اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
جمعہ

11 اگست 2023

4:38:08 AM
1386243

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین؛

عاشورا؛ عزاداری کی میزان

میزان یہ ہے کہ ہم دیکھ لیں کہ شیطان ہماری سرگرمیوں اور عزاداریوں سے خوش ہوتا ہے یا ناراض۔ طاغوت ہماری سرگرمیوں سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض؟ عالمی استکبار کے ذرائع ابلاغ ہمارے پروگراموں سے خوش ہوتے ہیں یا نہیں؛ چنانچہ ہمیں عاشورا کو میزان و معیار قرار دینا چاہئے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ میزان یہ ہے کہ ہم دیکھ لیں کہ شیطان ہماری سرگرمیوں اور عزاداریوں سے خوش ہوتا ہے یا ناراض۔ طاغوت ہمارےی سرگرمیوں سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض؟ عالمی استکبار کے ذرائع ابلاغ ہمارے پروگراموں سے خوش ہوتے ہیں یا نہیں؛ چنانچہ ہمیں عاشورا کو میزان و معیار قرار دینا چاہئے۔

حوزہ و جامعہ کے استاد جناب حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر نجف لک زائی نے محرم کی مناسبت سے اپنے سلسلہ وار مضامین کی ایک کڑی کے طور مضمون بعنوان "عاشورا عزاداری کی میزان" میں لکھا:

محرم الحرام کے دوران عاشورا کی میزان پر پرکھنے کے قابل موضوعات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم دیکھ لیں کہ ایام محرم میں ہماری سرگرمیاں اور عزاداریاں لوگوں کو آمادہ کرتی ہیں کہ امام حسین (علیہ السلام) کے مشن کو آگے بڑھائیں اور اسے اپنے ملک، اپنے خطے اور پوری دنیا میں فروغ دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہو جائیں، یا نہیں بلکہ ہمیں حسینی مشن سے دور کر دیتی ہیں۔

اس بات کی اہمیت کا سبب یہ ہے کہ بعض اوقات اسلام دشمن قوتیں "اپنے مقاصد کے حصول اور عاشورا اور اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے اسلامی اوزاروں کو بروئے کار لاتے ہیں"۔

سورہ توبہ میں "مسجد ضرار" کا تذکرہ آیا ہے۔ تو مسجد ضرار کا قصہ کیا تھا؟ مسجد ضرار ایک مسجد تھی جسے مدینہ کے منافقین نے تعمیر کیا تو اور اس سے عیسائی راہ ابو عامر کے منصوبوں کی تکمیل، مقصود تھی۔

ابو عامر راہب، کون تھا؟ یہ شخص مدینہ کا باشندہ تھا، اس نے عیسائیت قبول کی۔ وہ سلطنت روم کا دورہ کر چکا تھا اور ایک عیسائی راہب یا پادری کے طور پر سرگرم عمل تھا۔ ابو عامر نے اپنے دوستوں کو ـ جو کہ مدینہ کے منافقین تھے ـ ہدایت کی کہ "مدینہ میں ایک فعال اڈہ مجھے بنا کر دو، میں بھی سلطنت روم کی پشت پناہی میں جدید التأسیس اسلامی حکومت کے خلاف کچھ اقدامات کروں گا۔

منافقین نے ایک مسجد بنا دی، اور عجب یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاس آئے اور آپ سے کہا: یا رسول اللہ(ص)! آپ ہمیں ایک اجازت نامہ دے دیں کہ ہم یہاں مسجد تعمیر کریں، اور گرمی، سردی یا برسات کے دنوں ـ جب کمزور لوگوں کے لئے مسجد قبا آنا ممکن نہیں ہوتا ـ یہاں آ کر نماز بجا لایا کریں! یعنی انھوں نے تعمیر کی اجازت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے لی اور جب مسجد مکمل ہوئی تو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پاس حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ "مسجد کے افتتاح اور اسے برکت عطا کرنے کی غرض سے ، آپ مسجد میں تشریف لائیں اور اس میں نماز پڑھیں"۔

آنحضرت نے فرمایا: میں اس وقت غزوہ تبوک کے لئے عزیمت کر رہا ہوں، ان شاء اللہ جب واپس آؤں گا تو مسجد میں آؤں گا"۔

غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت مسجد ضرار سے متعلق آیات نازل ہوئیں، اور خدائے متعال نے فرمایا کہ "اس مسجد کو ویران کر دو، اسے منہدم ہونا چاہئے"، کیوں؟

اس آیت میں کچھ نکتے بیان ہوئے ہیں جن میں ایک دو نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن اس کا اصل بیان سورہ توبہ سے رجوع کرکے دیکھا جا سکتا ہے۔

وہاں ایک بحث ہوئی ہے کہ مسجد کو اتحاد و اتفاق کا مرکز ہونا چاہئے، جو مسجد ان لوگوں نے تعمیر کی ہے وہ انتشار اور تفرقے کا مرکز ہے، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے دور کر دیں۔ مسجد کو فساد، برائی اور بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کا مرکز ہونا چاہئے، اور انہوں نے مسجد بنائی ہے تاکہ دشمن کی خمدت کرے اور بیرونی اثر و نفوذ کے لئے ماحول سازی کرے۔

دیکھنا چاہئے کہ ہم جو خطاب و تقریر کرتے ہیں، جو اشعار اور نوحہ و مرثیہ پڑھتے ہیں، جو ذاکری اور مداحی کرتے ہیں، جو سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں، اور جو مجلس ہم بپا کرتے ہیں کیا امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ ہے یا نہیں بلکہ تفرقہ اور انتشار پھیلانے کا باعث ہے؟ دیکھنا چاہئے کہ یہ سب رہبر انقلاب اسلام کی پیروی کرتے ہوئے امت اسلامی کے اتحاد و یگانگت کی تقویت کا باعث ہے یا نہیں اختلاف اور انتشار کا سبب ہے؟

دوسرا نکتہ، جو زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ کیا عزاداری کے لئے ہمارے اقدامات کا مجموعہ ـ منبر سے لے کر شاعری، مداحی، ذاکری، ماتم و سینہ زنی اور مجالس کے انعقاد تک ـ عالمی طاغوتوں اورم مستکبرین کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے یا نہیں بلکہ ہمارے یہ اعمال انہیں خوش کر دیتے ہیں؟ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ ہماری تقریر و منبر کی ترویج کرتے ہیں؟ ہمارے مراسمات کے اشتہارات شائع کرتے ہیں، ہماری مداحی اور ذاکری کی تعریف کرتے ہیں، ہماری تقریروں اور ماتم سے خوش ہوتے ہیں یا نہیں؟ یہ میزان و معیار ہمیں بتا سکتا ہے کہ کیا ہمارا منبر، خطابت، سینہ زنی اور مداحی امام حسین (علیہ السلام) کی تحریک اور اہداف و مقاصد کی خدمت کر رہی ہے یا نہیں؟

یہ میزان ہے، میزان یہ ہے کہ ہم دیکھ لیں کہ کیا شیطان ہماری سرگرمیوں سے خوش ہوتا ہے یا ناراض؟ عالمی طاغوت [اور زمانے کے یزید] ہماری سرگرمیوں سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض؟ عالمی استکبار کا تشہیری اور ابلاغی نیٹ ورک ہماری فعالیتوں سے خوش ہوتا ہے یا خفا؟ چنانچہ ہمیں عاشورا کو میزان قرار دینا پڑے گا۔

امام حسین (علیہ السلام) کی تحریک طاغوت کی نفی کے لئے تھی، امت اسلامیہ کی آگاہی میں اضافے کے لئے تھی، اسلام کی حفاظت کے لئے تھی تو کیا ہماری تقاریر، ذاکری اور عزاداری طاغوت اور تسلط پسند عالمین نظام کے خلاف جدوجہد کا تسلسل ہے یا نہیں بلکہ ہماری ان سرگرمیوں سے طاغوت اور شیاطین خوش اور راضی ہو جاتے ہیں؟

خدائے متعال سے التجا کرتے ہیں کہ:

ہمیں خالصانہ اور مخلصانہ عزاداریوں کی توفیق عطا فرمائے؛

ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر مجلس عزا میں شیطانوں، طاغوتوں، بالخصوص تسلط پسند استکباری نظام کے خلاف جدوجہد کی طرف ایک قدم اٹھائیں۔

ہماری عزاداریوں کو امت اسلامیہ کے اتحاد و یگانگت کی تقویت اور محور حق کی قیادت اور امت و امامت کے درمیان پیوند کے استحکام کا وسیلہ قرار دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ مہدوی