اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

29 جولائی 2023

9:57:37 PM
1383330

ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین؛

عاشورا کا انقلاب اور امام حسین (علیہ السلام) کے مقاصد

آپ نے کوفیوں کے خطوط موصول ہونے سے قبل ہی اپنے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں امر بِالمعروف اور نہی عَنِ المُنکَر اور اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے اٹھا ہوں۔ چنانچہ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے کوفیوں کی دعوت پر قیام و انقلاب کا آغاز کیا تھا۔


  اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ امام حسین (علیہ السلام) کا انقلاب باطل کے خلاف حق کی جدوجہد اور الہی تحریک تھی اور یہ قیام سنہ 61 ہجری تک محدود نہیں رہا بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات، اسباق اور اہداف واضح سے واضح تر ہورہے ہیں۔

امام حسین (علیہ السلام) دین اسلام کے سچے اقدار کے تحفظ کو اپنا ہدف و مقصد قرار دیتے ہیں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی رحلت کے بعد دین میں بدعتیں ظاہر ہوئی تھیں اور دین اور سنت کا چہرہ بگڑ چکا تھا اور یہ صورت حال امام کے زمانے میں انتہا کو پہنچی تھی، معاشرہ انحراف کے راستے پر گامزن تھا اور بنیادی اصلاحات کی ضرورت آن پڑی تھی۔ چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے زمانے کے بادشاہوں سے بیعت نہ کرکے لوگوں کو ان انحرافات اور بدعتوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی اور معاشرے اور عمومی ثقافت کی اصلاح آپ کے مقاصد میں شامل تھی اور آپ نے جہل اور باقیماندہ جاہلیت کے خلاف انقلاب بپا کیا۔

چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) نے مختلف زمانوں کے انسانوں کو کچھ پیغامات دیئے ہیں۔

حریت کا پیغام:

حریت اور آزادی سے آج کی دنیا میں مرسوم اخلاق اور اقدار اور حدود اور قوانین و ضوابط بالخصوص شریعت اسلامی سے آزادی، مراد نہیں ہے بلکہ آزادی کے معنی یہ ہیں کہ انسان ظلم و جبر کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرے۔

ایک آزاد انسان اپنے اصولوں اور اعتقادات کی بنیاد پر زندگی بسر کرتا ہے لیکن جب اس کے اصول اور اعتقادات اور فردی اور سماجی حقوق پر یلغار ہوتی ہے تو وہ چین سے نہیں بیٹھتا اور دستیاب وسائل لے کر احتجاج کرتا ہے چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) عزت کی موت کو ذلت کی زندگی سے برتر و بالاتر قرار دیتے ہیں۔

عزت نفس:

انسانی تربیت کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ اس کو روحانی بلندی اور معنوی رفعت ملے اور اپنے آپ کو پستی اور ذلت سے آزاد کرا دے۔ اپنے لئے حرمت و شرافت کا قائل ہوجائے اور اپنی عظمت کو ہر حال میں محفوظ رکھے؛ ایسی صورت میں سختیاں، دشواریاں، ناکامیاں اور حتی کہ کامیابیاں اس کو سستی اور تباہی سے دوچار نہیں کرسکتیں اور وہ کسی حال میں ذلت کو گلے نہیں لگائے گا۔ انقلابِ عاشورا میں امام حسین (علیہ السلام) کا قیام نمایاں طور پر عزت نفس پر استوار ہے۔ آپ مکہ سے سے کربلا روانہ ہونے لگے تو بھائی محمد حنفیہ نے تجویز دی کہ آپ اپنی جان کے تحفظ کے لئے یزید کے ہاتھ پر بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:

"میں نے کبھی بھی ذلت اور پستی کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ہے"۔

امام کے اس ارشاد کی وجہ یہ تھی کہ آپ کا مکتب انسانی عزت و عظمت پر استوار ہوچکا ہے۔

ایثار اور قربانی:

ایثار اور قربانی اس بات کی دلیل ہے کہ ایک شخص کے پاس کوئی شیئے ہے اور اس کو اس کی ضرورت بھی ہے لیکن وہ دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتا ہے یا پھر سماجی مقاصد کو فردی اور شخصی مقاصد پر مقدم رکھتا ہے؛ جیسا کہ امام حسین (علیہ السلام) نے دین کے حقیقی اصولوں کی پاسداری کے لئے اپنی اور اپنے انصار و اعوان اور افرادِ خاندان کی جانیں اخلاص کے ساتھ قربان کردیں تاکہ دین کا بول بالا ہو اور انحرافات، گمراہیاں اور بدعتیں آشکار ہوجائیں۔

عہد وپیمان کی وفا اور پابندی:

امام کے اصحاب نے کربلا میں عہد و پیمان کی وفا اور پابندی کی انتہا کردی یہاں تک کہ امام (علیہ السلام) اپنے اصحاب کو بہترین اصحاب سمجھتے ہیں جو بدترین حالات میں اپنے عہد و پیمان پر استوار رہے اور اپنی دنیاوی حیات کے آخری لمحے تک امام کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

 یہاں ہم کلام امام حسین (علیہ السلام) کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ خود کیا فرماتے ہیں لیکن کچھ الفاظ تمہید کے طور پر بیان کرنا ضروری ہے۔

امام حسین (علیہ السلام) کی سماجی اور سیاسی حیات دو حصوں میں منقسم ہے:

1۔ معاویہ کا دور

2۔ یزید کا دور

در حقیقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال سے شروع ہونے والے انحرافات، جو خلافت علویہ سے قبل کے دور میں اپنی وسعتوں تک پہنچ چکے تھے اور اس دور میں معاویہ شام کا والی رہا تھا اور اس نے اپنی طاقت اس علاقے میں مستحکم کی تھی اور وہ اموی جماعت کو اسلامی امت پر مسلط کرچکا تھا۔

سوال یہ ہے کہ معاویہ نے امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ صلح کرلی تھی اور پہلے دن ہی صلح نامے کو پاؤں تلے روند چکا تھا اور ایک لمحے تک بھی اس کا پابند نہیں رہا تھا؛ تو پھر امام حسین (علیہ السلام) نے بھائی امام مجتبیٰ کی شہادت کے بعد معاویہ کے خلاف قیام کیوں نہیں کیا؟

جواب یہ ہے کہ معاویہ امام حسن (علیہ السلام) کو شہید کرچکا تھا اور امام حسین (علیہ السلام) کو نشانہ بنانے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا اور اگر امام حسین صلح کی خلاف ورزی کرتے تو معاویہ اس بہانے سے آپ کو شہید کرسکتا تھا اور چونکہ بے بصیرت امت اس کو خلیفۂ مسلمین سمجھتی تھی اور دوسری طرف سے معاویہ بھی ظاہری طور پر قرآن اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا پابند نظر آتا تھا؛ چنانچہ اگر امام حسین (علیہ السلام) قیام کرتے تو معاویہ اسی امت کی مدد سے اس قیام کو صلح کی خلاف ورزی اور بغاوت کے عنوان سے کچل سکتا تھا اور امام حسین (علیہ السلام) کا قیام مکمل طور پر ناکام ہو سکتا تھا۔

تاہم امام (علیہ السلام) نے معاویہ کے زمانے میں بھی خاموشی اختیار نہیں کی تھی اور اس کے خلاف اعلانیہ موقف اپنایا اور اس ظالم اموی حکمران کے رویوں پر بھرپور احتجاج کیا۔ معاویہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں یزید کے لئے بیعت لینے کی مہم چلائی تو حسین بن علی (علیہما السلام) اور عبداللہ بن عباس کو سب سے پہلے اس کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن امام نے اس کی شدید مخالفت کی اور یزید کی بھونڈی عادات کا حوالہ دے کر اس کو نا اہل شخص قرار دیا۔

مثال کے طور پر مرگِ معاویہ سے دو سال قبل امام (علیہ السلام) نے حج کے موقع پر صحابہ اور تابعین کو ایک خطبہ دیا اور معاویہ کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا:

"۔۔۔ تم نے دیکھا کہ اس جابر اور ظالم شخص (یعنی معاویہ) نے ہمارے اور ہمارے پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ میں یہاں بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہوں اگر میں صحیح کہوں تو تصدیق کرو ورنہ میری بات کو جھٹلاؤ۔ میری باتوں کو سنو اور لکھو اورجاکر اپے وطن میں قابل اعتماد افراد کے ساتھ ان پر گفتگو کرو اور انہیں ہماری امامت کی طرف بلاؤ۔ کیوںکہ مجھے خوف ہے کہ اگر ہم اہل بیت کی قیادت و امامت کو بُھلا دو گے تو حق نابود اور مغلوب ہوگا"۔

اس خطبے میں امام نے اعلانیہ طور پر حکومت کو اہل بیت کا حق قرار دیا جو نہایت اہم اعلان تھا کیونکہ معاویہ ابھی زندہ تھا۔

ایک بار یمن کا بیت المال شام بھجوایا جارہا تھا تو امام حسین نے اس کو ضبط کرکے مدینہ کے غرباء اور محتاجوں کے درمیان تقسیم کیا اور معاویہ کو خط لکھ کر اس کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔

بہرحال معاویہ کا دور گذر گیا اور یزید کی حکومت قائم ہوئی اور حالات بالکل بدل گئے اور یوں امام حسین (علیہ السلام) کا قیام بھی شروع ہوا۔

شیخ مفید کتاب "الارشاد" میں معاویہ کے بعد کے حالات کو یوں بیان کرتے ہیں:

"معاویہ کی موت اور صلح کے غیر معتبر ہونے کے بعد امام حسین (علیہ السلام) نے اپنی امامت کا اظہار اور اپنی ولایت کا اعلان کیا؛ جہاں تک کہ ممکن تھا امام نے دعوت کا اظہار کیا اور ہر موقع مناسبت سے اپنے الٰہی حق کو ان لوگوں کے لئے بیان کیا جو اس سے بےخبر تھے۔ یہاں تک کہ کچھ اصحاب جمع ہوئے اور بعدازاں لوگوں کو راہ خدا میں جہاد کی دعوت دی اور دشمنان حق کے ساتھ جنگ کی تیاری کی"۔

فسق و فجور کی حکمرانی:

یزید کی حکمرانی اعلانیہ فسق و فجور کی حکمرانی تھی وہ نوجوان اور عیاش تھا اور بڑی آسانی سے کھلّم کھلّا اسلامی مقدسات کو پامال کرنے لگا تھا چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) کے قیام کے لئے حالات بالکل سازگار ہوچکے تھے۔

فاسق حکمران کی بیعت سے انکار:

آپ سب جانتے ہیں کہ یزید نے مدینہ میں اپنے گورنر ولید بن عُتبہ کو خط لکھا کہ امام حسین (علیہ السلام) سے بیعت لے اور اگر انکار کریں تو آپ کا سر قلم کردے اور امام (علیہ السلام) نے ولید کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

"ہم اہل بیتِ نبوت ہیں اور یزید ایک فاسق اور شراب خوار، نفسِ محترمہ کا قاتل اور اعلانیہ فسق و فجور کرنے والا شخص ہے اور جان لو کہ مجھ جیسا یزید جیسے کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتا"۔

اور مروان کی طرف سے بیعتِ یزید کے مطالبے کے جواب میں فرمایا: "اب تو بس اسلام کے ساتھ وداع کرنا چاہئے کیونکہ امت یزید جیسے حکمران سے دوچار ہوچکی ہے اور میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے کہ خلافت آلِ ابو سفیان پر حرام ہے"۔

امام معصوم ہی معاشرے کی قیادت کا اہل

امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے مکہ تک اور مکہ سے کربلا تک سفر کے مختلف مراحل میں خطبے دیئے، بنو امیہ کے مظالم برملا کئے اور حکومت کو اہل بیت کا حق قرار دیا۔ آپ نے حر بن یزید کے لشکر کا سامنا کرنے کے بعد نماز پڑھائی اور نماز کے بعد فرمایا:

"اے لوگو! اگر تم خدا سے ڈرتے ہو اور حق کو صاحبِ حق سے متعلق سمجھتے ہو تو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور ہم آل محمد امامت و ولایت کے زیادہ اہل ہیں ان لوگوں سے جو تمہاری ولایت و امامت کا دعویٰ کررہے ہیں۔ کیونکہ وہ محض تمہارے اوپر ظلم کرتے ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اور اگر تم ہماری امامت کو ناپسند کرتے ہو یا ہمارے حق کو نہیں پہچانتے ہو اور اس وقت تمہاری رائے تمہارے خطوط اور قاصدوں کے ذریعے بیان کردہ رائے سے مختلف ہے تو میں اپنا فیصلہ ترک کردیتا ہوں اور واپس چلا جاتا ہوں"۔

البتہ یہاں فیصلہ ترک کرنے سے کوفہ جانے کے فیصلے کو ترک کرنا مراد ہے اور قیام کے فیصلے کو ترک کرنا مراد نہیں ہے۔ کیونکہ آپ نے کوفیوں کے خطوط موصول ہونے سے قبل ہی اپنے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں امر بِالمعروف اور نہی عَنِ المُنکَر اور اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے اٹھا ہوں۔ چنانچہ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے کوفیوں کی دعوت پر قیام و انقلاب کا آغاز کیا تھا۔

امام نے کربلا میں لشکر یزید سے خطاب کرتے ہوئے بھی اپنی حقانیت اور دشمنوں کے بطلان پر زور دیا اور فرمایا:

"تم پر کیا آ پڑی ہے کہ میرے خلاف اٹھے ہو اور میرے دشمنوں کی مدد کررہے ہو؟ خدا کی قسم! اگر تم مجھے قتل کرو تو جان لو کہ تم نے حجتِ خدا کو قتل کیا ہے اور جان لو کہ انتہائی مغرب سے لے کر انتہائی مشرق تک میرے سوا کوئی بھی نہیں ہے جو پیغمبر کا بیٹا اور مخلوقات پر خدا کی حجت ہو"۔

ظلم کے خلاف مزاحمت:

امام حسین علیہ نے بیضہ نامی مقام پر اپنے اصحاب اور لشکر حر سے خطاب کرتے ہوئے اپنے قیام کے اسباب یوں بیان فرمائے:

اے لوگو! بےشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ تم میں سے جو بھی ایک جابر و ظالم حکمران کو دیکھ لے جو خدا کے حرام کو حلال کرتا ہے اور خدا کے ساتھ اپنے عہد کو پامال کرتا ہے، میری سنت کی خلاف ورزی کرتا ہے اور بندگانِ خدا کے درمیان ظلم و ستم روا رکھتا ہے اور وہ شخص خاموشی اختیار کرے اور زبانی کلامی طور پر بھی اس جابر حکمران پر ملامت نہ کرے تو یہ خدا پر واجب ہے کہ اس خاموش مسلمان کو اسی ظالم حکمران جیسی سزا دے اور قیامت میں اس کو اسی کے ساتھ محشور کر دے اور جہنم میں پھینک دے۔

جان لو کہ اس ظالم جماعت اور بنو امیہ کے جابر حکمرانوں نے شیطان کی مسلسل پیروی کی اور اس کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا اور رحمان کی اطاعت ترک کردی اور برائی اور فساد کو ظاہر کیا اور اللہ کی حدود کو معطل کیا، غنائم اور مسلمانوں کے اموال عامہ ـ جن کا تعلق پورے مسلمانوں سے ہے ـ  کو اپنے لئے مُختَص کیا، خدا کے حرام کو حلال کیا اور خدا کے حلال کو حرام کیا اور مجھے دوسروں سے زیادہ حق ہے کہ ان مسائل کا سدباب کروں"۔

اس خطبے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ امام (علیہ السلام) نے بنو امیہ کے ظلم کے سامنے سکوت سے منع کیا اور ایک بار پھر بنی امیہ کے فساد کی طرف اشارہ کرکے اپنی ولایت و امامت کا حق جتایا۔

امام حسین (علیہ السلام) نے مکہ سے روانہ ہوتے ہی اپنے ساتھیوں کو جانفشانی کے لئے آمادہ کیا تھا اور مکہ سے نکلتے وقت بھی حاضرین کو اپنے عزم سے آگاہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ ظلم کے خلاف اپنے خون کے آخری قطرے تک استقامت کروں گا؛ فرماتے ہیں: 

"موت لڑکیوں کے گلے میں لٹکے ہوئے ہار کی مانند فرزندانِ آدم کے گلے میں لٹک رہی ہے اور مجھے اپنے آباء و اجداد سے جا ملنے کا اشتیاق اس قدر شدید ہے جس طرح کہ یعقوب، یوسف سے ملنے کے مشتاق تھے۔

میری قتل گاہ پہلے سے تیار ہے اور گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرائی بھیڑیئے کربلا اور نواویس کے درمیان میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں اپنے بھوکے پیٹ بھر رہے ہیں اور اپنی خالی تھیلیاں پُر کررہے ہیں۔ تقدیر کے لکھے سے فرار ممکن نہیں ہے ہم خاندان رسالت، ہر اس پیش آنے والے واقعے پر راضی اور خوشنود ہیں جن پر اللہ راضی و خوشنود ہو۔ اور آزمائشوں اور بلا‎ؤں پر صابر ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ صابرین کو جزا دے گا۔ جان لو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بدن کے ٹکڑے [یعنی اہل بیت رسول(ص)] کسی صورت میں بھی آپ سے جدا نہیں ہوتے بلکہ جنت میں آپ کے گرد جمع ہونگے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آنکھیں ان کے دیدار سے روشن ہونگے اور آپ کے دیئے ہوئے وعدوں کو آپ کے فرزند ہی پورا کریں گے۔ اب جو ہماری راہ میں جان فدا کرنا چاہتا ہے اور اپنی جان اللہ کے دیدار کے لئے تیار کرچکا ہے وہ آئے اور ہمارے ساتھ عزیمت کرے اور میں ان شاء اللہ کل صبح عزیمت کررہا ہوں"۔

ذلت قبول کرنا اور پست فطرت لوگوں کی اطاعت منع ہے:

امام (علیہ السلام) نے عاشورا کے دن بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کے عزم کو یوں بیان فرمایا:

"آگاہ رہو کہ اس بے پدر پیدا ہونے والے کے بیٹے بے پدر پیدا ہونے والے نے مجھے دو چیزوں کے درمیان قرار دیا ہے "شمشیر اور ذلت" کے درمیان؛ اور دور ہو ہم سے، کہ ذلت قبول کریں۔ خداوند متعال، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور مؤمنین ہمارے لئے ذلت پسند نہیں کرتے، اور نہ ہی ـ ہمیں پروان چڑھانے والی آغوشیں ـ جو طیب و طاہر ہیں، اور عالی مرتبت جانیں، پست اور رذیل افراد کی فرمانبرداری کو عزت کی موت پر ترجیح دیتی ہیں۔ جان لو کہ میں اپنے اس چھوٹے سے خاندان کے ساتھ تم سے لڑوں گا جبکہ میرا کوئی یاور و مددگار نہیں ہے"۔ 

اور پھر اپنے بعض اصحاب کی شہادت کے بعد فرماتے ہیں:

"اللہ کا غضب شدید ہوچکا ہے اس امت پر جو اپنے پیغمبر کے فرزند کے قتل کے لئے متحد ہوچکی ہے؛ خدا کی قسم! میں ان کی خواہش کو قبول نہیں کروں گا حتیٰ کہ اپنے خون سے اپنے سر اور چہرے [کے بالوں] کا خضاب کروں اور اسی حال میں اپنے پروردگار سے ملاقات کروں"۔

یا پھر جنگ کے دوران رجز پڑھتے ہوں فرماتے ہیں:

"القَتْلُ أَوْلَى مِنْ رُكُوبِ العَارِ؛ مرنا ذلت کی زندگی سے بہتر ہے"۔

امت مسلمہ کے امور کی اصلاح: 

ایک اہم سند امام حسین (علیہ السلام) کی وصیت ہے جو آپ نے مدینہ سے نکلتے ہوئے بھائی محمد حنفیہ کے نام تحریر فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں:

"خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ یہ وصیت ہے حسین بن علی بن ابی طالب کی طرف سے بھائی محمد المعروف بابن الحنفیہ کے نام ـ۔۔ حسین شہادت [گواہی] دیتا ہے کہ کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) خدا کے بندے اور رسول ہیں اور جو کچھ وہ خدا کی طرف سے لائے ہیں وہ حق ہے اور جنت اور دوزخ حق ہیں اور آنے والی ساعت (قیامت) میں کوئی شک نہیں ہے اور خداوند متعال اٹھائے گا قبروں سے وہ جو ان میں ہے۔ اور بےشک اس قیام سے میرا مقصد نانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے دین میں داخل کی جانی والی برائیوں کی اصلاح کرنا، بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا، اپنے جدّ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور بابا علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت کا احیاء اور اس پر عمل کرنا اور کرانا، ہے"۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے اس وصیت نامے میں فرمایا ہے کہ بنو امیہ کے خلاف جدوجہد کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام اور رسول اللہ اور امیرالمؤمنین (عَلیہِما السَّلام) کی سیرت پر گامزن ہونا اور گامزن کرانا، بیان کیا ہے۔ جبکہ امت کی اصلاح اس وصیت کا ابتدائی موضوع ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وصیت نامے کا اصل موضوع ہی اصلاحِ امت ہے کیونکہ امر و نہی اور سیرت نبویہ اور سیرت علویہ پر گامزن ہونے کو اصلاح امت کے تناظر میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔

سنتِ نبویہ کا اِحیاء اور بدعتوں کا خاتمہ کرنا:

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے وصال کے بعد بہت سی بدعتیں اسلامی معاشرے میں داخل ہوئیں اور آپ(ص) کی بہت سی سنتوں کو بُھلا دیا گیا۔

امام حسین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی سنت و سیرت پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں اور اسلام میں داخل کردہ بدعتوں کے خاتمے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں اور مکہ پہنچنے کے بعد بصرہ کے زعماء کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں:

"۔۔۔ میں اپنے قاصد کو خط دے کر تمہاری طرف روانہ کررہا ہوں تمہیں کتاب اللہ اور سنت رسول(ص) پر عمل کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ ہمیں ایسے حالات کا سامنا ہے کہ سنت نبویہ مکمل طور پر نابود ہو چکی ہے اور [جاہلی] بدعتیں بحال ہوچکی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور عمل کرو تو میں سیدھے راستے پر تمہاری راہنمائی کروں گا۔"

اللہ کے احکام کا احیاء اور مظلوموں کی مدد:

امام (علیہ السلام) علامہ حَرّانی کی کتاب "تُحَفُ العُقُول" میں منقولہ خطبے میں اصلاحِ معاشرہ کے علاوہ سنت نبویہ کے احیاء پر زور دیتے ہوئے چند دوسرے مقاصد بھی بیان کرتے ہیں:

"اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ ہم نے جو انقلاب بپا کیا اور امر و نہی کے قیام اور مظلوموں کی نصرت اور ظالموں کی سرکوبی کے لئے جو اقدامات کئے وہ اس لئے نہ تھے کہ ہم سلطنت اور مفاخرت انگیز اقتدار کی طرف رغبت رکھتے تھے اور نہ ہی ہم نے اس لئے قیام کیا کہ مال و دولت میں اضافہ کریں بلکہ مقصد یہ تھا کہ تیرے دین کی علامتوں اور نشانیوں کو دیکھ لیں اور تیرے شہروں اور ملکوں میں صلاح اور اصلاح کو ظاہر کریں تا کہ تیرے مظلوم بندے امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور تیرے واجبات اور سنتوں اور احکام کی تعمیل کی جائے۔

پس اے لوگو! اگر تم ہماری مدد نہیں کروگے اور انصاف کی رو سے ہماری طرف نہیں آؤگے تو یہ جابر و ظالم حکمران تم پر مسلط ہونگے اور وہ اپنی قوت تمہارے خلاف استعمال کریں گے اور تمہارے پیغمبر کا نور بجھاںے کی کوشش کریں گے"۔

حق کی طرف رجحان:

امام (علیہ السلام) حر کی سپاہ کا سامنا کرنے کے بعد اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہیں اور یہ خطبہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ امام فرماتے ہیں:

"اے میرے اصحاب! دیکھ رہے ہو کہ کس طرح بلا اور شدت ہم پر آ پڑی ہے، بے شک زمانے کی راہ و رسم الٹ چکی ہے اور نہایت بدصورت اور ناپسندیدہ شکل میں ظاہر ہوئی ہے اور اچھائی اور بھلائی میں سے کچھ باقی نہیں رہا ہے سوا بہت ناچیز اور دلفریب اشیاء کے، اور الٹ پلٹ کا یہ عمل جاری رہا، اس دور میں جینا بہت ناخوشگوار ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہوتا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا؟

اس صورت حال میں اگر ایک مرد خدا سے اپنے لئے موت کی التجا کرے اور لِقاءِ پروردگار کی آرزو کرے تو حق بجانب ہوگا۔ اور میں ان حالات میں موت کو سعادت اور خوشبختی ہی دیکھتا ہوں اور ظالموں اور پلیدوں کے ساتھ زندگی کو باعث ذلت اور شرمناک سمجھتا ہوں"۔  

اس خطبے میں امام (علیہ السلام) حق کی عدم تعمیل اور باطل کی خودنمائی کو شدت سے ناپسندیدہ سمجھتے اور مسترد کرتے ہیں۔ نیز اس خطبے میں بھی دوسرے خطبوں کی مانند دوسرے مسائل پر بھی تاکید ہوئی ہے اور ظلم و ستم کے خلاف ممکنہ حدود (یعنی مرتے دم تک) جدوجہد کو پہلے رتبے پر رکھا گیا ہے۔

آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب عاشورا کے سلسلے میں امام حسین (علیہ السلام) سے منقولہ خطبات اور روایات اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ کے اس عظیم انقلاب کے مُحَرِّکات اور مقاصد، پس منظر اور پیش منظر کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں؛ گو کہ عاشورا سنہ 61ھ اور اس سے قبل اور بعد کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ممکن ہے کہ آپ کے بہت سے ارشادات ہم تک نہ پہنچ سکے ہوں۔

مختصر یہ کہ امام حسین (علیہ السلام) کے کلام میں تلاش و جستجو کے نتیجے میں انقلاب عاشورا کے مقاصد کچھ یوں ہیں:

٭ ظالموں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت،

٭ رسول اللہ اور ائمہ (علیہم السلام) کی سنت کو زندہ کرنا،

٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر،

٭ مسلمین کے امور و معاملات کی اصلاح،

٭ حق پر عمل کرنا اور کرانا اور باطل سے باز رہنا اور رکھنا،

٭ یزیدی فساد اور برائی کا مقابلہ کرنا وغیرہ،

٭ لوگوں کو مسلسل یاد دہانی کرانا کہ ولایت اور امامت صرف ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کا حق ہے۔

امام نے بعض خطبوں میں قیام کے لئے صرف ایک ہی دلیل بیان کی ہے اور بعض میں کئی مقاصد کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کوفہ والوں نے امام (علیہ السلام) کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے یزید کی بیعت سے انکار کیا تو کوفیوں نے آپ کو کوفہ آنے کی دعوت دی۔ جبکہ امام (علیہ السلام) نے کوفیوں کے خطوط موصول ہونے سے قبل ہی مدینہ سے مکہ کی طرف عزیمت کرکے اپنے انقلاب کا آغاز کرلیا تھا اور آپ نے مدینہ میں ہی اپنے وصیت نامے میں اپنے انقلاب کے مقاصد بیان فرمائے تھے۔

چنانچہ یہ بات درست نہیں ہے کہ کوفیوں کی دعوت ہی امام (علیہ السلام) کے انقلاب کا سبب تھی، یعنی اگر کوفیوں کی دعوت نہ بھی ہوتی امام (علیہ السلام) نے اپنے انقلاب کا آغاز کرلیا تھا اور اپنے موقف سے ہٹنے والے نہیں تھے۔

اس سلسلے میں شہید مطہری کی کتاب حماسۂ حسینی سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

امام حسین (علیہ السلام) نے مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کی تو کوفیوں کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہؤا تھا اور آپ نے سورہ قصص کی آیت 21 کی تلاوت فرمائی:

"فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفاً يَتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ؛ اور جب موسی (علیہ السلام) شہر سے نکلے، خوف زدہ، ہر لمحہ نئے حادثے کے منتظر، تو التجا کی اے میرے پروردگار مجھے چھٹکارا دے اس ظالم جماعت سے"۔

امام حسین (علیہ السلام) کی امامت کا دور ہر لحاظ سے ایک انقلاب کے لئے تیار تھا اور آپ نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسلام کو زندہ کیا اور عاشورا کا انقلاب بعد کے برسوں اور صدیوں میں جابر حکمرانوں کے خلاف متعدد تحریکوں کا سرچشمہ بنی اور حکمران اسلام کو وہ نقصان نہ پہنچا سکے جو وہ پہنچانا چاہتے تھے جبکہ بنو امیہ کی حکمرانی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور عاشورا نے ان کا کام تمام کر دیا۔

ایک بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) نے اپنے متعدد خطبوں میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ معاشروں کی امامت کا حق صرف امام معصوم کا حق ہے اور آپ اپنے آپ کو اس امر کے لئے دوسروں سے زیادہ اہل سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر امام معصوم کو عرفی اور دنیاوی قاعدوں کی بنیادوں پر نہ پرکھا جاتا اور اپنی سطحی نگاہوں سے ان کا دوسروں سے موازنہ نہ کرایا جاتا اور انہیں دوسروں کی سطح پر گرا کر نہ دیکھا جاتا اور ان کے حوالے سے واردہ آیات و روایات کی تأویل نہ کی جاتی اور اپنی رائے کو ان کی رائے پر مقدم نہ رکھا جاتا اور ان کے کلام کے آگے "لیکن اور مگر" جیسے الفاظ نہ رکھتے جاتے تو یقیناً ان ہی کی حکومت قائم ہوتی، جنہیں اللہ نے امت مسلمہ کی امامت کے لئے متعین کر دیا تھا؛ اور اگر ایسا ہوتا تو آج تک مسلمانوں کی حالت یہ نہ ہوتی اور امام حسین (علیہ السلام) کو بھی شاید اتنی عظیم قربانیاں دینے کی ضرورت نہ پڑتی اور اگر آپ کے بعد بھی پورا معاشرہ آپ کے قیام کے اہداف سے صحیح طور پر آگاہ ہوجاتا تو پھر بھی مطلوبہ معاشرے کا قیام ممکن ہو جاتا اور امامت خاندان رسالت کی طرف لوٹتی لیکن دشمن پھر بھی طاقتور تھا، تشہیری اور ابلاغی مشینری حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی، جو جعلی احادیث کے کارخانے کھول چکی تھی اور قرآن کی غلط تفسیر وتأویل کرکے حقائق کو مخدوش کرکے پیش کرتی رہی اور مسلمانوں کے درمیان مختلف قسم کے عجیب و غریب فرقوں نے جنم لیا اور مسلمانوں کی بےبصیرتی کی وجہ سے بات یہاں تک پہنچی کہ ائمہ کو یکے بعد دیگرے شہید کیا گیا اور آخر کار امام زمانہ کو غائب ہونا پڑا۔

یا اللہ ہمیں بصیرت عطا فرما اور اپنے امام کے لئے راستہ ہموار کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ:

1۔ سیمائے پیشوایان در آیینۂ تاریخ، مہدی پیشوایی، مؤسسہ انتشارات دارالعلم

2۔ تحف العقول، چاپ دفتر انتشارات جامعہ مدرسین، قم

3۔ الارشاد، شیخ مفید، ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی، انتشارات اسلامیہ،

4۔ اللہوف، سید ابن طاؤس، ترجمہ علیرضا رجالی تہرانی، انتشارات نبوغ

5- لمعات الحسین (ع)، علامہ سید محمد حسین حسینی طہرانی‌، انتشارات علامہ طباطبائی، مشہد مقدس،

6۔ نفس المہموم، محدث قمی (رہ)،

7۔ ‌مقتل الحسین خوارزمی،

8۔ مقتل الحسین، لوط بن یحییٰ بن سعید الأزدی المعروف بہ ابو مخنف الازدی، تحقیق حسن غفاری، قم،

9۔ حماسۂ حسینی، استاد شہید مطہری، جلد سوئم

10-سورہ قصص، آیت 21، الارشاد، شیخ مفید، ص377۔

11۔ آموزہ ہائے قیام عاشورا، سعید سبحانی، مجلہ مکتب اسلام۔

12۔ بدیعیان، راضیہ، تربیت دینی در سیرہ امام حسین(ع) در واقعہ عاشورا، مجلہ دندانپزشکی جامعۂ اسلامی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرحت حسین مہدوی

..............

110