اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

18 جولائی 2023

10:50:30 PM
1380355

سیکریٹری جنرل کا دورہ پاکستان؛

ہم معرفت اہل بیت(ع) کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں / پاکستانی عوام اہل بیت(ع) کے دل دادہ اور انقلاب اسلامی کے حبدار ہیں ۔۔۔ آیت اللہ رمضانی

آیت اللہ رمضانی نے اپنے دورہ پاکستان کے ثمرات کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ہم مغرفت اہل بیت(ع) کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ شیعیان پاکستان ہی نہیں بلکہ اس ملک کے اہل سنت برادران کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اہل بیت (علیہم السلام) کے دل دادہ ہیں اور خاندان رسالت سے ناقابل توصیف محبت و عقیدت رکھتے ہیں، اور جذبے اور محبت کے لحاظ سے اس مجبت اور دل دادگی کو سب سے اعلیٰ ترین درجہ دے سکتے ہیں.

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رمضانی نے پاکستانی علماء اور علمی و مذہبی راہنماؤں سے ملاقات، اسلامی مراکز کا دورہ کرنے اور علمی و ثقافتی مراکز کے ساتھ تعاون پر مبنی مفاہمت ناموں پر دستخط کرنے کی غرض سے 9 دن تک اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے اہم شہروں کا دورہ کیا۔

یہ ملاقاتیں اور نشستیں اس لحاظ سے بہت اہم تھیں کہ مسلم ملک پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کا پڑوسی ملک ہے اور اس کے عوام اہل بیت (علیہم السلام) کے شیدائی اور اسلامی انقلاب کے حبدار ہیں اور اس دوست اور برادر ملک کے علمی اور ثقافتی مراکز کے ساتھ تعلقات کی تقویت تعاون کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

عالمی اہل بیت(ع) خبر ایجنسی ـ ابنا ـ نے اس اہم دورے کے حوالے سے عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رمضانی کے ساتھ تفصیلی مکالمے کا اہتمام کیا ہے

۔۔۔۔۔

ابنا: ہمیں اپنا وقت دینے کے لئے آپ کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سب سے پہلے عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داری سبھالنے کے آغاز سے اب تک کے دوروں کے بارے میں بتایئے اور یہ کہ ان دوروں میں کن مقاصد کا حصول مقصود ہے؟

جواب: میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان زحمتوں پر جو آپ اس راہ میں برداشت کرتے ہیں، آپ کی قدردانی کرتا ہوں۔ مطلوبہ مقاصد کی خاطر انجام پانے والے مختلف دوروں کی منزل مقصود ترکیہ، جرمنی، روس، ہالینڈ، فرانس، ہندوستان، گُرجستان (جارجیا Georgia)، عراق، شام، اور لبنان جیسے ممالک تھے اور حالیہ دورہ پاکستان کا تھا۔

پاکستان کے دورے کی منصوبہ بندی گذشتہ برسوں میں انجام پائی تھی لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر امکان فراہم نہیں ہؤا، اور حال ہی میں ہم نے یہ امکان فراہم کیا اور متنوع پروگراموں پر مشتمل دورہ انجام کو پہنچا اور اس کی حصول یابیاں بھی مناسب تھیں۔

بہرحال پاکستان ایک بڑا اسلامی ملک ہے جس کی آبادی پچیس کروڑ تک پہنچتی ہے اور شیعیان اہل بیت(ع) کی تعداد بھی چار کروڑ سے زیادہ ہے؛ اور یہ اسلامی معارف اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے لئے ایک عظیم امکان ہے۔

ان دوروں کے عام مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے: سب سے پہلے ان علاقوں کے با اثر علماء سے شناسائی اور بات چیت، نیز بڑے شیعہ مراکز سے آشنائی۔ تاکہ مکتب اہل بیت(ع) کے تعارف کے لئے ـ دستیاب وسائل  سے فائدہ اٹھا کر ـ دنیا میں ایک امکان پیدا کریں کہ  میں ان تعلیمات و معارف کو  صحیح انداز سے کو متعارف کرا سکیں۔ ان دوروں کا ایک مقصد مختلف علاقوں کے اہل تشیّع کی صورت حال سے آگہی اور واقفیت ہے، تاکہ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں اور کمزوریوں کو پہچانا جائے، اور شیعہ مراکز کے باہمی اتحاد اور ایک مرکز میں اجتماع اور علاقائی اسمبلیوں کی تشکیل کا مطالعہ کیا جائے۔ مساجد اور اسلامی اور شیعہ مراکز کا دورہ، نیز علماء سے ملاقاتیں بھی ان دوروں کے مقاصد میں شامل ہیں۔ ہم اپنی فعالیتوں اور دوروں میں، کسی سیاسی سرگرمی میں مصروف نہیں ہوتی، اور ہمارے پروگرام محض ثقافتی اور دینی ہیں، جن کے ضمن میں دنیا والوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کے ادب اور مکتب سے روشناس کرانا، مواقع سے فائدہ اٹھانا اور اسی سلسلے میں ماحول سازیاں کرنا، عام اہداف و مقاصد میں شمار ہوتے ہیں۔

ابنا: پاکستان کے دورے کا سبب اور مقصد کیا تھا؟

جواب: جہاں تک دورہ پاکستان کا تعلق ہے تو مقصد یہ تھا کہ غدیر کے بے مثل ایام کی سے فائدہ اٹھا، پاکستان میں وسیع پیمانے پر منعقدہ اس عید سعید کی تقریبات میں شرکت کریں، اور ان جلسوں اور تقریبات میں مسئلۂ "وحدت" اور "اسلامی امت میں غدیر کے کردار" پر روشنی ڈالیں۔ ہمارے پاس غدیر کی بہت اہم تعلیمات ہیں، جن مین سے ایک ہے کہ جو بہترین ہو اس کو اپنے امور و معاملات میں بروئے کار لایا جائے۔ اگر کسی بھی ذمہ داری پر بہترین افراد کو، یا بہترین افراد میں سے مطلوبہ افراد کو کام سونپا جائے، تو معاشرہ قطعی طور پر نشوونما پائے گا۔ دوسرا نکتہ ـ جو ان ہی تعلیمات میں سے ہے ـ یہ ہے کہ مسلمان اپنی قسمت کے فیصلوں میں خود حاضر ہوں اور کردار ادا کریں، غدیر بنیادی طور پر بہت قوی انداز سے دین کے سماجی پہلو کو زیر بحث لاتا اور نافذ کرتا ہے، یعنی غدیر کے اہم ترین اسباق میں سے ایک یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی ذمہ داریاں صرف انفرادی نہیں ہیں اور ہماری اجتماعی اور معاشرتی ذمہ داریاں اگر انفرادی ذمہ داریوں سے زیادہ نہ ہوں تو کم بھی نہیں ہیں۔ ہمیں غدیر سے فائدہ اٹھانا چاہئے تا کہ دین اسلام کے حوالے سے نفیس ترین اور عمدہ ترین ادب عالمی معاشروں کے سامنے رکھ سکیں؛ ہم نے شیعہ اور سنی علماء کے ساتھ مباحث اور مذاکرات میں ان مسائل پر زور دیا۔

پاکستان میں وسیع پیمان پر مجود قابلیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، مقامی اہل بیت(ع) اسمبلی کے لئے ماحول سازی، اس دورے کے دوسرے مقاصد میں شامل تھی۔ پاکستان ایک بڑا اسلامی ملک ہے جس کی آبادی پچیس کروڑ تک پہنچتی ہے اور شیعیان اہل بیت(ع) کی تعداد بھی چار کروڑ سے زیادہ ہے؛ اور یہ اسلامی معارف اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے لئے ایک عظیم امکان ہے۔ دوسری طرف سے خطے میں شیعیان اہل بیت(ع) کی صورت حال سے آگہی اور واقفیت بھی اہم مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اہل تشیّع کی قوتوں اور صلاحیتوں نیز کمزوریوں پر بحث و تمحیص کی جائے۔ مساجد اور متعلقہ اسلامی و قرآنی مراکز کا دورہ نیز شیعہ حوزات علمیہ (دینی مدارس) اور ان کی معلومات حاصل کرنا بھی اہم اقدامات میں سے ایک ہے، اور ان اقدامات کو اس دورے میں نظر میں رکھا گیا؛ اگرچہ صلاحیتوں اور امکانات کی وسعت کے پیش نظر ان سب کا جائزہ لینے کا امکان فراہم نہیں ہؤا، لیکن دورے کی مدت اور دورے کے امکان کے پیش نظر، متعدد مراکز کا دورہ عمل میں لایا گیا۔

اہل سنت کے مراکز کے ساتھ دینی اور تعلیمی تعاملات بھی اس دورے کے اہم مقاصد میں شامل تھے؛ اور الحمد للہ، اچھا ماحول میسر آیا، اور منہاج القرآن یونیورسٹی اور دوسرے مراکز کے ساتھ تعاون کے مفاہمت ناموں پر دستخط ہوئے۔ با اثر سی اور شیعہ راہنماؤں سے ملاقاتیں اور وحدت کے موضوع پر اجلاسوں کا انعقاد بھی  ہمارے دورے کے ایجنڈے پر تھے، اور میرے خیال میں یہ سارے امور مؤثر اور مفید انداز سے انجام پائے۔

ابنا: آپ نے کن شہروں کا دورہ کیا، کن مراکز کا دورہ کیا اور کن شخصیات سے ملاقاتیں کیں؟

جواب: پاکستان کے تین اہم شہر ـ یعنی کراچی، اسلام آباد اور لاہور ـ اس دورے کے لئے متعین ہوئے تھے۔ کراچی میں ہم نے مختلف النوع پروگراموں ـ منجملہ عید غدیر کی مناسبت سے خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران میں شاندار جشن ـ میں شرکت کی، اس موقع پر خطے کے علماء بھی موجود تھے۔ برادران اور خواہران کے کچھ دینی حوزات کا دورہ بھی اس دورے کے ایجنڈے میں شامل تھا، جو انجام پایا؛ اور یہ سارے مدارس اور حوزات بھی وسیع فعالیت کی اہلیت رکھتے ہیں۔

لاہور میں بعض اسلامی مراکز کا دورہ کیا، عروۃ الوثقی ـ جو ایک عظیم کمپلیکس ہے اور اس میں کام کا وسیع امکان موجود ہے ـ کے سربراہ سے بھی ملاقات ہوئی جامعۃ المنتظر میں آیت اللہ سید ریاض حسین نقوی سے ملاقات ہوئی جو کہ پاکستان کے مشہور علماء میں سے ایک ہیں، حوزہ علمیہ نجف کے فارغ التحصیل اور جامعۃ المنتظر کے سربراہ ہیں۔

اسلام آباد میں بھی با اثر شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں رہبر معظم کے نمائندے اور شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی اور حوزہ علمیہ جامعۃ الکوثر کے سربراہ،  پاکستانی عالم دین اور حوزہ علمیہ نجف کے فارغ التحصیل آیت اللہ شیخ محسن نجفی شامل تھے۔ ایک بہت اچھی میٹنگ علامہ راجہ ناصر جعفری سے ہوئی جو اسلام آباد میں ایک حوزہ علمیہ کے سربراہ بھی ہیں، اور یہ سارے بزرگوار طلاب کی تعلیم و تربیت میں مصروف عمل ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے حوزہ علمیہ قم بھی آتے ہیں اور کچھ طلاب نجف چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کے بعض علاقوں کے حوزات علمیہ بہت پُر رونق ہیں، جن کی صلاحیتوں کو مزید تقویت پہنچانے اور کمزوریوں کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اہل سنت کے علماء کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئیں جن میں اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سربراہ سے ملاقات بھی شامل تھی۔ یہ کونسل ہمارے ملک میں شورائے نگہبان طرز طرز کا ادارہ ہے یعنی پاکستان میں منظور شدہ قوانین کو اس ادارے کی تائید حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور ان قوانین کا اسلام کے ساتھ توافق اور تطابق واضح ہو جائے۔ اس کونسل کے ارکان کی تعداد 22 ہے جو شیعہ اور سنی علماء اور قانون دانوں میں سے ہیں۔ البتہ ماضی میں اس کونسل میں شیعہ علماء کی تعداد 2 تھی اور اس وقت ایک شیعہ عالم اس کا رکن ہے۔ اس میٹنگ میں ہم سے کہا گیا کہ قوانین کے مجموعے کے شریعت کی احکام اور اسلامی قوانین سے مطابقت کے سلسلے میں اس کونسل کی مدد کریں۔ اس میٹنگ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ، قوانین کے فقہی مسائل کے ساتھ مطابقت کے حوالے سے، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے فقہی ورکنگ گروپ کی بات چیت ہوئی۔

ابنا: آپ کے دورے پر پاکستانیوں بالخصوص جامعات کے طلباء اور عوام کا استقبال کیسا رہا؟

 جواب: منصفانہ بات یہ ہے کہ ہم جہاں بھی گئے بڑی محبت اور شان و شوکت سے خیر مقدم کیا گیا، علماء نے بھی، طلباء نے بھی اور عوامی طبقات نے بھی پرتپاک استقبال کیا۔ جہاں جہاں ہم نے خطاب کیا، جلسے بڑے شاندار تھے اور خیر مقدم کیا گیا۔ مثال کے طور پر ہم نے منہاج یونیورسٹی میں خطاب کیا، جو کہ علاقے کی بڑی اور اہم یونیورسٹی ہے جہاں 16000 طلبہ حصول تعلیم میں مصروف ہیں، اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباء نے ہمارے خطاب کا پر جوش خیر مقدم کیا۔ ہم جہاں بھی جاتے تھے، عوام بھی پرتپاک استقبال کرتے تھے اور ہم ان کے استقبال سے شرمندہ ہو جاتے تھے۔ لوگ اپنے تمام تر وسائل سے ہمارا استقبال کرتے تھے اور مشاعروں سمیت مختلف پروگراموں کا اہتمام کرکے اظہار محبت کرتے تھے۔ ایرانی عوام سے محبت اور اسلامی جمہوریہ  سے لگاؤ بھی اس اظہارِ محبت کی خصوصیات میں شامل تھا۔ یہ استقبال اس قدر نمایاں تھا کہ تمام اجلاسوں میں اس کا اظہار کیا جاتا تھا اور اگرچہ تمام جلسوں کی زبان فارسی تھی مگر پھر بھی ان کا بھرپور خير مقدم کیا جاتا تھا۔ یہ سب ان دو قوموں کی دیرینہ دوستی کا اظہار ہے اور ہمیں امید ہے کہ ان دو ملکوں کی حکومتیں بھی سیاسی، تجارتی، اقتصادی، سائنسی شعبوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی مناسب اور متناسب تعاون کو فروغ دیں۔

ابنا: شیعیان پاکستان کی طاقت کے پہلؤوں اور کمزور پہلؤوں کے بارے میں آپ کا جائزہ کیا ہے؟ مکتب اہل بیت(ع) کے فروغ کے سلسلے میں شیعیان پاکستان کو کن چیلنجوں کا سامنا ہے، اور عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

جواب: پاکستان میں شیعہ ـ اور حتیٰ کہ اہل سنت ـ کی خصوصیات میں سے ایک اہل بیت اور خاندان وحی (علیہم السلام) سے والہانہ محبت و عقیدت ہے اور جذبے اور محبت کے لحاظ سے ان کی اس دلدادگی کو سب سے اعلیٰ درجہ دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس عشق و عقیدت کو محفوظ رہنا چاہئے، اس محبت کے ساتھ معرفت بھی لازم ہے، اور بہت سے مواقع پر ایسا ہی ہے؛ تاہم گہری معرفت بہت سی جگہوں پر نہیں پائی جاتی جو کہ ایک کمزور پہلو سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس شناخت و معرفت کو جذبے، اہل بیت عصمت و طہارت والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ ملا لیا جائے تو ایک عظیم استعداد معرض وجود میں آئے گی۔ عین ممکن ہے کہ کچھ قوتیں اس کمزوری سے غلط فائدہ اٹھائیں، چنانچہ اس حوالے سے بہت زیادہ ہوشیار ہونا چاہئے اور خطے کے علماء کو بھی ہوشیار اور محتاط ہونا چاہئے۔ کبھی اسلام دشمن قوتیں ان ہی کمزوریوں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور اہل تشیّع اور کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں یا شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاہم، اللہ کا شکر ہے کہ شیعہ زعماء اور بڑے شیعہ اور سنی علماء کے اقدامات کی وجہ سے عام طور پر فتنہ انگیزیوں اور دشمنوں کی شر انگیزیوں کا سد باب کیا گیا ہے۔

میرے خیال میں، جس مسئلے کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ عقلی معرفت اور انصاف پسندی اور عدالت خواہی ہے۔ دشمن کو مثبت خصوصیات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دینا چاہئے؛ جو عناصر کچھ لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں، بالکل واضح ہے کہ برطانیہ یا دوسروں کی طرف سے شرانگیزی کرتے ہیں، اور ان شرانگیزیوں کے ذریعے پیروان اہل بیت(ع) نیز شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس مسئلے کے لئے خطے کے علماء کی ہوشیاری اور ان کی طرف سے اثر و رسوخ بروئے کار لانے کی ضرورت ہے؛ جیسا کہ بہت سے مواقع پر اتحاد و ہمآہنگی کے ذریعے ان سازشوں کا راستہ روکا گیا ہے یہاں تک عظیم ریلیوں کا انعقاد کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر خطے کے علماء اور با اثر شخصیات اور تشیّع اور اہل سنت کے راہنماؤں کی تدبیر و انتظام کے بدولت اختلافات میں شدت آنے کا سدباب کیا گیا ہے۔

دشمنان اسلام ـ خاص طور پر پاکستان میں ـ اختلافات کو ہوا دینے کے سلسلے میں سنجیدگی سے سرگرم عمل ہیں اور اس مسئلے پر سرمایہ خرچ کر رہے ہیں؛ ہمیں بہت زیادہ احتیاط اور توجہ کی ضرورت ہے اور خطے کے علماء اور عمائدین کو ہوشیار ہونا چاہئے۔ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی بھی کوشش ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کے تئیں معرفت کو گہرا اور مستحکم کیا جائے، اور اہل بیت (علیہم السلام) کے محبین اور پیروکاروں کے درمیان اہل بیت (علیہم السلام) کے سلسلے میں ایک جامع تصور پیدا کیا جائے۔

سیدالشہداء (علیہ السلام) کے ایام عزاداری کی آمد پر ان جلسوں اور میٹنگوں میں کچھ مسائل پر بات چیت ہوئی، جن میں سے ایک یہ تھا کہ امام حسین (علیہ السلام) ایک آفاقی شخصیت ہیں، نہ صرف شیعیان اہل بیت(ع) اور مسلمانوں، حتیٰ ابراہیمی ادیان کے لئے، بلکہ پوری انسانیت کے لئے نمونۂ عمل اور اسوہ حسنہ ہیں۔ امام حسین (علیہ السلام) کا یہ جملہ کئی بار تقاریر اور بات چیت کے دوران دہرایا گیا کہ "إنْ لَمْ يَكُنْ لَكُم دِينٌ وَكُنْتُمْ لَا تَخَافُونَ الْمَعادَ فَكُونُوا أحْرَاراً فِي دُنيَاكُمْ؛ اگر تم کسی دین پر یقین نہیں رکھتے ہو اور یوم الحساب سے نہیں بھی ڈرتے ہو تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو"۔ (1) اس لحاظ [اور درس حریت کے حوالے] سے بھی امام حسین (علیہ السلام) پوری انسانیت کے لئے مثال اور اسوہ ہیں اور ہمیں اس سے مستفیض ہونا چاہئے؛ چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) ایک عالمی استعداد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ واقعۂ عاشورا کی تشریح کے وقت صرف جذباتی جہتوں کی یاددہانی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ امام حسین (علیہ السلام) اور واقعۂ عاشورا کے صحیح اور دقیق تعارف و تشریح کا اہتمام کرنا چاہئے۔  

واقعۂ عاشورا کے اسباب و عوامل کا صحیح تجزیہ پیش کرنے، کہ اس صورت میں کیوں رونما ہؤا، نیز اس واقعے کا حالات حاضرہ کے ساتھ تقابلی جائزہ لینے جیسے مسائل ان مسائل میں سے ایک تھا جنہیں بعض جلسوں میں زیر بحث لایا گیا۔

تقابلی جائزے کا مسئلہ، اہم مسائل میں سے ایک ہے، دیکھنا چاہئے کہ کون لوگ ہیں جو آج دین کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟ چنانچہ نقل روایت کو بھی صحیح اور جامع ہونا چاہئے، صحیح تجزیہ بھی ہونا چاہئے اور آج کے ساتھ تقابل کا مسئلہ بھی صحیح انداز سے انجام پانا چاہئے۔ ان لوگوں کو بھی دیکھنا چاہئے جو ولایت الٰہیہ کے راستے پر گامزن ہیں اور ان کو بھی جو طاغوت کی حکمرانی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ مقارنہ اور تقابل بہت اہم کام ہے۔ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی اپنی صلاحیتوں کی حد تک جامع اور صحیح و دقیق انداز سے اہل بیت (علیہم السلام) کا تعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سمت میں قدم اٹھانا چاہتی ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کو ایک لحاظ سے علمی اور روحانی مرجعیت تک پہنچنا چاہئے اور اسی راہ میں قدم اٹھانا چاہئے، چنانچہ اسمبلی کی عمومی ادارت اور "وکی شیعہ" اور تحقیقاتی اور ابلاغیاتی شعبے ـ یعنی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ میں بھی عقلیت، روحانیت اور عدالت خواہی اور انصاف پسندی کو بہر صورت مشہود اور محسوس ہونا چاہئے، تاکہ ہم مکمل آگہی اور نگرانی کے ساتھ، آج کی پوری دنیا میں بسنے والے انسانی معاشروں کو اہل بیت (علیہم السلام) کے گہرے معارف و تعلیمات سے روشناس کرائیں اور شیعوں کی آج کی مناسب اور جدید نوع کی آگہی کی مدد سے، دنیا والوں کو آگاہ کریں۔

ابنا: کیا عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کا پاکستان میں کوئی نمائندہ دفتر ہے؟ اس کی فعالیت کس حد تک ہے؟

جواب: کسی وقت کچھ علماء اسمبلی کے نمائندوں کی حیثیت سے سرگرم عمل تھے جن میں سے بعض تو انتقال کر گئے۔ حالیہ دورے میں اس حوالے سے کچھ لوگوں کو دیکھا گیا، ان شاء اللہ مستقبل قریب میں اس موضوع کو توجہ دی جائے گی۔ البتہ پاکستان میں ہماری مجلس عمومی کے 40 سے 50 تک اراکین بھی ہیں، لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے مطلوبہ فعالیت جاری نہیں رہی ہے اور اس دورے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان کی مقامی اسمبلی کی سرگرمیوں پر نظر ثانی کی جائے۔

ابنا: آپ کے خیال میں بر صغیر پاک و ہند ـ بالخصوص پاکستان ـ میں شیعہ اور محبین اہل بیت(ع) کی تقویت کے لئے کن بنیادی عناصر اور حکمت عملیاں کیا ہیں؟

جواب: اہم ترین عوامل میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی ہے۔ دشمن کے مقابلے میں عملی اتحاد کو بہرحال ہونا چاہئے، جس کا لازمہ مشترکہ فہم ہے، جسے معرض وجود میں آنا چاہئے۔ شیعہ علماء اور حوزات علمیہ کا باہمی اتحاد بھی بہت اہم عنصر ہے کہ مدارس علمیہ ایک ہی سمت میں، ایسے طلباء کی تربیت کریں جو اہل بیت (علیہم السلام) کے پیمانوں پر پورے اترتے ہوں۔ اہم بات بھی یہی ہے آج کے حالات کی رو سے طلباء کی تربیت بھی آج کے معاشرے کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔

دوسرا نکتہ عقلیت، روحانیت اور عدالت خواہی کو تقویت پہنچانے سے تعلق رکھتا ہے۔ الحمد للہ کہ ملت پاکستان میں عدالت خواہی کا عنصر پایا جاتا ہے اور امید ہے کہ عقلیت اور روحانیت و اخلاق کے ساتھ ساتھ، یہ قوم ایک روحانی، معاشی، سماجی اور سیاسی قوت بن جائے۔ اس کوشش کی ضرورت ہے کہ جو عقلیت اور معنویت قرآن کریم اور تعلیمات اہل بیت(ع) میں ہے، اس پر زور دی جائے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ـ کہ آج مغرب والے ایک جعلی معنویت و روحانیت کے درپے ہیں ـ ہمیں اہل بیت (علیہم السلام) کی استعدادات کے مجموعے سے استفادہ کرکے معنویت کو ـ جس کی چوٹی پر ذات باری تعالیٰ اور سکون تک پہنچنے کے لئے اللہ کے ساتھ انسان کا رابطہ ہے ـ اس کے صحیح معنوں میں، اپنے امور و معاملات میں سرفہرست رکھیں۔ اہل بیت (علیہم السلام) کا سہارا اس معنویت تک پہنچنے کی بنیادی شہ سرخی ہے جو خود معنویت کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہيں، اور اس قدر بے مثل شخصیات ہیں جو علمی اور معنوی لحاظ سے مسلمانوں کے درمیان سرآمد ہیں اور تمام مسلمانوں نے ان کی علمی مرجعیت و اقتدار کو تسلیم کر لیا ہے۔ ہمیں اس معنویت و روحانیت کا تعارف کرانا چاہئے جو اہل بیت (علیہم السلام) کے معارف و تعلیمات میں موجود ہے؛ جن میں صحیفۂ سجادیہ، امام حسین (علیہ السلام) کی دعائے عرفہ، اور دوسرے ائمۂ اطہار (علیہم السلام) سے منقولہ احادیث اور دعائیں شامل ہیں، وہ دعائیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے منقول و مأثور ہیں جن میں دعائے کمیل شامل ہے، اور وہ دعائیں جو مفاتیح الجنان میں مندرج ہیں، اور صحیفہ سجادیہ اور مفاتیح الجنان کی دعاؤں کو قرآن صاعد (2) بھی کہا گیا ہے؛ ہمیں ان سب کا صحیح جائزہ لے کر دنیا والوں سے متعارف کرانا چاہئے۔

اگلا نکتہ جسے تزویراتی حکمت عملیوں کے عنوان سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، دنیا میں اہل تشیّع کی عمومی تعلیم و تربیت کو ارتقاء دینے سے عبارت ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کچھ زیادہ کوشش کی ضرورت ہوگی؛ چنانچہ مبلغین کو آج کے زمانے کے تقاضوں کے مطابق علمی لحاظ سے لیس کرنا پڑے گا، بین الاقوامی طریق بیان سے آشنا کرانا پڑے گا، تاکہ وہ نوجوانوں کو آج کی دنیا کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے آگاہ اور تیار کر سکیں، انہیں نوجوان نسل کی زبان سے واقف و آگاہ ہونا چاہئے تاکہ اس سلسلے میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکیں۔  

ابنا: آپ کے خیال میں، آپ کے دورہ پاکستان کی اہم کامیابیاں کیا تھیں؟

جواب: میں یہاں ان کامیابیوں کے عناوین کو فہرست کی شکل میں عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلی کامیابی میدان میں حاضر ہو کر معلومات کا احاطہ کرنا ہے۔ انسان جس میدان میں بھی حاضر ہوتا ہے، زیادہ عینی اور محسوس انداز سے معلومات کا احاطہ کر لیتا ہے۔ دوئم، بے شمار استعداد کی شناخت ہے جو ہمارے دوست ملک پاکستان میں موجود ہیں؛ پاکستانی قوم اسلامی تعلیمات کی پابند اور معتقد قوم ہے، جو بہت اہم بات ہے، سوئم، یہ کہ شیعہ اور سنی علماء کے اتحاد پر زور دیا گیا اور ان سب کی رائے یہ تھی کہ مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لئے متحد ہونا چاہئے۔ آج اسلام اور مسلمین خطے کی بڑی طاقت ہیں۔ عالمی سطح پر "خالص محمدی اسلام" وہی [فکری] دھارا ہے جو استکباری نظام سے نمٹنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ آج ہم قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کے ذریعے بہترین افکار کو دنیا میں متعارف کرا سکتے ہیں۔ مستقبل میں میدان کے فاتحین وہ لوگ ہیں جو بہترین افکار کو دنیا والوں کے سامنے رکھیں گے۔

چوتھا نکتہ علاقے کے علماء کے اتحاد و اتفاق پر تاکید اور مکتب اہل بیت(ع) کی بہتر اور زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کے لئے استعدادات اور امکانات سے آگہی، سے عبارت ہے۔ پانچواں نکتہ یہ تھا کہ منہاج القرآن یونیورسٹی کے ساتھ دینی اور ثقافتی تعاون کے فروغ کی غرض سے مفاہمت نامے کے انعقاد کے لئے ماحول فراہم کیا گیا اور مدارس علمیہ کی حمایت کی گئی۔ فکری حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ ایسے درسنامے تیار کریں جن کے ذریعے سے طلاب مکتب اہل بیت(ع) کو بہتر پہچانیں۔ اس سلسلے میں بھی تمہیدات فراہم کی گئی ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں اس مسئلے کی پیروی ہو اور یہ سب نتیجہ خیز ہو۔  

ششم یہ کہ اس آٹھ یا نو روزہ دورے میں ہم نے متعدد تقاریر و خطابات کا اہتمام کیا، اور ان خطابات کا متن موصول ہوگا تو میں سمجھتا ہوں کہ [معلوم ہو جائے گا کہ] عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی نئی روش اور نئی حکمت عملی خطے کے علماء کے سامنے رکھی گئی، اور وہ یہ کہ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی علمی اور معنوی مرجعیت کا کردار سنبھالنے کا ارادہ رکھتی ہے، اور اسمبلی کو یقین ہے کہ معاشرے کے علماء اور دانشور اہل بیت (علیہم السلام) کے خالص مکتب کو صحیح طریقے سے پہچانیں اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ درست اور گہرے ادراکات دنیا والوں کو پیش کریں۔

ایک نکتہ یادگار واقعے کے طور پر عرض کرتا ہوں: ہم نے منہاج القرآن یونیورسٹی میں سائنس اور دین کے باہمی تعلق کے بارے میں، 250 سے 300 تک طلبہ سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی گئی کہ مسلمان کسی زمانے میں علمی اور سائنسی مرکز و محور تھے، اور دوسروں نے سائنس ہم سے سیکھ لی؛ ابن سینا جیسی عظیم شخصیات جن کی کتاب "القانون" علم طب کے چار شاخوں کے بارے میں لکھی گئی ہے، خوارزمی اور زکریا رازی وغیرہ نیز اہل بیت (علیہم السلام) کے شاگردوں میںس ے بعض افراد ـ بشمول جابر ابن حیان اور اسلام کے دوسرے عظیم علماء، جو قابل تقلید مثالی شخصیات ہیں، اس انداز سے علم و سائنس کو توجہ دیتے ہیں کہ فطرت کے حقائق کو مفکرین، علماء اور سائنسدانوں کے ذریعے دریافت ہونا چاہئے؛ اور دین کا شعبہ اور سائنس کا شعبہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں، اور دین کا شعبہ ہی ہے جو علم و فکر کی ترغیب دلاتا ہے۔

ہم نے اس نکتے پر زور دیا کہ سائنسدان اور دانشور مظاہر فطرت کے بارے میں دو فرضیئے (Hypothesis) دے سکتے ہیں: مظآہر کے بارے میں ایک فرضیہ [اور مظاہر کے بارے میں ایک نگاہ] یہ ہے کہ مظاہر ہمیں خالق سے متصل کرتے ہیں؛ اور دوسرے فرضیئے کے تحت مظاہر کو اس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ مظاہر ہیں [اور موجود] ہیں۔  دین، سائنس کو اول الذکر فرضیئے کی روشنی میں دیکھتا ہے، جو ہمیں خالق سے متصل کرتی ہے۔

ایک مسئلہ سائنس اور طاقت کے درمیان تعلق کے سلسلے میں تھا؛ اور ہم نے کہا کہ سائنس طاقت اور قوت پیدا کرتی ہے اور جتنا کہ علوم و فنوں ایک معاشرے میں زیادہ ہو، وہ معاشرہ زیادہ قوی اور طاقتور ہوتا ہے۔

رہبر معظم کے "دوسرے قدم کے بیانیے"، (بیانیۂ گام دوم) ـ جو [جدید] اسلامی تہذیب کا سافٹ ویئر سمجھا جاتا ہے، ـ اور سائنس کے نمو کے بارے میں موصوف کی سات سفارشات و ہدایات کی طرف اشارہ کیا اور اخلاق، معنویت، عدالت (عدل و انصاف)، اور بدعنوانیوں کے خلاف جدوجہد سے لے کر "اسلامی طرز زندگی" پر مبنی سات نکتوں پر، حاضر مجلس اساتذہ اور طلباء کے کچھ مسائل بیان کئے۔ یونیورسٹی کے سربراہ نے بھی  خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم سوئے ہوئے تھے اور آپ نے ہمیں جگا دیا، اس طرح کے مسائل پہلی بار ہمارے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ یہ ہو بہو وہ الفاظ ہیں جو انھوں نے ان معارف و مطالب کی خاطر ہم سے کہہ دیئے۔ تقریر کے اختتام پر تمام طلباء نے داد دی اور سب نے "پاکستان زندہ باد ـ ایران زندہ باد" کے نعرے لگائے۔ یہ ساری باتیں اس بات کی نشاندہی کر رہی تھیں کہ دوسری اقوام ایران اور اسلامی انقلاب کے عاشق اور شیدائی ہیں۔

جن راستوں سے ہم گذرتے تھے، گوکہ بارش ہو رہی تھی، لوگ ہمارے قریب آتے تھے اور ہمارے ساتھ مصافحہ کرتے تھے، اور بالکل معلوم تھا کہ وہ ایک جذبے کے تحت ہمارے پاس آتے ہیں اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کا نصب العین اور اس کے نظریات دنیا والوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہیں، اور اہم بات یہ ہے کہ ہم ان نظریات کی پاسداری کریں، اور جس قدر کہ ہم اس نصب العین اور مطلوبہ اہداف کے زیادہ پابند ہونگے، ام القرائے عالم اسلام [یعنی اسلامی جمہوریہ ایران] آج کی انسانی برادری میں محبوب تر ہوگا اور یہ محبوبیت زیادہ فروغ پائے گی، ان شاء اللہ۔

ابنا: آپ نے اپنے اور ساتھ جانے والے وفد سے علماء اور شیعوں کے اظہار محبت کا تذکرہ کیا۔ میں ایرانی اور عالم تشیّع کے نمائندے کے بارے میں سنی علماء کا نقطۂ نظر جاننا چاہتا ہوں؛ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایران اور عالم تشیّع کے نمائندے اور شیعہ عالم دین اور شیعہ ایران کے بارے میں ان بزرگواروں کا کیا نقطۂ نظر کیا ہے؟

جواب: یقین کیجئے، علمائے اہل سنت نے ہمارا خصوصی احترام کیا اور ان کے بعض اول درجے کے زعماء ہمارا خصوصی احترام کرتے تھے۔ وہ ان افکار کے لئے احترام کے قائل ہو جاتے تھے جو [ہماری طرف سے] بیان ہوئے، اور ان سے لطف اندوز ہوتے تھے اور ان کی باتوں سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا تھا۔ بعض جگہوں پر ایسی محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا تھا جو ناقابل بیان ہے۔ ہمارے ساتھ میٹنگوں میں شرکت، مزید اجلاسوں کے انعقاد اور مزید گفتگو کے لئے اشتیاق ظاہر کرتے تھے، رہبر معظم کے نمائندے اور شاندار استقبالیہ تقریبات منعقد کرکے حوزہ علمیہ قم کی تعظيم و تکریم کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے یہ سب پاکستانی علماء اور عوام کے برادرانہ رویے کے مصادیق تھے۔ جہاں بھی جاتے تھے ہمارا بہترین استقبال کرتے تھے؛ اور ان حقائق سے، اسلامی جمہوریہ ایران سے لگاؤ کی نشاندہی ہوتی ہے؛ اور یہ مسئلہ متعدد مواقع پر دیکھا گیا۔

ابنا: آپ کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اپنا وقت اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کو دیا۔

........

1۔ ابوالفرج اصفہانی (علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص118؛ سید ابن طاؤس، اللهہوف على قتلى الطفوف، ص50۔

2۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) اپنے استادِ عرفان حضرت آیت اللہ شاہ آبادی کے حوالے سے فرماتے ہیں: "ہمارے بعض مشائخ ہم سے فرمایا کرتے تھے: قرآن کریم، قرآن نازل ہے جو نیچے کی طرف اتر کر آیا ہے اور دعا اوپر کی طرف جاتی ہے چنانچہ یہ قرآن صاعد [یعنی اوپر جانی والا قرآن] ہے"۔ (خطاب بتاریخ 12 جولائی 1980 بمقام جماران ـ تہران)

..................

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110