اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

7 جولائی 2023

12:59:06 AM
1377643

غدیر، عید اللہ الاکبر؛

امیرالمؤمنین علیہ السلام کا معرکہ ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف

اہل سنت کی منقولہ روایات کے مطابق، اموی تشہیری مشینری میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف بغاوت اور جنگ کے لئے "اجتہاد" کا قضیہ جعلی، باطل اور احادیث نبوی سے متصادم ہے کیونکہ سنی علماء کی منقولہ احادیث کے مطابق [بھی]، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے فرمان پر، ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف جنگ لڑی۔

عالمی اہل بیت(ع) ایجنسی ـ ابنا ـ 

ابن حجر عسقلانی رفاعی کی روایت کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "جنگ جمل سنہ 36ھ میں وقوع پذیر ہوئی اور جنگ صفین ربیع الاول سنہ 37ھ میں وقوع پذیر ہوئی اور تین مہینوں تک جاری رہی؛ اور جنگ نہروان سنہ 38ھ میں وقوع پذیر ہوئی۔ الرافعی کا یہ قول کہ "ثابت ہو چکا کہ اہل جمل اور صفین اور نہروان باغی [ظالم اور متجاوز] تھے"، بالکل درست ہے، اور علی (علیہ السلام) کی یہ حدیث اس کا ثبوت ہے کہ "مجھے ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف لڑنے کا حکم ہؤا ہے"، جسے نسائی نے خصائص میں نیز بزاز اور طبرانی نے روایت کیا ہے: اہل جمل وہ ہیں جنہوں نے [ام المؤمنین عائشہ، طلحہ اور زبیر کی سرکردگی میں] امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی بیعت توڑ دی اور اطاعت سے انکار کیا؛ اور قاسطین شامی ہیں جنہوں نے بیعت نہ کرکے حق سے تجاوز کیا [اور صفین کی جنگ بپا کر دی]، اور مارقین نہروان والے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ایک حدیث صحیح منقول ہے؛ کہ وہ دین سے ـ کمان سے نکلنے والے تیر کی طرح ـ دین سے خارج ہو جاتے ہیں؛ اور اہل شام کے بارے میں عمار کی حدیث ثابت ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا کہ "اس [عمار] کو متجاوز، باغی اور ستمگر گروہ قتل کرے گا"۔

1۔ امیرالمؤمنین اور خلفاء کے مخالفین کے ساتھ اہل سنت کا دوہرا رویہ

اہل سنت کی ایک مشہور روایت یہ ہے کہ جمل، صفین اور نہروان کی جنگوں میں دوں فریق مسلمان اور مجتہد تھے، اور یہ دونوں فریق اپنے عمل کے تناس سے اجر و ثواب حاصل کریں گے! خواہ وہ جو خلیفۂ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف لڑے ہیں، اور 20000 سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے، خواہ وہ جو مملکت اسلامی کے دفاع میں باغیوں کے خلاف لڑے ہیں! لیکن ابوبکر، عمر اور عثمان کے مخالفین کو محارب، اہل ردہ، کافر، مرتد وغیرہ جیسے القاب سے نوازتے ہیں!!!

سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو ابوبکر اور عثمان کے خلاف لڑے ہیں، اور وہ جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف لڑے ہیں، ان میں فرق کیا ہے جبکہ جو اول الذکر خلفاء کے خلاف لڑے ہیں وہ مسلمہ طور خلفاء کی طرح ہی، اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تھے جبکہ امیرالمؤمنین کے دشمنوں میں بڑی تعداد میں تابعی بھی شامل تھے۔

اس مسئلے کی بہتر وضاحت کے لئے ہم دو حصوں میں اس بحث کا جائزہ لیتے ہیں:

2۔ خلیفہ اول کے دشمنوں اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے دشمنوں کے ساتھ اہل سنت کا دوہرا رویہ

اہل سنت کے مصادر میں مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے جن صحابہ نے ابوبکر کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا، خلیفہ نے ان کے خلاف جنگ لڑی اور خالد بن ولید کو جلیل القدر صحابی مالک بن نویرہ کی طرف بھیجا، کیونکہ مالک نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ خالد بن ولید نے انہیں قتل کیا اور ان کی مسلمان زوجہ کے ساتھ اسی رات خلوت کر دی!

صحیح بخاری کی روایت کے مطابق، جن لوگوں نے ابوبکر کو زکوٰۃ نہیں دی، وہ مرتد نہیں ہوئے تھے اور کلمۂ شہادتین پڑھتے تھے، نماز ادا کرتے تھے، زکوٰۃ اور دوسرے اسلامی فرائض کے پابند تھے، لیکن وہ صرف "ابوبکر" کو زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے تھے؛ تو باوجود اس کے کہ وہ ابوبکر کے خلاف تھے، لیکن اسلامی شریعت کے تابع تھے، لیکن ابوبکر ان کے خلاف لڑے، حالانکہ ابتداء میں عمر نے بھی اس سلسلے میں ابوبکر پر تنقید کی تھی:

بخاری کی روایت

"حدثنا ابو الْیَمَانِ الْحَكمُ بن نَافِعٍ اخبرنا شُعَیْبُ بن ابی حَمْزَةَ عن الزُّهْرِیِّ حدثنا عُبَيدُ اللَّهِ بن عبد الله بن عُتْبَةَ بن مَسْعُودٍ اَنَّ اَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال لَمَّا تُوُفِّیَ رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وكان ابو بَكْرٍ رضي الله عنه وَكفَرَ من كفَرَ من الْعَرَبِ فقال عُمَرُ رضی الله عنه کَیْفَ تُقَاتِلُ الناس وقد قال رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ الناس حتی یَقُولُوا لَا اِلَهَ الا الله فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی مَالَهُ وَنَفْسَهُ الا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ علی اللَّهِ فقال والله لَاُقَاتِلَنَّ من فَرَّقَ بین الصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ فان الزَّکَاةَ حَقُّ الْمَالِ والله لو مَنَعُونِی عَنَاقًا کَانُوا یُؤَدُّونَهَا الی رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) لَقَاتَلْتُهُمْ علی مَنْعِهَا.

وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؛

ابو ہریرہ نے کہا: جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) رحلت فرما گئے تو آپ کے بعد ابوبکر خلیفہ تھے، عربوں میں سے جو کافر ہوئے وہ کافر ہوئے؛ عمر بن خطاب نے ابوبکر سے کہا: لوگوں سے کیونکر لڑو گے، حالانکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے: مجھے حکم ہے کہ لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ کہہ دیں: "لا الٰہ الا اللہ"؛ تو جو بھی لا الہ الا اللہ کہہ دے وہ مجھ سے محفوظ ہوگا، اور اس کا حساب و کتاب اللہ کے پاس ہے۔ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم! ہر اس شخص سے لڑوں گا جو نماز اور زکٰوۃ میں فرق کا قائل ہو؛ بے شک زکٰوۃ حق المال ہے؛ خدا کی قسم! اگر وہ ایک بکری کے بچے کی زکٰوۃ مجھے دینے سے انکار کریں ـ جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں دیا کرتے تھے ـ تو میں یقینا منع کرنے پر ان سے لڑوں گا"۔

لیث نے بھی اس روایت کو عبدالرحمٰن بن خالد، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے اور انہوں نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے۔ (1)

بخاری کے استاد عبدالرزاق صنعانی کی روایت؛ خلیفہ کی حسرتیں

نیز یہ داستان اہل سنت کی صریح روایات میں بھی نقل ہوئی ہے؛ دیکھئے:

"أخبرنا عبد الرزاق عن ابن جريج وابن عيينة عن عمرو بن دينار عن محمد بن طلحة بن يزيد بن ركانة قال: قال عمر: "لَأنْ أكُونَ سَألْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَلاثٍ أحَبُّ إلَيَّ مِن حُمْرِ النَّعَمِ؟ عَنِ الكَلالَةِ، وَعَنِ الخَلِيفَةِ بَعْدَهُ، وعَنْ قَوْمٍ قالُوا: نُقِرُّ بِالزَّكاةِ في أمْوالِنا ولا نُؤَدِّيها إلَيْكَ، أيَحِلُّ قِتالُهُمْ، أَم لَا، قَالَ وكَانَ أَبُو بَكرٍ یَرَی القِتَالَ؛

عبدلرزاق نے اپنے راویوں کی وساطت سے، خبر دی ہے کہ عمر نے کہا: اگر میں تین مسائل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے پوچھتا تو یہ میرے لئے لال اون والے اونٹوں سے بہتر ہوتا: کلالہ کے بارے میں، آپ کے بعد کے خلیفہ کے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے مال میں زکٰوۃ کو تو مانتے ہیں لیکن اپنے مال کی زکٰوۃ تم (ابوبکر اور عمر) کو نہیں دیتے! کیا ان کے ساتھ جنگ جائز ہے یا نہیں! اور ابوبکر ان کے ساتھ جنگ کو جائز سمجھتے تھے!"۔ (2)

اس روایت سے صریحاً ثابت ہے کہ جن لوگوں کے خلاف ابوبکر نے جنگ کا حکم دیا تھا وہ زکٰوۃ کے منکر نہیں تھے، لیکن ابوبکر کو زکٰوۃ لینے کی اہل حکمران کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے!

ابن کثیر دمشقی کی روایت

ابن کثیر دمشقی سلفی، نے بھی اپنی منقولہ ایک روایت میں اسی مضمون کی تصدیق کی ہے؛ کہتے ہیں:

وَجَعَلَتْ وُفُودُ الْعَرَبِ تَقْدَمُ الْمَدِينَةَ. يُقِرُّونَ بِالصَّلَاةِ وَيَمْتَنِعُونَ مِنْ أَدَاءِ الزَّكَاةِ، وَمِنْهُمْ مَنِ امْتَنَعَ مِنْ دَفْعِهَا إِلَى الصِّدِّيقِ، وَذَكَرَ أَنَّ مِنْهُمْ مَنِ احْتَجَّ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: «خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ (التوبة ـ 103)» قَالُوا: فَلَسْنَا نَدْفَعُ زَكَاتَنَا إِلَّا إِلَى مَنْ صَلَاتُهُ سَكَنٌ لَنَا، ... وَقَدْ تَكَلَّمَ الصَّحَابَةُ مَعَ الصِّدِّيقِ فِي أَنْ يَتْرُكَهُمْ وَمَا هُمْ عَلَيْهِ مِنْ مَنْعِ الزَّكَاةِ وَيَتَأَلَّفَهُمْ حَتَّى يَتَمَكَّنَ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِهِمْ: ثُمَّ هُمْ بَعْدَ ذَلِكَ يُزَكُّونَ، فَامْتَنَعَ الصِّدِّيقُ مِنْ ذَلِكَ وَأَبَاهُ. وَقَدْ رَوَى الْجَمَاعَةُ فِي كُتُبِهِمْ سِوَى ابْنُ مَاجَهْ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: عَلَامَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِنَاقًا، وَفِي رِوَايَةٍ: عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأُقَاتِلَنَّهُمْ عَلَى مَنْعِهَا؛ إِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ؛

عرب قبائل کے وفود مدینہ آتے تھے، جو نماز کے قائل تھے لیکن زکٰوۃ دینے سے منع کرتے تھے، اور ان میں کچھ وہ تھے جو ابوبکر کو زکٰوۃ نہیں دینا چاہتے تھے، اور مروی ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اس آیت کریمہ سے استناد کرتے تھے: «ان کے اموال کی زکوٰة آپ لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ انہیں پاک کر دیں اور ان پر درود بھیجئے اور ان کے لئے دعائے خیر کیجئے۔ یقینا آپ کی دعائے خیر ان کے لئے باعث سکون (اور رحمت و برکت) ہے» (3)؛ اور کہتے تھے کہ ہم ایسے شخص کو زکوٰة نہیں دیں گے جس کا درود ہمارے لئے تسکین (اور رحمت و برکت) کا سبب نہ ہو۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صحابہ نے ان لوگوں کے بارے میں ابوبکر سے بات چیت کی اور کہا کہ ان لوگوں زکوٰة نہ دینے کے باوجود اپنے حال پر چھوڑ دیں، یہاں تک کہ ایمان ان کے دلوں میں رسوخ کرے، تاکہ اس کے بعد وہ زکوٰة ادا کریں، لیکن ابوبکر نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ ابن ماجہ (عن ابی ہریرہ) کے سوا دوسرے علماء نے اپنی بیان کیا ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوبکر سے کہا: کس چیز پر ان لوگوں سے لڑو گے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے کہ "مجھے حکم ہے کہ لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ کلمۂ "لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ" اپنی زبان پر جاری کر دیں؛ جب بھی وہ یہ کلمہ زبان پر جاری کیا تو ان کا خون اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہونگے؛ ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم اگر وہ مجھے ایک بکری کے بچے ـ اور بروایتے ـ ایک دھاگے کے برابر بھی، زکوٰة دینے سے انکار کریں، تو میں ضرور بضرور ان سے لڑوں گا"۔ (4)

یعنی عربوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانے میں، زکوٰة دینے کے بعد، آنحضرت سے معجزہ دیکھا تھا اور کہتے تھے کہ ہم صرف اس کو زکوٰة دیں گے جس سے ہم معجزہ اور کرامت دیکھیں؛ لیکن چونکہ ابوبکر کے پاس کوئی معجزہ نہیں تھا چنانچہ انھوں نے انہیں، زکوٰة دینے سے منع کیا!

یہاں مکتب خلافت کے علماء جواب دیں کہ وہ ابوبکر کو زکوٰة نہ دینے والوں اور امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کی حکومت عدل کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے درمیان فرق کے قائل ہو جاتے ہیں؟ کیا ان کے خیال میں صرف ابوبکر ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلیفہ تھے؟ کیا یہ کہنا درست ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے مجتہد تھے اور انہیں اپنے اجتہاد کا اجر ملے گا! اور ابوبکر کی حکومت کے مخالفین واجب القتل تھے؟ ابوبکر کو اپنے مخالفین کے المناک قتل عام کی اجازت کیوں ہے؟ خالد بن ولید نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والے صحابی مالک بن نویرہ کو قتل کیا اور ان کی مسلمان زوجہ سے زبردستی مجامعت کی، تو ابوبکر نے اس کو سزا کیوں نہ دی؟ اگر دوسرے صحابی مجتہد تھے تو مالک بن نویرہ کو مجتہد کیوں نہیں مانا گیا؟ کیا وہ اجتہاد کرکے اپنے اموال کی زکوٰة ابوبکر کو دینے سے منع نہیں کر سکتے تھے؟

کیا مالک بن نویرہ نے کسی کو قتل کیا تھا کہ انہیں خالد بن ولید کے ہاتھوں قتل ہونا چاہئے تھا؟ یا نہیں بلکہ وہ زکوٰة کے حکم کو تسلیم کرتے تھے لیکن ابوبکر کو زکوٰة لینے کا اہل نہیں سمجھتے تھے!

امیرالمؤمنین اور عثمان کے مخالفین کے ساتھ دوہرا سلوک

جو لوگ عثمان کے خلاف لڑے اور انہیں قتل کیا، وہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صحابہ تھے، تو انہیں کیوں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف لڑنے والوں کی طرح مجتہد قرار نہیں دیا جاتا اور قتل عثمان پر ان کے لئے کوئی اجر و ثواب نہیں ہے؟ ابن حزم کی طرح کے افراد ان کے اجتہاد کی نفی کیوں کرتے ہیں؟

کیا یہ قابل قبول ہے کہ قاتلین عثمان ـ جو صحابہ تھے ـ مجتہد اور لائق اجر و ثواب نہیں ہیں اور محارب اور ملعون ہیں، لیکن امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف بغاوت کرنے والے سب مجتہد اور لائق اجر و ثواب ہیں؟

کیا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے (معاذ اللہ) کسی کو قتل کیا تھا یا حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دیا تھا؟ یا نہیں بلکہ وہ تو اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف قائم و نافذ کرنا چاہتے تھے اور مستکبروں اور بدعنوانوں کو دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے سے باز رکھنا چاہتے تھے؟ اور صرف یہی بات تھی جو ناکثین (اصحاب جمل)، قاسطین (جنگ صفین میں اصحاب معاویہ) اور مارقین (خوارج اور اصحاب نہروان) کو پسند نہ آئی؟

ابن تیمیہ کا بیان

ابن تیمیہ حرانی نے منہاج السنۃ میں دعویٰ کیا ہے کہ اہل سنت کے بہت سارے علماء نے طحہ، زبیر اور معاویہ جیسے باغیوں کو مجتہد گردانا ہے!:

"وَقَالَتْ طَائِفَةٌ ثَالِثَةٌ: بَلْ عَلِيٌّ هُوَ الْإِمَامُ، وَهُوَ مُصِيبٌ فِي قِتَالِهِ لِمَنْ قَاتَلَهُ، وَكَذَلِكَ مَنْ قَاتَلَهُ مِنَ الصَّحَابَةِ كَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ كُلُّهُمْ مُجْتَهِدُونَ مُصِيبُونَ. وَهَذَا قَوْلُ مَنْ يَقُولُ: كُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبٌ، كَقَوْلِ الْبَصْرِيِّينَ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ: أَبِي الْهُذَيْلِ وَأَبِي عَلِيٍّ، وَأَبِي هَاشِمٍ، وَمَنْ وَافَقَهُمْ مِنَ الْأَشْعَرِيَّةِ: كَالْقَاضِي أَبِي بَكْرٍ، وَأَبِي حَامِدٍ، وَهُوَ الْمَشْهُورُ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيِّ. وَهَؤُلَاءِ أَيْضًا يَجْعَلُونَ مُعَاوِيَةَ مُجْتَهِدًا مُصِيبًا فِي قِتَالِهِ، كَمَا أَنَّ عَلِيًّا مُصِيبٌ. وَهَذَا قَوْلُ طَائِفَةٍ مِنَ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِمْ...؛

اور علماء کے تیسرے گروہ نے کہا ہے کہ علی (علیہ السلام) امام تھے، اور تین گروہوں (ناکثین، قاسطین اور مارقین) کے خلاف جنگ میں بر حق تھے، نیز وہ لوگوں بھی آپ کے خلاف لڑے، سب مجتہد تھے اور ان کا عمل درست تھا! اور یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے جو کہتے ہیں کہ ہر مجتہد کا نظریہ اور فیصلہ درست اور بر حق ہے، جیسے بصرہ کے معتزلیوں میں سے ابو ہذیل، ابن علی اور ابو ہاشم، اور اشعریوں میں سے وہ جو ان کی رائے سے متنقل ہیں: جیسے قاضی ابوبکر، ابو حامد، اور ابوالحسن اشعری سے منقولہ قول مشہور بھی یہی ہے؛ اور یہ افراد معاویہ کو بھی ایک مجتہد سمجھتے ہیں جو علی (علیہ السلام) کے خلاف جنگ میں بر حق تھا! اور یہی رائے احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے بھی ہے"۔ (5)

ابن حزم اندلسی کا بیان

ابن حزم الاندلسی اپنی کتاب "الفصل فی الملل و الاہواء و النحل" میں کہتا ہے:

"قَطَعْنَا عَلَى صَوابِ عَليٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَصِحَّةِ أمَانَتِهِ وَأنَّهُ صَاحِبُ الْحَقِّ وَإِنَّ لَهُ أَجْرَينِ أَجْرُ الإِجْتِهَادِ وَأَجْرُ الِإصَابَةِ وقَطَعْنَا أنَّ مُعاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ وَمَنْ مَعَهُ مُخْطِئُونَ مُجْتَهِدُونَ مَأْجُورُونَ أَجْراً وَاحِداً؛

ہم نے یقین کر لیا کہ علی (علیہ السلام) بر حق تھے اور ان کی امانت داری صحیح تھی، اور وہ [اس جنگ میں] صاحب حق تھے اور آپ کے لئے دو اجر ہیں، ایک اجتہاد کا اور ایک بر حق ہونے کا؛ اور ہم اس یقین [!] تک پہنچے کہ معاویہ اور اس کے ساتھ خطاکار تھے، مجتہد تھے اور ایک اجر کے لائق تھے!"۔ (6)

اور یہی شخص جو ناکثین اور قاسطین کو مجتہد اور مأجور سمجھتا ہے، عثمان کے خلاف خروج کرنے والوں کو محارب اور ملعون قرار دیتا ہے اور کہتا ہے:

"ولَيْسَ هَذَا كَقَتَلَةِ عُثْمانَ رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ لِأَنَّهُمْ لَا مَجَالَ لِلإجْتِهادِ فِي قَتْلِهِ لِأَنَّهُ لَمْ يَقْتُلْ أَحَداً وَلَا حَارَبَ وَلَا قَاتَلَ وَلَا دَافَعَ وَلَا زَنَى بَعْدَ إِحْسَانٍ وَلا ارْتَدَّ فَيَسُوغَ المُحَارَبَةُ تَأْوِيلٌ بَلْ هُمْ فُسَّاقٌ مُحَارِبُونَ سَافِكُونَ دَماً حَرَاماً عَمْداً بِلَا تَأوِيلٍ عَلَى سَبِيلِ الظُّلْمِ والعُدْوَانِ فَهُمْ فُسَّاقٌ مَلعونٌ؛

اور علی (علیہ السلام) کے قاتلوں کا معاملہ عثمان کے قاتلوں جیسا نہیں ہے! کیونکہ ان [عثمان کے قاتلوں] کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل نہیں تھا! کیونکہ عثمان نے نہ کسی کو قتل کیا تھا، نہ کسی کے خلاف لڑے تھے، نہ کسی سے نزاع کیا تھا، نہ زنا کے مرتکب ہوئے تھے، نہ ہو ہی اسلام لانے کے بعد مرتدّ ہوئے تھے، کہ ان کے خلاف جنگ جائز ہو جاتا! بلکہ جن لوگوں نے عثمان کو قتل کیا وہ فاسق، فاجر اور سفاک تھے اور ان کا یہ عمل ظلم و عوان کی رو سے، اور بغیر کسی تاویل کے تھا، چنانچہ وہ سب فاسق اور ملعون ہیں!!!"۔ (7)

ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اہل سنت کے اس خاص دھارے کے لوگ سمجھتے ہیں کہ (معاذاللہ) امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے کسی کو قتل کیا تھا، یا خلیفہ کے خلاف جنگ کی تھی! یا (معاذاللہ) زنا یا ارتداد سے دوچار ہوئے تھے! کہ حضرت امیر (علیہ السلام) کے خلاف بغاوت کے لئے تو اجتہاد جائز تھا اور خلیفہ عثمان کے خلاف کسی کو بھی حق اجتہاد حاصل نہیں تھا؟ اگر عثمان نے یہ سب نہیں کیا تھا تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے بھی تو اس کا ارتکاب نہیں کیا تھا، تو پھر یہ "یک بام و دو ہوا" اور اس دوہرے معیار کا جواز کیا ہے؟

3۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف جنگ، اجتہاد نصّ کے روبرو!

یقینی امر ہے کہ ہر قسم کے اجتہاد کی بنیاد صرف اور صرف قرآن و سنت ہے؛ کیونکہ نص (یعنی قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے قول و فعل اور تقریر) سے متصادم کوئی بھی اجتہاد ظلم، فسق اور کفر کا سبب بنتا ہے۔

خدائے متعال ارشاد فرماتا ہے:

"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ؛ جو اللہ کے اتارے ہوئے کے مطابق فیصلہ نہ کرے ، تو یہی لوگ کافر ہیں"۔ (8)

"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ؛ جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو یہ لوگ وہ ہیں جو ظلم و تعدی کے مرتکب ہیں"۔ (9)

"وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ؛ اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا تو وہ بداعمال لوگ ہوں گے"۔ (10)

شیعہ اور سنی مصادر میں منقولہ صحیح السند حدیث سے ثابت ہے کہ ناکثین اور قاسطین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صریح حکم کے خلاف اجتہاد کیا تھا اور اس طرح کا اجتہاد "نص کے مقابلے میں اجتہاد" ہے جو باطل ہے، جیسا کہ اگر کوئی اجتہاد قرآن کریم سے متصادم ہو تو بھی باطل ہے۔

یہاں سنی مصادر حدیث میں منقولہ ان احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر، زبیر بن عوام اور طلحہ بن عبیداللہ، نیز معاویہ بن ابی سفیان اور خوارج کے خلاف امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی جنگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم پر تھی؛ اور پھر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) خلیفۂ مسلمین کے عنوان سے، اس جنگ میں حق بجانب اور برحق تھے، اور آپ کے دشمن باطل کے ترجمان تھے۔ نیز ثابت ہوتا ہے کہ باغیوں کا اجتہاد نصّ ـ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صریح حکم ـ سے متصادم تھا۔ چنانچہ ہر وہ اجتہاد جو امام وقت اور خلیفۂ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف بغاوت اور جنگ کا سبب بنے، بنیادی طور پر باطل اور منسوخ ہے۔

اس حوالے سے روایات و احادیث بکثرت نقل ہوئی ہیں جن میں اکثر سند کے لحاظ سے صحیح ہیں؛ جیسا کہ ابن عبدالبر (یوسف بن عبداللہ) لکھتا ہے:

"وَلِهَذِهِ الأَخْبَارِ طُرُقٌ صِحَاحٌ قَدْ ذَكَرْنَاهَا فِي مَوْضِعِهَا ورَوَى مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍ وَمِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَمِنْ حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ الأنْصَارِيِّ أنَّهُ أَمِرَ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ؛

یہ حدیثیں صحیح سندوں اور سلسلوں پر استوار ہیں، جنہیں ہم نے اپنی جگہ بیان کیا اور حدیث علی (علیہ السلام)، حدیث ابن عبداللہ بن مسعود اور حدیث ابو ایو انصاری سے میں بیان ہؤا ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے لڑنے پر مامور کیا گیا تھا"۔ (11)

چونکہ یہ حدیثیں متعدد اور متنوع ہیں لہٰذا انہیں چار زمروں میں تقسیم کرتے ہیں:

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے مرویہ احایث

وہ روایات جو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے براہ راست نقل ہوئی ہیں:

بزاز کی روایت

اشعری-حنفی محدث ابو علی‌ حسن‌ بن‌ احمد بزاز (ابن‌ِ شاذان‌) نے اپنی مُسنَد میں نقل کیا ہے:

"حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: نَا الرَّبِيعُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: نا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ؛

ہمیں عباد بن یعقوب نے خبر دی اور کہا: ہمیں ربیع بن سعد سعید بن عبید سے اور اس نے علی بن ربیعہ سے نقل کیا کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھ سے ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف لڑنے کا عہد لیا"۔ (12)

الہیثمی، (نور الدین علی بن ابی بکر) نے روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

"رَواهُ البزارُ والطَّبَرَانِيُّ فِي الأوْسَطِ وأحَدُ إِسْنَادَيِ الْبِزَارُ، رِجَالُهُ رِجَالُ اَلصَّحِيحُ غَيْرَ اَلرَّبِيعِ بْنِ سَعِيدٍ وَوَثّقَهُ اِبْنُ حِبَّانَ وَعَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أُمِرَ علَيٌ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ؛

"اس روایت کو بزاز، نیز طبرانی نے اپنی کتاب "الاوسط" میں نقل کیا ہے، اور بزاز کے دو سلسلہ ہائے سند میں سے ایک کے رجال (اور راوی) صحیح بخاری کے راوی ہیں، سوا ربیع بن سعید کے، اور اس کی بھی ابن حبان نے تصدیق کی ہے، اور عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ علی (علیہ السلام) کو [رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی طرف سے] ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا"۔ (13)

خطیب بغدادی کی روایت

خطیب بغدادی (احمد بن علی بن ثابت) نے اپنی کتاب "تاریخ بغداد" میں نقل کیا ہے:

"خُلَيْد بْن عَبْد اللَّهِ أَبُو سُلَيْمَان العصري تابعي حضر مَعَ عَلِيّ بْن أَبِي طَالِبٍ يوم النهروان، وَحدَّث عَنهُ، وَعن أَبِي ذر الغفاري، وَأبي الدرداء. روى عنه قتادة بْن دعامة، وَأبان بْن أَبِي عَيَّاشٍ. أَخْبَرَنِي الأَزْهَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ جَدِّي مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ الْحَسَنِ السُّلَمِيُّ، عَنْ جَعْفَرٍ الأَحْمَرِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ أَبَانَ، عَنْ خُلَيْدٍ الْعَصْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيًّا يَقُولُ يَوْمَ النَّهْرَوَانِ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْمَارِقِينَ، وَالْقَاسِطِينَ؛

ابو سلیمان خُلَید بن عبداللہ العصری تابعی امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے ساتھ جنگ نہروان میں حاضر تھا اور اس نے حضرت امیر (علیہ السلام)، ابو ذر غفاری، ابو درداء سے حدیث روایت کی ہے اور قتادہ بن دعامہ اور ابان بن ابی عیاش نے خلید سے روایت کی ہے۔ میرے [یعنی خطیب بغدادی کے] لئے اشعث نے، جعفر الاحمر سے، یونس بن ارقم سے، ابان سے اور ابان نے خلید العصری سے سے روایت کی ہے کہ اس [خلید] نے کہا: میں نے سنا امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے جو جنگ نہروان کے دن فرما رہے تھے: "رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے مجھے حکم دیا ہے کہ ناکثین، قاسطین اور مارقین سے لڑوں"۔ (14)

مقدسی کی روایت

مطہر بن طاہر مقدسی البدء و التاریخ لکھتا ہے:

"فَقَالَ عَلِيٌ عَلَيْهِ السَّلاَمُ دَعُوهُمْ حَتَّى يَأْخُذُوا مَالاً ويَسْفِكُوا دَماً وَكَانَ يَقُولُ، أَمَرَنِي رَسُولُ اَللَّهِ صلَّى اللهُ عَليهِ وَسَلَّمَ بِقِتَالِ اَلنَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ فَالنَّاكِثُونَ أصْحَابُ الجَمَلِ وَالقَاسِطُونَ أصْحَابُ صِفِّينَ والمَارِقُونَ الخَوَارِجُ؛

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) انہیں چھوڑ دو یہاں تک کہ چوری کریں اور خونریزی کریں؛ [جس کے بعد ہی ان سے لڑ سکوں گا]، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ مجھے حکم دیا کرتے تھے کہ ناکثین، قاسطین اور مارقین سے لڑوں۔ ناکثین اصحاب جمل ہیں [جنہوں نے جنگ جمل کا فتنہ کھڑا کیا]؛ فاسطین اصحاب صفین ہیں [وہی جنہوں نے معاویہ کی سرکردگی میں اپنی بغاوت جنگ صفین کی صورت میں آشکار کر دی] اور مارقین خوارج ہیں [جن سے جنگ نہروان میں نمٹنا پڑا]۔ (15)

عمار یاسر سے منقولہ روایات

وہ روایات جو عمار بن یاسر (سلام اللہ علیہ) سے مروی ہیں:

ابو یعلی الموصلی کی روایت

ابو یعلی الموصلی، (احمد بن على بن المثنى التميمي) نے اپنی مسند میں لکھتا ہے:

"حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مَسْعُودٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ مُرَّةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ يَقُولُ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ؛

صلت بن مسعود جحدری، حعفر نے، خلیل بن مرہ سے، قاسم بن سلیمان سے اور اس نے اپنے باپ سے اور دادا سے، روایت کی ہے کہ عمار بن یاسر نے نے کہا: "مجھے حکم ہے کہ ناکثین، قاسطین اور مارقین سے لڑوں"۔ (16)

الدولابی الرازی (أبو بِشْر محمد بن أحمد بن حماد) نے اپنی کتاب "الکنی والاسماء" میں روایت کی ہے:

"حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ قَالَ:، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ قَالَ:، ثَنَا أَبُو الْأَرْقَمِ، عَنْ أَبِي الْجَارُودِ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ الْكِنْدِيِّ، عَنْ هِنْدَ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارًا يَقُولُ: «أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُقَاتِلَ مَعَ عَلِيٍّ الْنَاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ»؛

حسن بن علی بن عفان، نے حسن بن عطیہ سے، ابو الارقم سے، ابو جارود سے، ابی ربیع کندی سے، ہند بن عمرو سے روایت کی ہے؛ ہند بن عمرو نے کہا: میں نے عمار سے سنا جو کہہ رہے تھے "مجھ فرمان دیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے، کہ علی (علیہ السلام) کے ہمراہ ناکثین، قاسطین اور مارقین سے لڑوں"۔ (17)

ابن مسعود سے منقولہ روایات

مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود سے بھی اس سلسلے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔

الشاشی (أبو سعيد الہيثم بن كليب) نے اپنی مسند میں روایت کی ہے:

"حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرِ بْنِ حَرْبٍ، نا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ، نا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، نا بَكْرُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَكَانَ ثِقَةً، نا يَزِيدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا أَنْ يُقَاتِلَ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ؛

احمد نے عبدالسلام سے، عائذ سے، بکر سے، ـ یزید سے، ابراہیم سے، علقمہ سے عبداللہ (بن مسعود) سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو امر کیا کہ ناکثین، فاسطین اور مارقین سے جنگ کریں"۔ (18)

الطبرانی نے یہی روایت عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے:

"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ الْمُسْتَمْلِي، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ، ثنا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، ثنا بُكَيْرُ بْنُ رَبِيعَةَ، ثنا يَزِيدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: «أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ»؛

محمد بن ہشام نے، عبدالرحمن سے، عائذ سے، بکیر سے، یزید بن قیس سے، ابراہیم سے علقمہ سے، عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے"۔ (19)

اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان تین فرقوں کے خلاف جنگ کا حکم، عام تھا اور آنحضرت نے تمام مسلمانوں کے ان کے خلاف لڑنے کا حکم دیا تھا۔

البلاذری (احمد بن یحیٰی) نے روایت کی ہے کہ:

"حَدَّثَنِي أبُو بَكْرٍ الأعْيُنُ وغَيْرُهُ قَالُوا حَدَّثَنا أَبُو نُعَيْمٍ الفَضْل ابنُ دَكِين حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلْقَمَهُ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً يَقولُ أُمِرْتُ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ والْقَاسِطِينَ والْمَارِقِينَ وَحَدَّثْتُ أَنَّ أبَا نُعَيْمٍ قَالَ لَنَا النَّاكِثُونَ أهلُ الجَمَلِ وَالقَاسِطُونَ أصْحابُ صِفّينَ وَالمَارِقُونَ أصْحابُ اَلنَّهَرِ؛

میرے لئے بیان کیا ابوبکر الاعین وغیرہ نے، اور انہوں نے کہا: ہمارے لئے روایت کی ہے فضل بن دکین نے۔ فطر سے اور حکیم بن جبیر سے؛ ابراہیم سے اور علقمہ سے، کہ میں (علقمہ) نے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا: "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ناکثین، فاسطین اور مارقین سے جنگ کروں؛ اور میں (بلاذری) کہتا ہوں کہ ابونعیم نے ہمیں بتایا: ناکثین اصحاب جمل ہیں، فاسطین اصحاب صفین ہیں اور مارقین اصحاب نہروان ہیں"۔ (20)

ناکثین وہ تھے جنہوں نے ام المؤمنین، طلحہ اور زبیر کی سرکردگی میں بغاوت کی؛ اور جنگ جمل کا فتنہ کھڑا کیا۔

قاسطین وہ تھے جنہوں نے معاویہ کی سرکردگی میں بغاوت کی اور جنگ صفین کے موجبات فراہم کئے۔

مارقین وہ خوارج تھے جنہوں نے جنگ صفین میں ابو موسی اشعری کو بطور نمائندہ مذاکرات کے لئے بھیجا اور جب ان ہی کا نمائندہ دھوکہ کھا گیا تو یہ دین سے خارج ہوئے اور نہروان میں جمع ہوئے جہاں جنگ نہروان وقوع پذیر ہوئی۔

ابو ایوب انصاری سے منقولہ روایات

وہ روایات جو مشہور صحابی اور مدینہ منورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اولین میزبان ابو ایوب الانصاری (خالد بن زید بن کلیب) سے نقل ہوئی ہیں۔ حاکم نیشابوری نے المستدرک علی الصحیحین میں روایت کرتے ہیں:

"حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَبِيبٍ الْمَعْمَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، ثنا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنِي أَبُو زَيْدٍ الْأَحْوَلُ، عَنْ عِقَابِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ، وَالْقَاسِطِينَ، وَالْمَارِقِينَ»؛

ابو سعید ثقفی نے حسن المعمری سے، محمد بن حمید سے، سلمہ سے، ابو زید الاحول سے، عِقاب سے روایت کرتے ہیں: "مجھے ابو ایوب انصاری نے عمر بن خطاب کے زمانے میں خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کو ناکثین اور قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے"۔ (21)

4۔ صفین میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ساتھ نہ دینے والے صحابہ اور تابعین کی پشیمانی

عبداللہ بن عمر ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی بیعت سے انکار کیا اور جنگوں اور فتنوں میں بھی انھوں نے امام اور خلیفۂ وقت کا ساتھ نہیں دیا؛ چنانچہ لگتا ہے کہ انہوں نے ان روایات کو نقل کرکے "ظالم اور باغی گروہ (الفئةُ الباغیة) کے خلاف جنگ کرنے کے نبوی حکم" کی عدم تعمیل سے اپنے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ابن عبدالبر نے کتاب "الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب" نے الفئۂ الباغیہ (قاسطین) کے خلاف جنگ نہ کرنے کو عبداللہ بن عمر کے تأسُّف کا سبب گردانا ہے:

"حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَافِظُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ مَعْمَرٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الحجاج ابن رِشْدِينٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ يَحْيَى بْنُ سليمان الجعفي، قال: حدثنا أسباط ابن مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: «مَا آسَى عَلَى شيء إلا أني لم أقاتل مع علي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ»؛

ہمیں خبر دی خلف بن قاسم نے، عبداللہ الجوہری سے، احمد بن محمد سے، یحییٰ جعفی سے، اسباط سے عبدالعزیز سے، حبیب سے عبداللہ بن عمر سے، جنہوں نے کہا: "مجھے کسی چیز پر بھی کوئی افسوس نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں نے علی (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر "باغی گروہ" (الفئة الباغیة) کے خلاف جنگ میں شرکت نہیں کی"۔ (22)

ابن عبدالبر نے دارقطنی کے حوالے سے ابن عمر کی پشیمانی کے حوالے سے بھی ایک روایت نقل کی ہے جو کچھ یوں ہے:

"وَذَكَرَ أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بن عمر الدار قطنى فِي الْمُؤْتَلِفِ وَالْمُخْتَلِفِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ سَيَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: مَا آسَى عَلَى شَيْءٍ، إِلا عَلَى أَلا أَكُونَ قَاتَلْتُ الْفِئَةَ الْبَاغِيَةَ عَلَى صَوْمِ الْهَوَاجِرِ؛

 دارقطنی اپنی کتاب "المؤتلف و المختلف" میں محمد بن قاسم سے، عباد بن یعقوب سے، عفان بن سیار سے، ابو حنیفہ سے اور اس نے عطاء سے روایت کی ہے کہ ابن عمر نے کہا: "مجھے کسی بھی چیز پر کوئی افسوس نہیں ہے سوا موسم گرما کے دنوں کو سنتی روزوں کے، جنہیں میں "فئۃ الباغیہ" (ظالم اور باغی گروہ یعنی معاویہ کے لشکر) کے خلاف جنگ پر ترجیح دیتا تھا"۔ (23)

مسروق بن الاجدع تابعی اور ام المؤمنین عائشہ کا شاگرد ہے، بھی ان جنگوں میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ساتھ نہ دینے پر پشیمان تھا؛ ابن عبدالبر نے لکھا ہے:

"وقال الشَّعْبِيّ: مَا مَاتَ مَسْرُوقٌ حَتَّى تَابَ إِلَى اللهِ عَنْ تَخَلُّفِهِ عَنِ القِتَالِ مَعَ عَلِيٍ؛ وَلِهَذِه الأَخْبَارِ طُرُقُ صِحَاحٍ قَدْ ذَكَرْنَاهَا فِي مَوْضِعِهَا؛

"اور شعبی نے کہا کہ مسروق نے مرنے سے پہلے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھ جنگ پر نہ جانے سے توبہ کی"۔ اور ان روایات کا سلسلۂ سند صحاح ستہ کا سلسلہ سند ہے۔ (24)

بے شک ان افراد کی حسرت اور پشیمانی بجائے خود امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے خلاف بغاوت میں، معاویہ اور اس کے ساتھی ستمگروں اور باغیوں کے بطلان کی دلیل ہے۔ اور اگر وہ ظالم و ستمگر نہ ہوتے اور اپنی بغاوت میں حق بجانب ہوتے، تو خلیفۂ ثانی کا فرزند ہی کیوں ان کے خلاف جنگ نہ کرنے سے نادم و پشیمان ہو جاتا؟

5۔ اہل سنت کے نزدیک، مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی خروج از اسلام ہے

مذکورہ بالا روایات و احادیث کے علاوہ، اہل سنت کے مصادر میں ایسی متعدد احادیث منقول ہیں جن میں آنحضرت نے فرمایا ہے کہ اگر ایک بالشت برابر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجائے تو وہ دین سے خارج ہؤا ہے، اور اگر مرے تو جاہلیت کی موت مرا ہے۔ تو مسلمانوں نے بالاجماع امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے ساتھ بیعت کی تھی اور وہ اہل سنت کے تمام قواعد، یعنی اجماع مسلمین، شورائے خلافت اور بیعت مسلمین، کے عین مطابق خلیفہ مسلمین تھے، اور ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) پر جنگ مسلط کی وہ مسلمانوں کی جماعت سے کوسوں دور ہوگئے اور یوں وہ دین کے دائرے سے خارج ہوئے۔

بخاری اور مسلم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

"مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً؛

جو جماعت مسلمین سے جدا ہو کر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے"۔ (25)

ان ہی دو محدثین نے عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ كَرِهَ مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَلْيَصْبِرْ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً؛

کسی کو اپنے امیر کی کوئی چیز پسند نہ [بھی] آئے تو وہ صبر کرے، اس لئے کہ یقیناً جو شخص ایک بالشت برابر حکومت کے دائرَہ اِختِيار سے خارج ہوجائے، اور مرجائے تو جاہلیت کی موت مرا ہے"، (یعنی اس نے اسلام قبول ہی نہیں کیا ہے)۔ (26)

احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَة شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَة الْإِسْلَام مِنْ عُنُقِهِ؛

جو شخص ایک بالشت کے برابر جماعت مسلمین سے علٰیحدہ ہوجائے اس نے اسلام کے ساتھ اپنا عہد توڑ دیا ہے"؛ (اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے)۔ (27)

حاکم نیشابوری نے المستدرک علی الصحیحین میں اسی روایت کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

"أِنَّ الشَّيْخَيْنِ لَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْمَتْنُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَلَى شَرْطِهِمَا؛

اس متن کو شیخین (بخاری اور مسلم) نے نقل نہیں کیا ہے، جبکہ یہ عبداللہ بن عمر سے بخاری اور مسلم کے معیار کے مطابق صحیح السند ہے"۔ (28)

اور حاکم نے ہی دوسری جگہ کہا ہے:

"هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ؛

یہ حدیث بخاری اور مسلم کے معیار کے مطابق صحیح ہے، گوکہ انھوں نے اسے نقل نہیں کیا ہے"۔ (29)

احمد بن حنبل نے امام کے ساتھ عہد شکنی کے بارے میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

"من فَارَقَ الْجَمَاعَةَ مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیَّةً وَمَنْ نَکَثَ الْعَهْدَ فَمَاتَ نَاکِثاً لِلْعَهْدِ جاء یوم الْقِیَامَةِ لاَ حُجَّةَ له؛

جو جماعت مسلمین سے جدا ہوجائے، وہ مرے گا تو [غیر مسلم کے طور پر] جاہلیت کی موت مرے گا، اور اگر کسی نے اپنے امام کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا اسی حال میں مرا تو وہ قیام کے دن ایسے حال میں محشور ہوگا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی [اور عذر نہ ہوگا]"۔ (30)

طبرانی نے روایت کی ہے کہ جماعت مسلمین سے جدا ہونے والے شخص کے اعمال باطل ہیں اور وہ جہنم کا ایندھن ہے:

"فَمَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قَيْدَ قَوْسٍ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ صَلَاةٌ وَلَا صِيَامٌ، وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ؛

تو اگر کوئی ایک قوس (کمان) کے برابر مسلمین کے جماعت سے الگ ہو جائے، اس کی نماز اور روزہ قبول نہیں ہوتا؛ اور ایسے لوگ جہنم کا ایندھن ہیں"۔ (31)

ہیثمی (علی بن ابی بکر) نے مذکورہ روایت کو نقل کیا اور لکھا ہے:

"رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ رِجَالُ الصَّحِيحِ خَلَا عَلِيَّ بْنَ إِسْحَاقَ السُّلَمِيَّ، وَهُوَ ثِقَةٌ؛

اس روایت کو احمد بن حنبل نے نقل کیا ہے اور ان کے سلسلۂ سند میں موجودہ افراد صحیح بخاری کے سلسلہ ہائے سند سے تعلق رکھتے ہیں سوا علی بن اسحقاق السُلَمی کے جو [اگرچہ صحیح بخاری کی سند میں شامل نہیں ہے مگر] ثقہ ہے"۔ (32)

6۔ روایات کا حتمی نتیجہ

مذکورہ بالا احادیث و روایات سے ثابت ہؤا کہ اصحاب جمل، اصحاب صفین اور اصحاب نہروان باطل ہیں، ان کے مجتہد ہونے کا تصور یا عقیدہ باطل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے صریح ارشادات سے متصادم ہے۔ اہل سنت کے بہت سے اکابرین نے بھی ان ہی روایات کو پیش نظر رکھ کر باغیوں کو باطل قرار دیا ہے۔ ابن حجر العسقلانی نے تصریح کی ہے کہ اصحاب جمل، اصحاب صفین اور اصحاب نہروان جارح اور متجاوز تھے اور کمان سے نکلنے [اور پھینکے جانے] والے تیر کی طرح دین اسلام سے خارج ہو گئے ہیں:

(فَائِدَةٌ) كَانَتْ وَقْعَةُ الْجَمَلِ فِي سَنَةِ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ، وَكَانَتْ وَقْعَةُ صَفِّينَ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ سَنَةَ سَبْعٍ وَثَلَاثِينَ وَاسْتَمَرَّتْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، وَكَانَتْ النَّهْرَوَانُ فِي سَنَةِ ثَمَانٍ وَثَلَاثِينَ. قَوْلُهُ: ثَبَتَ أَنَّ أَهْلَ الْجَمَلِ وَصِفِّينَ وَالنَّهْرَوَانِ بُغَاةٌ. هُوَ كَمَا قَالَ، وَيَدُلُّ عَلَيْهِ حَدِيثُ عَلِيٍّ: "أُمِرْت بِقِتَالِ النَّاكِثِينَ وَالْقَاسِطِينَ وَالْمَارِقِينَ". رَوَاهُ النَّسَائِيُّ فِي الْخَصَائِصِ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالنَّاكِثِينَ: أَهْلُ الْجَمَلِ؛ لِأَنَّهُمْ نَكَثُوا بَيْعَتَهُ، وَالْقَاسِطِينَ: أَهْلُ الشَّامِ؛ لِأَنَّهُمْ جَارُوا عَنْ الْحَقِّ فِي عَدَمِ مُبَايَعَتِهِ، وَالْمَارِقِينَ: أَهْلُ النَّهْرَوَانِ لِثُبُوتِ الْخَبَرِ الصَّحِيحِ فِيهِمْ: «أَنَّهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ» ، وَثَبَتَ فِي أَهْلِ الشَّامِ حَدِيثُ عَمَّارٍ: «تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» وَقَدْ تَقَدَّمَ، وَغَيْرُ ذَلِكَ مِنْ الْأَحَادِيثِ؛

(فائدہ) جنگ جمل سنہ 36ھ میں وقوع پذیر ہوئی اور جنگ صفین ربیع الاول سنہ 37ھ میں وقوع پذیر ہوئی اور تین مہینوں تک جاری رہی؛ اور جنگ نہروان سنہ 38ھ میں وقوع پذیر ہوئی۔ الرافعی کا یہ قول کہ "ثابت ہو چکا کہ اہل جمل اور صفین اور نہروان باغی [ظالم اور متجاوز] تھے"، بالکل درست ہے، اور علی (علیہ السلام) کی یہ حدیث اس کا ثبوت ہے کہ "مجھے ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف لڑنے کا حکم ہؤا ہے"، جسے نسائی نے خصائص میں نیز بزاز اور طبرانی نے روایت کیا ہے: اہل جمل وہ ہیں جنہوں نے [ام المؤمنین عائشہ، طلحہ اور زبیر کی سرکردگی میں] امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی بیعت توڑ دی اور اطاعت سے انکار کیا؛ اور قاسطین شامی ہیں جنہوں نے بیعت نہ کرکے حق سے تجاوز کیا [اور صفین کی جنگ بپا کر دی]، اور مارقین نہروان والے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ایک حدیث صحیح منقول ہے؛ کہ وہ دین سے ـ کمان سے نکلنے والے تیر کی طرح ـ دین سے خارج ہو جاتے ہیں؛ اور اہل شام کے بارے میں عمار کی حدیث ثابت ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا کہ "اس [عمار] کو متجاوز، باغی اور ستمگر گروہ قتل کرے گا"۔ (33)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

1۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، (مطبوعہ دار طوق النجاۃ 1422ھ)، ج2، ص105، کِتَاب الْزکاۃ، بَاب وُجُوبِ الزَّکَاۃ وَقَوْلِ اللَّہ تَعَالَی وَاَقِیمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ؛

2۔ صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنف، ج10، ص302، ح19185، بیروت، 1403ھ؛ خراسانی، سعید بن منصور، سنن سعید بن منصور، ج2، ص384، ح2932، الدار السلفیۃ - الہند، الطبعۃ:الاولی، 1982ع‍ 

3۔ سورہ توبہ، آیت 103۔

4۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج6، ص342. 

5۔ ابن تیمیہ حرانی، منہاج السنۃ النبویۃ، ج1، ص539-537، مؤسسۃ قرطبۃ ـ القاہرہ، الطبعۃ الاولی، 1406ھ   

6۔ ابن حزم، علی بن احمد، الفصل فی الملل و الاہواء و النحل، الفصل فی الملل، ج4، ص125، ناشر:مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ۔ 

7۔ ابن حزم، علی بن احمد، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، الفصل فی الملل، ج4، ص125، ناشر:مکتبۃ الخانجی، القاہرۃ۔ 

8۔ سورہ مائدہ، آیت 44۔   

9۔ سورہ مائدہ، آیت 45۔   

10۔ سورہ مائدہ، آیت 47۔   

11۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج3، ص1117، بیروت، الطبعۃ الأولی، 1412ھ 

12۔ بزار، احمد بن عمرو، البحر الزخار (مسند البزار)، ج3، ص26-27، ح774، بیروت ـ المدینۃ، الطبعۃ الأولی 1409ھ 

13۔ الہیثمی، علی بن ابی‌بکر، مجمع الزوائد، ج7، ص238، بیروت ـ القاہرہ 1407ھ   

14۔ خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج8، ص336، دار الکتب العلمیۃ ـ بیروت۔

15۔ مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ج5، ص224، بور سعید ـ مصر۔ 

16۔ ابویعلی موصلی، مسند ابی یعلی، ج3، ص194، ح1623، دمشق، الطبعۃ الأولی، 1404ھ

17۔ دولابی، محمد بن احمد، الکنی و الاسماء، ج1، ص360، ح641، ـ بیروت، الطبعۃ الاولی، 1421ھ

18۔ الشاشی، ہیثم بن کلیب، مسند الشاشی، ج1، ص342، ح322، المدینۃ المنورۃ، الطبعۃ الاولی، 1410ھ   

19۔ الطبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج10، ص91، ح10053، تحقیق:حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر: مکتبۃ الزہراء - الموصل، الطبعۃ الثانیۃ، 1404ھ‍   

20۔ البلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج2، ص138، - بیروت - لبنان، الطبعۃ الاولی، 1974ع‍

21۔ حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص150، ح4674، ـ بیروت، 1990ع‍  

22۔ ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج3، ص1117، تحقیق علی محمد البجاوی، دار الجیل - بیروت، الطبعۃ الأولی، 1412ھ؛ واضح رہے کہ یہ روایت ابن عبدالبر نے چار طریقوں سے نقل کی ہے: دو طریقوں الاستیعاب، ج3، صفحہ 953 پر، اور دو طریقوں سے صفحہ 1117 پر نقل کیا ہے۔

23۔ ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج3، ص1117، بحوالۂ: الدارقطنی، علی بن عمر البغدادی، موفق بن عبد اللہ، دار الغرب الإسلامی ـ بیروت، الطبعۃ الأولى، 1406ھ ـ 1986ع‍

24۔ ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب، ج3، ص1117۔

25۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج9، ص47، ح7054، بَاب قَوْلِ النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) سَتَرَوْنَ بَعْدِی اُمُورًا تُنْکِرُونَہا؛ - نیشابوری القشیری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج3، ص1477، ح1849، دار احیاء التراث العربی - بیروت۔ 

26۔ صحیح بخاری، ج9، ص47؛ ، صحیح مسلم، ج3، ص1478۔

27۔ الشیبانی، احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج28، ص404، بیروت 2001ع‍؛ ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج5، ص148، دار احیاء التراث العربی – بیروت۔   

28۔ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص203، بیروت، الطبعۃ الاولی، 1411ھ ـ 1990ع‍ 

29۔ حاکم نیشابوری، وہی ماخذ، ج1 ص582۔

30۔ الشیبانی، احمد بن حنبل، المسند احمد بن حنبل، ج24، ص452 حدیث 15681 و ص459، حدیث 15693، بیروت 2001ع‍   

31۔ طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، ج3، ص302، الموصل، الطبعۃ الثانیۃ، 1983ع‍   

32۔ الہیثمی، مجمع الزوائد، ج5، ص217، بیروت – القاہرہ  1407ھ   

33۔ ابن حجرالعسقلانی، تلخیص الحبیر فی احادیث الرافعی الکبیر، ج4، ص84 ـ القاہرہ 1995ع‍

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقالہ از: مؤسسہ تحقیقاتی ولی عصر (علیہ السلام)

ترتیب و تکمیل اور ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔

110