا، دفاع مقدس کے اہم ترین اثرات میں سے ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے قاجار اور پہلوی حکمرانوں سمیت، بڑی طاقتوں سے وابستہ عناصر کی ذلت آمیز تشہیری مہم اور تلقینات کے برعکس، ملت ایران نے دفاع مقدس کے آئینے میں اپنی عظمت اور صلاحیتوں کا ادراک اور یقین کر لیا، کیونکہ تمام دشمن کیوں آٹھ سال تک اس کے خلاف متحد ہوئے مگر باوجود کچھ بھی نہیں کر سکے۔

آپ نے ہزاروں نوجوانوں کی صلاحیتوں کی بالیدگی کو دفاع مقدس کے دوسرے شوق آفریں حقائق میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا: ان مسائل کی رو سے، پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ملک کے نوجوان تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔

ایران کی مامون سازی (Immunization) آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوسرے ثمرات میں سے ایک تھا اور رہبر انقلاب نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک زبردست عمومی دفاع کے نتیجے میں، کافی حد تک محفوظ ہو چکا ہے؛ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ [دشمنوں نے] بارہا کہا کہ "فوجی حملے کا آپشن میز پر ہے"، لیکن یہ آپشن ان کی میز سے ہل بھی نہ سکا، کیونکہ وہ ملت ایران کو جنگ کے دوران پہچان چکے تھے اور جانتے تھے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ [دشمن] کسی اقدام کا آغاز کریں، لیکن اس اقدام کا اختتام ہماری قوم کے ہاتھ میں ہوگا۔ 

رہبر انقلاب نے آٹھ سالہ جنگ کے دوران طاقت، وسیع صلاحیتوں، ذہانت، تخلیق، جدت طرازی اور عالمی غنڈوں پر قابو پانے کی صلاحیت کے ظہور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جب یہ قومی صلاحیتیں ظہور پذیر ہوتی ہیں، دوسرے میدانوں میں فتح و کامیابی نیز ترقی کی امید اور جوش خروش و خروش میں اضآفہ ہوتا ہے۔

ایران کی غیر جغرافیائی حدود ـ منجملہ فکری اور علمی اور معرفتی حدود ـ میں وسعت آنا، دفاع مقدس کی دوسری حصول یابیوں میں سے ایک تھا، جس کی طرف امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اشارہ کیا اور فرمایا:

اس بہت اہم کامیابی کے نتیجے میں فلسطین، شام، عراق اور دیگر خطوں میں مقاومت (یا مزاحمت) کا عالمی تصور قائم اور مستحکم ہو چکا ہے؛ اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے مختلف خطوں میں ایرانی قوم کے کارنامے، دوسری قوموں کے لئے نمونہ عمل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خود اعتمادی کی ثقافت کے ظہور اور استحکام کو دفاع مقدس کا معجزہ قرار دیا اور فرمایا: عالمی غنڈوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر ہمارے اہم خطے پر للچائی ہوئی نظریں رکھی ہوئی ہیں، اور آج بھی رکھتے ہیں؛ اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی روحانی اور معنوی موجودگی اور مقاومتی ثقافت کے عروج نے امریکہ اور بعض دوسروں کو چيخنے چلانے پر مجبور کر دیا ہے؛ کیونکہ قوموں کی مقاومت ان کی مفاد پرستی کی راہ میں حائل ہوئی ہے۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے ملک کے اندر بھی مقاومت کی نشوونما اور مقاومتی فکر کے استحکام کو دفاع مقدس کے سالوں کا ثمرہ قرار دیا اور فرمایا: جنگ کے بعد کے بعد کے تین عشروں سے کچھ زیادہ کے اس عرصے میں، ہمیں مختلف یلغاروں اور فتنہ انگیزیوں کا سامنا رہا ہے، جو ہماری ملت میں مقاومتی ثقافت کے استحکام کی وجہ سے ناکام ہو چکی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے بارے میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کو ہمارے ملک پر "حق حیات" حاصل ہے، لیکن کچھ لوگ شبہہ اور اعتراض کرتے ہیں اور تحریف سے کام لیتے یا کھلا جھوٹ بولتے ہیں اور اس کی عظمت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس سلسلے میں [حق و حقیقت کے] شارحین پر لازم ہے کہ مسلط کردہ جنگ کے تاریخ ساز حقائق کو احسن انداز سے بیان کریں۔ 

آپ نے باصلاحیت اور مستعد افرادی قوت کو دفاع مقدس کے سلسلے میں پرکشش فنکارانہ کاموں ـ بشمول اچھی فلمیں بنانے اور کتابیں اور ناول لکھنے، ـ میں بہت زیادہ اضآفے کے لئے سازگار ماحول قرار دیا؛ اور فرمایا: [اس کے وجود] ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ کسی بھی وجہ سے، ایسے کاموں میں کہیں اپنا اصلی مقصد کھو نہ جائیں۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں، مسلح افواج کے بارے میں کچھ نکات بیان کئے۔

آپ نے مسلح افواج کو ہر معاشرے [اور قوم] کی حتمی ناموس قرار دیا اور فرمایا: دشمن  کی یلغار کا نشانہ بننے والے اہداف میں سے ایک مسلح افواج کی قدر و منزلت، شان و عظمت اور عزت و وقار کو نقصان پہنچانا ہے۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے مسلح افواج کی توقیر و تکریم کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امن و سلامتی ملک و قوم کا سب کچھ ہے اور اگر نہ ہو تو معیشت، اور سکون و اطمینان بھی نہیں ہے؛ چنانچہ ہمیں مختلف جہتوں سے مسلح افواج کے مسائل کی طرف توجہ دینا چاہئے، ان کی موجودگی کو سراہنا چاہئے [اور غنیمت سمجھنا چاہئے]؛ اور ان کی کوششوں [اور کاوشوں] کا احترام کرنا چاہئے۔

آپ نے اس نکتے پر زور دیا کہ "مغرب کے برعکس اسلام میں طاقت کی منطق برتری اور دوسروں کی تذلیل پر مبنی نہیں ہے"، اور مسلح افواج سے مخاطب ہو کر فرمایا: طاقت اور حسن سلوک و خوش گفتاری کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اور جیسے جیسے آپ کی فطری اور قانونی طاقت و قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے، آپ کی انکساری اور لوگوں کے ساتھ نرمی اور اللہ تعالیٰ کی طرف آپ کی توجہ میں اضافہ ہونا چاہئے۔

امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) نے آخر میں ـ مختلف امور و معاملات میں نیت الٰہیہ کی صورت میں ـ نصرت الٰہیہ کے وعدے کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا: جب تک کہ ہم اللہ کی راہ میں، اور اللہ کی خاطر، کام کرتے رہیں گے، ـ خواہ ہم سمجھیں خواہ نہ سمجھیں ـ کسی شک کے بغیر، اللہ ہماری مدد فرمائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110