اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

6 اگست 2023

2:18:41 PM
1385178

قائد شہید کی شہادت اور امام خمینی کا تعزیتی پیغام، چند نمایاں پہلو

اس تعزیتی پیغام کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ۔۔۔ "اس ملک کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی ملک ایران آپ کے اسلامی تشخص، آپ کی آزادی اور عزت و شرافت کے دفاع کے لئے ایک سچے دوست کی حیثیت سے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔

بقلم ارشاد حسین ناصر

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی وہ مرد قلندر ہیں، جن کے بارے میں ان کی شہادت پر امام خمینی (رہ) نے تاریخی پیغام جاری کیا۔ اس پیغام کی کئی ایک جہتیں ہیں، اس پیغام سے شہید کی شخصیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے، امام کے نزدیک ان کا کیا مقام تھا، وہ امام کے کس قدر قریب تھے۔ پاکستان میں ان سے کیسی توقعات تھیں، ان کی ذات امام کے کن اصحاب و نمائندگان کی مانند تھی، ان کی شہادت سے کتنا بڑا نقصان ہوا اور اس کے اثرات ملت اسلامیہ پر کیسے پڑیں گے۔ امریکہ و استعمار اور ان کے نمک خواروں کا شہید کے قتل میں کیا کردار و عمل تھا، یہ ساری چیزیں امام کے پیغام میں ظاہر و پوشیدہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ امام خمینی نے شہید الحسینی کو کیسے اور کن الفاظ میں یاد کیا ہے، پیغام کا آغاز ملاحظہ فرمائیں۔۔ "اسلام و انقلاب کے شیدائی اور وفادار، محروموں اور مظلوموں کا دفاع کرنے والے اور سیدالشھداء جناب اباعبداللہ الحسین ؑ کے فرزندِ صادق حجۃ الاسلام علامہ سید عارف حسین الحسینی ؒ؛"

ایسے ہی امام خمینی (رہ) نے اس پیغام کے آخر میں لکھا ہے کہ "میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوا ہوں" اب دیکھیں کہ ایک طرف شہید کو سید الشہداء کے صادق فرزند اور دوسری جانب یہ کہنا کہ میں اپنے بیٹے سے محروم ہوا ہوں، کس قدر پر معنی و گہرا جملہ ہے۔ امام خمینی (رہ) نے اس پیغام میں بہت واضح کیا ہے کہ یہ جدوجہد کا نکتہ آغاز ہے۔ اس سفر، اس راستے، اس منزل کے حصول کیلئے نا جانے کتنی اور قربانیاں مزید دینا ہونگی، کیسے کیسے گوہر نایاب و کمیاب اس راہ میں قربان کرنا ہونگے، امام فرماتے ہیں۔۔ "اسلامی معاشروں کے درد آشنا وہ مجاہدین جنھوں نے محروموں اور پابرہنہ لوگوں کے ساتھ اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے کا عہد کر رکھا ہے، انھیں جان لینا چاہیئے کہ ابھی تو مقابلے کا آغاز ہے۔ اس لئے کہ استعمار و استشمار کی دیواریں ڈھانے اور حقیقی اسلام محمدیﷺ کی منزل تک پہنچنے کے لئے انہیں ابھی ایک طویل راہ درپیش ہے۔

امام کا فرمان اگر آج پینتیس برس گزر جانے کے بعد دیکھیں تو ان پینتیس برسوں میں ہم نے بہت ہی قیمتی ترین لوگ قربان کئے ہیں، جن میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سمیت دیگر علماء و خطباء، تنظیمی شخصیات، دینی برجستہ شخصیات، رہنماء و کارکنان نیز عالمی سطح پر اسی کاروان میں شہید عباس موسوی، شہید باقر الحکیم، شہید عبد العلی مزاری، شہید حاج رضوان، شہید قاسم سلیمانی، شہدائے انقلاب، شہدائے مدافعان حرم، عراق و شام، سب شہداء اسی استعمار و استشمار کے گماشتوں کے ہاتھوں ہم سے جدا کئے گئے، جن ہاتھوں نے علامہ سید عارف الحسینی (رہ) کو ہم سے چھینا۔ اس کے ساتھ ساتھ امام خمینی (رہ) اس شہادت کو باعث سعادت و عزت و شرف سمجھتے ہیں اور ایک بندہ مومن کیلئے اعزاز سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑی اور کوئی سعادت ہو نہیں سکتی۔

امام فرماتے ہیں۔۔ "ایک مومن کے لئے اس سے بڑی بشارت و سعادت اور کیا ہوگی کہ وہ محرابِ عبادت حق سے خون آلود چہرہ لئے خود کو ’’اِرْجِعِیْ اِلَیٰ رَبِّکْ‘‘ کی منزل پائے اور نہ صرف یہ کہ خود جامِ شہادت نوش کرکے لذت ِوصالِ محبوب سے لطف اندوز ہو بلکہ اپنے ساتھ ہزاروں تشنگانِ عدالت کو بھی سرچشمہ نور سے سیراب ہوتا دیکھے؛ ارجعی الی ربک کی منزل کی طرف یہ اشارہ شاید امام خمینی نے شہید قائد سے مخصوص کیا ہے، ورنہ کئی اور برجستہ امام کے قریبی لوگ درجہ شہادت پاچکے تھے اور امام خمینی نے ان کی شہادت پر بھی اپنا خصوصی پیغام بھی جاری کیا تھا۔ امام خمینی (رہ) نے اس جانب واضح کیا ہے کہ شہید کا شمار ان کی محفل کے دیگر کن شہداء میں ہوتا ہے۔

وہ فرماتے ہیں۔۔ "مجھے قطعی یقین ہے کہ پوری دنیا کی مسلم اقوام بخوبی جان چکی ہیں کہ یہ عظیم سانحہ کیونکر رونما ہوا۔ تمام مسلم اقوام کو سوچنا چاہیئے کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ اسلامی ملک ایران میں مطہریؒ، بہشتی ؒ ، شہدائے محرابؒ اور ہزاروں مایۂ ناز علماء کو جبکہ عراق میں باقرالصدرؒ، محسن الحکیم ؒاور ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بے شمار حقیقی اور سچے علمائے دین کو یہی نہیں بلکہ لبنان میں راغب حرب ؒ جیسی شخصیتوں کو اور پاکستان میں علامہ عارف حسینی ؒ جیسی گراں قدر ہستیوں کو یا دیگر تمام اسلامی ممالک میں ان حقیقی علمائے کرام کو جن کے دل اسلام کے لئے تڑپتے ہیں اور جو حقیقی محمدیﷺ اسلام کے فروغ کے لئے انتھک جدوجہد کرنے والے تھے، انہیں ہی ہمیشہ ظالموں نے اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔"

امام خمینی بخوبی جانتے تھے کہ علامہ سید عارف الحسینی کو کیوں شہید کیا گیا، ان کے نظریات، ان کے افکار، ان کا کردار، ان کی رفتار ہی اس قتل کی وجہ بنی، لہذا اس جانب واضح حکم دیا اور تاکید فرمائی کہ اس شہید بزرگوار کو، اس کے کردار و عمل اور بالخصوص ان کے افکار عالیہ کو فراموش نہ کریں۔ فرماتے ہیں۔۔ "میں انہیں اس امر کی تاکید کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ شہید راہِ حق (علامہ عارف الحسینی ؒ) کے افکار کو زندہ رکھیں اور ابلیس زادوں کو حضرت محمدﷺ کے حقیقی اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی اجازت نہ دیں۔"

مزید فرماتے ہیں کہ۔۔ "آج جبکہ مشرق و مغرب کی استکباری قوتوں میں عالم اسلام سے براہ راست مقابلے کی ہمت نہیں رہی ہے تو انہوں نے عاجز آکر ایک طرف تو سیاسی مذہبی شخصیات کے قتل اور دوسری طرف امریکی اسلام پر مبنی ثقافت کی ترویج کے لئے کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔ گویا امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ عالمی استکباری طاقتوں نے کہیں کھل کر تو کہیں نقاب اوڑھے مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان پر غلبہ پانے کی اسٹرٹیجی اختیار کر رکھی ہے، کھلا دشمن زیادہ مناسب ہوتا ہے، جبکہ کسی اور بھیس میں دشمن کی پہچان میں دقت و مشکلات ہوتی ہیں اور بعض اپنے بھی اس کا شکار بن جاتے ہیں۔ یہ خاصی پر پیچ راہ ہے، جسے شناخت کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ کام مدارس کے ذریعے ہونا چاہیئے تھا، اگر مدارس اپنا یہ کردار ادا کرتے تو ہمارے عزیز علامہ عارف الحسینی ہمارے درمیان موجود ہوتے۔"

امام خمینی نے اس بارے میں مزید فرمایا کہ۔۔ "تمام علماء کا فرض ہے کہ ان دونوں اندازِ فکر کی وضاحت کے ذریعے اپنے پیارے مذہب اسلام کو مشرق و مغرب کے چنگل سے آزاد کرائیں۔ اگرچہ ان محترم شہیدوں کا خون اعلیٰ معنوی اقدار کی منازل سے تمام خس و خاشاک کو بہا لے جائے گا اور یہی خونِ ناحق باطل کی تبلیغ و ترویج کرنے والوں کو غرقِ آب کر دے گا۔" امام خمینی پاکستانی قوم کو بہت اچھی طرح جانتے تھے اور یہ فرماتے تھے کہ پاکستانی قوم نے استعمار کا مقابلہ کرکے آزادی حاصل کی، بہت زیادہ قربانیاں دیں، لہذا اسے اپنی آزادی و حریت کی قدر ہے، یہ قوم استعمار کی سازشوں کو اپنے درمیان پنپنے نہیں دے گی۔ پاک ایران اسلامی رشتے کے بارے بھی بہت واضح تھے اور عزت شرف کے راستے میں اپنے کاندھوں کو ساتھ ملانے کی یقین دہانی بھی کرواتے نظر آئے۔

اس تعزیتی پیغام کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ۔۔۔ "اس ملک کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی ملک ایران آپ کے اسلامی تشخص، آپ کی آزادی اور عزت و شرافت کے دفاع کے لئے ایک سچے دوست کی حیثیت سے ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا۔ میں اپنے عزیز بیٹے سے محروم ہوا ہوں! اللہ تعالیٰ ہم سب کو مصائب برداشت کرنے اور شہیدوں کی راہوں میں پہلے سے زیادہ عمل کے چراغ جلائے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ظالموں کے مکر و فریب کو خود انہی پر موڑ دے اور ارجمند مسلمان قوم کو شہادت اور جہاد کے راستے میں ثابت قدم رکھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242