اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
پیر

24 جولائی 2023

7:24:11 AM
1381830

ہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین؛

ماہ محرم کے دوران، سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی تبلیغی سفارشات

تعلیمات اہل بیت(ع) کے مبلغین کو واقعۂ عاشورا کے واقع ہونے کی کیفیت، پس منظر اور اسباب کی تشریح کرنا چاہئے؛ کہ کس طرح کے واقعات رونما ہوئے، کہ صفین میں قرآن صامت کے نیزوں پر اٹھائے جانے کے بعد، اب قرآن ناطق کو نیزوں پر اٹھایا گیا؟

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی نے [محرم الحرام سنہ 1445ھ میں] عزائے سیدالشہداء(ع) کے ایام اور عاشورائی تعلیمات کے بیان کے لئے بپا ہونے والی وعظ و خطابت کی مجالس کے موقع پر، ایک مضمون کے سانچے میں، مکتب حسینی کے مبلغین کے لئے کچھ علمی اور تبلیغی نکات شائع کئے ہیں،

آیت اللہ رمضانی کی تبلیعی سفارشات حسب ذیل ہیں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں سب سے پہلے ماہ محرم اور عزائے حسینی کے ان ایام کے موقع پر آپ سے کو تسلیت اور تعزیت عرض کرتا ہوں۔ حسینی محرم اور حسینی صَفَر فرہنگِ عاشورا اور عاشورائی تعلیمات کے مبلغین کے لئے سنہری موقع ہے، جو ذرائع ابلاغ اور سائپر اسپیس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اسی حوالے سے ماہ محرم اور امام حسین (علیہ السلام) کے سلسلے میں کچھ نکات کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں:

پہلا نکتہ:

امام حسین (علیہ السلام) ایک عالمی اور آفاقی شخصیت ہیں، جو ضرور بضرور عالمی اثرات کے حامل و باعث ہیں؛ کیونکہ آن جناب کی عظیم شخصیت کو دنیا بھر کے تمام اقوام و مذاہب اور فرقوں میں تسلیم کیا گیا ہے۔ ہم جہاں بھی کام کر رہے ہوں، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ آپ کا درست تعارف کرائیں اور آپ کو مختلف پہلوؤں اور جہتوں میں نمونۂ عمل قرار دیں؛ جو حقیقتاً شیعیان اہل بیت(ع) اور مسلمانان عالم، ابراہیمی اور توحیدی ادیان، اور حتی کہ دوسرے انسانی مکاب کے لئے ایک مثالی عملی نمونہ ہیں؛ اور ہمارے اس مدعا کا ثبوت آپ کا اپنا کلام ہے؛ فرماتے ہیں:

"وَيلَكُم إنْ لمْ يَكنْ لَكُم دِينٌ فَكُونُوا أحراراً في الدُّنيا؛ وائے ہو تم پر، اگر تم کسی دین کے پیروکار نہیں ہو، تو [کم از کم] دنیا میں آزاد رہو"۔ (1)

نیز امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا ہے: "لا تَكُن عَبدَ غَيرِكَ وَقَد جَعَلَكَ اللّه ُ حُرّا؛ کسی اور کے غلام مت بنو جبکہ اللہ نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے"۔ (2)

 دوسرا نکتہ: عاشورا کے سلسلے میں، ہمیں تین سطحوں پر کام کرنا پڑے گا:

الف) تاریخ سے ہمارے اقتباسات کو درست ہونا چاہئے، خیال رکھنا چاہئے کہ واقعۂ عاشورا کی تشریح کے لئے مستند اور معتبر مصادر و منابع سے استفادہ کریں۔ مرحوم محدث نوری الطبرسی نے اپنی تالیفات میں نقل کیا ہے کہ "یقیناً کچھ لوگ عاشورا کے حقائق اور فرہنگ و تعلیمات میں تحریف اور ہیر پھیر اور تحریف کرنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ نیز شہید مطہری نے کتاب "حماسۂ حسینی" میں اور عصر حاضر کے حالیہ دوسرے مؤرخین نے اپنی کاوشوں میں عاشورا میں تحریفات پر بحث کی ہے۔ چنانچہ پہلے مرحلے میں کربلا کے واقعے کے سلسلے میں ہماری منقولہ روایات و اقتباسات کو بالکل درست ہونا چاہئے۔

ب) تعلیمات اہل بیت(ع) کے مبلغین کو واقعۂ عاشورا کے واقع ہونے کی کیفیت، پس منظر اور اسباب کی تشریح کرنا چاہئے؛ کہ کس طرح کے واقعات رونما ہوئے، کہ صفین میں قرآن صامت کے نیزوں پر اٹھائے جانے کے کچھ ہی بعد، اب قرآن ناطق کو نیزے پر اٹھایا گیا؟ اس قلیل سے عرصے میں کیا ہؤا کہ شام میں [فرزندان رسول(ص) کے قتل عام پر] جشن منایا گیا؟ کیا ہؤا کہ مسلمانوں اور اسلامی معاشرے کی صورت حال اچانک بدل گئی اور یہ تلخ اور غم و حزن بھرا واقعہ رونما ہؤا؟ [کیا یہ واقعہ اچانک رونما ہؤا؟]۔ 

ج) ہمارے مبلغین کو تبلیغ کے دوران تطبیق و تقابل کا بھی اہتمام کرنا چاہئے، اور تشریح کرنا چاہئے کہ اس عظیم واقعے کے وقوع کے مقابلے میں، آج کون سے لوگ اور کون سی قوتیں فکر عاشورا کی تبلیغ اور تشریح کرتے ہیں، اور وہ کون ہیں جو فکر عاشورا میں تحریف کر رہے ہیں؛ حتیٰ کہ اسے مٹا رہے ہیں؟ کون لوگ ہیں جو ظلم کر رہے ہیں اور کون لوگ ہیں جو ان کے ظلم کے آگے کھڑے ہوتے ہیں اور عدل و انصاف کی حکمرانی کے لئے کوشاں رہتے ہیں؟ کون لوگ ہیں جو انسانوں کو ہدایت کے راستے پر گامزن کرتے ہیں اور کون لوگ ہیں جو راہ ہدایت کو نقصان پہنچاتے ہیں؟ آج کے زمانے میں وہ کون ہیں جو یزیدی فکر، ظلم و ستم، استحصال اور انتہائی جدید استعمار (Ultra-neocolonialism) کو زندہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اقوام عالم کو لوٹنا چاہتے ہیں؟ اس تطبیق و تقابل کو صحیح الفاظ اور بین الاقوامی سطح پر سمجھی جانے والی زبان میں ـ انسانی حقوق کا تحفظ جیسے کلیدی الفاظ استعمال کرکے ـ بیان کرنا چاہئے۔

آج مغرب میں حیوانات کے حقوق کا حق ادا کیا جاتا ہے اور ان کا صحیح معنوں میں لحاظ رکھتا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف سے انسانوں کو بدترین ظلم و ستم کا سامنا ہے اور اس کا نمایاں ترین مصداق فلسطین میں ہے، جہاں عورتوں اور بچوں کو اپنے ہی گھروں سے نکال باہر کیا جاتا ہے، نوعمر لڑکوں اور جوانوں کو قتل کیا جاتا ہے، ان کے گھروں اور زرعی زمینوں کو تباہ کیا جاتا ہے لیکن دنیا ان واقعات اور رودادوں کو سینسر کرتی ہے اور فلسطین کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاتا؛ یہی نہیں بلکہ [انسانی حقوق کے جھوٹے علمبردار] غنڈہ گردی بھی کرتے ہیں اور عالمی ذرائع میں گمراہ کن الفاظ و اصطلاحات بھی دہراتے ہیں۔

چنانچہ ہمارے مبلغین کو صحیح روایاتن نقل کرکے، صحیح تجزیہ پیش کرکے، صحیح تقابلی جائزے کا بھی پابندی سے اہتمام کرنا چاہئے۔ مبلغین اسلام کے سفیروں کے طور پر، تعلیمات اہل بیت (علیہم السلام) کی خدمت و ترویج کے درپے ہیں، چنانچہ وہ عام لوگوں کو اسلامی مفاہیم و تصورات سے روشناس کرائیں، اور دینداری کی ضرورت اور فوائد کی وضاحت کریں؛ جبکہ دین آج [بھی عصر امام حسین(ع) کی طرح] زبانوں کا چٹخارا بنا ہؤا ہے، لیکن یہ در حقیقت آزمائش و امتحان کا موقع ہے، جیسا کہ امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا:

"إنَّ الناسَ عَبيدُ الدُّنيا و الدِّينُ لَعقٌ على ألسِنَتِهِم يَحوطُونَهُ ما دَرَّت مَعائشُهُم ، فإذا مُحِّصُوا بالبلاءِ قَلَّ الدَّيّانُونَ؛

یقیناً لوگ دنیا کے بندے ہیں، اور دین ان کی زبانوں کا چٹخارا ہے، وہ اس کی اس وقت پاسداری کرتے ہیں جب تک کہ ان کے دنیاوی اور مالی فائدے میں ہو، اور جب آزمائش کی گھڑی سے دوچار ہوتے ہیں تو دین دار بہت قلیل ہیں"۔ (3)

ضروری ہے کہ آج ہم صحیح معنوں میں ـ حکمت و عقلیت اور معنویت [و اخلاق] کی بنیاد پر ـ دینداری کو فروغ دیں۔ جس چیز کا ہم سے تقاضا کیا جا رہا ہے یہ ہے کہ جامع، پر معنی و عمیق و دقیق دینداری کو رواج دیں۔ امام حسین (علیہ السلام) نے اسی بنیاد پر اپنی حرکت کا آغاز کیا اور عملی طور پر ثابت کرکے دکھایا کہ اسلامی زعیم و ہبر کو اسلامی اصولوں کا پابند ہونا چاہئے۔ آپ نے جھوٹے زعیموں، برائی اور گھناؤنے پن کے پرچارکوں کو لوگوں کے سامنے صحیح انداز سے بے نقاب کیا اور فرمایا:

"أ لاَ تَرَونَ أنَّ الحَقَّ لا يُعمَلُ بهِ، وَأنَّ الباطِلَ لا يُتَناهى عَنهُ، لِيَرغَبِ المُؤمنُ في لِقاءِ اللّهِ مُحِقّا ، فإنّي لَا أرَى المَوتَ إلاّ سَعادَةً ، و لا الحَياةَ مَعَ الظّالِمينَ إلاّ بَرَماً؛

کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جاتا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا، یہاں تک کہ مؤمن کو حقیقتاً چاہئے کہ لقاء اللہ (اور موت) کی رف راغب ہو جائے، چنانچہ میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو دکھ اور ملال کے سوا کچھ نہیں دیکھتا"۔ (4)

ہمیں موجودہ زمانے میں اپنے سامعین و قارئین کے لئے تشریح کرنا پڑے گی کہ دین دنیا اور آخرت اور ظاہر و باطن، اور فردی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ انسان کو اس دنیا میں وسیع پیمانے پر محنت کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے مغرب میں معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی کسادبازاری ہے، اور وہ دوسروں کے مسائل کو اپنے مسائل نہیں سمجھتے؛ جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:

"مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنادى يا لَلْمُسْلِمينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ؛

جو شخص کسی ایسے شخص کی آواز سنے جو پکار رہا ہے کہ "اے مسلمانو (میری فریاد کو پہنچو)، اور وہ اس کی مدد نہیں کرتا، وہ مسلمان نہیں ہے"۔ (5) خواہ وہ [استغاثہ کرنے والا] فرد مسلمان ہو خواہ غیر مسلم ہو۔ نیز آنحضرت فرماتے ہیں:

"مَنْ أَصْبَحَ لاَ يَهْتَمُّ بِأُمُورِ اَلْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ؛

جو شخص رات گذار کر صبح کردے اور مسلمانوں کے مسائل اور پریشانیوں کی طرف دہیان نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے"۔ (6)

اسلام نے مسلمانوں اور مؤمنوں کے اتحاد اور یگانگت پر زور دیا ہے اور امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقولہ احادیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: "مؤمن مؤمن کا بھائی ہے، ایک جسم کی مانند، کہ ہرگاہ اس [جسم] کا ایک عضو دکھی ہوجائے، دوسرے اعضاء بھی اس دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں اور مدد کے لئے آتے ہیں اور ہمدردی کرتے ہیں، اور اس ذریعے سے کتنے مسائل ہیں جو حل ہو جاتے ہیں۔ مؤمنوں کی روحیں بھی ایک ہی روح ہیں۔ مسلمین اور مؤمنین کو ایک دوسرے کے تئیں ایسا ہی ہونا چاہئے۔ فرماتے ہیں:

"المؤمنُ أخو المؤمنِ كالجَسَدِ الواحدِ، إنِ اشتكَى شيئا مِنهُ وَجَدَ ألمَ ذلكَ في سائرِ جسدِهِ ، وأرواحُهُما مِن رُوحٍ واحدةٍ؛ (7)

دوسرے روشن اور واضح پیغامات بھی عاشورا کے مکتب و تعلیمات میں موجود ہیں؛ وضاحت یہ کہ نہ صرف کربلا کے شہیدوں کے قاتل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہیں گے، بلکہ حتیٰ وہ بھی تا ابد جہنمی اور قاتلوں کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جو شہدائے کربلا کے قتل ہونے پر راضی تھے یا راضی ہو جائیں۔ آج ہمیں جدید آلات اور اوزاروں اور سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کی دستیابی کے بدولت، سنہری مواقع میسر ہیں۔ کچھ مبلغین خطیب اور صاحب منبر ہیں، بعض دو بدو تبلیغ اسلام کرتے ہیں، اور بعض وہ ہیں جو سائبر اسپیس پر تبلیغ اہل بیت(ع) میں مصروف عمل ہیں۔ ہمیں انسانی برادری کی آگہی کی خاطر ان تمام وسائل اور امکانات سے استفادہ کرنا چاہئے اور آخری نکتہ یہ کہ:

اللہ تعالیٰ کے تمام نبی بنی نوع انسان کی تعلیم و تربیت کے لئے آئے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ایک حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں:

"اُغْدُ عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً أَوْ مُسْتَمِعاً أَوْ مُحِبّاً لَهُمْ وَلاَ تَكُنِ اَلْخَامِسَ فَتَهْلِكَ؛

عالم بن، یا طالب علم، یا سامع یا ان [سب] کا حبدار، پانچواں نہ بن، کیونکہ اس صورت میں ہلاک [اور برباد] ہو جائے گا"۔ (8)

زیارت اربعین میں مظلوم پر سلام، امین اللہ پر سلام اور ولی اللہ پر سلام کے بعد امام صادق (علیہ السلام) سے یہ عبارت نقل ہوئی ہے:

"اللّهُمَّ، إنّي أشهَد أنَّهُ ... بَذَلَ مُهجَتَهُ فيكَ لِيَستَنقِذَ عِبادَكَ مِنَ الجَهالَةِ وحَيرَةِ الضَّلالَةِ ، وقَد تَوازَرَ عَلَيهِ مَن غَرَّتهُ الدُّنيا وباعَ حَظَّهُ بِالأرذَلِ الأدنى؛

اے میرے معبود! یقیناً میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناٌ آپ [یعنی امام حسین (علیہ السلام) نے تیری خاطر اپنی جان کی قربانی دی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے، جب کہ ان پر حملہ آور ہؤا وہ جس کو دنیا نے ورغلایا تھا، اور  بیچ دیا اس نے اپنا [پورا] منافع [اور ابدی سعادت کو] کم اور پست قیمت پر"۔ (9)

اس لحاظ سے، اور اس جملے سے اپنی فہم و تأثر کے پیش نظر، ہمیں ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے ولی اللہ کا سر نیزے پر اٹھایا، نیز انبیاء (علیہم السلام) کے اہداف کے حصول اور معاشرے سے جہل و نادانی کے ازالے کے لئے کوشش کرنا پڑے گی؛ بالکل ان ہی کوششوں کی طرح جو ایران کے شہید آیت اللہ شیخ فضل اللہ نوری اور دوسرے شہداء اور علماء بروئے کار لاتے رہے ہیں، اور دوسرے ممالک میں شہید قاضی نوراللہ شوشتری اور دوسروں کی طرح، جو اپنے معاشروں سے جہل و نادانی کے ازالے کے لئے اسی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ اور آخرکار بے رخیوں کا شکار ہوکر معاشروں سے حذف کئے گئے ہیں۔ ان علماء نے اپنی شہادتوں کے ذریعے واضح کیا ہے کہ معاشرے کو عالم و دانا اور فرض شناس ہونا چاہئے۔ انسانی معاشرے پر عوام کے دین اور مؤمنانہ عقائد کے حوالے سے ذمہ داریاں عائد ہیں۔

اس نکتے کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ دین کو اوزار کے طور پر استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔ داعش اور تکفیری اور انتہاپسند افراد ـ ظاہری دینداری اور گمراہ کن اسلامی الفاظ و اصطلاحات بروئے کار لانے کے برعکس ـ، اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کے نعرے لگا کر سر قلم کرتے ہیں؛ ان بظاہر دینادروں سے ـ جو دین سے اوزاروں اور آلات کے طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں ـ دوری اختیار کرنا چاہئے، اور دوسروں کو بھی ان سے پرہیز دلائیں۔

اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ اپنی تبلیغ میں دینداری کے مقدمات و تمہیدات ـ جیسے دین و اعتقاد کی صحیح پہچان وغیرہ ـ کو خصوصی توجہ دیں۔ اور نتیجہ یہ کہ [ہم (مبلغین) کو خود بھی عملی طور پر دیندار ہونا چاہئے]، اگر ہم خود اچھے دیندار بن جائیں تو معاشرہ بھی دیندار، مسائل کو حل کرنے والا اور انصاف پسند (و عدالت خواہ) بنے گا اور انسانی معاشروں کے مسائل دیکھ کر دکھ اور صدمہ محسوس کرے گا اور پہلے سے کہیں زیادہ محنت اور کوشش کرے گا۔

میں ایک بار پھر آپ مبلغین کرام کی قابل قدر خدمات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی محنتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اور آپ کی کامیابی کی آرزو کے ساتھ، آپ سب سے ان ایام میں دعا کا طلبگار ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1] ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبيين ص118۔

[2] امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، نہج البلاغہ، مکتوب شمارہ 31۔

[3] ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص245۔

[4] وہی ماخذ، ص245۔

[5] ثقۃ الاسلام کلینی، الكافى، ج2، ص164، ح5۔

[6] وہی ماخذ۔

[7] وہی ماخذ، ج، ص166، ح4۔

[8] ع محمد بن علی بن ابراہیم أحسائی، عوالي اللآلي: 75 / 58؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار: 1 / 195 / 13؛ سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الأوسط  5 / 231 / 5171؛ الدیلمی، شیرویہ بن شہردار الہمدانی، الفردوس بمأثور الخطاب: 1 / 430 / 1753 كلاهما عن أبي بكرة وليس فيہما «لہم»؛ علی بن حسام الدین، بربان پوری، المعروف بہ متقی ہندی، كنز العمّال: 10 / 143 / 28730 نقلاً عن البزّار

[9] شیخ محمد بن حسن، تہذيب الأحكام: ج6 ص113 ح201؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجّد: ص788، ح857 كلاهما عن صفوان بن مہران؛ بحار الأنوار : ج 101 ص 331 ح 2

...............................

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

................................

110