اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

5 جولائی 2023

10:29:52 PM
1377484

غدیر عید اللہ الاکبر؛

کوئی بھی علی (علیہ السلام) سے قابل قیاس نہیں ہے / علی(ع) یعنی انسانیت ۔۔۔ اطالوی پروفیسر

پروفیسر انتونینو پیلیتیری: میرے لئے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ایک بہادر شخصیت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بہت زیادہ قریبی، اور بہت زیادہ صاحب علم و حکمت ہیں، وہ رسول اللہ(ص) کی جانشینی کے لئے جنگ اور نزاع کے خواہاں نہیں تھے، اور ایسا برتاؤ روا رکھا کہ امت مسلمہ متحد رہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، تاریخ اسلام کا مطالعہ نیز دین اسلام، پیغمبر اکرم(ص)  اور عالم اسلام کی بعض شخصیات کی طرف مستشرقین کی توجہ اس دین مبین کی عمر جتنی پرانی ہے۔ اسلام کی شناخت سے مغربی دانشوروں کے اغراض و مقاصد کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں ہوئی ہیں، حقیقی شناخت سے لے کر یورپی کتب خانوں کی قلت پوری کرنے [کتابیں لوٹنے] اور تاریخ اسلام میں تحریف تک، ان کے محرکات میں شامل ہیں، اور اسی بنا پر وہ اسلامی ورثے اور عمدہ قلمی نسخوں سے رجوع کرتے رہے ہیں۔

آپ ان کے بارے میں جو بھی رائے ظاہر کریں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مغربی ماہرین اسلامیات محرکات اور علمی صلاحیت کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں تھے؛ اور امر مسلّم ہے کہ علمی اور تحقیقی معیاروں کی بنا پر ان کے محرکات اور مقاصد کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال ایسے محققین بھی کم نہ تھے جنہوں نے اسلامی ورثے کی شناخت کی راہ میں جو ایک طرف اچھی خاصی کاوشوں کے خالق بنے ہیں اور دوسری طرف سے نور حق کی کچھ کرنیں ان کے وجود کی گہرائیوں تک پہنچی ہیں اور تاریخ کے جھروکوں سے حقیقت کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور اس کے شیدائی بنے ہیں؛ جارج جُرداق (George Jordac) ان ہی مستشرقین میں سے ایک ہیں۔

اسلام ـ اور خاص طور پر امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں مغربی مفکرین کے آراء و نظریات سے مزید آگہی کے لئے، ہم نے اٹلی کی پالیرمو یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ و ادب کے سابق سربراہ پروفیسر انتونینو پیلیتیری (Antonino Pellitteri) کے ساتھ بات چیت کا اہتمام کیا۔

پروفیسر پیلیتیری پالیرمو (Palermo) یونیورسٹی کے انسانیات  گروپ میں اسلامی ممالک کی تاریخ کے مکمل پروفیسر اور ماہر اسلامیات ہیں۔ انھوں نے خاص طور پر اسلامی دنیا میں جدید اور عصری تاریخی اور سماجی حالات کو اپنے مطالعے اور تحقیق کا موضوع بنایا ہؤا ہے، جس میں شام-لبنان (شام-لبنان کے علاقے میں قوم پرستی) اور سسلی میں فاطمی حکومت (10ویں-11ویں صدی) پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

انھوں نے وسیع پیمانے پر عربی اور اسلامی شعبوں میں تحقیقات کی ہیں اور اسلامی ورثے اور تاریخ اسلام کی نمایاں شخصیات سے بہتر واقفیت کے لئے مختلف عرب ممالک کے دورے کئے ہیں۔

وہ یورپی اتحاد کے عرب زبانوں اور اسلام پسندوں کے شعبے  (UEAI) کے رکن اور اٹلی-لیبیا یونیورسٹی کے فکلٹی ممبر رہے ہیں۔ وہ جامعۃ المصطفی العالمیہ (قم) اور پالیرمو یونیورسٹی (اٹلی) کے علمی تعاون کے معاہدے کے مہتمم بھی رہے ہیں۔

ان کی تازہ ترین کاوشوں میں "عرب دنیا کی جدید اور عصری تاریخ کے جائزے پر مقدمہ" اور "سیرۃ الشام" شامل ہیں۔

امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کا نام لینا، میرے لئے ان کے کلام میں اشتیاق دیکھنے کے لئے کافی تھا۔ ملاقات کی تاریخ 29 مئی طے پائی۔ طے شدہ وعدے کے مطابق صوبہ سسلی کے دارالحکومت پالیرمو کے خوبصورتی نواحی علاقے "بیدا" میں ان کے گھر پہنچے۔ طے یہ تھا کہ یہ بات چیت مختصر ہو مگر ایک غیر مسلم دانشور کی زبان سے علی (علیہ السلام) کے نام اور یاد کی بنا پر بات چیت طویل ہو گئی۔

جو کچھ آپ یہاں پڑھ رہے ہیں، مغرب، اسلام اور امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) کے بارے میں اس اطالوی استاد کے خیالات و نظریات ہیں:

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ابنا: ہم امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں بات کرنا چاتے ہیں، آپ اور دوسرے مغربی مفکرین، اساتذہ اور اطالوی مستشرقین امام علی (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب: شکریہ ادا کرتا ہوں کہ یہ موقع مجھے فراہم کیا گیا کہ اہل بیت اور علی (علیہم السلام) کے بارے میں بات کروں۔ یہ اس عظیم تاریخی شخصیت کے بارے میں مغربی دنیا کے نقطہ نظر بیان کرنے اور اسلام، شیعہ، اہل بیت اور علی (علیہم السلام) کے بارے میں مغرب اور اٹلی کی فہم اور سوچ کے بارے میں بات کرنے کا اچھا موقع ہوگا۔

اٹلی میں اسلام کے کافی سارے ماہرین تھے، اور ہیں جنہوں نے شیعوں کے بارے میں مطالعہ کیا ہے؛ لیڈی پروفیسر "بیانکا ماریا سکارچیا اموریٹی" (Biancamaria Scarcia Amoretti) نیز پروفیسر الیساندرو بوسانی (Alessandro Bausani) نے شیعون کے بارے میں تحقیق کی ہے اور یہ دونوں کئی کتابوں کے مصنف ہیں؛ لیکن ان مطالعات میں علی (علیہ السلام) کی تصویر کئی تضادات کے ساتھ پیش کی گئی ہے؛ وہ یوں کہ علی (علیہ السلام) تاریخی اور اسلامی لحاظ سے بہت اہم شخصیت ہیں، خلیفہ مسلمین ہیں اور پھر شیعوں کے امام اول بھی ہیں۔ علی (علیہ السلام) سلسلہ امامت نقطۂ آغاز بھی ہیں؛ بالفاظ دیگر وہ اسلام کے ان دو پہلؤوں کا نقطۂ اتصال نہیں اور ظاہر ہے کہ یہ بہت اہم ہے، [خلیفہ بھی اور امام بھی]، لیکن اس عظیم شخصیت کی پہچان اور ان کے بارے میں مطالعات و تحقیقات میں کچھ تضادات ہیں۔

مثال کے طور پر ایک مشہور اطالوی مستشرق لیون گاینانی (Leone Caetani) ہے۔ ان کی کتاب "اسلام کے سالنامے" (Annali dell’Islam) تاریخ اسلام پر اس کی عظیم کاوش سمجھی جاتی ہے جو کئی مجلدات پر مشتمل ہے اور اس نے اپنی اس کتاب کی جلد کو صدر اول اور بطور خاص امیرالمؤمنین (علیہ السلا) سے مختص کیا ہے، جیسا کہ کئی دوسرے اطالوی اور یورپی مستشرقین نے بھی یہی رویہ اپنایا ہے۔ اس نے اپنی خاص توجہ "فتنہ" کے اوپر مرکوز کی ہے (اسلام کی دو مذاہب "شیعہ اور سنی" میں تقسیم")

عثمان کے انتقال کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) خلیفہ بنتے ہیں تو اسی وقت عالم اسلام میں پہلی تقسیم رو نما ہوجاتی ہے۔ یہ تقسیم بہت اہم ہے، لیکن تاریخ اور ثقافت کے شعبوں میں اس کو توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسی تحقیقات بہت قلیل ہیں جو اس خاص تاریخی مرحلے کی ثقافتی، سیاسی اور دینی و مذہبی حالات کی وضاحت کرتی ہوں۔ اس مدعا کی دلیل یہ ہے:

علی (علیہ السلام) کی شہادت کے بعد معاویہ اقتدار پر قبضہ کرتا جو اسلامی میں شاہنشاہی نظام کا بانی ہے؛ وہی حکومتی نظام جسے مسلم مؤرخین "مُلک" (ملوکیت یا شہنشاہیت) کہتے ہیں۔ یعنی خلافت کا خاتمہ ہوتا ہے اور "نظام ملوکیت" کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ بعدازاں خلافت موروثی حکومت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ علی (علیہ السلام) کی شہادت، اور علی(ع) اور معاویہ کا باہمی تقابل، محض دو خاندانوں کا تنازعہ نہیں ہے یا صرف کچھ غلط فہمیاں اس تقابل کا سبب نہیں ہیں بلکہ سبب ان مسائل سے بہت زیادہ اہم ہے اور وہ امت مسلمہ کے حوالے سے فریقین کی نگاہ کی نوعیت میں اختلاف ہے۔

دوسرا اہم مسئلہ، جس کو ان مباحث میں نظرانداز کیا جاتا ہے، وہ عربوں کی سابقہ تاریخ ہے۔ سیوطی اہل سنت کے علماء میں سے ہیں، وہ "تاریخ الخلفاء" لکھ دیتے ہیں۔ سیوطی مصر میں مملوکوں یا ممالیک کے دور سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انھوں نے خلافت علویہ کے بارے میں تحقیق کی ہے اور جب وہ معاویہ اور علی (علیہ السلام) کے باہمی تقابل کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ "ثُمَّ خَرَجَ عَلَیهِ المعاويةُ" یعنی کہتے ہیں کہ معاویہ تھا جس نے علی(ع) کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ سیوطی کے مطابق، صفین کے بعد علی(ع) کی طرف سے سمجھوتے کی تجویز سامنے آئی، جو سیوطی کے مطابق بہت اہم ہے۔ سیوطی نے یہ کہہ کر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ علی (علیہ السلام) ایک دانا اور حکیم شخصیت ہیں، جو امت مسلمہ کی تقسیم اور شاخوں میں بٹنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ یہ بہت اہم ہے، لیکن اس کے باوجود جو لوگ مغرب میں اسلام کے بارے میں مطالعہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں، وہ ان حقائق کو مد نظر نہیں رکھتے اور ان مصادر و مآخذ کا مطالعہ نہیں کرتے۔

پھر بھی سیوطی سے رجوع کرتے ہیں جو کہتے ہیں علی، حسن اور حسین (علیہم السلام) بھی خلفائے راشدین کے زمرے میں آتے ہیں۔ میں یہاں یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ سیوطی ایک سنی عالم ہیں، لیکن جب وہ خلفائے راشدین کے بارے میں لکھتے ہیں تو ابوبکر سے شروع کرتے ہیں اور خامام حسین (علیہ السلام) کو خلافت راشدہ کا نققطۂ اختتام قرار دیتے ہیں۔ سیوطی معاویہ کے دور کے بارے میں لکھتے ہیں تو معاویہ کے ساتھ امام حسن (علیہ السلام) کے تقابل کے بارے میں لکھنے کے بعد آخر میں، امام حسین (علیہ السلام) تک پہنچتے ہیں۔ سیوطی کی تصدیق و تاکید کے مطابق، خلفائے راشدین کے بعد بنی امیہ نے "نظامِ مُلک" قائم کیا، اور یقینی امر ہے کہ نظام ملک حکمرانی اور مملکت داری کے بارے میں اسلام کے نظریئے سے بالکل مختلف ہے۔

مغربی مطالعات و تحقیقات میں اس علی(ع) کی جنگجوئی کے پہلو کی تصویر کشی سے خاص دلچسپی ظاہر کی جاتی ہے؛ وہ آپ کی شمشیر "ذوالفقار" کے بارے میں لکھیں گے؛ اور اسی مغربی روش نے بعض عرب اور سنی مؤرخین کو بھی متاثر کیا ہؤا ہے۔ مثال کے طور پر دمشق یا حمص میں ایک زیارتگاہ ہے جس کا نام "مقام علی" یا "مقام خالد بن ولید" ہے جہاں زائرین کی بھیڑ رہتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان مقامات کے زائرین کیوں زیادہ ہیں؟ اس لئے کہ ان شخصیات کو جنگجؤوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، اور ان کی جنگجوئی کے دور کی یادوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے؛ کوئی بھی ان افراد کی شخصیت اور عقلیت کو مد نظر نہیں رکھتا؛ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں، کیونکہ جنگجو اور بہادر تھے! لیکن میں سمجھتا ہوں کہ علی اور ان کے فرزند حسن اور حسین کے بارے میں ان کے زمانۂ حیات کے حالات کی رو سے مطالعہ کرنا چاہئے اور ان کی شخصیت کا ان حالات کے تناظر میں ادراک کرنا چاہئے، اور امت مسلمہ کے مستقبل کے بارے میں ان کے ثقافتی و تہذیبی اور سیاسی نظریات کی تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔

ابنا: امام علی (علیہ السلام) کو پہنچانے اور اور آپ کا تعارف کرانے میں، نہج البلاغہ کو کس نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟

جواب: نہج البلاغہ بہت اہم کتاب ہے، کیونکہ اس میں ایک عظیم "عقلی کوشش" کی گئی ہے اور اسی دائرے میں اس متن اور اس کتاب کو دیکھنا چاہئے۔ علی (علیہ السلام) اس کتاب میں کئی جگھوں پر"اسلامی مدینہ فاضلہ" (جسے اردو میں مثالی ریاست اور مغرب میں Utopia کہا گیا ہے) کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ مثالی اور ارمانی معاشرہ وہ نہیں ہے جو معاویہ کے ساتھ [یا ہوتے ہوئے، یا معاویہ کی زعامت میں] فتح مند ہو سکے، بلکہ یہ بہت مختلف ہے۔ جس معاشرے کی تصویر علی (علیہ السلام) پیش کر رہے ہیں، وہ عقلیت اور حکمت سے مالامال ہے؛ اور یہ وہ نقطہ ہے جہاں یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ "اتنی ساری عقلیت اور حکومت محض جنگجوئی کے ماہر علی سے متصادم ہے"، اور بدقسمتی سے آنجناب کی عقلیت اور حکمت و دانائی کو متذکرہ تحقیقات میں، مدنظر نہیں رکھا جاتا۔  

مغرب میں، اور اٹلی میں، علی (علیہ السلام) کو بہت کم سمجھا اور پہچانا گیا ہے؛ لیکن امام حسین (علیہ السلام) زیادہ جانے پہچانے ہیں؟ قطعی طور پر یہ دو مختلف شخصیات اور مختلف کردار ہیں، لیکن ان کے زمانوں کے حالات اور تقاضے بالکل مختلف ہیں۔ امام حسین (علیہ السلام) کے حوالے سے "تصویر شہادت کی رفعتوں" کو توجہ دی جاتی ہے جو عیسائیوں کے ہاں بہت زیادہ مقبول ہے۔ عیسائی تصورات میں مسئلۂ شہادت بہت زیادہ مقبول ہے؛ اور سلطنت روم نے بہت سارے ابتدائی عیسائیوں کو شہید کر دیا ہے۔ امام حسین (علیہ السلام) کے مسئلے میں بھی "ظالم اور مظلوم" کا تقابل پایا جاتا ہے، اور یہ موضوع عیسائی مغرب کے لئے بہت دلچسپ رہا ہے۔

مغرب، یورپ اور اٹلی کے پاس علی (علیہ السلام) کے بارے ميں معلومات نہیں ہیں، اور آپ کے بارے مبں بحث نہیں کی جاتی اور بات چیت کا اہتمام نہیں ہوتا اور اگر پھر آپ کے بارے میں بات بھی ہوتی ہے تو وہ آپ کے تاریخی کردار کے بارے میں ہوتی ہے اور اس کا تعلق معاویہ اور خوارج کے ساتھ علی (علیہ السلام) کی جنگوں سے ہوتا ہے۔

ایک مثال اور بھی عرض کرتا ہوں؛ اٹلی میں ـ مثال کے طور پر ـ مشہوری مصری مصنف "طٰہٰ حسین" کی بہت ساری کتابوں کا ترجمہ ہؤا ہے۔ طٰہٰ حسین کی ایک بہت عمدہ کتاب "علی و بنوہ" [علی اور ان کے بیٹے] ہے؛ اس کتاب کا ترجمہ ابھی نہیں ہؤا ہے، کیوں؟ کیوں کسی بھی یورپی ملک نے اس کتاب کا ترجمہ نہیں کیا ہے۔ اس کا ترجمہ ضرور ہونا چاہئے۔

ابنا: جناب پروفیسر! یورپی مفکرین علی (علیہ السلام) کو نہج البلاغہ کے آئینے میں پہچاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ یہ کتاب علی (علیہ السلام) کی صحیح تصویر پیش کرتی ہے۔ کیا مغربی ماہرین اسلامیات کے پاس یہ کتاب نہیں ہے؟ یا پھر وہ اس کتاب سے استفادہ نہیں کرتے؟

جواب: میرا خیال ہے کہ اٹلی، یورپ اور مغرب میں اسلام بہت کم جانا پہچانا جاتا ہے، اسلام کے بارے میں یہاں کے لوگوں کے پاس بہت کم معلومات ہیں اور وہ کم معلومات بھی غیر مناسب ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہاں مشرقیات اور اسلامیات کے کالجز اور شعبے موجود ہیں مگر اسلام سے واقفیت نہیں پائی جاتی۔ گلی اور بازار کے لوگ بھی تو بہت کم جانتے ہیں۔ معتقد عیسائی بھی بہت کم معلومات رکھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے انبیاء اور کتب کے بارے میں بھی بہت کم جانتے ہیں۔ "ابراہیم" (علیہ السلام) ـ جو تینوں توحیدی ادیان کا نقطۂ اشتراک ہیں، خود معتقد عیسائیوں کے درمیان چنداں جانے پہچانے نہیں ہیں، اور ایسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں بہت کم بات چیت ہوتی ہے، حالانکہ اسلام میں انہیں بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اور انہیں خلیل اللہ [اور خلیل الرحمٰن] کہا جاتا ہے۔ ان کا کردار توحیدی ادیان کے درمیان اتحاد و اتفاق کی علامت کے طور پر جانا پہچانا گیا ہے، اور ایمان اور یکتا پرستی کی علامہ ہے۔ لیکن عیسائیت میں انبیاء بہت مشہور و معروف نہیں ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ بات چیت نہیں ہؤا کرتی۔

میں یہاں ایک مثال پیش کرتا ہوں: مغرب اور عیسائیت میں نبی یوسف (علیہ السلام) کی داستان دادی اماں کی کہانی ہے، جس کو عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) سے رابطے تک، گرا دیا گیا ہے، پیار محبت اور گناہ کی کہانی۔ حالانکہ اسلام میں نبی یوسف (علیہ السلام) کی تصویراہم اور قابل قدر ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار کی محض انسانی جہتوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا بلکہ ان کی شخصیت اور کرادر کے اس پہلو کا سہارا لیا جاتا ہے کہ وہ ظلم کا مقابلہ کرتے ہیں، یوسف(ع) ایک مظلوم ہیں جو ظلم کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں؛ لیکن بدقسمتی سے عیسائیت میں ان جہتوں کا کم ہی مطالعہ کیا جاتا ہے اور انہیں کم ہی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ چنانچہ عیسائی خود عیسائیت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے اور نبوت، انبیاء کے کردار وغیرہ کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ جب وہ خود اپنے ہی دین کے بارے میں صحیح طور پر کچھ نہیں جانتے، تو آپ تصور کریں کہ وہ اسلام کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ چنانچہ علی (علیہ السلام) مغرب کے لوگ بہت کم جانتے ہیں۔

مغرب علی (علیہ السلام) کو نہیں جانتا، یہاں لوگ صرف یہی جانتے ہیں کہ وہ اچھے جنگجو تھے، اور تلوار کے ساتھ ان کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اور پھر جن لوگوں نے نہج البلاغہ کو پڑھا ہے ان کی تعداد بہت کم ہے۔ عم طور پر نہج البلاغہ کو توجہ نہیں دی جاتی؛ کیوں توجہ نہیں دی جاتی؟ اس لئے کہ مغربی لوگ دوسروں میں دلـچسپی نہیں رکھتے خواہ وہ مسلمان ہوں، شیعہ ہوں یا سنی ہوں؛ وہ انہیں اہمیت نہیں دیتے۔ بہت سے لوگ ماہر اور متخصص (Specialist) افراد بھی شدید غلطیوں سے دوچار ہیں؛ مثال کے طور پر کئی اطالوی اور مغربی اساتذہ لکھتے ہیں: "سنی اسلام کی تاریخ"۔ میں پوچھتا ہوں "سنی اسلام کی تاریخ کا کیا مطلب ہے! اسلام ایک ہے اور سنی اسلام اور شیعہ اسلام کا وجود ہی نہیں ہے، اسلام ایک تناور درخت کے مترادف ہے جس کی جڑی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور اس کی متعدد شاخیں اور ٹہنیاں ہیں"۔

اس طرح کے تقابلات کا سبب یہ ہے کہ یہ ہرگز طے نہيں ہے کہ ایک اطالوی اور یورپی کتاب خواں سمجھ بوجھ حاصل کرے اور حقائق کو سمجھے؛ یہاں [اساتذہ، مصنفین اور مؤلفین] بالکل نہیں چاہتے کہ لوگ اسلام کو پہچانیں اور اس کے اہم کرداروں سے روشناس ہو جائیں۔ اسی وجہ سے علی (علیہ السلام) کو کم پہچانا جاتا ہے؛ لیکن امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں زیادہ گفتگو ہوتی ہے، اگرچہ آنجناب کے حوالے سے بھی زیادہ تر تعزیوں اور ثانوی مسائل کو ابھارا جاتا ہے۔ چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) کا اپنا کردار بھی، علی (علیہ السلام) کے مقام، شخصیت اور انسانیت کی طرح، نظر میں نہیں رکھا جاتا؛ بلکہ اس قضیئے کے سطحی اور نمائشی پہلو کو توجہ دی جاتی ہے۔

ابنا: احمد بن حنبل نے امام علی (علیہ السلام) کے بارے میں ایک خوبصورت جملہ کہا ہے: "لا يُقاسُ بِهِ أَحَدٌ" کسی کو بھی [علی(ع)] سے قیاس نہیں کیا جا سکتا.  

جواب: کسی کو بھی علی (علیہ السلام) سے قیاس نہیں کیا جاسکتا؛ علی کے افکار کا تعلق امت اسلامی کے مقدرات اور مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں؛ وہ مسلمانوں کو راستہ دکھاتے ہیں۔

قرآن اور پیغمبر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا اپنا مقام و مرتبہ ہے اور نہج البلاغہ کا بھی اپنا مقام و مرتبہ ہے۔ نہج البلاغہ میں ایک خاص جامعیت ہے؛ گویا علی (علیہ السلام) قرآن اور احادیث نبویہ سے فائدہ اٹھانے کو جامعیت دینا چاہتے تھے اور بہترین روش سے ان کے نفاذ کا شیوہ بیان کر رہے ہیں۔

ابنا: بعض عیسائی دانشوروں اور جامعاتی شخصیات (Academics) نے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔ مثلاً جارج جُرداق ـ جو لبنانی دارالحکومت بیروت میں رہائش پذیر تھے ـ نے کتاب "الإمام علي صوت العدالة الإنسانية" لکھی۔ علی (علیہ السلام) کی کون سی خصوصیات عیسائی مصنفین کو آپ کے بارے میں کتابیں لکھنے پر آمادہ کرتی ہیں؟

جواب: یہ ایک حقیقت ہے [کہ علی (علیہ السلام) انسانی عدالت کی آواز ہیں] لیکن آپ نے جس مؤرخ کا تذکرہ کیا ان کا تعلق لبنان سے ہے۔ وہ عیسائی تھے لیکن لبنانی بھی تھے۔ لبنان میں شیعیان اہل بیت(ع) کی موجدگی کی وجہ سے علی (علیہ السلام) کے بارے میں توجہ پائی جاتی ہے چنانچہ یہ ملک یورپ سے مختلف ہے۔ لبنانی عیسائیوں کے درمیان علی (علیہ السلام) کی طرف توجہ یورپ اور اٹلی سے کہیں زیادہ ہے؛ لبنانی عیسائی علی (علیہ السلام) کے علاوہ اہل بیت (علیہ السلام) کو توجہ دیتے ہیں۔

ابنا: آپ کے لئے امام علی (علیہ السلام) کی شخصیت و کردار کا کون سے پہلو زیادہ کشش رکھتا ہے؟

جواب: اطالوی پروفیسر بیانکا ماریا سکارچیا اموریٹی کہتی ہیں: "علی واحد شخصیت ہیں جو خلافت و امامت کو یکجا با معنی بنا سکتے ہیں۔ امامت کے بارے میں بہت مطالعہ کیا جاتا ہے اور بحث کی جاتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ امامت کے بارے میں علی کا اپنا تفکر کیا تھا؟ اہل سنت بھی اور شیعہ بھی امامت کے بارے میں بہت بحث کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے خیالات و نظریات مختلف ہوتے ہیں، لیکن میرے لئے یہ بات جاننا بہت دلچسپ اور پرکشش ہے کہ حضرت علی کا اپنا نظریہ کیا ہے؟ وہ جو امام ہیں، کیونکر خلیفہ بھی بنتے ہیں؟ کاش ممکن ہوتا کہ میں آنجناب کی اپنی زبان سے سنتے کہ یہ دو مناصب کیونکر یکجا ہو جاتے ہیں، اور یہ دونوں کیونکر جمع ہونے کے قابل ہیں، کیا اس زمانے میں علی خود ان دو مناصب کے درمیان تمایز اور تفاوت کے قائل ہوجاتے تھے، اور ان دو میں فرق دیکھتے تھے؟ یا وہ دونوں کو ایک ہی کردار سمجھتے تھے؟

مثال کے طور پر مصر میں مقیم لبنانی نژاد اصلاح پسند عالم دین [اور تفسیر القرآن الحکیم المعروف بہ "تفسير المنار" کے مؤلف] محمد رشید رضا نے ایک عمدہ کتاب بعنوان "الامامۃ العظمیٰ" [الخلافۃ أو الإمامۃ العظمی: مباحث شرعیۃ سیاسیۃ اجتماعیۃ إصلاحیۃ] لکھی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب کا حصہ علی (علیہ السلام) سے مختص کیا ہے۔ یہ سنی [سلفی] مصنف علی (علیہ السلام) کے ان دو کرداروں کو "یکجا" سمجھتے ہیں"۔

مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ نبوت ختم ہو جاتی ہے اور ولایت شروع ہو جاتی ہے، یعنی یہاں "قبل" اور "بعد" پایا جاتا ہے لیکن رشید رضا کی رائے یہ ہے کہ علی (علیہ السلام) کا تعلق "قبل" سے بھی ہے اور "بعد" سے بھی؛ اور علی ابتداء بھی ہے انتہا بھی۔

ابنا: عدالت (عدل) امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کی شخصیت کے پہلؤوں میں شامل ہے، جیسا کہ ایک مفکر کے بقول "علی کو شدت عدالت کی وجہ سے محراب میں قتل کیا گیا"، ہمیں اپنی دنیا میں امن و آشتی کے قیام کے لئے امیرالمؤمنین کی شخصیت کی اس جہت کی ضرورت ہے؟

جواب: عدالت کا مسئلہ، ایک بنیادی اور اہم مسئلہ ہے اور ہمیں عدالت کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ تمام مسلمانوں کو بھی، تمام قانون دانوں کو بھی، تمام دینی علماء کو بھی، اس اہم مسئلے کی ضرورت ہے۔ علی (علیہ السلام) کی شخصیت عدالت کے لحاظ سے بہت اہم ہے؛ صفین کے بعد خوارج امام علی کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں "لا حُکمَ إلا اللہ" تو علی کہتے ہیں: "یہ کیسا نظریہ ہے؟"؛ امرم مسلم یہ ہے کہ عدالت کے سلسلے میں امام علی کا نظریہ خوارج کے خیالات سے مختلف تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدالت کے سلسلے میں امام علی کا نظریہ انسان اور انسانیت پر مبنی تھا اور یہ صرف ایک مثال ہے اس تفکر کی، جس کی آج ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں عدالت کو اپنے معاشروں میں لوٹانا پڑے گا؛ کیونکہ آج یہ لفظ دنیا بھر میں، معنی سے خال ہو گیا ہے۔

ابنا: آپ ائمۂ اطہار نیز امام مہدی (علیہم السلام) کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتے ہیں، آپ کے خیال میں آج کی نا انصافی سے مالامال دنیا کو اس قسم کی شخصیت کی کتنی حاجت ہے؟

جواب: میرا خیال ہے آج ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ نظم و انضباط اور عدل و انصاف ایک بار پھر نافذ و قائم ہوجائے۔ بہرکیف، مؤمنین کی دنیا کے ایک بڑے حصے کا اعتقاد و یقین ہے کہ انہیں ایک "مہدی" کی ضرورت ہے؛ ایسا امام جو نظم و عدل کو ایک بار پھر قائم کرے۔ اس جہت پر کافی بحث ہوتی ہے، کیونکہ یہ ایک عقیدہ ہے جو قدیم الایام سے پایا جاتا ہے اور انسانی تاریخ ہمیشہ ایک نجات دہندہ کی منتظر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ "نجات دہندہ" ایک شخص ہے یا ایک تفکر؟ جب ہم کہتے ہیں کہ امام مہدی (علیہ السلام) عدالت اور صلح و آشتی لے کر آئیں گے اور ناانصافی اور فساد و بدعنوانی کو توڑ کر رکھیں گے، تو ہمارا مقصد ان کی ذات ہے یا ان کا تفکر؟

چند سال قبل ـ جب سید محمد حسین فضل اللہ بقید حیات تھے ـ لبنان میں ہماری ان سے ملاقات ہوئی، جو بہت اہم اور فکری لحاظ سے بہت متحرک (dynamic) شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ مختلف موضوعات کے ساتھ ساتھ، امام مہدی (علیہ السلام) اور دنیا میں عدل و انصاف کی دوبارہ بحالی کے بارے میں بات چیت ہوئی اور انھوں نے کہا: "جو عدالت [امام مہدی (علیہ السلام) کے ساتھ] آئے گی وہ اشخاص سے وابستہ نہیں ہوگی بلکہ یہ عدالت ایک وسیع تر تصور ہے: ایک فکر جو تمام انسانوں کے یکجا اور متحد کرے گی"۔

ابنا: اگر آپ کسی سے امام علی (علیہ السلام) کا تعارف کرانا چاہیں تو کن الفاظ میں ان کا تعارف کرائیں گے؟

جواب: میرے لئے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ایک بہادر شخصیت، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بہت زیادہ قریبی، اور بہت زیادہ صاحب علم و حکمت ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانشینی کے لئے جنگ اور نزاع کے خواہاں نہیں تھے، انھوں ابوبکر، عمر اور عثمان کے زمانوں میں ایسا رویہ روا رکھا کہ امت مسلمہ متحد رہے، کیونکہ وہ امت کو پارہ پارہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک دانا، قوی اور طاقتور، کرشماتی اور انتہائی صاحب حکمت تھے، میں ان کو ان صفات سے جانتا ہوں۔

ابنا: جناب پروفیسر، آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ نے ہمیں اس گفتگو کا موقع فراہم کیا۔

پروفیسر یم از فرصتی که در اختیار ما قرار دادید.

پروفیسر انتونیو پیلیتیری: میں بھی شکرگزار ہوں کہ آپ نے یہ موقع میرے لئے فراہم کیا کہ ہم باہم علی (علیہ السلام) کے بارے میں، بات چیت کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مکالمہ پالیرمو یونیورسٹی کے مہمان [ایرانی] پروفیسر حجت الاسلام ڈاکٹر علی اکبر بدیعی کی کوشش سے انجام پایا۔

فارسی ترجمہ: ڈاکٹر داؤد عباسی

اردو ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110