اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
جمعہ

11 اگست 2023

4:41:00 AM
1386245

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین؛

عاشورا بصیرت کی میزان / علمدار کربلا بصیرت کی علامت

اگر اپنے آپ کو عاشورا کی کسوٹی پر پرکھنا چاہو تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم راہ خدا یعنی راہ حسین، اصحاب اور ابوالفضل العباس (علیہم السلام) پر گامزن رہنے کے لئے کہاں تک جا سکتے ہیں اور کہاں تک استقامت کر سکتے ہیں؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ کہا گیا ہے کہ "کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا"؛ اور انقلاب اسلامی کے رہبر معظم فرماتے ہیں کہ "تاریخ کے ہر دور میں انسانوں کا کردار ہوتا ہے اگر وہ اس کردار کو درست اور درست انجام دیں تو سب کچھ درست ہو جائے گا، اقوام عالم نشوونما پائیں گی، انسانیت کو فروغ ملے گا"۔

حوزہ و جامعہ کے استاد جناب حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر نجف لک زائی نے محرم کی مناسبت سے اپنے سلسلہ وار مضامین کی ایک کڑی کے طور مضمون بعنوان "عاشورا عزاداری کی میزان" میں لکھا:

بصیرت ان موضوعات میں سے ہے جنہیں ہمیں قافلۂ حسینی سے اپنی قربت یا دوری کا ادراک کرنے کے لئے عاشورا کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ جب انسان بصیرت پاتا ہے تو گویا کہ وہ ایمان سے جڑا ہؤا ہے، اور یہ صفت اس کے اعمال اور سلوک میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ عاشورا کے دن اس بصیرت کی علامت حضرت عباس (علیہ السلام) ہیں۔ امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ "ہمارے چچا عباس (علیہ السلام) بصیرت نافذہ اور ایمان محکم کے مالک تھے"، یعنی یہ کہ بصیرت ایمان سے جنم لیتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ عباس (علیہ السلام) کن خصوصیات کے حامل تھے کہ امام صادق (علیہ السلام) نے انہیں بصیرت اور ایمان کی استواری جیسی صفات کا مالک ٹہرایا؟ یہ جاننے کے لئے عاشورا سے قبل کے واقعات کی طرف پلٹنا پڑے گا۔

یزید پلید کی ایک پالیسی یہ تھی کہ اس نے محاذ حق کے بہت سے خاص افراد کو رشوت دے کر خرید لیا، بدقسمتی سے کچھ لوگ بک بھی گئے۔ اس نے کچھ لوگوں نے دھونس دھمکی کے ذریعے امام سے الگ کر دیا، کچھ کو پابند سلاسل کیا۔ امام کے خلاف جنگ کے لئے آنے والوں میں اکثریت ـ مال و دولت اور عہدوں اور مناصب کا وعدہ پاکر ـ بکے ہوئے لوگوں کی تھی۔ عمر بن سعد ان ہی لوگوں میں سے تھا جس کو رے کی حکومت کا وعدہ دیا گیا تھا۔

چنانچہ دو فریقوں کی حالت غیر متوازن تھی۔ کچھ لوگ امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو "سپاہ حسینی" کا نام دیتے ہیں، جو درست نہیں ہے کیونکہ امام کے پاس کوئی سپاہ نہیں تھی، آپ جنگ کے لئے نہیں آئے تھے اور لشکر لے کر نہیں آئے تھے۔ صرف چند اصحاب افراد خاندان لے کر آئے تھے۔ ایک چھوٹا سا قافلہ تھا جو مکہ آیا تھا اور خطروں کی وجہ سے مکہ سے بھی نکلا تھا اور کوفی عوام کی دعوت پر کوفہ روانہ ہوئے تھے۔

سفر کے دوران مسلم بن عقیل، قیس بن مسہر اور عبداللہ بن یقطر کی شہادت ملنے کے بعد واضح ہؤا کہ اگر اس قافلے میں کچھ افراد کے دنیاوی مقاصد ہیں بھی تو وہ ان مقاصد تک نہیں پہنچیں گے۔ اسی منزل پر امام نے فرمایا: مسلم شہید ہو گئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مال و منال اور دنیاوی مناصب کے مقصد سے آپ کے ساتھ آنے والے افراد اسی منزل پر امام سے جدا ہوکر بکھر گئے۔

چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب اور ہاشمی جوانوں کی شہادت مسلّم ہو گئی تو کچھ تجاویز سامنے آئیں۔ شمر حضرت عباس (علیہ السلام) کے ننھیالی رشتہ داروں میں سے تھا، آپ کے لئے ابن زیاد کا لکھا ہؤا امان نامہ لے کر آیا۔ مگر آپ نے وہ امان نامہ ـ جو مال و دولت اور منصب اور عہدوں کے وعدوں سے لبریز تھا ـ مسترد کر دیا۔ بصیرت یہی ہے کہ جہاں کامیابی اور مالی مفادات کے حصول کا ذرہ برابر امکان نہ ہو اور آپ صراط مستقیم اور امام حق کی حمایت کا راستہ چن لیں۔ اہل حق، صاحب بصیرت و ایمان اور جہاد و شہادت ایسے مواقع پر بصیرت و ایمان ثابت کرکے دکھاتے ہیں۔

اب ہم بھی اپنے آپ کو اس کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں تک راہ خدا پر ـ جو حسین اور آپ کے اصحاب اور ابوالفضل العباس (علیہم السلام) کی راہ ہی ہے ـ گامزن رہ سکتے ہیں؟ کہاں تک زمانے کے یزیدوں اور مستکروں اور تسلط پسند قوتوں کے وسوسوں کے سامنے ٹھک سکتے ہیں۔ اگر ہمیں مال و دولت، ویزا اور شہریت اور پناہ دینے یا منصب اور عہدہ دینے اور مغرب میں پر تعیّش زندگی کی سہولیات دینے کی پیش کی جائے، تو کیا ہم دشمن کے لشکر میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں بلکہ راہ خدا اور الٰہی اقدار کے تحفظ کر لئے جہاد کو ترجیح دیتے ہیں اور اس راہ میں جان کی بازی تک لگانے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں؟

اس قصے میں غور کریں تو اچھے خاصے نکات واضح ہو جاتے ہیں۔ جو اہل بصیرت ہے، تو اسے حضرت عباس (علیہ السلام) کی میزان کی رو سے مقام بصیرت تک پہنچنے کی کوشش کرنا ہوگی، جس کے لئے عباس (علیہ السلام) کے فضائل سے لیس ہونا پڑے گا۔ عباس علمدار (علیہ السلام) کی بعض صفات ـ جو روایات میں نقل ہوئی ہيں ـ کچھ یوں ہیں:

- وهرالولایۃ، یعنی ولایت و امامت اور ولی و امام کی پشت پناہ تھے۔

- معسر، یعنی ایثارگر اور قربانی دینے والے تھے۔

- مواسی، یعنی مواسات کرنے والے اور دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے والے تھے۔

- راقی یعنی نگہبان، یعنی امام حسین (علیہ السلام) کے حرم و حریم کے نگہبان تھے۔

- ساعی، کوشاں، یعنی راہ حق میں جدوجہد کرنے والے تھے۔

- باب الحسین، یعنی سردار و سرخیل اور علمدار تھے۔

- بَطَلُ العلقم، یعنی نہر علقمہ کے سورما اور ہیرو۔ عباس (علیہ السلام) نے اطفال اور خواتین کی پیاس دیکھ کر پانے لانے کا ارادہ کیا، ہزاروں افراد کے یزیدی لشکر کو مار بھگایا؛ پیاسے تھے مگر پانی نہیں پیا اور پانی اٹھا کر روانہ ہوئے تو بزدل دشمن نے گھات لگا کر حملے کئے اور آپ کے دونوں ہاتھ منقطع کئے۔

- صدیق، یعنی وہ جو بہت زیادہ سچا ہے یا وہ جس کا قول اور فعل ایک جیسا ہو۔ اور عباس(ع) ایسے ہی تھے۔

- حامل الِّلواء یعنی علمدار اور صابر۔

یہ حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کے بعض اوصاف و کمالات ہیں جو اس با بصیرت کربلائی جواں مرد کے لئے بیان ہوئے ہیں۔

زیارت ناحیہ میں حضرت عباس (علیہ السلام) کو سلام دیتے ہوئے یہ اوصاف بیان ہوئے ہیں: "سلام ہو آپ پر اے فرزند امیرالمؤمنین، جنہوں نے اپنے بھائی کو اپنے آپ پر مقدم رکھا اور بھائی کے دفاع میں جان سے گذر گئے، وہی جنہوں نے ماضی (دنیا) سے مستقبل (آخرت) کے لئے توشہ اٹھایا اور آگے بھیج دیا۔ اپنے آپ کو ڈھال قرار دیا اور پانی پہنچانے کے لئے سعی وافر کی، یہاں تک کہ ان کے ہاتھ کٹ گئے۔ خدا لعنت کرے ان کے قاتلوں پر۔ لَعَنَ اللهُ قَاتِلَہُ.

خدا سے التجا کرتے ہیں کہ ہم سب کو توفیق دے، کہ حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کے طرز زندگی سے بہرہ ور ہوکر بصیرت، ایمان، جہاد و شہادت کے راستے پر گامزن ہو جائیں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق و حقیقت کے دفاع اور طاغوتوں ـ بالخصوص تسلط پسند استکباری شیاطین ـ کے خلاف جہاد کی راہ میں عظیم کامیابیاں حاصل کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ مہدوی